(امیر سے ملاقات ) امیر سے ملاقات قسط 29 - آصف حمید

11 /

جو زندہ اسلام کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ غزہ کےاہلِ ایمان کو

دیکھیں جو اسلام کے لیے شہادتیں پیش کر رہے ہیں ،

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا ہر امتی

کی ذمہ داری ہے اور اس کو ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے

کہ آپ دینی اجتماعیت کے ساتھ منسلک ہو جائیں ، اگر قوم اپنے

حقوق کے لیے ،مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکل سکتی ہے

تو کیا شریعت کے نفاذ کے لیے، منکرات کے خاتمے کے لیے ،

ظلم کے نظام کے خلاف میدان میں نہیں آنا چاہیے ؟

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میز بان :آصف حمید

سوال: اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو لوگوں کے لیے ایک نمونہ بنا کر پیدا کیا تاکہ لوگ ایک زندہ اسلام دیکھیں۔ آج کے اس عظیم فتنوں کے دور میں اللہ تعالیٰ ایسا شخص کیوں نہیں بھیجتا؟(مدثر خان )
امیر تنظیم اسلامی: بے شک اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام؊ کونمونہ بنا کر بھیجا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے آخری رسول محمد ﷺ کو بنا کر بھیج دیا اور ان کو جوکتاب عطا کی وہ بھی محفوظ ہے اور ان کا جو اُسوہ ہے وہ بھی قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا گیا۔ لہٰذا اب مزیدکسی پیغمبر کے بھیجے جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ نبی کریم ﷺنے صرف انفرادی سطح پر اسلام پر عمل کر کے ہی نہیں دکھایا بلکہ ایک نظام عدل اجتماعی قائم کرکے بھی دکھایا۔ آج بھی اسلام کی بنیادی تعلیمات کہیں نہ کہیں زندہ ہیں ۔ مثال کے طور پرپوری دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان کےہاں بچہ پیدا ہوتا ہےتو وہ اس کے کان میں  اذان کہتا ہے ۔اسی طرح پوری دنیا میں مسلمان ظہر کی نماز میں چار فرض پڑھے گا ، نہ پانچ ، نہ تین ۔ حضور ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے مگر حضورﷺ کا اُسوہ آج بھی زندہ ہے۔ اگر اُمتی عمل کرنا چاہے تو اس کو بہت زیادہ تلاش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ حضورﷺ کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے۔اگر رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں کوئی عمل ایک ہی مرتبہ کیا تو وہ بھی آج ریکارڈ پر موجود ہے۔اسی طرح قرآن حکیم ایک کھلی اور زندہ کتاب کے طور پر قیامت تک کے لیے ہمارے پاس موجود ہے۔ پہلے رسول اور نبی کسی ایک قوم یا علاقے میں آتے تھے اور دنیا کے کسی دوسرے علاقے یا قوم میں بھی رسول یا نبی کی ضرورت ہوتی تھی کیونکہ کمیونیکیشن کے چینلز نہیں تھے ۔ کبھی ایک پیغمبر آئے اور چلے گئےلیکن ان کی تعلیم دنیا سے مسخ ہو گئی یا اس میں تبدیلی واقع ہوگئی تو نئے رسول اور کتاب کی ضرورت پیش آتی تھی لیکن رسول اللہﷺ چونکہ آخری نبی ہیں اس لیے آپ ﷺ کا معاملہ مختلف تھا ۔ فرمایا : 
{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (107)} (الانبیاء) ’’اور (اے نبیﷺ!) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا : 
{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا كَآفَّـةً لِّلنَّاسِ بَشِيْـرًا وَّنَذِيْـرًا} (سبا) ’’اور ہم نے آپ کو جو بھیجا ہے تو صرف سب لوگوں کو خوشخبری اور ڈر سنانے کے لیے ‘‘۔
یعنی آپ ﷺ کی نبوت و رسالت گلوبل ہے۔ آپﷺ قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کےلیے پیغمبر اور رحمت ہیں۔آپ ﷺکی رسالت اس دور میں بھی موجود ہے جب پوری دنیا کے آپس میں رابطے ہیں، دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہر آن خبر پہنچتی ہے۔جب آپ ﷺ کی بعثت ہوئی تو اس وقت بھی چین اور دور دراز سے قافلے جدہ تک آتے تھے ۔ حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں جب خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی اور اس میں جو لکڑی استعمال ہوئی وہ روم کے بحری جہاز کی لکڑی تھی جو جدہ کے ساحل پر تھا ۔اسی طرح پچھلی جتنی بھی کتابیں نازل ہوئیں ان میںلوگوں نے تبدیلیاں کردیں  لیکن قرآن پاک کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے محفوظ فرما دیا کیونکہ آپﷺ پر اللہ تعالیٰ نے دین کی تکمیل کا اعلان کر دیا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا :
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْـنَـکُمْ} (المائدہ:3) ’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا ہے۔‘‘
دین مکمل ہو گیا، کتاب قیامت تک کے لیے محفوظ ہو گئی، آپ ﷺکا اُسوہ بھی قیامت تک کے لیے محفوظ ہے لہٰذا اب کسی نئے نبی یا رسول کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ جو زندہ اسلام دیکھنا چاہتاہے تووہ آج بھی ان لوگوں کی زندگیوں میں دیکھ سکتا ہے جو اسلام کے لیے شہادتیں پیش کر رہے ہیں ۔ آج اگر غزہ کے بچوں ،بوڑھوں ، عورتوںاور مردوںنے اسلام پر استقامت کا مظاہر ہ پیش کیا ہے تو ایک طرف عالمی ضمیر جاگا ہے اور دوسری طرف لوگ ان کی استقامت کو دیکھ کر اسلام لا رہے ہیں۔ آسٹریلیا کی 50 خواتین نے غزہ کی عورتوں کو دیکھ کر اسلام قبول کر لیا ۔ اسی طرح انفرادی سطح پر جو لوگ زندہ اسلام دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ نماز جیسی عبادت کو دیکھ لیں ۔ جمعہ و حج کے اجتماعات دیکھ لیں ۔ البتہ اجتماعی سطح پر جو اسلام کا مکمل نظام ہے اس کے قیام کے لیے جدوجہد ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
سوال: میں اس وقت چائنہ میں مقیم ہوں اور پی ایچ ڈی کے اختتامی مراحل طے کر رہا ہوں۔ ایک دفعہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحومؒ نے فرمایا تھا کہ جب تک انسان اپنی ذات پر خلافت قائم نہ کر لے تو وہ زمین میں خلافت قائم کرنے کی جدوجہد کا بھی اہل نہیں ہو سکتا۔ میرا سوال یہ ہے کہ آج کے اس پُرفتن دور میں ہم کیسے اپنے آپ کو نفسانی خواہشات و گناہوں سے محفوظ رکھیں اور کیسے اپنے اوپر دین کو قائم کریں۔ اگرچہ دل میں بے پناہ خواہش بھی ہو کہ ہم اللہ کی زمین میں خلافت قائم کرنے کے لیے جدوجہد میں شامل رہیں، لیکن بتقاضائے بشری گناہ سرزد ہو جاتے ہوں تو کیا ہم کسی بھی صورت میں خلافت قائم کرنے کی جدوجہد میں شمولیت اختیار کرنے کے اہل نہیں ہیں؟ (محمدابوبکر، چائنہ)
امیر تنظیم اسلامی: قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَo} (النحل:128) ’’یقیناً اللہ اہل ِتقویٰ اور نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔‘‘
ڈاکٹر اسراراحمدؒ یہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ہم دین کے غلبے ، نظام خلافت کے قیام اور کلمہ کی سربلندی کے لیےجدوجہد کرنا چاہتے ہیں تو اس کا آغاز اپنی ذات سے کرنا ہوگا ، کیونکہ اللہ کی مدد اور نصرت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ، باغیوں اور سرکشوں کے لیے اللہ کی مدد نہیں آتی۔اسی طرح اجتماعی سطح پر اللہ کی مدد کے حصول کے لیے قرآن میں ارشاد ہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} (محمد:7) ’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
ڈاکٹر صاحبؒ فرمایاکرتے تھے کہ دین کی جدوجہد بڑی پاکیزہ جدوجہد ہے۔ اس کے لیے افراد بھی وہ درکار ہیں جن کا کردار پاکیزہ ہو ۔ ناپاک قسم کے لوگوں کے لیے اللہ کی نصرت کا وعدہ نہیں ۔ البتہ ایک پہلو کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ انبیاء کے بعد کوئی بھی معصوم نہیں ہے ۔ انسان سے خطا ہو سکتی ہے ۔ حضورﷺ کی حدیث ہے :
’’تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں‘‘۔
خطا ہو جائے تو اب پہلا کام توبہ کرنا ہے اور پھر صراط مستقیم پر چلنے کی کوشش کرنا ہے ۔ دوسرا نکتہ یہ ہے جو قرآن ہمیں بتاتا ہے : 
{یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَO} ( توبہ: 119 )’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کی معیت اختیار کرو۔‘‘
اپنے آپ کو خیر اور نیکی کے ماحول سے جوڑنے ، دینی اجتماعیت میں آنے سے بندے میں اصلاح کا احساس پیدا ہوگا اور وہ کردار کے لحاظ سے بہتری کی طرف گامزن ہو گا اور غلبہ دین کی اجتماعی جہدوجہد میں بھی آگے بڑھے گا جو ہم پر فرض ہے ۔ اس فرض کو ادا کیے بغیر نجات ممکن ہی نہیں ۔ جیسے سورۃ العصر میں فرمایا : 
{اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(3)}’’سوائے اُن کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘
اگر آخرت کے دائمی خسارے سے بچنا ہے تو ایمان بھی ضروری ہے ،اعمال صالح بھی ضروری ہیں ، مل جل کر حق کی وصیت کرنا ، اقامت دین کی جدوجہد کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر اس راستے میں جو مشکلات آئیں گی ، جو تکالیف اور آزمائشیں آئیں گی ان میں مل جل کر ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا بھی ضروری ہے ۔ اس تناظر میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا ہے کہ کوئی انسان کہے کہ میں اقامت دین کی جدوجہد نہیں کر سکتا ۔ اُخروی خسارے سے بچنے کے لیے اُسے ہر صورت میں یہ فریضہ ادا کرنا ہے ۔اس ارادے کے ساتھ بندہ جب کھڑا ہو تو اللہ اس کی مدد کرے گا ۔ حدیث میں ہے کہ اگر کوئی بالشت بھر اللہ کی طرف آتاہے تو اللہ ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہے ، اگر کوئی ایک ہاتھ اللہ کی طرف بڑھتا ہے تو اللہ اس کی طرف دوہاتھ بڑھتا ہے ۔ اگر کوئی چل کر اللہ کی طرف آتاہے تو اللہ دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطان وسوسے ڈالتا ہے ۔اس سے بچنے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ہر نماز کے بعد آیت الکرسی، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لیے اس کا اہتمام بھی ضروری ہے تاکہ انسان اقامت دین کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے کوشش جاری رکھ سکے ۔
سوال:اس وقت یورپ اور امریکہ میں لاکھوں مسلمان آباد ہو چکے ہیں۔ان کا سارا پیسہ وہاں بینکوں میں ہی ہوتا ہے ۔بینک اس پیسے کو سودی کاروبار میں لگا تے ہیں اور کچھ سودی منافع ان مسلمانوں کو بھی دے دیتے ہیں۔ اس طرح نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ سود میںملوث ہوتے ہیں ۔اس کا کوئی قابل عمل حل بتائیں؟(صدیق، امریکہ)
امیر تنظیم اسلامی:پہلی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ مسلم ممالک کو چھوڑ کر غیر مسلم ممالک میں آباد ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں، یہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن جہاں تک بینکوں کا مسئلہ ہے تو اس وقت کوئی بھی مسلم ملک ایسا نہیں ہے جس میں بینک سودی کاروبار نہ کرتے ہوں ۔ اس صورت میں عارضی حل یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ کھول لیں جس میں آپ کو سود نہیں ملے گا ۔ سودی اکاؤنٹ کھولنے سے پرہیز کریں کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے سود لینے والے ، دینے والے ، لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔ کئی غیر مسلم ممالک میں مسلمان زیادہ کرائے پر رہ لیتے ہیں لیکن مارگیج پر مکان حاصل نہیں کرتے ۔ یعنی جو سود سے بچنے کی کوشش کرنا چاہے تو وہ یورپ اور امریکہ میں بھی کر سکتا ہے اور اگر کوئی نہ بچنا چاہے تو وہ پاکستان اور کسی بھی مسلم ملک میں نہیں بچ سکتا ۔
سوال: بینک تین طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو صرف کنونشنل بینکنگ کر رہے ہیں ۔دوسرے وہ ہیں جو کنونشنل ہیں لیکن ساتھ اسلامک بینکنگ کی ونڈو بھی کھولی ہوئی ہے۔ تیسرے وہ ہیں جو اسلامی بینک کہلاتے ہیں اور انہوں نے کچھ فتاویٰ بھی حاصل کر رکھے ہیں کہ ان کا بینک سسٹم اسلام کے مضاربت اور مشارکت کے اصولوں کے مطابق ہے اور اس میں سودی کاروبار نہیں ہے ۔ کیا یہ ترجیح نہیں ہونی چاہیے کہ سب سے پہلے کنونشنل بینکنگ سے جان چھڑائی جائے اور اگر بہت ہی ضروری ہوتو وہاں اکاؤنٹ کھلوایا جائے جہاں گرے ایریا(Grey Area) کم ہو؟
امیر تنظیم اسلامی: جہاں تک مروجہ اسلامی بینکنگ کا تعلق ہے تو اس حوالے سے علماء میں اختلاف ہے ۔ اگر ایک طرف حلال ہونےکے فتاویٰ ہیں تو دوسری طرف حرام کی بات بھی موجود ہے ۔ اب جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو مفتی صاحب کے فتویٰ کے مطابق اسلامی بینکنگ سے استفادہ کر رہے ہیں لہٰذا یہ مفتی صاحب اور ان کے رب کا مسئلہ ہے تو ایسے لوگوں سے یہ بھی پوچھا جائے کہ پردے ، شادی بیاہ اور وراثت کے مسائل میں بھی آپ مفتی صاحب کے فتاویٰ کی اسی طرح پیروی کر رہے ہیں؟  دیگر شرعی احکام اور دین کے تقاضوں کے متعلق بھی آپ نے مفتی صاحب سے معلوم کیا ہے ؟ اگر میں ایک خاص مطلب کے پہلو کے اعتبار سے تو فتویٰ لے رہا ہوںجبکہ دیگر دینی تقاضوں اور شرعی احکام کی میں دھڑلے سے خلاف ورزی کر رہاہوں تو کہیں میں دین کے حصے بخرے تو نہیں کر رہا ؟ایسی صورت میں سورۃ البقرۃ کی یہ آیت ذہن میں رہنی چاہیے :
{اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَـکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج} ( آیت: (85 ’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے؟‘‘
اس حوالے سے تنظیم اسلامی کی شوریٰ میں ڈھائی تین گھنٹہ مشاورت ہوئی۔ دونوں طرف کے علماء کے فتاویٰ بھی ہم نے لیے،ماہرین کی آراء بھی لیں اور اس کے بعد ہماری شوریٰ میںچند احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات طے کی گئی کہ ہم احتیاط کا پہلو اختیار کریں گے ۔ ان میں یہ حدیث بھی ہے کہ جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور جو غیر مشکوک ہے اس کو اختیار کرلو ۔ یعنی تنظیم اسلامی کے فورم پر یہ رائے قائم کی گئی کہ اگر اسلامی بینک میں کوئی کرنٹ اکائونٹ کھولتا ہے توٹھیک ہے لیکن اگر کوئی وہاں انوسٹمنٹ کرنا چاہتا ہے یا جاب کرنا چاہتا ہے تو اس کی اجازت ہم اپنے رفقاء کو نہیں دیتے ۔ باقی کچھ حضرات اگر ان علماء کے فتوے پر عمل کرتے ہیں جو اسلامی بینکنگ کے حق میں ہیں تو وہ ان کااور ان کے رب کا معاملہ ہے۔ پوری دنیامیں سودی نظام ہی رائج ہے لہٰذا ہم اس کے اثرات سے بچ نہیں سکتے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ سود کا دھواں تو ہر شخص ہی لے رہا ہو گا۔ ٹھیک ہے ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ کھلا ہوا ہے ہم سود نہیں لیتے لیکن اسی پیسے پر بینک سود لیتا ہے لہٰذا ہم بھی کسی نہ کسی طرح اس میں ملوث ہیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ صاحب فرماتے تھے کہ غلطی تو ہورہی ہے مگر اس غلطی کا کفارہ یہ ہے کہ ہم اس نظام سے کم سے کم استفادہ کریں اور زیادہ سے زیادہ اس نظام کو بدلنے کی جدوجہد کریں تاکہ آج اگر موت آجائے تو کل اللہ کے سامنے معذرت پیش کر سکیں کہ اے میرے رب! میں نے اپنی طرف سے سود سے بچنے کی کوشش کی جس حد تک بچ سکتا تھا اس کے بعد میں نے تیرے دین کے غلبے کی جدوجہد کی ۔ تو اسے کفارے کے طور پر قبول فرما۔
سوال:یہاں پر لوگ اپنی کمپنیوں اور مقامی حکومت سے پنشن لیتے ہیں جو سود کے پیسے سے آتی ہے۔ اس کے بغیر یہاں کوئی چارہ نہیں اس پر بھی رہنمائی فرما دیں؟
امیر تنظیم اسلامی: اللہ کے رسولﷺ کی بڑی پیاری حدیث ہے کہ اپنے دل سے فتویٰ لیں۔ البتہ اگر بعض کمپنیاں ملازم کی تنخواہ سے ہی کٹوتی کرتی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہی جمع شدہ پیسہ واپس لوٹاتی ہیں تو وہ معاملہ الگ ہے لیکن کلیتاً ایک سودی ادارے کا حصہ بننااور پھر اس کے بعد اس کے بینیفٹس(Benefits) سے استفادہ کرنا ، اس کی بالکل گنجائش نہیں ہے ۔ اس حوالے سے علماء سے بھی فتاویٰ لیے جاسکتے ہیں ۔
سوال: اسلامی تحریکیں اس وقت جگہ جگہ حکومتوں کے جبرو تشدد کی فضا میں سانس لے رہی ہیں ۔ آپ کی نظر میں وہ کون سا مناسب ترین رویہ ہے جو اسلامی تحریکوں کو ان حکومتوں کے بارے میں اختیار کرنا چاہیے؟( راحیل گوہر صدیقی، کراچی)
امیر تنظیم اسلامی:ماشاءاللہ! بہت قیمتی سوال ہے اورحالات سے مطابقت بھی رکھتا ہے ۔اللہ کے کلام سے پتا چلتا ہے کہ کسی بھی نبی کا دور ایسا نہیں گزرا جس میں  اہل ایمان جبر کا شکار نہ رہے ہوںاور ان کی زندگی اجیرن نہ کی گئی ہو اور ان کو صبر کے مختلف مراحل سے گزرنا نہ پڑا ہو۔ محمد مصطفیٰ ﷺ کا مکی دور بالخصوص اس جبر کی کیفیت میں گزرا ہے ۔ دو تہائی قرآن تو مکی سورتوں پر مشتمل ہے جن میں حضورﷺ کی سیرت بھی ہے اورپچھلے انبیاء کی سیرت اور ان کے دور کے واقعات بھی ہیں ۔ گویا پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلامی تحریک کے جو بھی کارکن ہیں وہ اپنا تعلق قرآن حکیم سے مضبوط کریں ۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازوں کا تحفہ عطا فرمایا جس کی ہر رکعت میں قرآن کی تلاوت ہوتی ہے اور یاددہانی ہوتی رہتی ہے ۔ اس کے بعد سیرت رسولﷺ میں ہمارے لیے نمونہ ہے ۔ حضرت فاطمۃ الزہرا؅ فرماتی ہیںکہ جب مصائب تمہیں پریشان کریں تو میرے ابا جانﷺ کو دیکھ لو کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ جتنا اللہ کی راہ میں مجھے ستایا گیا کسی کو نہیں ستایا گیا ۔ رہنمائی بھی آپ ﷺ کے اُسوہ سے لی جائے گی کہ ان حالات میں قرآن سے جڑے رہنا اور نماز اور صبر سے اللہ کی مدد حاصل کرنا ہے ۔ حضورﷺ راتوں کو اُٹھ کر رب کے حضور گڑگڑاتے تھے ۔ دعائیں مانگا کرتے تھے ۔ ازروئے الفاظ قرآنی:
{فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ(7) وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ(8)}(الم نشرح : 7،8) ’’پھر جب آپ ؐ(فرائض نبوت سے) فارغ ہو جائیں تو اسی کام میں لگ جایئے ۔اور اپنے رب کی طرف راغب ہو جایئے۔‘‘
ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ اسلامی تحریک کے کارکنوں کوبھی چاہیے کہ وہ قرآن کو اپنے دلوں میں اُتارنے کی کوشش کریں ، اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام ؇ کی زندگیوں کا مطالعہ کریں اور صبر کے پہلو کو مدنظر رکھیں ۔ اللہ پر مکمل بھروسا رکھیں اور ساتھ ساتھ اللہ کا ذکر کرتے رہیں ۔ قرآن میں فرمایا :
{وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُط} ’’اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔‘‘(العنکبوت: 45)
پھر یہ کہ :
{وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(3)}(العصر) ’’اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘
جب بندہ جماعتی زندگی اختیار کرتا ہے تو وہاں ہم خیال اور ہم مقصد لوگ ہوں گے ۔ وہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں گے اور ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنیں گے ۔ صبر کے ان مراحل سے گزر کر ہی وہ لیڈنگ رول ادا کر سکیں گے ۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اسلامی تحریکوں کو موجودہ حکومتوں کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیےتو پاکستان میں اس وقت حکمران ہوں ، جرنیل ہوں ، اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ہوں ، سب کلمہ گو مسلمان ہیں ۔ ہمارا کام ہے کہ ان کو حق کی دعوت دیں ۔ پھر اگر دیکھا جائے تواس مملکت خداداد پاکستان میں اقامت دین کی جدوجہد کے مواقع دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ اگر اب بھی ہم اپنا حصہ نہیں ڈال رہے تو ہمیں اور کس بات کا انتظار ہے۔ ہم مقتدر لوگوں کو دعوت حق دے سکتے ہیں کہ ہم سب محمد مصطفیٰ ﷺکے اُمتی ہیں ۔ اقامت دین کی جدوجہد جتنی ہمارے اوپر فرض ہے ، اتنی آپ پر بھی فرض ہے ۔ یہ ہمارا کوئی ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ فریضہ دعوت کے تحت ان کو یہ یاددہانی کروانا ضروری ہے ۔ پھر ہو سکتا ہے انہی لوگوںمیںسے کچھ لوگ اقامت دین کا ذریعہ بن جائیں۔ کبھی میدان اُحد میں 70 عظیم صحابہؓ شہید ہوئے اور ذریعہ خالد بن ولیدؓ بنے ۔ بعد میں وہی خالد ؓ سیف من سیوف اللہ قرارپائے جب ایمان اُن کے دل میں اُتر گیا۔ وہی عمر فاروق ؄بعد میں غلبہ اسلام کا ذریعہ بنے جو کبھی تلوار لے کر رسول اللہ ﷺ کے خلاف نکلے تھے ۔
سوال:جدید دور کے لیے اسلام کا اجتماعی فلسفہ حیات کیاہے؟
امیر تنظیم اسلامی:لفظ جدید جب بھی آتا ہے تو یہ اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔ جدید فلسفہ حیات صرف اسلام ہے ۔ قرآن قیامت تک کے لیے ہدایت ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے سراپارحمت و ہدایت ہیں ۔ دین مکمل ہے ۔ اب صرف اجتہادی مسائل پیش آئیں گےاور کتاب و سنت کے اصول اور دلائل کو سامنے رکھ کر اجتہادی بصیرت رکھنے والے اہل علم ان کا حل پیش کر دیں گے۔ اسلام کا اصل اصول توحید ہے ۔ اللہ کو ایک ماننا ۔ اس کا لازمی تقاضا اللہ کی ماننا ۔ یعنی میرے انفرادی معاملات میں بھی اللہ کا حکم نافذ ہو اور اجتماعی نظام زندگی میں بھی اللہ کا حکم ہر چیز پر بالا دست ہو ۔ اجتماعی زندگی کے تین گوشے ہیں۔ سیاست ، معیشت اور معاشرت۔ اس موضوع پر محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒکے تفصیلی خطبات بھی موجود ہیں اور ان کا ایک کتابچہ بھی دین کا جامع تصور کے عنوان سے موجود ہے ۔توحید صرف عقیدے کا مسئلہ نہیں یا توحید کے مظاہر کا نظر آنا فقط چند انفرادی معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ توحید کے مظاہر کا نظر آنا سیاست ، معیشت اور معاشرت میں بھی مقصود ہے ۔ ڈاکٹرصاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ سیاست کا اصل اصول یہ ہے کہ زمین کا خالق ، مالک اور حاکم اللہ ہے لہٰذا زمین پر حکم بھی اسی کا چلنا چاہیے۔ بندے حاکم نہیں بلکہ بندوں کے لیے عبد کالفظ آیا جس کے معنی ہیں تابعدار ۔ اللہ کے نیک بندے زمین پر اللہ کے خلیفہ ہوں گے یعنی اللہ کا حکم نافذ کریں گے ۔ یہ سیاست میں اصل اصول ہےجو توحید کا عکس ہے۔ اسی طرح معیشت کا پہلا اصول یہ ہے کہ سب کچھ اللہ کا ہے ۔ آیت الکرسی میں ہم پڑھتے ہیں :
{لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط } ’’جو کچھ آسمانوں اور زمین میںہے سب اُسی (اللہ)کا ہے۔‘‘
ہمارےپاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کا ہے اور ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے ۔ البتہ آزمائش کے لیے اللہ نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ ہم اللہ کی مرضی کے مطابق وسائل کا استعمال کرتے ہیں یا اس سے سرکشی کرتے ہوئے من مانی کرتےہیں ۔ ہر شخص نے اس کے بارے میں اللہ کو جواب دینا ہے ۔ اسی طرح معاشرت کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہم سب اللہ کے بندے ہیں ، بڑائی کا معیار صرف تقویٰ ہے ۔ کسی نسل ، جغرافیہ ، زبان ، رنگ کی وجہ سے کسی کو کسی پر کوئی امتیاز حاصل نہیں ۔ اللہ کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر عزت اس کے لیے ہے جو سب سے بڑھ کر اللہ کا تقویٰ اختیار کرے۔ آپ دیکھیں امریکہ اتنی بڑی جمہوریت ہے لیکن کالے اور گورے کا فرق وہاں بھی ختم نہ ہو سکا اور نسلی فسادات ہوتے ہیں ۔ بھارت بھی جمہوریت کا دعوے دار ہے مگر برہمن اور شودر کی تقسیم ختم نہ ہو سکی۔ ان معاملات کا حل صرف اسلام کے پاس ہے ۔ اسلامی فلسفہ حیات بنیادی طور پر توحید کی دعوت ہے ۔ عقیدہ توحید کا عکس ہمارے انفرادی معاملا ت میں بھی نظر آنا چاہیے اور اجتماعی معاملات میں بھی ۔
سوال:پوری امت مسلمہ میں اسرائیل کے خلاف شدید غصہ ہے جبکہ دوسری جانب امت کے حکمران اللہ کے دین سے رشتہ ناطہ توڑ کراسرائیل اور دیگراسلام دشمن قوتوں کی بندگی میںلگے ہوئے ہیں ۔ شریعت کے مطابق جب تک حکمران کتاب و سنت کے مطابق فیصلے کریں گے ان کی اطاعت فرض ہے لیکن جب وہ اللہ کے دین سے غداری کریں تو پھر نہ ان کی سنی جائے گی اور نہ مانی جائے گی ۔ کیا ہمارے حکمرانوں کا منافقانہ طرزعمل مجاہدین کے موقف کو جواز فراہم نہیں کرتا؟ علماء ان سود پرست اور باطل پرست ریاستوں کے خلاف کیوں نہیں اٹھتے؟( محمد بن حامد طیب، ہندوستان)
امیر تنظیم اسلامی:رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے:((لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃالخالق)) ’’مخلوق کی ایسی اطاعت جائز نہیں جس میں خالق کی نافرمانی ہو۔‘‘مسلم حکمران کہلانے کے مستحق وہی حکمران ہو سکتے ہیں جن کی ترجیح اول اسلام ہو ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتاہے :
{اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط } ( الحج: 41 ) ’’وہ لوگ کہ اگر انہیں ہم زمین میں تمکن ّعطا کر دیں تووہ نماز قائم کریں گے‘اور زکوٰۃ ادا کریں گےاور وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘‘
حکمرانوں کا نماز قائم کرنا عام آدمی کی طرح نہیں کہ مسجدمیں جا کے بس نماز ادا کر لی بلکہ نماز کا پورا نظام قائم کرنا ان کی ذمہ داری ہے ۔ اسی طرح جمعہ کا خطاب وقت کے حکمران یا اس کے نمائندے نے کرنا ہے ۔ عیدین کا خطبہ حکمران یا اس کے نمائندے نے دینا ہے ۔ اسی طرح ان کے ذمہ صرف زکوٰۃ دینا نہیں بلکہ زکوٰۃ کا پورا نظام قائم کرنا ہے ۔ عشر کا پورا نظام قائم کرنا ہے ۔ اسی طرح نیکی کے فروغ اور بدی کو روکنے کا پورا نظام قائم کرنا ان کی ذمہ داری ہے ۔ سب سے بڑھ کر اسلام کا نفاذ مسلم حکمران کی ذمہ داری ہے ۔ اس کے برعکس اگر حکمران شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں گے تو لامحالہ ان کی بات کو نہیں مانا جائے گا۔اگلا سوال یہ ہے کہ علماء ان باطل پرست حکمرانوں کے خلاف کیوں نہیں اُٹھتے ؟ علماء بھی دوطرح کے ہیں : علماء حق اور علماء سو ۔ علمائے سو تو ہر دور میں دربار سے وابستہ رہے ہیں ۔ علماءحق کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہےکہ ان سے زمین کبھی خالی نہیں رہے گی ۔ تعداد کےلحاظ سے کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن ہر دور میں ایسے علماء رہیں گے جو حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کریں گے ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ بھی اداکریں گے ۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں ۔ البتہ نہی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کرنے کے تین درجات حدیث میں بیان ہوئے ہیں : بدی کو دیکھو تو اپنے ہاتھ سے بدل دو، ہاتھ سے بدلنے کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے بدلو ، زبان سے بھی بدلنے کی طاقت نہیں ہے تو دل میں برا جانو ۔ مسلم شریف کی روایت میں اس کے بعد فرمایا : یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔ اگر آج ہم مسلم حکمرانوں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ شریعت کے نفاذ کی کوشش نہیں کر رہے، وہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کر رہے تو یہ غلط کر رہے ہیں ۔میڈیا کے ذریعے ، مختلف ذرائع سے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور حکمرانوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانا ہم پر فرض ہے اور یہ فرض ہر مسلمان کا ہے، صرف علماء یا دینی جماعتوں کا نہیں کیونکہ قرآن کریم ہمیں یہ بتارہا ہے: {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ}(آل عمران:110) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘تم حکم کرتے ہو نیکی کااور تم روکتے ہو بدی سے۔‘‘
روزمحشر میں نے خود اپنا جواب دینا ہے میری جگہ کوئی عالم جواب نہیں دے گا ۔امام قرطبیؒ کا بڑا پیارا قول ہے کہ جو امت والے کام کو انجام دینے میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہا وہ امتی کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا ہر امتی کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ دینی اجتماعیت کے ساتھ منسلک ہو جائیں ۔ وہ جماعت جب یہ کام کرے گی تو میرا حصہ بھی اس میں شامل ہوتا چلا جائے گا۔ اگلی بات یہ ہے کہ امت اپنے حقوق کے لیے ،مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکل سکتی ہے تو کیا شریعت کے نفاذ کے لیے ، منکرات کے خاتمے کے لیے ، ظلم کےنظام کے خلاف اسے میدان میں نہیں آنا چاہیے ؟ یہ مستقل دعوت تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہم پیش کرتے ہیں۔
سوال:ہم سب امام حسین ؄ کے خروج کو حق مانتے ہیں کیونکہ انہوں نے خلافت کو بچانے اور موروثی اور ملوکی بادشاہت سے نجات کے لیے تلوار کھینچی۔ آج جب ہمارے حکمران یزید سے بھی بدتر ہیں جو حدود تک نافذ نہیں کرتے۔ کیا آج اُسوہ حسینی پر عمل کی ضرورت نہیں ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:مختصراً یہ ہے کہ سیدنا حسین ؄ نے خروج کیا اور عزیمت کا راستہ اختیار کیا لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ وہ گھر کی خواتین اور بچوں کو بھی ساتھ لے کر گئے تھے ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ ؄جنگ کے ارادے سے نہیں نکلے تھے ۔ اسی لیے انہوں نے بعد میں جا کر کچھ آپشنز بھی دیے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مجھے سرحدوں کی طرف جانے کی اجازت دی جائے تاکہ میں جہاد میں حصہ لے سکوں ۔ پھر صحابہ؇ کی ایک جماعت نے انہیں روکنے کی کوشش بھی کہ موجودہ حالات اس سفر کے لیے سازگار نہیں ہیں ۔ ان میں عبداللہ بن عباس ،عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن زبیر؇ جیسے صحابہ بھی شامل تھے ۔ ان کی نیتوں پر کوئی شبہ کرے تو اپنے ایمان کی خیر منائے۔اجتہادی فیصلے میں اختلاف کی سند خود اللہ کے رسولﷺ نے عطا فرمائی ہےکہ اجتہادی معاملے میں کوئی صحیح فیصلے پر پہنچے تو دہرا اجر اور کوئی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچا تو ایک اجر عطا ہوگا۔ ہم ان تمام صحابہ کرام؇ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سب کے سب خیر پر تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے لیے اُسوہ صرف نبی اکرم ﷺ کو قرار دیا گیا ہے :
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:21) ’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘
منہج انقلاب نبوی ﷺ محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے خطبات کا یہ ایک متواتر موضوع رہا ہے ۔ ایک اڑھائی گھنٹے کا خطاب رسول انقلابﷺ کا طریقہ انقلاب کے موضوع پر بھی ہے ۔ یہ دونوں کتابچوں کی صورت میںبھی موجو دہیں ۔ مکہ مکرمہ کے 13 برس کے دوران 360 بت اللہ کے گھر میں رکھے ہوئے تھے۔ رسول اللہﷺ نے ایک کو بھی ہاتھ نہیں لگایا۔ لیکن جب مکہ فتح ہو گیا تو سب سے پہلا کام ہی یہ کیا کہ ان بتوں کو توڑ دیا۔ اُسوہ رسولؐ کے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان حکمران اگر شریعت کی حدود کو پامال کر رہے ہوں تو ان کے خلاف خروج ہوسکتا ہے ۔ اس پر علماء کی آراء موجود ہیں اور کچھ شرائط بھی ہیں جو احادیث اور آثار صحابہؓ کو مدنظر رکھتے ہوئے عائد کی گئی ہیں ۔ وہ شرائط اگرپوری ہوں گی تو خروج کا معاملہ ہوگا ورنہ ہمارے ذمہ دعوت دینا اور آواز بلند کرنا ہے ۔ قارئین اگر ڈاکٹراسراراحمدؒ کے کتابچے رسول انقلابﷺ کا طریقہ انقلاب کا مطالعہ کریں تو وہاں امام ابو حنیفہؒ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی آراء پر مشتمل خروج کی تفصیل ان کو مل جائے گی ۔ ان شاء اللہ ۔