.....وگرنہ یہ عدل ادھورا ہے!
ایوب بیگ مرزا
Roscne-Pond یونیورسٹی آف شکاگو لاسکول اور UCLA سکول آف لا کے ڈین تھے۔ اُنہیں بیسویں صدی کا سب سے بڑا لا سکالر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ کچھ کرے تو اُسے کرنے کی آزادی بھی دینا ہوگی۔‘‘اُن کے مطابق عدلیہ کے کام میں قانون سازی کرکے بھی رکاوٹ نہیں ڈالی جاسکتی۔ قومی سلامتی اور ریاستی ڈھانچے کی مضبوطی کا راز بھی عدل سے منسلک ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک مشہور تاریخی واقعہ ہی کفایت کر جائے گا جب جنگ عظیم II کے دوران ونسٹن چرچل اچانک لندن ہائی کورٹ جا پہنچے اور چیف جسٹس سے دریافت کیا کہ کیا ہماری عدالتیں عوام کو انصاف فراہم کر رہی ہیں۔ مثبت جواب آنے پر چرچل نے جاری جنگ میں اپنی کامیابی کا زوردار نعرہ لگا دیاگویا عدل کانفاذ ملکی تحفظ اور سلامتی کاضامن بھی ہوتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ عدل کو اسلام کا کیچ ورڈ کیوں قرار دیا گیا اور یہ جو کہا گیا ہے کہ اسلام میں سے عدل کو نکال دیں تو باقی کچھ نہیں بچتا یہ قول کس قدر حقیقت پسندانہ ہے۔ قرآن کا ہر قاری جانتا ہے کہ اللہ نے اپنے کلامِ پاک میں عدل پر کتنا زور دیا ہے خود حضور ﷺ کے بعض ایسے فیصلے جو مسلمانوں کے خلاف اور غیرمسلموں کے حق میں گئے اور خلفائے راشدین کے دور میں قاضیوں کے مسلمان کے مقابلے میں غیر مسلم کے حق میں عادلانہ فیصلوں نے اسلام کو تقویت اور عالمگیر حیثیت دینے میں کلیدی رول اداکیا۔ آج مملکتِ خداداد پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام اور افراتفری کا شکار ہے تو اُس کی صرف اور صرف وجہ یہ ہے کہ یہاں عدل عنقا ہے اور ظلم عام ہے۔ اگرچہ ملک غلام محمد کے دور سے یہاں عدل کی جگہ جبر اور ظلم نے لے لی تھی لیکن اپریل 2022ء سے جس طرح حکمران آئین اور قانون کو پاؤں تلے روند رہے ہیں اور اپنے ہی شہریوں کے خلاف ظلم و ستم جس طرح رواں ہے، مہذب دنیا میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ کوئی حکومت اپنے ہی شہریوں کے ساتھ یہ سلوک کرتی ہو۔ لیکن حکمرانوں کا یہ ظلم و ستم اب کچھ نتائج دینے لگا ہے۔ پہلا ردعمل 8 فروری کو عوامی سطح پر آیا جب طاقتوروں نے ایک جماعت کا نام و نشان مٹانے کی بھرپور کوشش کی، انتخابی نشان چھین کر اُسے جماعت کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ نہ لینے دیا گیا۔ لیکن 8 فروری کو عوام نے جس طرح اُس جماعت کے منتشر نمائندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ووٹ دیا وہ کسی بڑے سے بڑے جمہوری ملک کے عوام بھی نہ کر سکتے تھے۔ پاکستان کے عوام نے صحیح معنوں میں اس نعرے کو عملی جامہ پہنا دیا ’’ظلم کا جواب ووٹ سے‘‘ لیکن ابھی اور امتحان مطلوب تھے۔ عوام کواپنی رائے کے نفاذ کے لیے ایک دریا عبور کرنے کے بعد ایک اور دریا کا سامنا تھا لہٰذا رات کے اندھیرے میں عوامی فیصلے کو فارم 45 سے فارم 47 پر منتقل کرتے ہوئے بدل دیا گیا۔ عوام روتے دھوتے رہے لیکن جبر کے سامنے بے بس تھے۔ لیکن یہ قانونِ فطرت ہے کہ ظلم و جبر سے معاشرے کے صالح اور فہمیدہ لوگوں میں رد عمل پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کی عدلیہ میں بعض نیک بختوں نے طاقت ا ور ظالم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا شروع کیا اگرچہ اِن نیک بختوں کے اپنے ہی ساتھی جنہیں اُن کے سربراہ کی حیثیت حاصل تھی،وہ نہ صرف اِن باغیوں سے تعاون نہیں کر رہے تھے بلکہ ظالم حکمرانوں کا ساتھ نبھارہے تھے اور نبھا رہے ہیں۔اِس پس منظر میں اسمبلیوں میں خصوصی نشستوں کے حوالے سے ایک مقدمہ سپریم کورٹ پہنچ گیا یہ ایک عام مقدمہ نہیں تھا تفصیل اِس کی کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو اقلیتوں اور خواتین کی نشستوں کا کوٹہ ملتا ہے جسے وہ اپنی جماعت کے اقلیتی ممبروں اور خواتین میں اپنی مرضی سے تقسیم کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے 13 جنوری کو ایک فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور بقول چیف جسٹس پاکستان محترم قاضی فائز عیسیٰ، الیکشن کمیشن نے اُن کے فیصلے کو غلط معنی پہنا کر انتخابی نشان کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کو بطور جماعت انتخابات میں حصہ لینے سے ہی روک دیا۔ اور اُن کی مخصوص نشستیں ریوڑیوں کی طرح دوسری جماعتوں میں بانٹ دیں۔ یہ کیس سپریم کورٹ گیا جس نے 5-8 کا اکثریتی فیصلہ دیا کہ یہ تحریک انصاف کی نشستیں تھیں جو اُن ہی کو ملنی چاہییں۔ جس پر فریق جماعت نے بہت شور اٹھایا ہے بلکہ ہنگامہ برپا کیا ہے کہ تحریک انصاف کو وہ مل گیا ہے جس کا اُنہوں نے دعویٰ بھی نہیں کیا تھا ۔گویا اِس حوالے سے اِس فیصلے کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی سوال تھا جو دوران سماعت قاضی فائز عیسیٰ نے اٹھایا تھا جس کا بھرپور اور زوردار جواب تحریک انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دے دیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں کسی کی بات نہیں کرتا ،میں نے الیکشن میں اپنے آپ کو تحریک انصاف کا امیدوار قرار دیا تھا لیکن جب الیکشن کمیشن کسی کو تحریک انصاف کا امیدوار بنانے کو تیار ہی نہیں تھا تو پھر کسی کے پاس آزاد امیدوار رہنے کے سوا کیا چارہ تھا۔اب ہم وہی حق مانگنے تو سپریم کورٹ حاضر ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے 13 میں سے 11 ججز نے جن میں قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل ہیں مانتے ہیں کہ یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کی غلطی کی وجہ سے ہوا۔ سپریم کورٹ کے 5-8 کے اکثریتی فیصلے کے علاوہ یہ تین ججز بھی مان گئے ہیں کہ تحریک انصاف پارلیمانی جماعت ہے، دوسرے آٹھ ججز سے اُن کا فرق یہ ہے کہ یہ تمام نشستیں اکیلی تحریک انصاف کو نہیں ملنی چاہییںبلکہ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر تقسیم ہونی چاہییں۔ یہ بات الگ ہے کہ اِن تین ججز کا یہ استدلال درست ہے یا غلط۔ اصل بات یہ ہے کہ قاضی عیسیٰ سمیت اختلاف کرنے والے ججز نے حکمرانوں کی یہ بات تو رد کر دی ہے کہ تحریک انصاف کو وہ مل گیا ہے جو اُس نے مانگا بھی نہیں تھا ۔اصل بات یہ ہے کہ جو ابہام پیدا ہوا تھا اُس کی وجہ تحریک انصاف کی غلطی نہیں تھی بلکہ الیکشن کمیشن کا 13 جنوری کے فیصلے کی غلط تشریح کا نتیجہ تھا۔ لہٰذا تحریک انصاف نے ہی اعلیٰ عدلیہ سے اپنا حق مانگا تھا جو اُنہیں دیا گیا۔ان مضبوط اور قوی دلائل کے باوجود اگر کوئی سیاسی تعصب کی بنیاد پریہ موقف اپنائے رکھے کہ پی ٹی آئی کو وہ مل گیا جس کا اس نے مطالبہ بھی نہیں کیا تھا توپھراس کو غور سے آئین کے آرٹیکل 187کامطالعہ کرنا چاہیے تاکہ اسے معلوم ہو کہ متاثر فریق کو مکمل انصاف دینے کے لیے سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات کیا ہیں ۔
اب ہم ایک اہم نکتہ کی طرف آتے ہیں۔ فرض کریں کہ کوئی غیر آئینی رکاوٹ نہیں کھڑی کی جاتی اور یہ نشستیں تحریک انصاف کو مل جاتی ہیں تو کیا عدل کے تقاضے پورے ہو جائیں گے۔ اِس حوالے سے اصل تبصرہ تو اُس وقت کیا جا سکے گا جب تفصیلی فیصلہ آ جائے گا۔ راقم کی رائے میں عدل کے تقاضے پورے کرنے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ جن غیر لوگوں (وہ لوگ جو الیکشن کمیشن کی غلطی کی وجہ سے اسمبلیوں کے ممبران شمار کر لیے گئے تھے) نے جنہیںاب اِس فیصلے کی روشنی میں اسمبلیوں سے نکالا جائے گا۔ اُن کے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، سینیٹ ممبران اور صدر کے انتخاب میں ووٹوں اور اُن کے نتیجہ میں منتخب ہونے والوں کی کیا پوزیشن ہوگی اور اہم ترین بات یہ کہ الیکشن کمیشن جو اس سارے فساد کی جڑ اور بنیاد بنا ہے کیا اُس کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ سپریم کورٹ کا فل کورٹ اِس کیس کے حوالے سے بعض معاملات میں اختلاف رکھتا ہے لیکن چیف جسٹس سمیت تمام ججز اس بات پر متفق ہیں کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے 13جنوری کے فیصلے کی غلط Interpretationکی ہے۔ جس سے ساری صورتِ حال بدل گئی اور ملک کے سیاسی عدم استحکام میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ الیکشن کمیشن کی غلط Interpretation دو وجوہات کی بنا پر ہو سکتی ہے: پہلی یہ کہ اُنہیں 13 جنوری کا فیصلہ سمجھ ہی نہیں آیا تھا اور دوسری یہ کہ اُنہوں نے جان بوجھ کر ایک جماعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، جس سے ملک میں فساد پھیلا۔ جہاں تک پہلی وجہ کا تعلق ہے ہم قارئین پر واضح کر دیں کہ آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق کوئی شخص کمشنر کے طور پر ہونا مقرر نہیں کیا جائے گا تاوقتیکہ وہ عدالت عظمیٰ کا جج نہ ہو یا رہ نہ چکا ہو۔ یا عدالت عالیہ کا جج نہ ہو یا وہ رہ نہ چکا ہو اور آرٹیکل 177 کی شق (2) کے پیرہ (اے) کے تحت عدالت عظمیٰ کے جج کے طور پر مقرر ہونے کا اہل نہ ہو ۔ گویا اس اہلیت اور قابلیت کے لوگ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنر لگ سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اعلیٰ علمی و عملی صلاحیت رکھنے والے لوگ 13جنوری کے فیصلے کو سمجھنے میں ناکام رہے جو آئین اور قانون کا فہم رکھنے والا عام وکیل بھی آسانی سے سمجھ سکتا تھا۔ راقم کی رائے میں دونوں صورتوں میں یعنی اگر یہ نااہلی اور نالائقی تھی اور اگر یہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے تو مجرموں کے خلاف بات محض سپریم جوڈیشنل کونسل (S.J.C) میں ریفرنس دائر کرنے تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ آئینی اور قانونی ماہرین کو جائزہ لینا چاہیے کہ چیف الیکشن کمشنر پر آئین کے آرٹیکل 6 لاگو ہو سکتا ہے یانہیں۔ ان سب چیزوں کا جائزہ نہ لیا گیا تو پھر یہ عدل ادھورا ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025