(اظہارِ خیال) تحریک انصاف پر پابندی: چند سوالات - آصف محمود

11 /

تحریک انصاف پر پابندی: چند سوالات


آصف محمود

عطا تارڑ صاحب نے تحریک انصاف پر پابندی کی بات کی تو منیر نیازی یاد آ گئے: ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔ فارسی کا مقولہ ہے کہ :مشتے کہ بعدازجنگ یاد آید، برکل خود باید زد۔ جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے وہ حریف کی بجائے اپنے منہ پر مارنا چاہیے۔ مسلم لیگ ن بہت تاخیر کر چکی ہے۔ یہ فیصلہ اگر کرنا ہی تھا تو اس کا مناسب ترین وقت 10 مئی 2023 کی شام تھی۔9 مئی کو اس ملک میں جو ہوا وہ انتہائی خوفناک اقدام تھا۔ یہ فیصلے کی گھڑی تھی۔ ایک مثالی فیصلہ ہونا چاہیے تھا جو آئندہ کے لیے عبرت بنتا ۔ یہ سیاسی احتجاج نہ تھا ، یہ خانہ جنگی کی ابتدا تھی۔ یہ ملک کو ایک خوفناک خانہ جنگی میں دھکیلنے کی کوشش تھی۔اس سلسلے کو یہیں روک دیا جانا چاہیے تھا۔ پوری معنویت کے ساتھ روک دیا جانا چاہیے تھا۔ اسی رات یا پھر اسی ہفتے کوئی بڑا فیصلہ ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن فیصلہ نہیں ہو سکا۔ ن لیگ کی حکومت کا حال وہی تھا جو شیکسپیئر کے ہیملٹ کا تھا: To be or not to be۔ یعنی کچھ کروں یا نہ کروں۔ مقدمات چلے تو نیم دلی سے، چیونٹی کی رفتار سے۔ حکومت ان مقدمات میں نیم لا تعلق رہی۔ اس کے پاس یوں لگتا ہے سرے سے کوئی بیانیہ ہی نہ تھا یا وہ جان بوجھ کر کوئی بیانیہ اپنانے سے اجتناب کر رہی تھی۔ ملک میں خانہ جنگی کا باب رقم کیا جانے لگے ، ایک شخص کی محض گرفتاری پر شہدا کی یادگاروں کی توہین ہو اور ان کے مقدمات کے فیصلوںمیں سال بیت جائے اور حکومتی ٹیم میں ذرا سا بھی اضطراب پیدا نہ ہو ، یہ سوچنے والی بات ہے۔ حکومت کی اس گو مگو یا دانستہ گریز کا نتیجہ یہ نکلا کہ 9 مئی کے جن واقعات پر تحریک انصاف کو شرمندہ ہو نا چاہیے تھا وہ اس کے برعکس رویہ اپنانے لگے۔ سوشل میڈیا پر سانحہ 9 مئی کے حوالے سے مزاحیہ اور طنزیہ پوسٹیں شئیر ہونے لگیں۔ نو مئی کے واقعات کو ایک سال گزرا تو سوشل میڈیا پر ایک بار پھر اس کے حوالے سے طنزیہ اور تضحیک آمیز پوسٹیں اور میمز شیئر ہونے لگیں۔اگر قانون بروقت حرکت میں آیا ہوتا اور معنویت کے ساتھ حرکت میں آیا ہوتا اور ن لیگ کی حکومت نے لاتعلق سا ہوکر دہی کے ساتھ قلچہ کھانے کا فیصلہ نہ کیا ہوتاا تو منظر نامہ مختلف ہوتا۔ چھوٹے چھوٹے معاملات پر ن لیگ کریانہ سٹور کھول کر بیٹھ جاتی ہے۔ جب سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے ایک اصولی موقف معاشرے میں اور وکلا تنظیموں میں قبولیت پا چکا تھا کہ سینیارٹی کو مد نظر رکھا جائے تو ن لیگ کے وزیرقانون نے اس موقف سے کیوںاانحراف کیا؟ بعد میں معذرت کر لینے سے کریانہ سٹور کو تو بھلے کچھ نہ ہوتا ہو معاشرے کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ تحریک انصاف کا رویہ ن لیگ کے سامنے تھا۔ماضی قریب میں خود تحریک انصاف نے بائیس لاکھ ووٹ لینے والی تحریک لبیک پر پابندی عائد کی تھی۔ شیخ رشید صاحب نے بڑے طنطنے سے فرد جرم مرتب کی تھی ۔ اگر شیخ رشید کی مرتب کردہ فردجرم کی دستاویز کو معتبر مان لیا جائے تو نو مئی کی مرتب کردہ فرد جرم تو کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اگر تحریک انصاف تحریک لبیک پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر سکتی ہے تو نو مئی کے واقعات پر ن لیگ ایسا کوئی فیصلہ کیوں نہ کر سکی؟ مسلم لیگ نے اب آ کر یہ فیصلہ کیا ہے جب سپریم کورٹ سے مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کو ریلیف ملا ہے۔ اب اچانک جو ’’غیرت ایمانی‘‘ جاگی ہے تو اس کی شان نزول کیا ہے؟ ’’یہ غیرت ایمانی ـ‘‘اس وقت کیوں نہیں جاگی جب شہداء کی یادگاروں کو آگ لگائی جا رہی تھی اور ان کی بے حرمتی ہو رہی تھی۔اپنی ذات تک حدت پہنچی تو ن لیگ بھڑک اٹھی، جب تپش شہداء کی یادگاروں کو سلگا رہی تھی ن لیگ مزے میں لاتعلق بیٹھی تھی۔آج اچانک اسے یاد آ گیا کہ او ہو یہ تحریک انصاف تو بڑی شر پسند جماعت ہے ۔ملک اور یہ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔یہ خیال 9 مئی کے فوراً بعد کیوں نہیں آ یا؟ ن لیگ کی حکومت اگر ایسا کوئی فیصلہ کرتی بھی ہے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ ایسا نہیں ہو گا کہ حکومت ایک فیصلہ کرے گی اور شام تک ملک میں وہ فیصلہ نافذالعمل ہو چکا ہو گا۔ الیکشن ایکٹ اور آئین پاکستان کے تحت لازم ہے کہ حکومت سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس بھیجے گی اور سپریم کورٹ اگر اس ریفرنس پر حکومت کے موقف کو درست سمجھے گی تب سیاسی جماعت پر پابندی لگے گی۔ تو کیا ان حالات میں اس ریفرنس کے کامیاب ہونے کا کوئی امکان ہے جب فل کورٹ ابھی اپنے حالیہ فیصلے میں یہ کہہ چکی ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے (ہے پر زور دے کر پڑھا جائے اس میں بڑی معنویت ہے) اور اسے مخصوص نشستیں دی جائیں ؟ انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت یہ بھی لازم ہے کہ پابندی لگاتے وقت حکومت اس کا معقول جواز بھی بتائے گی۔تو کیا یہ حکومت یہ کہے گی کہ نو مئی کے واقعات پر فیصلہ کرتے کرتے اسے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا؟ کیا عدالت میں یہ موقف تسلیم کر لیا جائے گا؟ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ن لیگ کو بھی اس ریفرنس کے انجام کا معلوم ہے اور وہ صرف ایک کائونٹر افینسو سٹریٹجی لا رہی ہے۔ یہ بات جزوی طور پر تو درست ہے۔ تحریک انصاف کے بیانیے کا مقابلہ معقولیت یا کارکردگی سے نہیں ہو سکتا ۔ وہ غیظ و غضب کا میدان ہے اور معقولیت کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں۔ وہاں نفرت اور پوسٹ ٹروتھ کے سوا کچھ نہیں چلتا۔ لیکن یہ بیانیہ سیاسی حد تو چل سکتا ہے کیا عدالت میں بھی چل پائے گا۔ فیصلے میں تاخیر کا پہلو بہت اہم ہے۔ تحریک انصاف سے البتہ یہ پوچھا جانا چاہیے کہ یعنی جن اقدامات کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی عائد کی تھی ، تحریک انصاف ان سے زیادہ سنگین اقدامات کی مرتکب ہو چکی ہے اور خود اپنے ہی قانونی اجتہاد کی زد میں ہے۔ تو کیا تحریک انصاف یہ قبول کرے گی کہ جن اصولوں کی بنیاد پر اس نے تحریک لبیک پر پابندی عائد کی تھی وہی اصول آج اس کی کمر پر کوڑے کی صورت برسائے جائیں؟ تحریک انصاف نے سیاست کو سیاست نہیں رہنے دیا۔ ہمہ جہت انتشار اور افراتفری سیاست نہیں ہوتی۔ المیہ یہی ہے کہ یہی اس کی اصل قوت ہے۔ وہ اس قوت کو چھوڑ نہیں سکتی اور ملک مزید اس رویے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ملکی معیشت کو اب ہیجان نہیں ٹھہراو چاہیے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ اس فیصلے سے ہیجان کم ہو گا یا بڑھے گا۔نیز یہ کہ کیا یہ سلسلہ یہیں رک پائے گا یا آج جس طرح تحریک انصاف اپنے ماضی کے سیاسی اجتہاد کی زد میں آ چکی ہے اسی طرح کل کو مسلم لیگ ن اپنے آج کے سیاسی اجتہاد کی زد میں ہو گی؟ (بشکریہ روزنامہ 92؛ منگل 16 جولائی 2024ء)