(دین و دانش) اسلام اور طہارت - مفتی عارف محمود

11 /

اسلام اور طہارتمفتی عارف محمود

اسلام انتہائی پاکیزہ مذہب ہے، یہ اپنے ماننے والوں کو طہارت و پاکیزگی کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی آدم کواپنے آخری نبی حضرت محمدﷺکے توسط سے زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق کتاب وسنت کی شکل میں جو ہدایات و احکامات عنایت فرمائے ہیں اگر ہم حقیقی معنوں میں ان پر عمل پیرا ہوجائیں توہر فرد کا ظاہر و باطن، اس کا جسم و لباس، رہنے کی جگہ، گھر بار، گلی ، محلہ ، ماحول  حتیٰ کہ پورا معاشرہ سب پاکیزگی کے مظہر بن جائیں گے۔
طہارت والوں یعنی پاک صاف رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: {اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَo}  ’’بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘
پاکیزگی اللہ کو پسند ہے
اسلام کی ان تعلیمات کے پیش نظر حضرات  صحابہ کرام jطہارت و پاکیزگی کا خوب اہتمام فرماتے تھے جس کی وجہ سے قرآن کریم مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف میں ارشاد فرمایا: {فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَo} ’’اس میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو پسند کرتے  ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں اور اللہ پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
امام بیہقی ؒ نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے کہ انس بن مالک ؓ نے بتلایا کہ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا: اے گروہ انصار! ’’اللہ تعالیٰ نے طہارت کے بارے میں تمہاری تعریف بیان کی ہے تو تمہاری طہارت و پاکی کیا ہے؟ انصار نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، جنابت سے غسل کرتے ہیں اور پانی سے استنجا کرتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ یہی وہ طہارت و پاکی ہے جس کی اللہ نے تعریف کی ہے، پس تم اسے لازم پکڑو۔‘‘
طہارت کامعنی ومطلب:
طہارت کسے کہتے ہیں؟ اس کا کیا معنی ومطلب ہے؟ اس کی کتنی اقسام ہیں؟ ان تفصلات کو جاننے کے بعد ہی انسان منشا خداوندی کے مطابق پاکیزگی حاصل کرسکتا ہے۔
طہارت کا لغوی معنی
طہارت عربی زبان کا لفظ ہے،طَھَّرَ یُطَھِّرُ باب کَرُمَ سے مصدر ہے، لغت میں طہارت کے معنی مطلق طور پر صفائی و پاکیزگی کے ہیں۔
طہارت کا فقہی معنی
فقہی اعتبار سے حدث اور نجاست سے پاکیزگی حاصل کرنے کو طہارت کہتے ہیں۔
طہارت کا شرعی معنی
شرعاً طہارت اللہ کی منع کردہ چیزوں سے اپنے آپ کو روکنے یعنی خود کو گناہوں سے پاک رکھنے اور اللہ تعالیٰ کے اوامر سے خود کو مزّین کرنے کو کہتے ہیں۔ بعض دفعہ اطلاقات شرعیہ میں طہارت من الارجاس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے یعنی اس سے مراد کفر و شرک اور معصیت سے پاک ہونا ہوتاہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  ’’اے نبی کے گھر والو! اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے (شرک وکفر کی) گندگی دور رکھے اور تمہیں ایسی پاکیزگی عطا کرے جو ہر طرح مکمل ہو۔
اقسام طہارت:
طہارت کی ابتدا میں دو بڑی قسمیں ہیں: طہارت معنویہ اور حسّیہ۔
طہارت معنویہ کی اقسام
ان میں سے طہارت معنویہ کی بھی دو قسمیں ہیں: طہارت معنویہ کبریٰ اور صغریٰ۔ طہارت معنویہ کبریٰ یہ ہے کہ آدمی اپنے دل کو شرک اور اس کی غلاظتوں سے مکمل پاک کر لے اور توحید خالص کے عقیدہ کو اپنے دل و دماغ میں بسا لے اور مکمل طور سے اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کر لے۔ طہارت معنویہ صغریٰ یہ ہے کہ آدمی اپنے دل کو اخلاقی برائیوں کینہ، حسد، ریا ، تکبر اور حب جاہ و مال وغیرہ سے پاک کرے اور اپنے دل کو اخلاقی محاسن و فضائل سے مزین کرے۔
 طہارت حسیہ کی اقسام
طہارت حسّیہ یعنی ظاہری طہارت کی بھی دو قسمیں ہیں۔
پہلی قسم:ایک یہ کہ حدث کو زائل کر کے پاکی حاصل کرنا، اس قسم کے ذیل میں فقہاء حضرات پانی کے پاکی و ناپاکی ، وضو، غسل، تیمم اور موزوں پر مسح وغیرہ کے مسائل سے بحث کرتے ہیں۔ دوسری قسم یہ کہ خبث کو زائل کر کے طہارت حاصل کرنا، اس قسم کے ذیل میں فقہائے کرام اشیائے نجسہ کے طہارت سے متعلق ضوابط اور نجاست کی اقسام کو بیان کرتے ہیں۔
طہارت نصف ایمان :
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک نہ صرف محبوب اور پسندیدہ ہے، بلکہ نبی کریم ﷺ نے طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابو مالک اشعری h سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’پاکی نصف ایمان ہے۔‘‘
نصف ایمان ہونے کا مطلب
شطر ایمان یعنی طہارت کا نصفِ ایمان ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کے بارے میںشارحین حدیث فرماتے ہیں کہ ایمان مکفّرِسیئات ہے، ایمان سے صغائر و کبائر دونوں طرح کے گناہ معاف ہوتے ہیں ، طہارت بھی مکفّر سیئات ہے، لیکن اس سے صرف صغائر معاف ہوتے ہیں، اس نسبت سے طہارت کو شطر ایمان قرار دیا گیا ہے۔
علامہ تورپشتی کی رائے
علامہ تورپشتی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایمان سے ظاہر و باطن یعنی حدث اصغر و اکبر اور شرک وغیرہ دونوں سے طہارت حاصل ہوجاتی ہے، جبکہ حدیث میں وارد لفظ   ’’ الطہور ‘‘ سے صرف طہارتِ بدن من الانجاس و الاحدث مراد ہے اس لیے اس کو شطر ایمان کہا گیا ہے۔
اجزائے ایمان:
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایمان تخلیہ اور تحلیہ دو اجزاء سے مرکب ہے، تخلیہ کے چار مراتب ہیں،
٭پہلا مرتبہ: ظاہری بدن کو ہر طرح کی ناپاکی ، حدث و خبث اور فضلات سے پاک کرنا۔
٭دوسرا مرتبہ: اپنے اعضاء و جوارح کو جرائم و گناہوں سے پاک رکھنا۔
٭تیسرا مرتبہ: دل کو اخلاق ذمیمہ و رذیلہ سے پاک رکھنا۔
٭چوتھا مرتبہ: دل کو ماسوٰی اللہ سے خالی اور پاک رکھنا۔  اس تفصیل کے مطابق حدیث میں شطر الایمان سے مراد ’’تخلیہ‘‘ ہے اور وہ اس اعتبار سے نصف ایمان ہے۔غرض جو بھی مراد لیا جائے، خواہ شطر کو جز کے معنی میں لیا جائے یا نصف کے معنی میں ، بہر حال طہارت کو ایمان کے ساتھ لزوم کا تعلق ہے، ایمان ہر حال میں طہارت کا تقاضا کرتا ہے۔
طہارت باطن :
علمائے کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ طہارت باطنیہ کے تمام مراتب طہارت میں نصفِ عمل کا مقام رکھتے ہیں ۔  کیونکہ اعمال باطن سے مقصود اللہ کی عظمت و جلال کا منکشف ہونا ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا ہے جب تک باطن سے ماسویٰ اللہ نکل نہ جائے، طہارتِ قلب یعنی اخلاق حمیدہ کا حصول اس وقت تک نہیں ہوسکتا ہے جب تک دل کو اخلاق ذمیمہ اور قابل نفرت رذائل سے پاک نہ کیا جائے، اسی طرح جوارح کو اس وقت تک طاعت سے مزین نہیں کیا جاسکتا جب تک گناہوں سے نہ بچا جائے، یہی حال ظاہر کا ہے کہ ظاہری طہارت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ احداث سے پاکی حاصل نہ کی جائے، یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ تمام مراتب طہارت میں اصل باطن کی طہارت ہے لیکن اس کا حصول بھی ظاہری طہارت پر موقوف ہے۔
اہتمام طہارت:
  اسلام میں ظاہری طہارت کا بھی نہایت اہتمام کیا گیا ہے، بیداری سے لے کر سونے تک، بیت الخلا    سے مسجد و بیت اللہ تک، دن بھر میں پانچ مرتبہ وضو، نیزغسل و تیمم وغیرہ کے ذریعہ ظاہری و باطنی دونوں طرح کی طہارت کا اہتمام کیا گیا ہے، قضائے حاجت انسان کی فطری ضرورت ہے، اس ضرورت کو کیسے پورا کیا جائے اس کی رہنمائی بھی حدیث میں موجود ہے، 
حضرت جابرh فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ  جب قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جاتے تو اتنے دور جاتے کہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ۔
پیشاب کرتے وقت نرم اور نشیبی جگہ دیکھ کر وہاں کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ پیشاب کی چھینٹیں اڑ کر کپڑوں اور بدن پر نہ پڑیں۔
قضائے حاجت کے لیے جانے سے قبل دعا سکھائی گئی ہے تاکہ بندہ  شیاطین و جنات کے شرور سے حفاظت میں رہے، حضرت انس ؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو یہ دعا پڑھے:  ((اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخبث والخبائث))’’اے اللہ ! میں ہر طرح کے شیاطین (مذکر و مؤنث کے شر) سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جب تم میں سے کوئی بیت الخلا میں داخل ہونے کا ارادہ کرے تو بسم اللہ پڑھے، اس سے انسان  کی شرم گاہ اور جنات کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا۔‘‘
علماء کرام نے ان دونوں روایات کو جمع کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ قضائے حاجت کے لیے جانے والا ان دونوں دعاؤں کو ملا کر یوں پڑھے: ((بسم اللّٰہ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخبث والخبائث))
بیت الخلاء جانے سے قبل دعا سکھانے کی حکمت یہ ہے وہ نجاست اور گندگی کی جگہ ہوتی ہے، پھر وہاںجاکر اللہ کے ذکر میں انقطاع آجاتا ہے، کشف عورت کی نوبت آجاتی ہے اور بول و براز وغیرہ نجاستوں کا خروج ہوتا ہے تو ایسے میں شیاطین اور جنات جنہوں نے اپنا مسکن ان جگہوں کو بنایاہوا ہوتا ہے، وہ وہاں پیشاب کرنے والے کو نقصان پہچانے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا ان کے شر سے حفاظت کے لیے دعا بتلائی گئی ہے۔
نیند سے بیداری پر ہاتھ دھونے کا حکم
اسی طرح ایک مسلمان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے اور اپنی طبعی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کو پانی استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہاتھ دھوئے بغیر پانی کے برتن میں نہ ڈالے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وضو کےبرتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل اپنا ہاتھ دھو لے؛ اس لیے کہ اسے معلوم نہیں کہ نیند کی حالت میں اس کے ہاتھ نے کہاں رات گزاری ہے۔‘‘
حدیث کا مطلب
شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ نیند کی حالت میں یہ ممکن ہے کہ آدمی کا ہاتھ اس کی شرمگاہ سے مس ہوا ہواور اس پر نجاست کے اجزا لگ گئے ہوں، یا رات نیند کی حالت میں احتلام ہوگیا ہو اور ہاتھ پر منی لگ گئی ہو، یا وظیفہ زوجیت کی ادائیگی کے وقت کچھ نجاست لگ گئی ہو، یا جسم کے کسی حصہ میں زخم ہو اور اس سے خون رس رہا ہو، یا کوئی دانہ وغیرہ نکل ہو اور اس سے پیپ یا نجس مادہ نکل رہا ہو اور وہ ہاتھ پر لگ گیا ہو، غرض اگر نجاست یقینی طور سے لگ گئی ہو تو پھر ہاتھ کا پانی کے برتن میں داخل کرنے سے قبل دھونا واجب ہے اور اگر نجاست کا لگنا یقینی نہ ہو صرف شک ہو تو پھر ہاتھوں کا برتن میں ڈالنے سے پہلے دھونا مسنون ہے، اور اگر یہ یقین ہے کہ کوئی نجاست نہیں لگی تو پھر دھونا مستحب ہے۔ 
مشرکین مکہ اس بات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرتے اور طعنہ دیا کرتے تھے کی کہ آپ کے نبیﷺ تو آپ کو قضائے حاجت کے متعلق باتوں کی بھی تعلیم دیتے ہیں، چنانچہ حضرت سلمان فارسی h نے ایسے ہی طعنہ کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں ! (یہ شرم کی بات نہیں ، بلکہ یہ تو ضروت کی چیز ہے)، ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں یہ بھی بتلایا ہے کہ ہم قضائے حاجت کے وقت قبلہ رخ نہ ہوا کریں اور ہمیں دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع کیا ہے اور اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ ہم ہڈی یا گوبر سے استنجا کریں اور ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم تین پتھروں سے استنجا کریں۔
ان امور کو ذکر کرنے کا مقصد صرف اسلام کے نظام طہارت و نظافت کی ایک جھلک دکھانا ہے، ورنہ اسلام نے تو اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق مکمل رہنمائی فراہم کی ہے، اور اسلام سارے کا سارا پاکیزگی اور طہارت ہی سے مرکب ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ ثقہ علماء سے اسلامی تعلیمات سیکھ کر ان پر عمل کیا جائے تاکہ دنیا میں پاکیزگی و کامیابی کے ساتھ آخرت کی ہمیشہ کی کامرانی مقدر بن جائے۔ آمین یا رب العالمین!