(خصوصی رپورٹ) قرآن آڈیٹوریم لاہور میں منعقدہ تقریب تکمیل درس قرآن کی رپورٹ - محمد رفیق چودھری

9 /

ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی تمام مساعی کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کے

نظام کو بالفعل قائم و نافذ کیا جائے : (شجاع الدین شیخ )

آج معاشرے میں جو بھی گمراہی اور فساد پھیل رہا ہے اس کا

توڑ قرآن مجید کی تعلیمات میں ہے۔ (مولانا محمد یوسف خان)

قرآن سیکھنا اور اس کی تعلیمات کو سکھانا اور پھیلانا ہر

مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ (ڈاکٹر عارف رشید )

ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے اپنی غیر موجودگی میں درس قرآن دینے

کے لیے میرا انتخاب کیا جو کہ میرے لیے اعزاز کی بات

ہے۔( ڈاکٹر عبدالسمیع)

مجھ سمیت بے شمار لوگ ایسے ہیں جو ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے دروس

سے متاثر ہو کر قرآن کی طرف متوجہ ہوئے : (حافظ محمد رفیق )

اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو مکلف کیا ہے کہ وہ قرآن کی

تفسیر جانے: (مومن محمود )

قرآن آڈیٹوریم لاہور میں منعقدہ تقریب تکمیل درس قرآن کی رپورٹ

مرتب: محمد رفیق چودھری

مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام مورخہ 20 جولائی 2024ء کو قرآن آڈیٹوریم نیو گارڈن ٹاؤن لاہور میں تکمیل درس قرآن کی تقریب کا انعقاد ہوا۔ تقریب کی صدارت امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ نے کی جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض شعبہ سمع و بصر کے مرکزی ناظم جناب آصف حمیدنے ادا کیے۔ کثیر تعداد میں لوگوں نے تقریب میں شرکت کی۔ تنظیم اسلامی کی توسیعی عاملہ کے اراکین بھی تقریب میں شریک تھے۔ تقریب کا آغاز ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے دیرینہ ساتھی جناب حافظ محمد رفیق کی تلاوت قرآن پاک و ترجمہ سے ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے ساتھ اپنی طویل رفاقت اور ان سے قرآن سیکھنے، سمجھنےاور درس قرآن دینے کی روداد سنائی اور کہا کہ مجھے ڈاکٹر صاحبؒ کی موجود گی میں نماز تراویح پڑھانے کا شرف حاصل ہو ا جوکہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ مجھ سمیت بے شمار لوگ جوڈاکٹر اسراراحمدؒ کے دروس قرآن کی وجہ سے قرآن کی طرف متوجہ ہوئے اس کا کریڈٹ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محترم ڈاکٹر عارف رشید مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں  نے ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے مشن کو جاری رکھنے کا بیڑا اُٹھایا ہوا ہے۔ اس کے بعدجناب عدیل احمد نے شاعر ماہر القادری کی مشہور نظم ’’قرآن کی فریاد‘‘ پیش کی۔ اس کے بعد سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
آصف حمید ( مرکزی ناظم شعبہ سمع و بصر): والد محترم ڈاکٹراسرار احمدؒ نے جو درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا، میں چاہوں گا کہ اس کی مختصر تاریخ پیش کردو ں ۔ ڈاکٹر صاحب ؒ فرماتے تھے کہ 1942ء میں جب میں نے علامہ اقبال کی نظم جواب شکوہ پڑھی تو اس کا ایک شعر میرے دل میں پیوست ہو گیا؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کراور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کرتب سے یہ بات ڈاکٹر صاحبؒ کے ذہن میں رہی اور بعد میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کرنے کا باعث بنی۔ 1954ء میں MBBSکے بعد لاہور منتقل ہونے سے قبل ساہیوال کے گردو نواح میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور پھر اسے جاری رکھا تاوقتیکہ 1965ء کے آخر میں آپ لاہور منتقل ہوئے۔ 1966ء سے لاہور میں حلقہ ہائے دروس قرآن کے نام سے کام شروع کیا اور لاہور اور گردو نواح میں درس قرآن دینا شروع کیا۔ 1967ء سےسمن آباد کی مسجد خضراسےسلسلہ وار درس قرآن شروع ہوا اور 1974ء میں مسجد الشہداء مال روڈ لاہور سے اسی درس قرآن کو دوبارہ شروع کیا۔ 1991ء  میں اسی قرآن آڈیٹوریم میں سلسلہ وار درس قرآن کی تکمیل ہوئی۔ 1991ء میں سلسلہ وار درس قرآن کا دوبارہ آغاز کیا جوکہ فروری 1992ء تک جاری رہا اور سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 61 پر جاکر رُک گیا۔ اس کے بعد اڑھائی سال کے عرصہ کے دوران ڈاکٹر صاحبؒ نے قرآن مجید کے منتخب نصاب کا تفصیلی درس ریکارڈ کروایا جو تقریباً 150 گھنٹوں پر مشتمل ہے۔ اڑھائی سال بعد 1994ء میں سلسلہ وار درس قرآن دوبارہ شروع ہوا اور سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 62 سے لے کر 167 تک جاری رہا۔ اس کے بعد سوا پانچ سال کے وقفے میں ڈاکٹر صاحب کا آپریشن بھی ہوا اور دیگر معاملات بھی رہے لیکن اس دوران ایک بار پھر انہوں نےاسی آڈیٹوریم میں منتخب نصاب ریکارڈ کروایا۔ 9 اپریل 2000ء سے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر168 سے دوبارہ سلسلہ وار درس قرآن شروع کیا جو فروری 2006ء تک جاری رہا اور سورہ المائدہ تک کا درس مکمل ہوا۔ 5 مارچ 2006ء کو ڈاکٹر صاحب ؒ نے درس قرآن کی ذمہ داری محترم ڈاکٹر عارف رشید کے حوالے کی۔ انہوں  نے 12 مارچ 2006ء کو اس ذمہ داری کو نبھانا شروع کیا اور 14 جولائی 2024ء کو اسی قرآن آڈیٹوریم میںد رس قرآن کی تکمیل ہوئی۔
مومن محمود (استاد قرآن اکیڈمی): تفسیر ایک علم ہے۔ ہر علم کے کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ موضوعات ہوتے ہیں، کچھ مسائل ہوتے ہیں، کچھ مباحث ہوتے ہیں ۔ علم تفسیر میں قرآن حکیم کے حوالے سے گفتگو کی جاتی ہے۔ البتہ قرآن کا رسم الخط، قراءت اور فقہی احکامات علم تفسیر سے تعلق نہیں رکھتے۔ قرآن مجید میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے اللہ کی مراد کیا ہے، اپنی بساط کے مطابق یہ جاننے کی کوشش کرنا علم تفسیر کا موضوع ہے۔ تفسیر یا صحیح ہو تی ہے یا غیر صحیح ہوتی ہے، یا محمود ہوتی ہے یا مذموم ہوتی ہے۔ اگر اللہ کی مراد تک پہنچنے کا صحیح طریقہ اختیار کیا جائے تو وہ محمود ہے اوراگر صحیح منہج مدنظر نہ رکھا جائے تو وہ تفسیر مذموم شمار ہوگی۔ عبداللہ بن عباسh فرماتے ہیں کہ تفسیر چار اعتبارات سے ہے۔ ایک تفسیر وہ ہے جس کی جہالت کا کسی کو عذر نہیں ہے۔ یعنی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ مجھےاس حوالے سے قرآن کی تفسیر کا علم نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو مکلف کیا ہے کہ وہ قرآن کی اس حوالے سے تفسیر جانے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو جاننا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ ایک تفسیر وہ ہے جس کے لیے ہمیں علم لغت چاہیے۔ علم لغت میں بھی ہمیں وہ استعمالات چاہئیں جو اہل عرب میں تھے۔ تفسیر کی تیسری قسم وہ ہے جس کو علماء جانتے ہیں ۔ اس کے لیے کچھ اصول اور اعلیٰ علوم چاہئیں۔ تفسیر کی چوتھی قسم وہ ہے جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کوئی شخص دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے قرآن کا سارا علم جان لیا ہے۔ جبکہ حدیث میں ہے کہ قرآن کے عجائبات کبھی ختم نہیں  ہوں گے۔
اللہ کرے ہمیں فہم قرآن میں اسی طریقے پر رکھے جوسلف سے چلتا ہوا آرہا ہے۔ تکمیل درس قرآن پرمحترم ڈاکٹر عارف رشید کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ  انہیں اس کا اجر عطا فرمائے اور ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے لیے اسے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین
ڈاکٹر عبدالسمیع: 1970ء کے آس پاس کی بات ہے کہ مجھے اپنے والد صاحب کے پاس ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے دو کتابچے ملے : ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ اور ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ، کرنے کا اصل کام‘‘۔ پہلا تو میں نے مکمل پڑھ لیا لیکن دوسرے کو ڈیڑھ صفحہ سے زیادہ نہ پڑھ سکا۔ پھر 1974ء میں 12 ربیع الاول کے دن مسجد الشہداء  مال روڈ میں ڈاکٹر صاحب کا درس تھا جو میںنے سنا۔ ڈاکٹرصاحبؒ کے بیان میں ایسی کشش تھی کہ میں اس کے بعد ہر اتوار کو اس درس میں شامل ہونے لگا۔ اس کے بعد میں نے منتخب نصاب کا درس بھی سنا۔ 1975ء میں تنظیم اسلامی کا قیام عمل میں آیا اور اس کے بعد پہلے سالانہ اجلاس میں میں نے تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی۔ گریجویشن کے دوران میں نے ڈینٹل کالج میں درس قرآن کا آغاز کیا۔ پھر انگریزی میںد رس قرآن دینا شروع کیا۔ 1977ء کے مارشل لاء کے دوران میں نے ڈاکٹرز کو ہفتے میں پانچ دن عربی پڑھانا اور ایک دن درس قرآن دینا شروع کیا۔ اس کے بعد میں پریکٹس کے لیے فیصل آباد چلا گیا لیکن ہر جمعرات کو لاہور درس دینے کے لیے آتا رہا۔ 1979ء میں ڈاکٹر اسراراحمد ؒ امریکہ گئے تو ان کی جگہ جمعے کا خطبہ مسجد دارالسلام میں اور اتوار کی صبح درس قرآن مسجد الشہداء میں دینے کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ اس کے بعد پانچ سال تک میری ذمہ داری لگ گئی کہ جب بھی ڈاکٹر صاحب بیرون ملک جائیں گے تو ان کی جگہ جمعہ کا خطبہ میں دوں گا۔ یہ میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ اس کے بعدڈاکٹر صاحب کے حکم پر امریکہ میں جاکر انگریزی میں درس قرآن دیتا رہا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بھی امریکہ جاکر درس دیا۔ اس کے بعد فیصل آباد میں درس قرآن دیتا رہا اور بعد ازاں جب انجمن خدام القرآن فیصل آباد کی تشکیل ہوئی تو مجھے اس کا صدر بنا دیا گیا۔
ڈاکٹر عارف رشید(ـصدر انجمن خدام القرآن): اللہ کا شکر ہے کہ ڈاکٹر اسرارحمدؒ نے 2006ء میں میری جو ذمہ داری لگائی تھی اس کو اللہ کی توفیق سے میں نے 18 سال اور 3 ماہ میںمکمل کیا۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری تھی جو اللہ کے فضل سے ادا ہوئی۔ میرا تعلق ڈاکٹر اسراراحمدؒ سے پیدائشی ہے۔ جب میری عمر دس برس تھی اس وقت سے ہی میر اتعلق رجوع الی القرآن کی تحریک سے جڑ گیا تھا۔ 1980ء کے آس پاس ڈاکٹر صاحب ؒ کا بیرون ملک جانا ہوا اور ان کی جگہ اسلام آباد کمیونٹی سنٹر میں سورۃ الحجرات کا درس دینے کی میری ذمہ داری لگائی گئی۔ 1966ء میں رجوع الی القرآن کی جو تحریک شروع ہوئی تھی اس کے تحت ڈاکٹر اسراراحمدؒ  نے ہر جگہ منتخب نصاب کے دروس دیے۔ منتخب نصاب کے ذریعے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا کیا ہے۔ مسلمان ہونا اور نبی پاکﷺ کا اُمتی ہونا بڑی سعادت کی بات ہے مگر جن کے رُتبے سوا ہیں ان کی سوا مشکل بھی ہے۔ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ سورہ المائدہ تک جو حصہ مجھ سے رہ گیا تھا اس کا درس بھی مکمل کر لوں ۔ تمام لوگ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہمت بھی دے اور صحت بھی دے تاکہ میں یہ سلسلہ جاری رکھ سکوں ۔
شجاع الدین شیخ ( صدر مجلس ): درس قرآن کی تکمیل کے اس مرحلے پر ہم سب پر اللہ کا شکر ادا کرنا واحب ہے کہ اس نے ہمیں توفیق بخشی۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے درجات بھی بلند فرمائے۔ یہ سارے پودے انہی کے لگائے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان ساری محنتوں کو ان کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے دروس قرآن مطلق دروس قرآن نہیں تھے۔ یہ محض چند علمی مباحث کی بات نہیں تھی۔ قرآن محض فقہی کتاب نہیں ہے بلکہ کتاب ہدایت ہے اور وہ ہدایت زندگی کے تمام گوشوں کے لیے ہے۔ تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن کے زیر اہتمام قرآن کے دروس اور تعلیم کا جو بھی سلسلہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے شروع کیا تھا اس کا مقصد یہ ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیاں قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھل جائیں اور قرآن مجید جو نظام عدل اجتماعی واضح کرتا ہے اس کے قیام کے لیے بیعت کی بنیاد پر اجتماعیت قائم کرکے جدوجہد کی جائے کیونکہ قرآن انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنا نفاذ چاہتا ہے اور ڈاکٹر صاحبؒ کی معنوی اور صُلبی اولاد اسی جدوجہد کو تین نسلوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مزید توفیق عطافرمائے۔ آمین !
مولانا محمد یوسف خان (استاد جامعہ اشرفیہ) :محترم ڈاکٹر عارف رشید نے 18 سال 3ماہ میں درس قرآن مکمل کیا، اس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی محنت کو قبول فرمائے اور ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ اللہ تعالیٰ محترم ڈاکٹر عارف رشید کو صحت عطا فرمائے تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر درس قرآن کی تکمیل کر سکیں ۔ آج معاشرے کا ہر فرد چاہے وہ عملی مسلمان ہو یا محض کلمہ گو مسلمان ہو، وہ فکر مند ہے کہ اپنی نئی نسل کو گمراہی سے کیسے بچایا جائے۔ آج کی تقریب اس سوال کا جواب فراہم کرتی ہے۔ جو کچھ قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے وہ گمراہی ہے۔ اس گمراہی کا توڑ صرف ہدایت سے ممکن ہے اور قرآن مجید اصل ہدایت ہے۔ جیسا کہ قرآن کے شروع میں فرمایا : {ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ2} ’’ ہدایت ہے پرہیزگار لوگوں کے لیے۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا : {ہُدًی لِّلنَّاسِ } ’’لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر۔‘‘
یہ دونوں باتیں بالکل درست ہیں کیونکہ ہدایت کے دو معنی ہیں۔1۔ راستہ دکھانا۔ 2۔ منزل تک پہنچانا۔ قرآن مجید تمام انسانوں کو ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے لیکن یہ ہدایت اور دائمی کامیابی کی منزل صرف وہ پائے گا جس کے اندر تقویٰ ہوگا۔متقین کی پانچ نشانیاں قرآن مجید کے شروع میں بتادی گئیں ۔ 1 ۔ ایمان لانا ،2۔نماز قائم کرنا، 3۔اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، 4۔اللہ کی کتابوں پریقین، 5۔ آخرت پر یقین۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اگر گمراہی سے بچانا ہے تو کم ازکم قرآن کے ان پانچ اصولوں پر عمل کرانا ہوگا۔ قرآن پاک سے جُڑ کر ہم اپنی نسلوں کو گمراہی سے بچا سکتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں تمہارے لیے دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اور وہ کتاب اور سنت ہیں، اگر انہیں پکڑے رہو گے تو گمراہ نہیں ہوں گے۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا گھرانہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کی عظیم خدمت سرانجام دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن کی تمام مساعی کو ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور ان کی معنوی اور صُلبی اولاد کو یہ سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !