(کارِ ترقیاتی) عدل مجبور ہے، صدق ناچار ہے! - عامرہ احسان

9 /

عدل مجبور ہے، صدق ناچار ہے!عامرہ احسان

 

ساڑھے نو ماہ بیت گئے ہمیں اس عجب دور میں داخل ہوئے جب ظلم، بے انصافی اور قتل عام 7 ارب انسانوں کے سامنے مسلسل جاری ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جتنا بے پناہ ردعمل ہوا، جتنا کچھ لکھا بولا گیا وہ بھی ریکارڈ توڑہے۔ دنیا تڑپ اٹھی، لرز گئی۔ CJW شو کے معروف  بین الاقوامی صحافی کی درد میں ڈوبی چند سطریں کافی ہیں: ’’ہم کبھی نہیں بھولیں گے وہ آئس کریم ٹرک جو بچوں کی لاشوں سے بھرا ہوا تھا۔ (سوچئے! بچے اور آئس کریم کی چاہت، چولی دامن کا ساتھ ہے!) وہ باپ جو اپنے بچوں کی باقیات تھیلوں میں اٹھائے جارہا ہے (جب ہم اپنے تھیلے در تھیلے اسباب دنیا سے بھرے ہوتے ہیں!) وہ شخص جو ملبوں میں بچوں کے کھلونوں کے پاس بے ہوش ہو کر گر پڑا اور وہ جو 40 سال بعد اپنے گھر سے محروم ہوگیا۔ وہ ماں جو رو رو پکارتی رہی کہ میرے بچے بھوکے پیاسے ہی مر گئے۔ مردہ ماں کے اسٹریچر کے پیچھے بھاگتا اسے الوداع کہتا، پکارتا ننھا بچہ۔ وہ بچہ جو اپنے چھوٹے بھائی کی تدفین سے پہلے یادگار کے طور پر اس کا ایک بال لینا چاہتا ہے!‘‘ مظلومینِ فلسطین کا یہ آسٹریلوی غم گسار دکھی ہے کہ اگر    او آئی سی، عرب لیگ، سعودی عرب، جنوبی افریقہ کا     بین الاقوامی عدالت انصاف میں ساتھ نہیں دیتے تو انہیں اپنی اخلاقی بزدلی کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ یہ مناظر چلتے رہے۔ رات گئے قبرستان اسرائیلیوں نے ادھیڑ کر رکھ دیا، بلڈوزر سے کچھ لاشیں غائب، کچھ بکھری ہوئی، لوگوں نے آکر دوبارہ دفن کیں۔ اگلے دن عالمی دبائو اور ردعمل سے 100 لاشیں واپس لا ڈالیں۔ نامکمل۔ زیادہ تر صرف دھڑ، ناقابل شناخت، یرغمالیوں کی تلاش کی آڑ میں 2 ہزار فلسطینی قبریں اکھاڑ پھینکیں۔ میتیں غائب کردیں۔ خوراک، مدد کی لائنوں میں کھڑے بے گھر شہریوں پر اسرائیلی ٹینکوں نے گولیاں برسا دیں۔ اچانک شمال سے جنوب نقل مکانی کا حکم صادر کیا اسرائیلی فوج نے دس لاکھ فلسطینیوں کو! 
غرض جب تاریخ لکھی جائے گی تو صفحات اسرائیل، امریکا، برطانیہ کے اشتراک سے ڈھائے مظالم سے سرخ و سیاہ ہوجائیں گے۔ خون کی دھاروں اور ظلم کی سیاہی سے۔ اس پر ردعمل بھی پوری دنیا میں بے مثال رہا۔ اب تمام راز طشت از بام ہو چکے۔ بار بار واشگاف دہرائے جا چکے۔ 1897ء میں صہیونی تحریک کا قیام۔ بیت المقدس مسلمانوں سے چھین کر وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا پلان۔ گردوپیش کے مسلمان علاقوں پر قبضہ۔ برطانیہ کے ساتھ ملی بھگت۔ انتداب کے نام سے فلسطین پر برطانیہ کا انتظامی قبضہ۔ 14 مئی 1948ء کو اسرائیل  کے قیام کا اعلان۔ مسلم زمینوں پر زبردستی قبضہ، بے دخلی، قتل و غارت مردوں کی دیر یاسین کے علاقے سے اور خواتین کے برہنہ جلوس۔ یہ نمونہ دکھا کر فلسطینیوں کو مزاحمت کا نتیجہ بتا دیا گیا۔ 1922ء میں 7 لاکھ فلسطینی آبادی اور 82 ہزار یہودی تھے۔ زمین کی تقسیم میں 75 فیصد زمین یہود اور 25 فیصد 7 لاکھ مسلمانوں کو عطا فرمائی گئی۔ یہ کہانی 75 سال پر محیط آج خونچکاں غزہ میں کھڑی ہے۔ جو ایک طرف جبر و استحصال اور دوسری جانب فلسطینی صبر و ثبات اور مزاحمت کی بے مثال داستان ہے۔
پوری مسلم تاریخ میں ایمان و استقامت و عزیمت کے سبھی ابواب ان چند مہینوں میں دہرائے جا چکے۔ تاآنکہ اب دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی عدالت انصاف نے مبنی برحق و سچ فیصلہ صادر کر دیا جو اخلاقی اعتبار سے فلسطینیوں کی بہت بڑی فتح اور اسرائیل کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔ عدالت نے 5 دسمبر کو جنوبی افریقہ کے فائل کردہ مقدمہ پر عبوری طور پر بھی قتل عام غزہ میں روکنے کا حکم دیا تھا۔ اگرچہ اسرائیل نے اس دوران خون کی ندیاں بہانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اب عدالت نے تاریخی فیصلہ صادر کر دیا ہے جس کے مطابق اسرائیلی آبادکاری فلسطینی سرزمین پر غیرقانونی قرار دے دی گئی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ فیصلہ وزنی ہے۔  15ججوں کے پینل کی تحقیقات کے مطابق مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور اس سے منسلک حکومت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر قائم ہے۔ اسرائیل کا فلسطین کو اس کا ہرجانہ دینا بنتا ہے۔ یہ بھی کہا کہ یو این، سیکورٹی کونسل، جنرل اسمبلی اور تمام ریاستوں پر لازم ہے کہ وہ اس قبضے کو قانونی تسلیم نہ کریں۔ اس کے قیام و استحکام کے لیے کسی قسم کی مدد فراہم نہ کریں۔ اس پر فلسطینی قیادت نے خیرمقدم کا ردِعمل دیا ہے۔
یورپی یونین نے اس حکم نامے کی تائید کی ہے۔ ان کے فارن پالیسی چیف نے کہا کہ سب سے بڑی یو این عدالت کا یہ فیصلہ، فلسطینی سرزمین پر غیرقانونی طور پر قابض ہونے کا (اسرائیل کا) یورپی یونین کے موقف سے مطابقت رکھتا ہے۔ دنیا کا ردِ عمل یہی رہا ہے کہ اب خود سری اور شتر بے مہار آزادی (اسرائیل کی) ختم ہونی چاہیے۔ تاہم یہ عالمی سطح پر اخلاقی دبائو تو ہے مگر اسرائیل نے یہ حکم رد کر دیا تو ICJ کے مطابق یہ یو این سیکورٹی کونسل جائے گا۔ تاہم قضیہ وہی پرانا ہے کہ امریکی مگرمچھ وہاں ویٹو لیے بیٹھا ہوگا۔ رفح پر چار جھوٹے آنسو بہا کر اسرائیل خدانخواستہ حسب سابق رہے گا    ؎
عدل مجبور ہے صدق ناچار ہے!
نیتن یاہو اس فیصلے پر آگ بگولا ہو گیا۔ اسرائیل کے دفاع کی مُقدس ذمہ داری، پاسداری کا فرض نبھانے کا عزم دہرایا۔ ساتھ ہی یہ جھوٹا دعویٰ کہ اسرائیل کی بین الاقوامی قانون سے غیرمتزلزل وفاداری ہے۔ (جو تمام تر جنگی جرائم سے عیاں ہے۔) اِس پر غضب ناکی کا اظہار کہ عدالت نے یہودی اپنی ہی سرزمین پر قابض کیونکر قرار دے دیے۔ یہ ہمارا ازلی دارالحکومت، یروشلم ہے اور ہمارے آباءو اجداد کی سرزمین ہے۔( 82 ہزار یہودی بمقابلہ 7 لاکھ فلسطینی۔ ثبوت ملاحظہ فرمائیے)۔ دنیا بھر کے گوشے گوشے سے یہودی بلا کر اسرائیل میں فلسطینی اجاڑ اجاڑ کر لا آباد کیے گئے۔ فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں لے جا پھینکے گئے اور 6 لاکھ یہودی غاصب قابض آبادکار آن بسے۔ اسرائیل میں ڈی این اے ٹیسٹ کی حوصلہ شکنی ہے۔ وجہ؟ حقیقت کھل جاتی ہے کہ کون، کس ملک سے آیا ہے، اسرائیل کی سرزمین کا دعوےدار بنا۔ نیتن یاہو پولینڈ سے، سابق صدر آئزک ہرزوگ آئر لینڈ سے، وزیر دفاع پولینڈ سے، وزیر خزانہ یوکرین سے، قومی سلامتی کا وزیر بھی مقامی نہیں عراقی ہے۔ وزیر خارجہ مراکش سے، اپوزیشن لیڈر سربیا، سابق وزیر دفاع ہنگری، یو این میں نمائندہ رومانیہ سے۔ اسرائیلی سفارت کار، حکومتی مشیر آسٹریا سے، سفیر برائے برطانیہ جارجیا سے، یعنی یہ تو قابض قیادت کا عالم ہے! بھان متی کا کنبہ جوڑا، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا!
بے پناہ مراعات اور عیش و عشرت کے لالچ میں یہودی دنیا بھر سے اسرائیل کو ایک ٹورسٹ تفریح گاہ، مقام سیاحت سمجھ کر آن بستے ہیں۔ اس سرزمین سے ان کی وابستگی کا عالم تو یہ ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد سے پہلے کی نسبت 3 گنا اسرائیلی مستقلاً ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ حالانکہ اسرائیل میں خطرہ محض حماس کی خانہ ساز پھلجڑیوں کا ہے۔ یہ آباءو اجداد کی سرزمین کے دعوےداروں کا جذباتی لگائو کا عالم ہے! دوسری جانب فلسطینی دنیا کا ہر غم دکھ تکلیف بھرپور عزیمت سے قدس کی خاطر برداشت کرنے پر جس صبر و ثبات کا ثبوت دے رہے ہیں اُس نے دنیا کو دم بخود کر دیا ہے۔ فلسطینی سرزمین کی ملکیت کی ایک گواہی فطرت نے بھی دے ڈالی۔ زمین گویا ہوگئی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ معروف اسرائیلی تاریخ دان اور مصنف ایلان پاپے نے ایک کتاب لکھی: ’’فلسطین سے نسل کشی‘‘۔ اس کا کہنا ہے کہ جب دیہات (فلسطینی) تباہ کیے گئے، کھنڈر، ملبے، لاشیں تو انہیں چھپانے دبانے مٹانے کو وہاں جنگلات اگائے گئے، فلسطینی واپس کہاں آئیں گے، یہ تو جنگل ہیں! ہوا یہ کہ ایک گائوں میں جہاں ’’پائن‘‘ (یہودیوں کی طرح)مقامی درخت نہ تھا، لالا کر اُگانے کی کوشش ہوئی، پنپ نہ سکا۔ گل سڑ کر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ اس کے تنوں کے اندر سے جو درخت حیرت انگیز طور پر پھوٹنے لگتے وہ زیتون تھے۔ فلسطین کی سرزمین کی ملکیت کی مہر۔ ان کے صبر و ثبات، حق و سچ کا اظہار۔ فطرت کی عظیم گواہی! … والتین والزیتون و طور سینین کی قسم کی تصدیق! اللہ اکبر! یہ سرزمین اپنے وارثوں کو مل کر رہے گی باذن اللہ!