(کارِ ترقیاتی) حیات دے کر ثبات پایا - عامرہ احسان

11 /

حیات دے کر ثبات پایا

عامرہ احسان[email protected]

 

ابلیس کی مہلتِ عمل جو آغازِ دنیا پر شروع ہوئی تھی، سیدنا آدم علیہ السلام کے مدِمقابل، اب اپنے آخری دور میں داخل ہو گئی ہے۔ ہم آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری امت ہیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں سے ابلیس اپنے سوار پیادے لائو لشکر لیے لڑتا بڑھتا اب 2024ء میں کھڑا ہے۔ سائنسی ترقی، مواصلاتی رابطوں کی سرعت، سیاسی دائو پیچ، معاشی ہتھکنڈے، جھوٹ کی جولانیاں، فراوانیاں لیے ایک بھاری معرکہ وہ ہار چکا۔ فتنہ دجال کے بڑے مراکز، امریکا، یورپ، اسرائیل اور مشرک بھارت سارے دائو پیچ 2000ء، نئی صدی کے آغاز سے آزمانے لگے۔ جس گھن گھرج سے دانشوروں نے تاریخ کے خاتمے، ( فوکویاما: End of History)، نیو ورلڈ آرڈر، امریکا کی بلا شرکتِ غیرے حکمرانی، یک قطبی دنیا کے نعرے لگائے، دنیا نائن الیون کے بعد سکڑ سمٹ کر بے دام کی غلام بنی دم ہلاتی ان کے پیچھے چل دی۔ اصحٰب الفیل کا سا واقعہ، اصحٰب الاخدود، اصحٰبِ کہف کی تاریخی کہانیاں سب افغانستان میں دہرائی گئیں۔ ہاتھیوں (ری پبلکن) گدھوں (ڈیموکریٹ) کی حکومتوں نے سبھی چالوں، سائنسی ٹیکنالوجی کی مہارتوں کو آزماتے نیٹو و دیگر عالمی قوتوں سمیت منہ کی کھائی۔ جبکہ نہتے، تنہا، بے وسائل افغان، بلا افواج و بھاری جنگی ساز و سامان کامیاب و کامران ٹھہرے۔ ہیل فائر میزائل ساری آگیس بھڑکا کر اولادِ ابراہیمؑ کے ہاتھوں منہ کی کھا کر نکل بھاگے۔ افغانستان کے غاروں کے باسی IED (خانہ ساز بارودی پٹاخوں) سے فتح کے جھنڈے گاڑتے جب غار سے نکلے تو بدلا ہوا زمانہ تھا! امریکا نیٹو کے جھنڈوں کی جگہ لا الٰہ کے جھنڈوں کا راج تھا۔ تآنکہ منہ کی کھا کر افغانستان کی معاشی پابندیوں اور بین الاقوامی تنہائی کی مار دے کر بھی شکست خوردہ! یو این کی سیکورٹی کونسل کو پیش کی جانے والی تازہ ترین رپورٹ میں کسمساتے ہوئے افغانستان میں ہونے والی انتظامی معاملات میں بہتر گورنینس کا اعتراف کیا گیا ہے۔ یوں بھی جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ! اپنے عوام کے حق میں حکومت، سہولت کی فراہمی پر کمربستہ ہو، خود قربانی دے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی طرح قوم کے شفیق باپ کا سا کردار ادا کرے تو خوش حالی امن، برکتوں کے دہانے کھلنے کے الٰہی وعدے (شریعتِ الہیہ کی پابندی کے عوض) خودبخود پورے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ امریکی پروفیسر ڈاکٹر رائے کیسا گراناڈا (آسٹن، ٹیکساس) گواہی دیتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے 633ء میں دو فوجیں روانہ کیں، ایک ایرانی دوسری رومی سلطنت کی جانب، نہ تعداد کا کوئی موازنہ مقابلہ تھا، نہ ٹیکنالوجی کا کوئی تناسب، بہت جلد انہوں نے مکمل ایرانی سلطنت فتح کر لی۔ اُدھر رومیوں کو زیر کر لیا۔ 711ء تک اسپین کی فتح اور اسی دوران پاکستان (سندھ) تا وسط ایشیا کے حاکم ہو کر انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت کے مالک ہو چکے تھے، دنیا کی 60 فی صد عیسائی آبادی پر محض چند دہائیوں میں 2 فی صد مسلمان ہو کر اٹھنے والے غلبہ پاچکے تھے، بٖغداد کا سنہری دور جس میں وہ دنیا کا سب سے بڑا شہر ہمہ نوع علوم کا مرکز بن چکا تھا، ان کی راتیں روشن، جگمگاتی تھیں۔ طب، زراعت، طبیعیات، سبھی پر عبور مثالی تھا۔ پروفیسر کے مطابق مسلمان روشنی کی رفتار، کششِ ثقل، نیوٹن کا پہلا قانونِ حرکت جان چکے تھے، فرانس بیکن سے 600 سال پہلے ابن الہیثم سائنسی طریقہ کار وضع کر چکا تھا۔ تاہم موجودہ دنیا ان طویل تاریخی حقائق سے نابلد رکھی گئی۔ خود مسلمان تو ،دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی! عظیم الشان تاریخی ورثہ، اعلیٰ تہذیبی مظاہر کی حامل امت مغربی سرمایہ دارانہ نظامِ جبر و استحصال کا لقمہ تر بن چکی تھی۔ افغانستان کے بعد اب غزہ نے پوری دنیا کو متزلزل کرکے انقلاب برپا کر دیا ہے۔ فکر و نظر کی دنیا میں بھونچال بپا ہے۔ یہ مسلم جنگ، کفر کی سرزمینوں میں جس شد و مد سے نظریاتی سطح پر لڑی جارہی ہے وہ حیران کن ہے! غزہ میں قتل عام جس ڈھٹائی بے حیائی سے بلاتعطل جاری ہے بظاہر وہ بھی لاینحل ہے۔ واللہ اعلم!
یہ سبھی غزہ کے قاتل ہیں دنیا کے نام نہاد بڑے بڑے دانشور، قائد، حکمران، روسائے اعظم! بڑی اصطلاحوں کے گھن چکر سے دنیا کو چکرائے رکھتے ہیں۔ انہی میں ’’The Great Reset‘‘ ،(عظیم تعمیرِ نو) بھی ہے، ساری اصطلاحیں جنوں کا نام خرد رکھنے والی کہانی ثابت ہوتی ہیں۔ آزادیٔ اظہار، حقوقِ انسانی، عورتوں بچوں کے حقوق کی گھمن گھیریاں، ان سب اصطلاحوں کی خونچکاں سربریدہ لاشیں غزہ کے طول و عرض میں حقائق بیان کر رہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت، (AI) کے عنوان سے جو کچھ ہونے چلا ہے، عظیم تعمیرِ نو، حقیقتاً ایک بھاری بھرکم تخریبِ نو کا آغاز ہے جو آہستہ آہستہ یہاں وہاں بے نقاب ہو رہا ہے۔ اس وقت دنیا کو درپیش موسمیاتی تبدیلیاں، ماحولیاتی آلودگیاں، جن سے کرہ ارض کو محفوظ و مامون بنانا سب سے بڑا درد سر ہے۔ مگر دنیا بھر کے ارب پتی کاروباری، شعبہ جاتی ماہرین حکمران جو منصوبے بنا کر پیش کر رہے ہیں، ان میں دردِسر کا علاج سر کاٹ کر کیے جانے کا سا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا پروفیسر میک کیوری کہتا ہے: کڑوا سچ یہ ہے کہ زہریلی گیسوںکے اخراج (بسلسلہ موسمیاتی تبدیلی) کا تیز ترین حل صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ کسی ایسی وبا کے ذریعے انسانی آبادیوں کا صفایا جس میں موت کی شرح بہت ہی زیادہ ہو، تاہم بھری بزم میں راز کی بات کہہ کر پھنس گیا، شدید تنقید ہوئی۔ یہ تو پتھر پھینک کر لہریں گننے کا معاملہ تھا۔ لیکن کیا غزہ میں بے دریغ بلاروک ٹوک قتل عام اور اس پر ان زعما کی چشم پوشی اسی کی آئینہ دار نہیں؟ صرف یہی نہیں مصنوعی ذہانت، روبوٹس کی فراوانی حکمرانی کے بعد کیا ہوگا؟ انسان بے شمار میدان ہائے عمل میں ناکارہ ہوجائیں گے۔ اتنے انسانوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ سو انہیں کمپیوٹر گیمز اور ڈرگز میں مصروف کر دیا جائے گا مصروف اور خوش رکھنے کو! مزید براں زہریلی گیس کنٹرول کرنے کو (کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین جیسی) مویشیوں کے فارم ختم کرکے، جھینگر فارم بنائے جائیں گے یا مصنوعی گوشت پر کام جاری ہے! مصنوعی دودھ کے بعد آپ کیڑے مکوڑے، جھینگر، مصنوعی گوشت کھائیں گے۔ تاہم ان کے بہت سے پچھلے سہانے خواب افغانستان میں بھیانک ہو چکے۔ تابوت اور ذلت آمیز شکست پر نیو ورلڈ آرڈر اور یک قطبی دنیا، ٹائیں ٹائیں فش ہوا۔ اب اسرائیل دم بخود امریکا، کینیڈا، یورپ، تا جنوبی کوریا، افریقہ، پوری دنیا میں اپنے لیے نفرت کے شرارے اڑتے دیکھ رہا ہے، وہی ڈچ جو اپراتھائیڈ کے مجرم تھے اب تلافی ٔ مافات کو اپنی ایک پوری شاہراہ پر، فلسطینی شہروں کے ناموں سے بورڈ سجا رہے ہیں۔ سڑک ہالینڈ کی، شہرغزہ کے! غزہ سٹی، جبالیہ، نصیرات، دیر البلاح، رفح، خان یونس، رملہ ..... آخر میں آزادفلسطین تربوزی رنگوں میں اور نیچے تربوز کی قاش! جھینگر فارم بنانے والے جھینگر کھاتے تربوز کی لذت سے بھی محروم رہ جائیں گے!
یہ فرق ہے اہل غزہ کے فہمِ حیات و کائنات و خالق کائنات کا۔ جو انہیں کامل ترین لاریب کتاب قرآن مجید سے اور بنی کامل اور اکمل سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہے حکمت بالغہ اور حجت بالغہ! (القمر: 5 ، الانعام: 149) کامل پختہ حکمت و دانائی، سمندر در سمندر لا منتہا! پختہ کامل دلیل جس کا رد ممکن نہیں! جس کے آگے ہر دلیل بے وزن۔ سوسب مغربی دانشور سر پٹخ پٹخ جھینگر کھائیں، مصنوعی گوشت پکائیں اور اس کا نام ’’ترقی‘‘ رکھ لیں۔ رہے گی تو ’’مصنوعی‘‘ ذہانت! {اِنْ یَّـتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(116)} (الانعام: 116) نرے وہم و گمان کے پیرو، تیر تکے لگانے (جھینگر کا شکار کھیلتے ’’دانا‘‘!) مارنے والے! ان کے نزدیک انسان صرف حیاتیاتی زندگی والابا شعور حیوان ہے۔ روح/ روحانیت سے خالی! سو یہ جو ’’مصنوعی‘‘ ذہانت چلی آرہی ہے دیوانی دنیا تخلیق کرنے کو، اس کا علاج قرآن سے چمٹنے،{اَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاج} (یونس:105) الدین، اللہ کی کامل فرمانبرداری، اتباعِ شریعت پر یکسوئی سے جم جانے میں ہے۔ اور یہ غزہ کے بے مثل صبر و ثبات اور کامیابی کا راز ہے! لائق تقلید اہل جہاد ہوتے ہیں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مطابق: {وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَاط} (العنکبوت:69) ۔ انہی شفاف دلوں، نیتوں کو اللہ اپنی راہ دکھاتا ہے!
انہوں نے ملت کی لاج رکھ لی
حیات دے کر، ثبات پایا