(گوشۂ تربیت) 1947ء سے فارم 47 تک - عبدالروف

10 /

1947ء سے فارم 47 تک

عبدالرؤف، معاون شعبہ تربیت

حضرت موسی ؑ کی آمد سے  پہلے بنی اسرائیل پر جو مظالم ڈھائے جا رہے تھے، ان میں حضرت موسی ؑ کی آمد کے بعد بھی جب کوئی کمی واقع نہ ہوئی تو بنی اسرائیل نے اپنا رونا جس انداز میں رویا ،اس کو سورۃ الاعراف کی آیت 129 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
{قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَـبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْ م   بَعْدِ مَا جِئْتَنَاط}(ترجمہ):’’ وہ کہنے لگے( اے موسیؑ) ہمیں تو ایذا پہنچی آپ کے آنے سے قبل بھی اور آپ کے آنے کے بعد بھی۔‘‘
اس آیت کے پہلے حصے کی روشنی میں اگر پاکستانی قوم کے حالات کی طرف نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جو ملک خدا کے نام پر حاصل کیا گیا اور قیام پاکستان سے قبل مسلمانانِ برعظیم نے خیبر تا ر اس کماری ایک ہی نعرہ لگایا کہ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ ‘‘۔نہ صرف نعرہ لگایا بلکہ اللہ کےآگے گڑگڑا کر دعائیں بھی مانگیں کہ اے اللہ ! اگر تو ہمیں ایک آزاد ملک عطا فرما دے تو وہاں تیرے دین کا بول بالا کریں گے اور تیرے نبیﷺ کا عطا کردہ نظام زندگی نافذ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں قبول فرما لیں ۔ ہم نے ایک خطہ مانگا تھا ، اللہ تعالیٰ نے دوخطے عطا کردیے یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہندوستان کی بہت بڑی ریاست حیدرآباد دکن نے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا ،لیکن ہندوستان نے اس پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں جب ہم نے اللہ تعالیٰ سے کیے گئے تمام وعدے بھلا دیے تو سزا کے طور پر ہم پر مشکلات کا آغاز ہو گیا۔ 25 سال بعد 1971ء میں مشرقی پاکستان ہم سے چھین لیاگیا، ہمارے کم و بیش 90 ہزار فوجی اس ہندو کی قید میں چلے گئے جس پر اقلیت میں ہونے کے باوجود ہم نے ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی۔ دنیاوی ترقی میں بھی ہم آگے بڑھنے    کی بجائے ہر طلوع ہونے والے سورج کے ساتھ ساتھ تنزل کا شکار ہوتے چلے گئے۔ ایک لمبے عرصے تک فوجی طالع آزماؤں نے ہم پر حکمرانی کی جبکہ باقی وقت سیاسی کھلاڑیوں نے اس ملک کو اپنا اکھاڑا بنائے رکھا اور ہر آنے والے کھلاڑی نے عوام کا خون اس انداز سے چوسا کہ وہ نہ مر سکیں اور نہ ہی جی سکیں، بلکہ انہی نام نہاد سیاستدانوں کی مختلف انداز سے چاکری کر تے رہیں۔ عوام کی اکثریت ان کے خوش نما نعروں کی وجہ سے ان کے جھانسے میں آتی رہی، اور ہر الیکشن میں اس امید پر لمبی قطاروں میں لگ کر انہیں اپنے قیمتی ووٹ سے نوازتی رہی کہ شاید اس بار ہمارے حالات میں تبدیلی ا ٓجائے۔ ہر الیکشن کے بعد ہارنے والی جماعت یہ شور مچاتی رہی کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ بعض دانشور تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے لیے دھاندلی ہی میں فائدہ ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ہی الیکشن ایسا ہے جو ہر قسم کی دھاندلی سے پاک تھا یعنی 1970ء کا الیکشن، لیکن اس کے نتیجے میں ملک ہی دو لخت ہو گیا، لہٰذا آئندہ اگر ملک کو مزید ٹوٹنے سے بچانا ہے تو دھاندلی زدہ انتخاب پر ہی اکتفا کرنا ہوگا۔ اسی لیے 1977ء سے 2024ء تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ان سب میں دھاندلی کی جاتی رہی۔ اس دفعہ بھی الیکشن میں دھاندلی کے ثبوت اس انداز سے سامنے آئےکہ فارم نمبر 45 جس پر پولنگ اسٹیشن کا علیحدہ علیحدہ نتیجہ لے کر جو حاصل جمع بنتا ہے اس کو فارم نمبر 47 پر منتقل کر کے حتمی نتیجہ نکالا جاتا ہے۔ لیکن اکثر مقامات پر جو نتیجہ آیا وہ فارم نمبر 45 کے نتیجے کے برعکس تھا۔ اس کی شکایت کسی ایک پارٹی کی طرف سے نہیں کی گئی بلکہ تمام جماعتوں کی طرف سے کی گئی جن میں وہ بھی شامل ہیں جن کے حصے میں حکومت آئی ہے اور وہ بھی جو حزب اختلاف میں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کے تمام نمائندوں نے حلف بھی اٹھا لیا اور اپنی تنخواہیں ،مراعات اور سہولیات بھی حاصل کرنی شروع کر دی ہیں، البتہ کچھ جماعتوں نے تحریک چلانے کا عندیہ بھی دیا ہے اور اپنی طرف سے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ   ناانصافی ہوئی ہے، اس لیے ہم اب تحریک والا راستہ اختیار کریں گے۔ لیکن ان کی سابقہ تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا بعید از قیاس نہیں ہوگا کہ اگر انہیں اپنا حصّہ رسدی مل گیا تو دوبارہ اسی تنخواہ پر کام کریں گے جس پر پہلے کر رہے تھے۔ کیونکہ جمہوریت کے اندر یہ اس حد تک گھس چکے ہیں کہ اب اس سے باہرنکلنا ان کے لیے  ناممکن ہے۔ اس لیے جن کو کل ملک دشمن اور یہودی ایجنٹ کہا جا رہا تھا آج ان سے گلے ملنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
  سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر چاہے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہر صورت میں اس نظام سے فائدہ اٹھاتے اور سہولت حاصل کرتے رہتے ہیں اور ان کے کاروبار بھی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ تو 25 کروڑ عوام کا ہے جن کے مسائل اور مشکلات میں ہر الیکشن کے بعد اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انہیں اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں جو مشکلات پیش ا ٓرہی ہیں ایلیٹ کلاس کو اس کا کوئی شعور نہیں، پھر بنیادی ضروریات میں بھی سب سے اہم مسئلہ بجلی اور گیس کے بلوں کا ہے جن میں اضافہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس لیے اوپر سورۃ الاعراف کی آیت میں بنی اسرائیل کی جس شکایت کا ذکر کیا ہے آج مسلمانان ِ  پاکستان بھی وہیں کھڑے نظر آتے ہیں ۔ جیسےانہوں نے کہا تھا کہ اے موسیٰ  ؑآپ کے آنے سے پہلے بھی ہم تکلیف میں مبتلا رہے اور بعد میں بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ بالکل اسی طرح پاکستان بننے سے پہلے ہو یا بعد ، انتخابات کوئی پارٹی جیتے یا ہارے ، انتخابات میں دھاندلی ہو یا نہ ہو ،فارم 45  کے مطابق ہوں یا فارم 47 کے مطابق ، عوام کی تکلیف میں ذرّہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافے پر اضافہ ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔
بعض دانشور تو یہ بھی کہتے ہیں اور بالکل درست کہتے ہیں کہ ہمارے عوام میں بہت زیادہ قوت برداشت ہے، کیونکہ اگر اس طرح کا سلوک جو پاکستانی عوام کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے اگر کسی یورپی یا امریکی ملک کے باشندوں کے ساتھ کیا جائے تو وہ اپنے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دیں۔لہٰذا مقتدر طبقات سے گزارش ہے کہ عوام کا مزید امتحان نہ لیا جائے ، انہیں ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں اور روز مرہ کی بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں کمی لائی جائے،ورنہ یہ لاوا پھٹ پڑا اور عوام بغیر کسی مناسب تربیت اور پُر خلوص قیادت کے باہر نکل آئی تو کہیں انقلاب ِ فرانس جیسے خونی انقلاب کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔جس کے نتیجے میں ہمارا ازکارِ رفتہ بوگس نظام زمین بوس ہو جائے۔ اس لیے جہاں حکومتی بزر جمہروں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے وہیں عوام کے لیے بھی مذکورہ بالا آیات کے دوسرے حصے میں بہت اہم رہنمائی ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ:
{قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ(129)}(اعراف)(ترجمہ):’’( موسی ؑنے) فرمایا ( گھبراؤ نہیں) ہو سکتا ہے عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تمہیں خلافت عطا کر دے زمین میں پھر دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘
  آیت کے اس حصے کی تشریح بانی ٔتنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے بیان القرآن میں ان الفاظ میں کی ہے:’’ یہ آیت مسلمانانِ  پاکستان کے لیے بھی خاص طور پر لمحہ فکریہ ہے۔ بر عظیم پاک و ہند کے مسلمان بھی غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ متحدہ ہندوستان اگر ایک وحدت کی حیثیت سے آزاد ہوا تو  کثرت ِآبادی کی وجہ سے ہندو ہمیشہ ہم پر غالب رہیں گے۔ کیونکہ جدید دنیا کا جمہوری اصول" One Man One Vote "
ہے۔ اس طرح ہندو ہمیں دبا لیں گے، ہمارا استحصال کریں گے، ہمارے دین و مذہب، تہذیب و تمدن، سیاست و معیشت اور زبان و معاشرت  ہر چیز کو برباد کر دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایک الگ آزاد وطن حاصل کرنے کے لیے تحریک چلائی۔ اس تحریک کا نعرہ یہی تھا کہ مسلمان قوم کو اپنے دین و مذہب، ثقافت اور معاشرت وغیرہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔ اس تحریک میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی دی اور انہیں ایک آزاد و خود مختار ملک کا مالک بنا دیا۔ اب اس حوالے سے اس آیت کا دوبارہ مطالعہ کیجئے کہ وہ تمہیں زمین میں طاقت اور اقتدار عطا کرے گا اور پھر دیکھے گا کہ تم لوگ کیسا طرز عمل اختیار کرتے ہو! اس ملک میں اللہ کی حکومت قائم کر کے دین کو غالب کرتے ہو یااپنی مرضی کی حکومت قائم کر کے اپنی خواہشات کے مطابق نظام چلاتے ہو۔‘‘
بانی ٔتنظیم ڈاکٹر اسر ار ا حمد ؒجو اس صدی کی چند عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک عبقری اور صاحب ِبصیرت انسان تھے۔ انہوں نے اس آیت کی روشنی میں اور قرآن کے دیگر محکمات کو سامنے رکھ کر یہی نتیجہ نکالا ہے کہ آج ہماری پستی اور ذلت کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم نے بحیثیت مسلمان اور اُ متی ٔ رسول ﷺ اپنا اصل مقصد اقامت و غلبہ دین کی جدوجہد کو بھلا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے تنزل کی طرف جا رہے ہیں اور ہر آنے والا دن ہماری پستی اور ذلت میں اضافہ کر رہا ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس پستی سے نکلنا چاہتے ہیں تو اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا۔ قرآن کے ساتھ زندہ تعلق قائم کر کے اس کے ذریعے حقیقی ایمان حاصل کرنا ہوگا اور ظالمانہ طاغوتی نظام کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ کیونکہ اللہ کا ہم سے وعدہ ہے کہ: 
{وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)} (آلِ عمران) (ترجمہ):’’تم ہی سر بلند ہو گے اگر حقیقی مومن بن جاؤ تو۔‘‘
ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے وعدے سے بڑھ کر اور کس کا وعدہ سچا ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہماری بقا و تحفظ اس میں ہے کہ قرآن کے ساتھ جڑ کر اس کے حقوق کی ادائیگی کریں۔ اس کے بعد کسی ایسی اجتماعیت کا حصّہ بنیں جس کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہو اور اسی ایجنڈا کو لے کر وہ جماعت آگے بڑھے۔ باقی تمام مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا علاج اسی میں مضمر ہے۔ لہٰذا اس طریقہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہونے کا ، نبی اکرم ﷺکے اُمتی ہونے کا اور سچے پاکستانی ہونے کا حق ادا کر سکتے ہیں اگر ہم نے اپنی روش بدل لی تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد بھی لازماًآئے گی، لیکن اگر پرانی ڈگر پر ہی چلتے رہے تو ہمارے حالات میں تبدیلی نہیں ا ٓسکے گی۔ اس کی کوشش اور محنت ہم نے خود ہی کرنی ہے کیونکہ سورۃ الرعد کی آیت نمبر 11 میں اللہ تعالیٰ نے یہ نکتہ کھول کر بیان کر دیا ہے کہ:
{اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ ط} ( ترجمہ):’’ یقینا ًاللہ کسی قوم کے حالات نہیں بدلتا جب تک وہ خود نہیں بدلتے اس( کیفیت) کو جو ان کے دلوں میں ہے۔‘‘
 اس آیت کی خوبصورت ترجمانی مولانا ظفر علی خان نے ان الفاظ میں کی ہے کہ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا