ضرورت اس امر کی ہے کہ جس مقصد کے لیے ملک بنایا
گیا تھا اس کی طرف بڑھا جائے ورنہ ایسا انتشار پیدا ہو سکتا
ہے جو ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جائے گا : رضاء الحق
پاکستان پر مسلط اشرافیہ نے وہ حالات پیدا کر دیے ہیں جو
انقلاب سے پہلے پیدا ہوتے ہیں ۔ اب عوام کے پاس انقلاب کے
سوا کوئی راستہ نہیں بچا :ڈاکٹر حسن صدیق
پاکستان کا اشرافیہ نواز بجٹ اور مظلوم عوام کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: 2024 کا بجٹ یکم جولائی سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔ بعض اقتصادی ماہرین کے نزدیک یہ اشرافیہ کا بجٹ ہے آپ کے پاس بجٹ کے حوالے سے کیا تفصیلات ہیں؟
ڈاکٹر حسن صدیق: اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیشہ بیرونی ڈکٹیشن پرہی بجٹ بنتا ہے ۔ نوآبادیاتی نظام کے بعد جب ہم آزاد ہوئے تو وہ آزادی برائے نام تھی۔ معیشت سمیت ہمارے پورے نظام کو چلانے والے ہاتھ ہمیشہ بیرونی طاقتوں کےاشاروں پر چلتے رہے ہیں ۔ حالیہ بجٹ کے حوالے سے بھی ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ یہ بجٹ ہم نے IMFکے ساتھ مل کر بنایا ہے۔ اس بجٹ میں عام آدمی کے لیے ریلیف نہیں ہے ۔اس بجٹ میں سب سے زیادہ بوجھ بھی اسی آدمی پر ڈال دیا گیا ہے جس کا چولہا پہلے ہی نہیں جل رہا تھا اور جو سب سے کمزور آدمی تھا۔ تنخواہ دار طبقہ پر بہت زیادہ ٹیکس بڑھا دیے گئے ہیں ۔ تقریباً 17 سو ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگے ہیں ۔ جبکہ جب بجٹ پیش ہوا تھا تو 15 سو ارب روپے کے اضافی ٹیکس تجویز ہوئے تھے ۔ دوسری طرف چند دن پہلے ہی خبر آئی ہے کہ لاہور میں G.O.Rکے میس کی آرائش پر سوا ارب روپے لگ رہے ہیں۔ اسی طرح لاہور میں ہی ایک نیا G.O.Rبن رہا ہے جس پر تقریباً 29 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ ہماری معیشت میں سب سے بڑا رول زراعت کا ہے اور زرعی پیداوار پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جاتا کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جاگیردار خود اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں ۔ UNکے 15 ترقیاتی اہداف کے تحت صرف قومی اسمبلی کے ممبران کے لیے 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا براہ راست فائدہ عوام کو نہیں ہے ۔ حالانکہ عام آدمی کے لیے ریلیف کی گنجائش کئی حوالوں سے نکل سکتی تھی ۔ IMFکا تو یہ کہنا تھا کہ آپ نے اپنا کرنٹ اکائونٹ خسارہ پورا کرنا ہے ، تجارتی خسارہ کم کرنا ہے ، اپنی سرکاری ملکیت کی کمپنیوں کو پرائیویٹائز کرنا ہے وغیرہ۔لیکن ہمارے حکمران سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیتے ہیں ۔لہٰذا ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تاریخ کا بدترین بجٹ ہے ۔حتیٰ کہ حکومت کے اتحادی خود بھی یہی کہہ رہے ہیں ۔ سینٹ نے بہت سی سفارشات پیش کی تھیں ان میں سے بھی بہت کم پر عمل کیا گیا ہے ۔
سوال:وزیرخزانہ فرمارہے ہیں کہ ہم بہت جلدIMF کے ساتھ ایک طویل مدتی معاہدہ کرنے جارہے ہیں۔ جس ملک کا 50فیصد سے زیادہ بجٹ سود کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہو اس کا IMFکےساتھ طویل مدتی معاہدہ کیسا عمل ہے ؟
رضاء الحق:IMF ، ورلڈ بینک اور اس طرح کے دیگر عالمی مالیاتی اداروںکی تاریخ دیکھیں تو وہ مغربی استعمار کو تقویت دینے کے لیےہی بنے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ ایک نئی عالمی قوت کے طور پر اُبھر ا تو اس کو تقویت دینے کےلیے یہ ادارے قائم کیے گئے اور اس کے بعد سے یہ ادارے امریکہ کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔دوسری طرف اس نے یہ کوشش کی کہ پوری دنیا کی معیشت کو اپنے شکنجے میںکس لیا جائے ۔ اس کا بہترین طریقہ ملکوں کوسودی قرضوں میں پھنسانا تھا ۔ جان پرکنز نےIMF میں ڈائریکٹر کے لیول تک خدمات سرانجام دی ہیں۔اس نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف "Confessions of an Economic Hit Man"ـ
میں ذکر کیا ہے کہ کس طرح وفود کو ٹاسک دے کر مخصوص ممالک میں بھیجا جاتا تھا کہ وہ ان کوآمادہ کریں کہ آپ اپنے ممالک میں بڑی بڑی شاہراہیں بنائیں، ایئرپورٹس بنائیں، بڑے بڑے انفراسٹرکچر پراجیکٹس بنائیں تاکہ آپ ترقی یافتہ ممالک کے مدمقابل بن سکیں۔ اس کے لیے وہ سودی قرضے آفر کرتے تھے اور اس طرح بعض مخصوص افریقی اور ایشائی ممالک کو اپنے معاشی شکنجے میں پھنسایا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان اس جال میں پھنس کربدترین معاشی بدحالی کا شکار ہو چکا ہے ۔ سری لنکا کے بعد دوسرا سب سے خطرناک قرضہ پاکستان پر ہے۔ اس کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں ۔ مثلاً ایک تو جو قرضہ بمع سود ہم نے اگلے چند سالوں میں ادا کرنا ہے وہ بہت بڑی رقم ہے ۔ ایک تخمینے کے مطابق جون 2026 ء تک ہم نے 75 بلین ڈالرز کا قرضہ واپس کرنا ہے ۔ آپ اندازہ کریں کہ 18.9کھرب روپے کا بجٹ ہے اور اس میں سے 9.8 کھرب روپے (یعنی 54٪فیصد ) سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگا۔ پھر یہ خسارہ پورا کرنے کے لیے آپ کو بینکوں سے تقریباً 5.2کھرب روپے لینے پڑیں گے ۔ یعنی ہم سودی قرضوں کے جال میں مزید پھنستے چلے جارہے ہیں۔ حکومتی آمدن کا 65 فیصد صرف قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے اور یہ دنیا میں بلند ترین سطح ہے ۔ جو بھی ملک IMFسے قرضے لیتا ہے تو وہ آخرکار معاشی غلام بن جاتاہے اور اس کی سیاست ، معیشت اور معاشرت میں عالمی قوتوں کی مداخلت شروع ہوجاتی ہے ۔ اس وقت ہمارے معاشرتی نظام کو تباہ کرنے کے لیے پاکستان میں سوشل انجینئرنگ کے جتنے بھی پروگرام چل رہے ہیں اس حوالے سے کہیں نہ کہیں IMF کا پریشر موجود ہے کیونکہ IMFامریکہ کا ادارہ ہے ۔ یورپ سے ہمارے جو معاہدے ہوتے ہیں ان میں بھی اسی طرح کی شرائط ہوتی ہیں ۔
سوال: ابھی چائنہ نے بھی اپنے مقروض ممالک کی ایک فہرست جاری کی ہےجس کے مطابق 26.6بلین ڈالرز کے قرض کے ساتھ پاکستان چائنہ کا سب سے بڑا مقروض ملک بن گیا ہے ۔ یہ قرضہ بھی پاکستان نے اُتارنا ہے اور اس پر سود بھی دینا ہے ۔ یہ قرضہ اور سود کیسے ختم ہوگا؟
رضاء الحق:ممالک میں ہم نے سب سے زیادہ قرضہ چین کا دینا ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ چین کے ساتھ مل کر ہم نے جو منصوبے شروع کیے تھے وہ بھی ہماری کوتاہیوں ، نااہلیوں ، کرپشن اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس قدر التوا میں چلے گئے ہیں کہ اب چین بھی ہم سے خائف ہے ۔ آپ اندازہ کریں کہML-1کا جو ریلوے کا 6.7ارب ڈالرز کامنصوبہ تھا اس پر کام شروع کرنے سے بھی چین نے انکار کر دیا ہے ۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کے ایک بہت اہم رکن جو یہاں آئے ہوئے تھے انہوں نے بھی یہی کہا کہ پاکستان میں سکیورٹی کے ایشوز ہیں۔ بنیادی طور پر سکیورٹی کے ایشوز تو ہیں ہی لیکن اس سے بھی بڑاایشو یہ ہے کہ پاکستان کے چائنہ کے ساتھ جو معاہدات ہیں ان کو پاکستان پورا نہیں کر رہا۔ اس کی ایک وجہ IMFکے ذریعے امریکہ کا پریشر بھی ہوسکتاہے ۔ اس پریشر کی وجہ سے حکومتیں بھی بدل جاتی ہیں اور پالیسیاں بھی تبدیل ہوجاتی ہیں ۔ شکیل آفریدی جس نے اسامہ بن لادن کو ٹریس کرنے میں CIAکی مدد کی تھی اور اس کے خاندان کا نام ECLمیں ڈالا ہوا تھا لیکن اب خبریں آرہی ہیں کہ ان کا نام بھی ECLسے نکال دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ جلد شکیل آفریدی کو بھی امریکہ بلا لیا جائے گا کیونکہ امریکہ برملا کہہ چکا ہے کہ شکیل آفریدی اس کا اثاثہ ہے ۔ ہمارے ذمہ دار اداروں کو سمجھنا چاہیے کہ IMFکا قرضہ کسی بھی صورت میں ملک اور قوم کےمفاد میں نہیں ۔
سوال:حالیہ بجٹ کا جب اعلان ہوا تھا تو اس وقت ٹیکس کم بتائے گئے تھے لیکن جب نافذ ہوا ہے تو ٹیکسوں کی بھرمار سامنے آئی ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کم ترین سطح پر ہے۔ ان حالات میں اگر ٹیکسز لگ گئے ہیں تو اس پر اتنا واویلا کیوں ہے ۔ آپ اس پر کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر حسن صدیق:اب ایک عام آدمی کو بھی پتا چل گیا ہے کہ وہ طبقہ جو پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا اس پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے اور وہ طبقہ جس کو پہلے بھی استثناء حاصل تھا اس کو مزید رعایت دی گئی ہے ۔ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 9 فیصد کے قریب ہے ۔ جبکہ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کا یہ تناسب اس سے نصف ہے۔ پاکستان کا 10 فیصد سب سے غریب طبقہ 10 فیصد سب سے امیر طبقہ سے زیادہ ٹیکس دیتاہے ۔ یعنی اس قدر ظلم اور ناانصافی ہے کہ یہاں بالکل ہی الٹا معاملہ چل رہا ہے ۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے آدھے سے زیادہ (60% )ٹیکس ان ڈائریکٹ ہیں ۔ جبکہ باقی ملکوں میں ڈائریکٹ ٹیکس زیادہ ہوتا ہے ۔ پھر ہمارے ہاں اس قدر امتیازی سلوک ہے کہ اشرافیہ کے لیے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ٹیکس ختم کر دیا گیا ہےاور سٹاک مارکیٹ میں بھی ان کےمنافع پر ٹیکس 20%سے کم کرکے 15%کر دیا گیا ہے ۔ ہمارے ٹیکس ریونیو میں انڈسٹری کا حصہ 62 فیصد ہے اور اس کا GDPمیں حصہ صرف 20 فیصد ہے ۔ زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ22 فیصد ہے جبکہ ٹیکس ریونیو میںاس کا حصہ صرف 7 فیصد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 5%جاگیردار 65%زرعی رقبہ کے مالک ہیں۔ 2%ایلیٹ ہمارے 95%وسائل پر قابض ہے ۔ یعنی یہ سارے وہ حالات ہیں جو ایک انقلاب سے پہلے کسی ملک میں ہوتے ہیں ، جہاں انقلاب آنا ضروری ہوتاہے ۔ اس کے سوا عوام کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا ۔ بجلی کی قیمت میں ابھی گزشہ ماہ ہی 6 روپے کا اضافہ کیا گیا تھاجس پر ٹیکس ڈال کر یہ اضافہ 9 روپے ہو جائے گا لیکن اب IMFنے مزید 5 روپے کا اضافہ کرنے کا کہا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اب لوگوں کوبجلی کے جو بل آئیں گے وہ عام آدمی کی تنخواہ سے بھی کہیں زیادہ ہوں گے ۔ یہ حالات عوام کو بغاوت پر اُکسانے کے متراف ہیں ۔
سوال:کینیا میں ٹیکس میں معمولی اضافہ پر عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے جبکہ پاکستان میں معاشی اعتبار سے ہر بندہ اتنا تنگ آ چکا ہے کہ اس کے لیے گھر کا بجٹ پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں اتنی تنگی کے باوجود عوام منظم احتجاج نہیں کرتے ؟
رضاء الحق:منظم احتجاج کے لیے تنظیم کا ہونا ضروری ہے ۔ قائداعظم نے تو ایمان، اتحاد اورتنظیم کا ماٹو دیا تھا لیکن عملی طور پریہاں نظم و ضبط دکھائی نہیں دیتا۔ بنیادی طور پر انقلاب کا نعرہ بڑارومانوی ہے لیکن اس کے لیے بھی کچھ شرائط ہوتی ہیں ۔ ہماری قوم میں ابھی ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی البتہ تھوڑا بہت شعور بڑھا ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی تاریخ میںجتنی بھی انقلاب کی تحریکیں چلی ہیں ان میں سے صرف ایک فیصدکامیاب ہوئی ہیں جبکہ ننانوے فیصد ناکام ہوئی ہیں۔ لوگوں کو صحیح رُخ پر رکھنا ضروری ہےورنہ تحریکیں خانہ جنگی کی طرف بھی لے جاتی ہیں جن سے ملک ٹوٹ جاتے ہیں ۔ عوام کی سمت کو درست رکھنا اصل میں لیڈرشپ کاکام ہوتاہے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہجوم نکلے اور وہ کہے کہ ہم نے احتجاج کرنا ہے۔ ان کو کسی نہ کسی نے صحیح رُخ پر لگانا ہوتاہے۔ مہذب ملکوں میںعوام کو باقاعدہ احتجاج کی اجازت دی جاتی ہے تاکہ ان کے اندر کا اشتعال اور غبار نکل سکے ۔ دوسرا احتجاج کی صورت میں وہاں عوام کو کچھ ریلیف مل بھی جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں عوام پر گزشتہ کچھ عرصہ سے اتنے زیادہ کریک ڈاؤن ہوئے ہیں کہ اب وہ احتجاج کے لیے نکلنے سے بھی ڈرتے ہیں ۔ لوگوں کو اُٹھا لیا جاتاہے ، ان کو پریشان کیا جاتاہے ، کاروبار بند کیے جاتے ہیں اور طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے ان کا جینا حرام کیا جاتاہے جس کی وجہ سے لوگ احتجاج کےلیے نکلنے سے ڈرنے لگے ہیں۔ ملک کسی سٹریٹیجک ڈائریکشن کے تحت چلتے ہیں، چاہے وہ ٹاپ لیڈرشپ کا ویژن ہو اور عوام بھی اس ویژن میں اتنے ہی اہم ہوتے ہیں جتنی ٹاپ لیڈر شپ ۔ امریکہ میں غلامی کے خلاف جب تحریک چل رہی تھی تو اس کا لیڈر وینڈ ل فلپس تھا ، اس نے کہا تھا :
"Eternal vigilance is the price of liberty."
مراد یہ ہے کہ آزادی کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہر وقت چوکنا ر ہیں اور ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں ۔ آپ کے سامنے ایک نصب العین ہو ۔ ہمارے ہاں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہمارے لیڈرز کیا چاہتے ہیں اور عوام کیا چاہتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہےکہ جس مقصد کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا اس کو پورا کیا جائے اور مملکت پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے ۔ اس مقصد کے لیے پوری قوم متحد ہو سکتی ہے ۔ بصورت دیگر انتشار پیدا ہوگا جو کہ خانہ جنگی کی طرف بھی بڑھ سکتا ہے۔
سوال: سود اورکرپشن پاکستان کے لیے بدترین ناسور ثابت ہوئے۔IMF کے چنگل سے نجات ، سود کے خاتمے اور کرپشن سے بچاؤ کے لیے کن اصلاحات کی ضرورت ہےا ور ہمیں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے ؟
ڈاکٹر حسن صدیق:پاکستان بننے کے بعد ہم نے اپنی متعین راہ پر سفر کا آغاز کر دیا تھا ، قرارداد مقاصد کا پاس ہونا اسی سلسلہ کی کڑی تھی ۔ سود کے حوالے سے بھی پالیسی بیان قائداعظم نے جاری کر دیا تھا کہ ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے معاشی نظام کو اُستوار کرنا چاہیے۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے انہوں نے علامہ محمد اسد کی ڈیوٹی بھی لگا دی تھی لیکن قائداعظم کی وفات کے بعد انگریز کے پالے ہوئے کرپٹ طبقے نے لیاقت علی خان کو بھی شہید کرنے کے بعد ملک پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح ہماری آزادی ایک بار پھر سلب ہوگئی ۔ کارپوریٹ کلچر ، سامراجی اور سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہم آج انگریز کے غلاموں کے غلام ہیں ۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں چند بنیادی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ سب سے پہلے ہمیں امریکہ کی غلامی سے نکلنا ہوگا تاکہ ہمارے ملک میں استحکام آسکے ۔ مشاہد حسین سید نے کہا مجھے ایک چینی سرمایہ دار ملا ۔ اس نے کہا کہ میں نے افغانستان میں کئی ارب ڈالرز کی انوسٹمنٹ کی ہے اور پاکستان کی نسبت افغانستان انوسٹمنٹ کے لیے زیادہ محفوظ ملک ہے ۔ اسی طرح ہم بھی اگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنائیں اور ان سے تجارت کریں تو ہماری معیشت میں چند ماہ میں بہتری آ سکتی ہے ۔ ہم ایران سے سستا تیل خرید سکتے ہیں ۔ اگر ہم انرجی کے بل پورے کرلیں تو اگلا بجٹ ہم آئی ایم ایف کے بغیر بنا سکتے ہیں ۔ مگر اس کے لیے فیصلہ سازی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ جبکہ یہاں حکومتیں بدلتے بھی پتا نہیں چلتا اور نہ ہی پالیسیاں بدلتے پتا چلتاہے ۔ حالانکہ 1973ء کے آئین میں طے ہو گیا تھا کہ ہم نے ملک کو کس طرح چلانا ہے ۔ لیکن اس کے بعد بھی کئی دفعہ مارشل لاء لگ گئے۔ جب تک یہاں سیاسی استحکام نہیں ہوگا اور اپنی پالیسی کو آزادانہ بنانے کی کوشش نہیں کی جائے گی تب تک باہر سے انوسٹمنٹ آئے گی اور نہ ہی IMFسے جان چھُوٹے گی ۔ سود اور کرپشن کے خاتمہ کے لیے بھی فیصلہ سازی میں آزادہونا ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاستی ادارے، چاہے وہ FBRہویا واپڈا ، ان میں ایسی اصلاحات لائی جائیں کہ قابل اور اہل لوگ ان اداروں کو چلا سکیں ۔ احتساب کے نظام کو شفاف بنایا جائے ۔
رضاء الحق: 28 اپریل2022ء کو وفاقی شرعی عدالت نے دوبارہ سود کے خلاف فیصلہ سنایا ۔ اس کے خلاف بھی کچھ ادارے اور افراداپیل میں چلے گئے ۔ اس اپیل کو سننے کے لیے بنچ تشکیل دینا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے ۔ ان کو اس پر توجہ دینی چاہیے تاکہ یہ معاملہ ختم ہو ۔ اس کے بعد اندرونی اور بیرونی سود سے نجات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ۔
سوال: تنظیم اسلامی، پاکستان کے معاشی ، معاشرتی اور سیاسی نظام کی اسلامائزیشن کرکے ایک اسلامی انقلاب لانے کی داعی ہے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے مقاصد تب ہی پورے ہو سکیں گے جب پاکستان میں ایک اسلامی انقلاب آئے گااور عدل و انصاف کا بول بالا ہو گا۔ ان حالات میں پاکستان کے معاشی نظام میں بہتری کے لیے آپ کیا اصلاحات تجویز کریں گے؟
رضاء الحق: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے معیشت کواسلامائز کرنےکے لیے پورا ایک روڈ میپ پیش کیا تھا۔ بنیادی طور پر اسلامی ریاست ایک ویلفیئر سٹیٹ ہوتی ہے جس میں ہر شہری کی بنیادی ضروریات یعنی غذا ، رہائش ، تعلیم اور علاج کو پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے یہاں اسلام کا نفاذ ضروری ہے ۔ اگر ایسا ہوگا تو پھر یہاں زکوٰۃ ، عشر اور جزیہ کا نظام بھی لاگو ہوگا اور اس کے ذریعے غریب آدمی کو بھی ریلیف ملے گا اور شاید حکومت کو ٹیکس لگانے کی بھی ضرورت نہ پڑے ۔ سود کا خاتمہ ہوگا تو قرضوں سے بھی نجات ملے گی اور ملک ترقی کرے گا ۔ پھر اسلامی معاشرت میں صدقات کی بھی اہمیت ہے جس کے ذریعے غریب آدمی کو ریلیف ملتا ہے ۔ سود کا خاتمہ ہوگا تو بلا سود قرضے بھی ترقی کا ذریعہ بنیں گے۔ اسلامی نظام صرف چور کا ہاتھ کاٹنے اور دیگر سزاؤ ں تک محدود نہیں ہے۔اس وقت پاکستان میں اندرونی سطح پر جو سود ادا کرنا ہے وہ دو تہائی سے زیادہ ہے ۔ اس کو ختم کرنا حکومت کے اختیار میں ہے ۔ اسی طرح نجی اداروں کے اندر سے جوا ، سٹہ ، لاٹری اور آڑھت کی جتنی بھی حرام شکلیں ہیں ان کو ختم کیا جائے ۔ سرمایہ داری کی بجائے سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے ۔بیرونی انوسٹرز کو اعتماد پر مبنی فضا مہیا کریں ، انہیں سہولیات اور مواقع فراہم کریں۔ پرائیویٹائزیشن کی صورت میں اس چیز کا خیال رکھا جائے کہ ملکیت ہمارے پاس واپس آسکے ۔ بہت سی اشیاء ایسی ہیں جو ہم امپورٹ کرتے ہیں حالانکہ ان کو ملک کے اندر تیار کیا جا سکتا ہے ۔ ملک کے اندر صنعتوں کو فروغ دیا جائے ۔ مزدور ، کسان اور عام ورکر کو سہولیات دی جائیں ۔ یہاں شروع دن سے جاگیردارانہ نظام ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے ۔ پھر سرمایہ دار بھی اس میں شامل ہوگئے اور سیاست اور بیوروکریسی میں بھی ان کی اجارہ داری قائم ہوگئی ۔ اس اجارہ داری کا خاتمہ بہت ضروری ہے ۔ ٹیکس کے نظام کو شفاف اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس کو کم کیا جائے اور ڈائریکٹ ٹیکس کو بڑھایا جائے ۔ آمدن پر ٹیکس لگاناویسے بھی زیادتی ہے ۔ جتنے بھی غیر ترقیاتی اخراجات ہیں ان کو کم کیا جائے۔ یہ ساری چیزیں ہوں گی تو پھر آپ کا معاشی نظام ایک عادلانہ اور اسلامی معاشی نظام ہوگا ۔ اس کے ساتھ سیاسی نظام کا بھی اسلامی ہونا ضروری ہے اور معاشرتی نظام بھی دین کے مطابق ہوگا تو پھر ملک اسلامی فلاحی ریاست بنے گا ۔ ان کاموں کے لیے اخلاص کا ہونا ضروری ہے ۔ ہماری لیڈرشپ کے اندر اخلاص نیت ہوگا تو کرپشن نہیں ہوگی۔ سود ختم نہ کرنے کے جو حیلے بہانےکیے جاتے ہیں وہ بھی نہیں ہوں گے۔ پاکستان کو بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ ہم پوری دنیا کے لیے ایک مثال قائم کریں ۔ یہ مثال دنیا کے سامنے اس وقت قائم ہو گی جب یہاں اسلام نافذ ہوگا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025