اندروں چنگیز سے تاریک تر
عامرہ احسان
گزشتہ صدی کے وسط میں برطانیہ و دیگر مغربی طاقتوں نے مل جل کر دنیا بھر میں ظلم کا جو بازار گرم کیا، اب اس کے نتائج اور حقائق بھرپور طریقے سے دنیا کے سامنے یوں آئے ہیں کہ نظر چرانا ممکن نہیں۔ فلسطینی حقائق پر عالمگیر طوفان اٹھا کھڑا کرنے کا سہرا نئی نسل’’جین زی‘‘ (Gen-Z) کے سر ہے، جس کے نوجوان اَڑ گئے۔ لڑنے مرنے پر کمربستہ، دنیا بھر میں یک جان ہو کر! بڈھے، ٹرمپ، بائیڈن، پوٹن، برطانوی سیاست دان سبھی ذلیل و رسوا ہو گئے، تا آنکہ جاپان، جنوبی کوریا، سمیت بلا استثناء سبھی گِھر کر رہ گئے۔ ہاں مسلم دنیا کی استثناء (دو صدیوں کی غلامی کے ہاتھوں) اپنی جگہ عجب ہے۔ اگرچہ (کرکٹ میں) ہمیں تماشائی بننے کی تو خوب تربیت ملی تھی! بھرپور داد، اچھل کود، زبردست ردعمل دینا۔ حسب ضرورت لعن طعن اور جوتوں کے ہار تک کھلاڑیوں کے حصے آتےہیں۔ قومی نفسیات کرکٹ پر اس حد تک استوار ہوئی کہ انتہائی حساس نازک امور مملکت و جہانبانی بھی ہم نے کھلاڑیوں کو (کھیل سمجھ کر) تھما دیے۔ اتنی سرگرم قوم! عالم اسلام کے حساس نازک معاملات پر نجانے اتنی سردمہر بحر منجمد شمالی جنوبی کا تاثر کیوں دینے لگی؟ دم سادھے تماشائی؟ اس کا شدید احساس غزہ کی نوعمر بچی کے نوحے پر ہوا۔ یہ رو رو کر پوچھتی رہی:
اے مسلم دنیا! اے عربو! تم کہاں ہو؟ غزہ کے بچے تم سے مدد کی بھیک مانگتے رہے، تم ہل کے نہ دیے؟ تم سے آخرت کے دن ضرور پوچھا جائے گا! خوف سے لرزہ طاری ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ نماز جمعہ کے بعد بڑی نامور مساجد بھی اقصیٰ سے لاتعلق، غزہ کے مظلومین کے لیے دعا کرنے سے گریزاں ہی رہیں۔ عمومی دعا مظلومین کل عالم کے لیے کرکے بوجھ اتار دیا جائے۔ منہ پر آمین کا خشک و سرد ہاتھ پھیر لیا جائے؟ دل دہل جاتا ہے جب مظلوم فلسطینی بچے بچیوں عورتوں کے آنسوئوں میں بھیگے ہاتھ جو ہماری طرف رخ کیے حضور ِرب تعالیٰ وہ دعائیہ منہ پر پھیر کر فریاد کناں ہوتے ہیں۔ خود پر سورۃ البروج میں مذکور اصحاب الاخدود واقعے میں شاہد و مشہود (دیکھنے والے اور دیکھے جانے والوں کی…) کا لرزہ طاری ہوتا ہے۔ دہکتی آگ کے گرد بیٹھے (اہل ایمان کے ساتھ بیتی جانے پر) خود پر خاموش تماشائی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ اس احساس پر تیل چھڑکتے ہیں مغربی دنیا کے احتجاجی مظاہرین! وہ دن رات ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں: تم شریک جرم ہو! اپنی خاموشی سے اسرائیل کے جرائم پر زبردست قوت برداشت کا مظاہرہ کرنے سے! ظالم کو ظلم سے نہ روکنے کے جرم عظیم سے! تم سب شریک جرم ہو، شراکت کار ہو! ایسے تاریخی موقع پر قرآن کی گواہی ہے: ’’بے شک وہ لوگ جنہوں نے آگ میں جلایا (آج بمباریوں کی آگ، ملبوں کا حبسِ دم، زخموں میں سلگتی بے دوا دارو، بلا خوراک آگ) مومن مردوں اور عورتوں کو، اس کے بعد توبہ نہ کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب اور ان کے لیے ہے آگ میں جلنے کی سزا۔‘‘ (البروج)
ہم اللہ سے پناہ کے طالب ہیں اپنی بے بسی پر! مظلوموں کے رنجم و الم چن کر انہیں دائمی راحتوں میں ڈھالنے کا وعدہ تو اٹل ہے، جیسے بوسنیا کے مظلوموں کے قومی شاعر میک دزدار نے ’’پتھروں میں سوئی آوازیں‘‘ (ترجمہ ڈاکٹر محمد حامد) میں لکھا:
موت کی وادیوں میں اترتے ہوئے، رنگ کچھ شوخ ہونے لگے، اور صدائوں میں اک نغمگی بھرگئی! اور میک کی یہ دعا بھی: مرے لب پہ بس اک دعا ہے، زمین! میرے بچوں کو رزقِ فراواں عطا کر، مجھے اک دعا یاد ہے، کہ یہ رزق وہ ہو، کہ جو آسمانوں پہ اگتا ہو! بوسنیا کے عین یہی المناک مناظر ،نوجوان قیدی ،ہڈیوں کے ڈھانچے جنہیں بھوک کے عذابوں سے نام نہاد مہذب ذی شان مغربیوں اور حقوق انسانی کے اداروں نے گزارا … وہ خوبصورت بوسنیائی لڑکیوں کی عصمت دری کے کیمپ جہاں امت کی عزت اجاڑ دی گئی۔ وہ ننھے پھول بچے جو مسلم گودوں سے نوچ کر یورپ کے کلیسائوں کی نذر ہو گئے اور لامتناہی اجتماعی قبریں فلسطین، کشمیر، الجزائر، لیبیا، شام کہانیاںیکساں رہیں۔ اندازہ کیجئے کہ آج القسام بریگیڈ، جس عظیم فلسطینی مجاہد کے نام پر یہ جاں گسل جنگ ہلاکوئے دوراں کے خلاف لڑ رہی ہے، وہ عز الدین القسام تھے (1882-1935ء) یہ سامراج دشمن مجاہد عالمِ دین جو تمام مغربی طاقتوں کے خلاف پورے خطے میں لڑتے رہے۔ لیبیا میں اٹلی کے خلاف (1911ء) شام میں فرانس کے خلاف (1919-1920ء) اور پھر فلسطین پر مسلط برطانوی انتداب کے خلاف، جہاں وہ مظلوم، غریب کسانوں کا جری محافظ مجاہد تھا، نومبر 1935ء میں برطانوی افواج کے مقابلے میں شہید ہوئے۔
فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکنے، جائیدادوں، زمینوں پر قبضے، معاشی کمر توڑنے میں ان کا 1/6 حصہ قتل، زخمی، قید یا جلاوطن ہو گیا۔ 3 سال جاں گسل جنگ فلسطینیوں نے لڑی جسے ایک لاکھ فوج کی طاقت سے وحشیانہ کچلا گیا۔ 5 ہزار فلسطینی قتل، 10 ہزار سے زائد زخمی اور 5 ہزار سیاسی قیدی سامراجی جیلوں میں گلے سڑے، اسی دور میں یہودیوں، صہیونیوںکو بغاوت کچلنے کے سامراجی ہتھکنڈے سکھائے گئے، جو آج اسرائیلی فوجی اور آبادکار برت رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اسرائیلی ظلم و قہر کے آئینے میں 2 صدیوں کی سامراجی درندگی کے حقائق اب دنیا پر کھل چکے۔ چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر! 1922ء کی مردم شماری میں مسلمان 7 لاکھ، یہودی 82 ہزار، عیسائی 71 ہزار تھے، دنیا کے کونوں گوشوں سے یہودی لا بسائے گئے، فلسطینی بے دخل کرکے۔ اقوام متحدہ کی قراردادں کے باوجود (کہ 45 فیصد حصہ مسلمانوں کو دیا جائے) یہودیوں کو 75 فیصد حصے پر قبضہ کرنے کی کھلی چھٹی ملی۔
عین اسی تناظر میں 1947ء سے مقبوضہ کشمیر، پاکستان بھارت مابین تنازعے کا بنیادی سبب ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں سرد خانے میں منجمد پڑی ہیں۔ بھارتی سیاستدان، میڈیا، فوج بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ریاستی تشدد کی ذمہ داری میں سب برابر کے شریک ہیں۔ دنیا کی توجہ غزہ کی طرف ہے، کشمیر متماثل حالات کی جکڑ بندیوں میں سسک رہا ہے۔ فوج کی ہمہ گیر نگرانی، تسلط اور تشدد، قتل و غارت، چھاپے، لاپتگی، اغوا کاری، قید و بند، معاشی کس مپرسی، اجتماعی قبریں، وہی مناظر درپیش ہیں۔ تعلیم یافتہ، ذی شعور کشمیری، صحافی، دانشور سب نشان زد ہیں۔ اسرائیل کی طرز پر برہمن نو آبادکاری سے کشمیری آبادی کی ساخت بدلنے کا سلسلے جاری ہے۔
اب دنیا میں مغربی نوجوانوں کی اٹھائی گئی تحریک سے بہت کچھ بدلنے کے امکانات روشن ہیں۔ یاد رہے کہ سیاہ فام امریکی جارج فلوئیڈ کے امریکی پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کے نتیجے میں حقوق انسانی کی تحریک نے (2020ء) پہلے امریکا اور پھر دنیا کو (مغربی دنیا بالخصوص) ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 3 جولائی 2020ء کی خبر میں امریکا میں 550 مقامات پر 5 لاکھ مظاہرین نے حصہ لیا تھا۔ 2021ء تک پہنچتے سامراجی مغربی طاقتوں کے ظلم و جبر کے بے نقاب ہونے پر ہمہ گیر ہمہ جہت اثرات مرتب ہوئے تھے۔ انہی میں سے ایک یہ بھی تھا کہ فرانس نے الجیریا کے خلاف 132 سالہ قبضے میں 1.5 ملین مسلمان شہید کیے۔ انہی میں سے 24 مجاہدین سرکردہ بہادروں کی کھوپڑیاں فرانس کے پیرس میوزیم میں جوتوں کے ڈبوں میں سجی رکھی تھیں۔ دنیا بھرکے سیاح بے حس دیکھتے رہے! الجزائر کے طویل احتجاج و مطالبات کے بعد امریکا سے اٹھ کر دنیا میں پھیلنے والی ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ تحریک کے خوف نے فرانس کو مجبور کیا کہ وہ یہ الجزائر کو واپس دے۔ چنانچہ 170 سال بعد یہ معزز مجاہدین کے سر اپنی سرزمین پر زبردست عزت و احترام سے وصول کرکے دفنائے گئے۔ اگلے مرحلے میں غزہ کے مبارک خون اور عظیم قربانیوں نے سامراجی طاقتوں کے ظلم و جبر کی رہی سہی داستانیں عام کر دیں۔ برطانیہ کے انتخابات پر فلسطین کی آزادی اور جنگ بندی کی تحریک کے گہرے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ بھارت میں مودی کے غبارے سے خاطر خواہ ہوا نکلی، برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی اور مسلم علاقوں میں اسرائیل نواز امیداروں کو شکست ہوئی۔ لیبر پارٹی کے رکن جیرمی کوربن کامیاب ہوئے جو فلسطین نواز اور برطانوی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے قرارداد پیش کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ تبدیلی کشمیر کے حوالے سے بھی خوش آئند ہے۔ اب مسلمانوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے شاید انہی ولولہ انگیز، انصاف پسند تحریکوں سے رجوع کرنا پڑے!
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے!