اداریہ
خورشید انجم
آپریشن نہیں، مرہم کی ضرورت ہے…
انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز میں خلافت کا ادارہ ایک ایسے پودے کی مانند ہو گیا تھا جس کی جڑ سوکھ چکی ہو اور پتے زرد ہو چکے ہوں۔ اس کی نشوونما ایک عرصہ سے تعطل کا شکار تھی۔ 3مارچ 1924ء کو ترک ِ نادان نے خلافت کی قبا چاک کر دی گویا اس پودے کو ہی اُکھاڑ پھینکا۔ عالم کفر کے لیے یہ ایک عظیم فتح کا دن تھا۔ اُسے جشن منانے کا حق تھا۔ دُکھ اورتکلیف دہ امر یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو احساس ہی نہ ہوا کہ وہ کس قدر عظیم سانحہ سے دوچار ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ اور مغربی تہذیب کے متاثرین مسلمانوں کا تاثر یہ تھا کہ یہ ادارہ کھوکھلا ہو چکا تھا تب اِسے خود سلطنت عثمانیہ کے ورثاء نے دھتکار دیا ہے۔ مصطفیٰ کمال پاشا جو اتاترک کہلواتے تھے، اُنہوں نے اس سے لا تعلقی بلکہ واضح الفاظ میں اس کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے تو دور دراز کے مسلمانوں کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ اس کا غم کھائیںـ۔ البتہ صرف برصغیر کے مسلمانوں نے اِس شکستگی کا درد محسوس کیا اور سچی بات یہ ہے کہ گہرائی سے کیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے ایسی زور دار احتجاجی تحریک چلائی کہ ہندو جماعت کانگرس کو محسوس ہوا کہ اگر وہ اس تحریک سے لا تعلق رہے گی تو برصغیر کے عوام اُسے رد کر دیں گے اور ان کی انگریز کے خلاف آزادی کی تحریک بے معنی ہو کرر ہ جائے گیـ۔ لہٰذا مہاتما گاندھی نے تحریک خلافت میں خواہی نخواہی حصہ لینے کا اعلان کر دیا۔ جہاں تک برصغیر کے مسلمانوں کا معاملہ ہے حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ اُن کا مذہب سے عملی تعلق قابل رشک نہیں ہے، البتہ اُنہیں مذہب سے شدید جذباتی لگاؤ ہے۔ یہ تحریک اُس جذباتی تعلق کا نتیجہ تھی۔ ہمیں حیرت اُن مغرب زدہ مسلمانوں پر ہے جو اس ادارے کے خاتمے کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ مغربی قوتیں خلافت عثمانیہ کو انتہائی کمزور کرنے میں کامیاب ہو چکی تھیں اور اِس کی رٹ قریباً ختم ہو چکی تھی۔ لیکن اس کی اہم وجہ مسلمانوں کی اپنی عیش پرستی اور کم کوشی بھی تھی لیکن وہ بھول گئے کہ اس ادارے کی ایک علامتی (symbolic)حیثیت بھی تھی۔ کاش! اس ادارے کی علامتی پوزیشن کو یہ مسلمان ایلیٹ حاکم انگریز سے ہی سیکھ لیتے۔ بہرحال آج ادارۂ خلافت کو منہدم ہوئے سو برس گزر چکے ہیں اور امت ِ مسلمہ ایک اجتماعیت کی بجائے 57ٹکڑوں (مسلم ممالک) میں بٹی ہوئی ہے۔
ہم اپنے ناظرین کو ایک تاریخی واقعہ سنائے دیتے ہیں تاکہ وہ جان سکیں کہ انگریز ادارہ خلافت کی اہمیت سے کس قدر واقف تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ اسیر مالٹا جب قید میں تھے، دورانِ اسیری ایک روز اُن کی انگریز سپرنٹنڈنٹ جیل سے ملاقات ہوئی۔ مولانا نے اس سے کہا کہ آپ لوگ کیا ہمارے ادارہ خلافت کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ یہ ادارہ انتہائی لاغر اور کمزور ہو چکا ہے ۔ اِسے رہنے دیں جیسا تیسا ہے چلتا رہے، تو وہ انگریز ہنس کر بولا: مولانا اتنے بھی بھولے نہ بنیں۔ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی خوب واقف ہیں کہ ادارہ خلافت کی کیا اہمیت ہے؟ ہم اِسے ختم کرکے رہیں گے۔ اس کا نام و نشان تک نہیں رہنے دیں گے۔
آج امتِ مسلمہ بدترین ذلت اور رسوائی کا شکار ہے۔ جس طرف بھی نظر دوڑائیں مسلمان کا خون ارزاں دکھائی دیتا ہے۔ غزہ پر اسرائیل کی مسلسل وحشیانہ بمباری کو شروع ہوئے تقریباً ساڑھے نو ماہ ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کو پون صدی گزر چکی ہے اور بھارت نہ صرف کشمیر کے مسلمانوں پر بدترین ظلم و ستم ڈھا رہا ہے بلکہ بی جے پی کے گزشتہ دو ادوارِ حکومت کے دوران خود بھارت کے مسلمانوں پر بھی زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ حالیہ بھارتی الیکشن میں اکھنڈ بھارت اور ہندوتوا کا سرخیل نریندر مودی تیسری مرتبہ بر سراقتدار آچکا ہے۔ میانمار کے تقریباً دس لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس سے قبل افغانستان، عراق اور لیبیا کی ’’دہشت گردی کے خلاف (نام نہاد) جنگ‘‘ کی آڑ میں اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ عربوں کی بات کریں تو ہر گزرتے دن کے ساتھ ’’حب الدنیا و الکراہیۃ الموت‘‘ کی تصویر دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں سے اکثر باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔
جہاں تک مملکتِ خداداد پاکستان کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ 14 اگست 1947ء کو جدید دنیا جس کی داغ بیل سیکولر ازم اور بے خدا و بے دین ریاست کی بنیاد پر رکھی گئی ہے اُس نے سقوطِ خلافت ِ عثمانیہ کے بعد پہلی بار یہ نعرہ سنا "Sovereignty Belongs to God alone" اس سے نظریہ ٔپاکستان پر مہر تصدیق ثبت ہو گئی۔ قوم کی سمت کا تعین ہوگیا۔ دنیا کو بتا دیا گیا کہ ریاست پاکستان کا مذہب اسلام ہو گا اور پاکستان اسلامی فلاحی ریاست بنے گا۔ لیکن مفاد پرست سیاست دانوں نے گاڑی پٹڑی پر چڑھنے نہ دیـ۔ لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ آج تک سول بیوروکریسی، ملٹری بیوروکریسی اور سیاست دان پاکستان میں قراردادِ مقاصد کے عملی نفاذ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ چند سال پہلے تک اسلام کے نفاذ کا نعرہ ایک انتخابی نعرہ بنا رہا۔ آج کا سیاست دان او ر پارلیمنٹ کے ارکان اب اِس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ حکمران تو اس حوالے سے کبھی بھی سنجیدہ نہیں تھے۔ اب عوام کو بھی چپ لگ گئی ہے۔ ساری قوم حال مست مال مست ہے۔ منہ سے جو چاہے کہیں ہم مسلمانانِ پاکستان شب و روز کی جدوجہد صرف اور صرف اس مادی دنیا کے لیے کرتے ہیں۔
گویا اپنی قوتوں کو مجتمع کرنے کی بجائے ہم تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ گزشتہ دنوں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں سول اور عسکری قیادت کی جانب سے ’عزمِ استحکام‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا گیا جو کہ ہمارے نزدیک ملک کے امن وامان کے لیے مزید تباہ کن ثابت ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ تک امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بنے رہنے کے باعث ملک میں نفرتیں بڑھیں اور پاکستان کو تقریباً دو دہائیوں تک بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے عفریت کا دوبارہ سر اُٹھانا انتہائی تشویش ناک ہے اور دہشت گردوں اور اُن کے اندرونی اور بیرونی سہولت کاروں کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے لیکن ماضی کے فوجی آپریشنز میں بھی اصل اور بڑا نقصان ملک کے پُر امن شہریوں کا ہی ہوا۔ وہ نفرتیں جو ڈمہ ڈولہ میں مدرسہ کے 80 حفاظ طلبہ کو ڈرون حملہ میں شہید کیے جانے، سانحہ لال مسجد اور ان جیسے دیگر اندوہناک واقعات کے باعث پیدا ہوئیں اُنہیں بارود کے استعمال سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہ کہ آپریشن کی آڑ میں امارت اسلامیہ افغانستان کی سرزمین کو نشانہ بنانا ملکی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اِس سے پاکستان کی مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد بھی غیر محفوظ ہوجائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران دو فوجی آپریشنز کے باعث خیبر پختونخوا میں لاکھوں کی تعداد میں افراد بے گھر ہوئے اور بڑی تعداد میں آبادیاں صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئیں۔ لہٰذا ہمارا سوچا سمجھا مؤقف ہے کہ آج ملک کے ناراض طبقوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ تمام افراد اور ادارے اپنی ماضی کی کوتاہیوں کو تسلیم کرکے نقصان کی تلافی کی کوشش کریں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے اور عالمی طاقتوں کے کھیل میں ملکی مفاد کو داؤ پر نہ لگایا جائے۔ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے۔حکومت اور ریاستی اداروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کبھی فائدہ مند نہیں ہوتا۔ صرف جرم میں ملوث افراد کے خلاف آئین و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے کارروائی کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نظریۂ اسلام کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا اور اس میں بسنے والے تمام لوگوں اور جغرافیائی اکائیوں کو جوڑنے والی واحد قوت آج بھی اسلام ہی ہے۔ لہٰذا نفرتوں کو ختم کرنے اور ملک میں امن وامان کی صورتحال کو بحال کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے۔