آپریشن عزم استحکام سے ملک اور قوم کو صرف نقصان پہنچے
گا اورنفرتیں مزید بڑھیں گی : رضاء الحق
اس سے پہلے جتنے بھی آپریشنز ہوئے ان سے کیا حاصل ہوا ،
کیا دہشت گردی ختم ہو گئی :ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
اگر پاکستان امریکہ سے ہدایت لینا چھوڑ دے تو یہاں
سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا : اوریا مقبول جان
آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے
کی کوشش کی جائے :بریگیڈیئر جاوید احمد
دہشت گردی سے نجات :فوجی آپریشن یا مذاکرات کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:پاکستان میں اس وقت دہشت گردی عروج پر ہے۔ حکومت پاکستان آپریشن عزم استحکام کے لیے پرعزم ہے۔ جبکہ سیاسی اور عوامی حلقوں میں اس کی شدید مخالفت کی جارہی ہے ۔آپ کے خیال میں ایسا کیوں ہے؟
اوریا مقبول جان:1977ء کے بعد سے نائن الیون تک ہمارے ہاں ایک امن کا دور تھا کیونکہ 1977ء میں بلوچستان کےناراض لوگوں سے مذاکرات کامیاب ہوئے اور معافی تلافی کے بعد صلح ہوگئی ۔ اس کے بعد سے 2004ء تک بلوچستان میں جتنا امن رہا اتنا کبھی نہیں رہا۔ ہم چار چار سو کلو میٹر تک بغیر گن مین کے سفر کرتے تھے۔ 1979ء میں افغانستان میں روس آگیا اور جنگ چھڑ گئی لیکن اس کے باوجود بھی قصہ خوانی بازار راتتین بجے تک آباد ہوتا تھا ۔ کوئٹہ میں فلورا کاکارنر تھا اس میں لوگ تین بجے تک بیٹھے ہوتے تھے ۔ ہم پر عذاب اس وقت نازل ہوا جب نائن الیون کے بعد وار آن ٹیرر کا آغاز ہوا ۔ اپریل 2004ء میں امریکی سینٹ میں پاکستان ریلیشنز کی رپورٹ پیش ہوئی اور پاکستان کو ایک بلین ڈالرز دیے گئے ۔ رپورٹ میں کہا گیا پاکستان نے بدلے میں تین بڑی خدمات سرانجام دیں۔ 1۔ تین اہم ترین ہوائی اڈے امریکہ کو دیے گئے جہاں سے 57000مرتبہ امریکی جہازوں نے اُڑ کر افغان طالبان پر حملے کیے ۔ 2۔ پاکستان نے 1 لاکھ 75 ہزار فوجی افغان بارڈر پر تعینات کیے تاکہ افغانستان سے کوئی بھاگ کر پاکستان میں داخل نہ ہو سکے اور اگر کوئی داخل ہو تو اسے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا جائے ۔660 افغانیوں کو پاکستان نے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا ۔ ان میں سے 422 گوانتانا موبے بھیجے گئے ۔ ان میں سے 99 فیصد لوگ رہا ہو کر واپس آچکے ہیں کیونکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ تھا ۔ یعنی بے گناہ لوگوں کو پکڑ کر پاکستان نے امریکہ کے حوالے کیا ۔ ان تین خدمات کے بعد پاکستان میں صورتحال خراب ہونا شروع ہو گئی ۔ پھر ہم نے ایسی غلطیوں پر غلطیاں کیں کہ خود اپنے ملک کا بیڑا غرق کرلیا ۔ قبائلی لوگوں کی مدتوں سے افغانیوں سے رشتہ داریاں تھیں، ہم نے ان پر ڈرون حملے کروائے ۔ جو لوگ امن چاہتے تھے ان کو بھی نہیں بخشا ۔ نیک محمد سے ہمارے کور کمانڈر کے مذاکرات ہوئے ، اسے ہار پہنائے گئے اور اس کے بعدپھر ڈرون حملہ کرکے اس کو شہید کر دیا گیا ۔ اس کے کچھ دنوں بعد ڈمہ ڈولہ پر فضائی حملہ کیا گیا جس میں 80 سے زائد حفاظ طلبہ شہید ہوئے ، پھر ان کے جنازوں پر بھی حملے کیے گئے اور پاکستانی حکومت نے تسلیم کیا کہ یہ حملے ہم نے کروائے ۔ حالانکہ دو سال بعد امریکہ نے خود کہہ دیا کہ یہ اس نے کروائے تھے ۔ پھر بیت اللہ محسود کے ساتھ ہمارے کور کمانڈر کے مذاکرات ہوئے اور اسے امن کا سفیر قرار دیا گیا ۔ لیکن اسے بھی ڈرون حملے میںٹارگٹ کیا گیا اور ہماری حکومت نے تسلیم بھی کرلیا کہ ہم نے مارا ہے۔ اس دوران سانحہ لال مسجد بھی نہ بھولنے والا واقعہ ہے ۔ بہرحال افغان طالبان نے 2013ء تک امریکہ کے خلاف جنگ جیت لی تھی اور دوحہ میں مذاکرات کے لیے آفس کھل گیاتھا ۔ 15 اگست 2021 ء کو افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا ۔ وہ پاکستان کی زیادتیوں کو بھول گئے تھے ۔ لیکن اس وقت تین واقعات ایسے ہوئے جس کی وجہ سے آج ہم دوبارہ دہشت گردی کی جنگ میں داخل ہو چکے ہیں ۔ 1۔ امریکہ نے 4لاکھ 15 ہزار سپاہی تیار کیے تھے کہ وہ طالبان کو کابل پر کنٹرول حاصل نہیں کرنے دیں گے اور آپس میں خون خرابہ ہو گا اور افغانستان تباہ و برباد ہو جائے گا ۔ لیکن وہ سب کے سب تین دن میں افغان طالبان کے سامنے سرنڈر کرگئے ۔ چنانچہ امریکہ کو پھر پاکستان کی ضرورت پیش آگئی ۔2۔ اسی دوران امریکہ میں بلینکن کو کانگریس میں بلایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ کابل میںہمارے 1 لاکھ 20 ہزار افراد پھنسے ہوئے ہیں ، ان کے لیے ویزے جاری کرو ۔ وہ سارے کے سارے نکال کر اسلام آباد لائے گئے اور یہاں سے پھر رفتہ رفتہ انہیں یورپ ، امریکہ ، کینیڈا وغیرہ میں سیٹل کیا جا رہا ہے ۔ یہ سب وہ لوگ تھے جو گزشتہ 30 سال سے امریکہ کےلیے کام کر رہے تھے اور امریکہ نے ان کی تربیت کی تھی ۔ اسی دوران ٹی ٹی پی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی شروع ہوئے لیکن تیسرا کام یہ ہوا کہ امریکہ نے اڈے مانگ لیے اور عمران خان نے انکار کر دیا جس کی وجہ سے اس کی گورنمنٹ بھی ختم کر دی گئی ۔ اس دوران جبکہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے مذاکرات چل رہے تھے اور وفد افغانستان میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایمن الظواہری پر حملہ ہوا اور وہ جاں بحق ہو گئے ۔ افغان طالبان کا پاکستان پر الزام آگیا کہ آپ نے اس حملے کے لیے امریکہ کو انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کی ہے اور یوں افغان طالبان کے ساتھ ہمارے تعلقات بگڑ گئے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان اور ایران کے ساتھ لڑے اور چائنہ کو بھی خدا حافظ کہہ دے ۔یہ بھی کہا گیا کہ انڈیا کے ساتھ تمارے معاملات بھی ٹھیک کر دیں گے اور کشمیر کا مسئلہ بھی حل کروا دیں گے ۔ اس سے قبل 1979ء کےایرانی انقلاب کے بعد بھی پاکستان سے کہا گیا تھا کہ ایران سے لڑو ۔ ستمبر اکتوبر کے قریب ہماری فوجیں ایرانی بارڈر پر کھڑی ہو گئی تھیں لیکن افغانستان میں روس آ گیا تو امریکہ نے صدام کو کہا اب تم لڑو،ہم نے پاکستان سے اور کام لینا ہے۔ بہرحال امریکہ ہمیں افغانستان سے لڑوانا چاہتاہے ۔ میں نے سہیل شاہین صاحب کا انٹرویو کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے پاکستان کو آفر کی تھی کہ آپ کی فورسز نشاندہی کریں ہم مل کر آپریشن کریں گے ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ نے ہمیں منع کیا ہوا ہے کہ افغانستان سے مذاکرات نہیں کرنے بلکہ وہ جنگ چاہتا ہے ۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کی طرف سے کسی بھی آپریشن کا کیا جانا بہت بڑی بے وقوفی ثابت ہوگا ۔ ویسے بھی آج تک کونسا آپریشن کامیاب ہوا ہے ۔ آپ کہتے ہیں ہم نے اپنے ہاں ٹیررزم پر قابو پالیا۔70 فیصد بلوچستان آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ امن تو وہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی فورسز نکال لیں۔ آپ وزیرستان سے فوج کو نکال کر دکھائیں ، بلوچستان سے نکال کر دکھائیں ۔
سوال: گزشتہ دو عشروں کی تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہماری حکومتوں نے مذاکرات بھی کیے اور ہماری فوجی قیادت نے آپریشنز بھی کیے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی ختم نہیں ہو رہی ۔ البتہ ایک دورانیہ ایسا گزرا تھا جس میں دہشت گردی بتدریج کم ہوئی تھی اور دنیا نے مانا تھا ۔ وہ جنرل راحیل شریف کے دور میں آپریشن ضرب عضب کا نتیجہ تھا ۔ اس وقت جو لوگ آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کررہے ہیں کیا وہ پاکستان میں امن نہیں چاہتے ؟
فرید احمد پراچہ:یہاں پرکئی آپریشن ہوئے۔ 2007ء میں پرویزمشرف نے سوات میں راہ حق کے نام سے ایک آپریشن کیا اور پوری آبادی کو وہاں سے اُٹھا کر پھینک دیا گیا ۔فیملیاں ٹوٹ گئیں ، بے پناہ نقصان ہوا ۔ پھر2009ء میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی راہ راست کے نام سے ایک آپریشن کیا۔ اس کے بعد راہ نجات کے نام سے بھی ایک آپریشن کیا گیا ۔ پھر 2012ء میں جنرل راحیل شریف کے دور میں آپریشن ضرب عضب کیا گیا جو کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن تھا ۔ پھر 2016ء میں جنرل باجوہ نے رد الفساد کے نام سے آپریشن کیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سارے آپریشنز سے آپ نے حاصل کیا کیا ؟ یا تو آپ کی پلاننگ غلط تھی یا آپ کے پاس معلومات کی کمی تھی یا آپ نے اس بات کو مدنظر نہیں رکھا کہ جن کے ساتھ مل کر آپ نے امن قائم کرنا ہوتا ہے ان کو ہی آپ نشانہ بنا لیتے ہیں ۔ جن سے آپ امن چاہتے ہیں ان کو ہی آپ مشکلات اور مصائب میں ڈال دیں گے تو امن کیسے قائم ہوگا ۔ پھر کہا گیا کہ اب ہم انٹیلی جنس کی بنیاد پر ٹارگٹڈ آپریشن کریں گے جو کہ کر رہے ہیں تو پھر اب آپریشن عزم استحکام کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ؟ سب سے پہلے تو آپ عوام میں اپنا اعتماد بحال کریں اور موجودہ حالات میں جبکہ فوج کا ایک سیاسی ایجنڈا بھی ہے تو عوام کا اعتماد حاصل کرنا مشکل ہے ۔عوام ساتھ کھڑے ہوں گے تو آپریشن کامیاب ہوگا اور امن بھی قائم ہوگا۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ کچھ ضمنی نقصان ہوا ہے۔ تو وہ کیوں ہواہے ؟ آپ جس علاقے میں بھی آپریشن کرتے ہیں وہاں کی ساری آباد ی کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں ۔ناکوں پر عام عوام ہو ، علمائے دین ہوں ، معززین ہوں سب کے ساتھ آپ مجرموں جیسا سلوک کرتے ہیں تو پھر اس کا ردعمل نفر ت کی صورت میں ہی پیدا ہوگا۔ جو آپ کا سوال ہے کہ مخالفت کیوں کی جارہی ہے تو دہشت گردی کے خاتمے کی مخالفت تو کوئی بھی نہیں کرتا ، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ یہ ختم ہو مگر آپریشن کے نام پر جو کچھ پہلے ہوا وہ کوئی بھی نہیں چاہتا ۔ البتہ آپ انٹیلی جنس کی بنیاد پرٹارگٹڈ آپریشن کر رہے ہیں تو کرتے رہیں، اس کی مخالفت کوئی بھی نہیں کرے گا ، لیکن آپریشن کے نام پر آبادیوں کو متاثر کرنا درست نہیں ہے ۔ اس سے نفرتیں مزید بڑھیں گی ۔
سوال: فوجی آپریشن تو چل رہا ہےتوپھرآپریشن عزم استحکام کی ضرورت کیوں پیش آئی اور حکومت اور ہماری فوج اس کے خدوخال اب تک کیوں نہیں واضح کرسکی؟
رضاء الحق :نائن الیون نے دنیا کا پولیٹیکل اور سٹریٹیجک پیراڈائم ایک طرح سے بدل دیا ہے۔ 1990ء میں ہی جب امریکہ سول سپریم پاورآف ورلڈ ہونے کا اعلان کر چکا تھا تو بظاہر نظر آ رہا تھا کہ اب وہ جنگوں کی طرف ہی دنیا کو دھکیلے گا اور اس کی ایشیا پالیسی سے صاف طور پر واضح ہورہا تھا کہ ایشیاہی آئندہ کی جنگوں کا مرکز بننے والا ہے ۔ اس تناظر میں آپ دیکھیں تو ایک تو حکومتوں نے تشدد ، ظلم و جبر اور سختی کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں انتشار اور اشتعال پیدا ہوا ۔ جیسا کہ عراق اور شام میں ہم نے دیکھا ، پھر پاکستان میں بھی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام میں یہی شکایت پیدا ہوئی ۔ پھر یہ کہ اداروں کو لا محدود اختیارات دے دیے گئے ۔ جیسا کہ 2014ء سے 2018ء تک ہماری نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی تھی ، پھر 2014ء میں ہی نیشنل ایکشن پلان بھی آ گیا۔ پھر 2018ء سے 2023ء تک داخلی سلامتی کی پالیسی تھی، ان سب میں اداروں کو اس قدر زیادہ اختیارات دیے گئے کہ آئین اور قانون کے تقاضے پامال ہوئے اور انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔حالانکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ریاست کی اولین ذمہ داری عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوتی ہے۔ ریاست کی ذمہ داری صرف دہشت گردی کا خاتمہ نہیں بلکہ عوام کو ان کے معاشی ، سیاسی اور سماجی حقوق فراہم کرنا ، ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ جبکہ ہمارے ہاں صرف دہشت گردی کو ٹارگٹ بنانے کے نام پر ریاستی اداروں کو اس قدر اختیارات دیے گئے کہ انسانی حقوق اور انصاف کے تقاضے پامال ہوگئے ۔ ماورائے عدالت قتل و غارت گری اور مسنگ پرسنز کا معاملہ اس کی ایک مثال ہے۔ بہت زیادہ خفیہ نگرانی کی وجہ سے چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال ہوا ۔ایسا طرز عمل اختیار کیا گیا کہ لوگوں کو اٹھا کر جتنی دیر مرضی ہے اپنے پاس رکھ لیں اور عدالت کے پوچھنے پر بھی جواب نہ دیں ۔ یہ واقعات یہاں پر ہوتے رہے ہیں۔ آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے تو وہ اس حوالے سے قدم ضرور اٹھائے گی مگر اس کا ملک اور قوم کو نقصان ہی ہوگا۔ماضی کے آپریشنز بھی کامیاب نہ ہوئے تو اس کی متعدد وجوہات تھیں۔NIPPکی حالیہ رپورٹ کے مطابق ناکامی کی ایک وجہ یہ تھی کہ آپریشن کی قیادت سول اداروں کی بجائے فوج نے کی ۔ اس کی وجہ سے بے پناہ مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ایک بہت بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ فوج نے صرف طاقت کا استعمال کیا ۔ جبکہ سویلن ادارے زمینی سطح پر مسائل کو حل کرتے ہیں ۔ یوں کہہ لیں کہ معاملہ جب ایکشن کے ذریعے حل ہو جائے تو پھر متاثرین کو دوبارہ آباد بھی کرتے ہیں ۔پھر یہ کہ افغان طالبان کو ہم نے punching bag بنا یا ہوا ہے ۔ جب ہم امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی تھے تو اس وقت بھی افغان طالبان کے خلاف تھے اور اب جبکہ امریکہ وہاں سے چلا گیا ہے تو اب بھی ہم ان کے خلاف ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں سے بعض عناصر آکر پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں لیکن ہم افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کرکے بھی یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں ۔ اصل معاملہ یہ ہےکہ اپنی ان غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام کا اعتماد اب ریاستی اداروں پر سے ختم ہوگیاہے ۔ اب بھی مخالفت میں اس لیے باتیں سامنے آرہی ہیں کہ ریاستی پالیسی واضح نہیں ہورہی کہ آپریشن عزم استحکام کا اصل ٹارگٹ کیا ہے ، کہاں اور کتنی فوج استعمال ہوگی اور خاص طور پر آپریشن کے بعد لوگوں کو دوبارہ آباد کرنے اور انہیں دوبارہ سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا ۔
سوال: پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہماری حکومتوں نے دہشت گرد وں سے بات چیت بھی کی ، مذاکرات بھی ہوئے ،ان کو کچھ رعایتیں بھی دی گئیں ، ان کی سزائیں معاف کیں اور کچھ بندوں کو رہا بھی کیا ۔ عام معافی کا بھی اعلان کیا گیا ۔ یہاں تک کہ پھر کچھ عرصہ تک سیز فائر کی فضا بھی بنی رہی ۔ لیکن اس سب کے باوجود معاملہ وہیں کا وہیں ہے ۔ تاہم فوجی آپریشنز نے کچھ حد تک امن دیا ہے ۔ پاکستان میں اگر عوام کے تعاون سے ، آل پارٹیز کانفرنس بلاکر اور اتفاق رائے سے کوئی انٹیلی جنس بیسڈ ٹارگٹڈ آپریشن کیا جاتاہے تو ا س میں کیا ممانعت ہے ؟
اوریا مقبول جان:اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ امریکہ سے ہدایت لینا چھوڑ دیں تو یہاں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ بجائے اس کے یہاں ہوتا یہ رہا ہے کہ امریکہ کے کہنے پر یہاں سے بندے اُٹھا کر اس کے حوالے کیے جاتے رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سول انتظامیہ کی بجائے یہاں امریکہ کا حکم مانا جاتاہے ۔ 2007ء میں جب جامعہ حفصہ کے خلاف آپریشن ہوا تھا تو فوج نے وہاں لوگوں کو قتل کر دیا ۔ حالانکہ قانون کے مطابق چھ ماہ سے زیادہ ان کی سزا نہیں بنتی تھی جو انہوں نے گانے بجانے کی دوکانیں بند کروائی تھیں وغیرہ ۔ لیکن آپ نے ان کے خلاف باقاعدہ آپریشن کرکے ان کومار دیا ۔ اس سے پہلے ایک بھی خود کش حملہ پاکستان میں نہیں ہوا تھا ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے ۔ اگر ایک آدمی جرم کرے تو اس کی سزا پوری آبادی کو دینے سے کیا امن آئے گا ؟ آج لاہور میں آپ اعلان کردیں کہ دس ہزار طالبان آگئے ہیں لاہور خالی کردو اور راوی کے دوسرے کنارے جاکر آباد ہو جاؤ ، دنیا میں کہیں ایسا کبھی ہوا ہے ؟ اس کے باوجود آپ مجھے بتائیں کامیابی کہاں ہوئی ہے؟آپ سوات سے فوج نکال کر دکھائیں ، وزیرستان سے نکال کر دکھائیں ۔ امن وہ ہوتا ہے کہ فوج کی وہاں ضرورت ہی نہ رہے ۔ تنظیم اسلامی کے سیمینار میں جنرل شاہد عزیز کا بیان آن دی ریکارڈ ہے کہ سوات میں TTP کے ساتھ معاہدہ پاکستان کی فوج نےتوڑا اور امریکہ کے کہنے پرتوڑا۔ایک شخص کے صرف اتنا کہنے پر کہ میں پاکستان کے آئین کو نہیں مانتا ، آپ نے پورے سوات کو تہس نہس کر دیا ۔ جبکہ عاصمہ جہانگیر یہی بات ہمیشہ کہتی تھی کہ میں پاکستان کے آئین کو نہیں مانتی ۔ بلوچستان والےکہتے ہیں کہ کوہلو میں ایک جہاز پر اٹیک ہوا اورآپ نے پورے کا پورا ڈیرہ بگٹی اکبر بگٹی سمیت اڑا دیا۔ اسلام آباد میں مشرف کے پورے قافلے پر حملہ ہوتا ہے تو وہاں آپ کچھ نہیں کرتے ۔
سوال:خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے یہ مطالبہ آ رہا ہے کہ اس وقت صوبے میں جو بھی ٹارگٹڈ آپریشن ہو رہا ہے اس کو بند کیا جائے ۔ ان حالات میں جبکہ روزانہ کی بنیاد پر شہادتیں ہو رہی ہیں، ہمارے فوجی جوان اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں اگر ہم یہ ٹارگٹڈ آپریشن بھی بند کردیں گے تو کیا کے پی کے کی موجودہ حکومت صوبے میں امن و امان قائم رکھنے کی گارنٹی دے سکتی ہے؟
فرید احمد پراچہ:کوئی بھی آپریشن صوبائی حکومت کے تعاون کے بغیرممکن نہیں ہوتا ۔پولیس جس طرح کسی علاقے میں انٹیلی جنس فراہم کر سکتی ہے اس طرح فوج براہ راست نہیں کر سکتی ۔ اس لیے صوبائی انتظامیہ کا تعاون بہت ضروری ہے مگر وہ تعاون آپ مشورے سے لے سکتے ہیں طاقت سے نہیں لے سکتے ۔ میں نے نیشنل سکیورٹی ورکشاپ میں پرویز مشرف سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بننے کے فلاں فلاں فائدے ہوں گے ،کیا آج آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ وہ فائدے کہاں ہیں ؟ اور کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ آپ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں؟ آپ نے سارے انڈے ایک ٹوکری میں رکھ کر وہ ٹوکری امریکہ کے ہاتھ دےدی ۔ مشرف نے جواب دیا مجھے تو یاد نہیں ہے کہ کیا فائدے بتائے تھے ۔ میں نے کہا کہ جب آپ کو یاد ہی نہیں ہے تو فائدے خاک حاصل ہوئے ؟ آپ نے گنوایا تھا کہ اس میں کشمیر کی آزادی بھی شامل ہے، وہ آزادی کہاں ہے ؟ اس کے بعد اس نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ اسی لیے میں چائنہ گیا ہوں ۔اصل میں سارے فساد کی جڑ امریکہ کی غلامی ہے اور ہم نے اس پر تقدس کا ایسا لبادہ چڑھا رکھا ہے کہ نہ اس پر پارلیمنٹ میں بات ہو سکتی ہے ، نہ کسی کمیٹی میں بات ہوسکتی ہے ،نہ کسی مذاکرے میں ہوتی ہے تو اس کے نتائج آخر کیا نکلیں گے ؟
اوریا مقبول جان: افغان طالبان سے امریکہ کے تین مطالبات تھے :1۔ پوست کی کاشت کو ختم کرنا ہے ، 2۔ داعش پر قابو پانا ہے ۔ 3۔ خواتین کو مساوی حقوق دینے ہیں ۔ دوحہ کے تیسرے اجلاس میں امریکن رپورٹ میں کہا گیا کہ افغان طالبان نے پوست کی کاشت بھی ختم کر دی ہے ، داعش پر بھی قابو پالیا ہے البتہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے جو ان کی اپنی پالیسی ہے اس پر وہ سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ آج ہم جاکر افغانستان میں بات کرلیں صرف پندرہ دن میں دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے ۔
سوال:کیا دہشت گردی کے خلاف مجوزہ آپریشن عزم استحکام پاکستان میں قیام امن کا باعث بن سکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر ہاں تو کیسے؟
برگیڈیئر جاوید احمد: عزم استحکام آپریشن کے حوالے سے ہماری سول اور ملٹری قیادت کی نیت پر تو کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ۔ یقیناً خلوص نیت کے ساتھ ہی انہوں نے دہشت گردی کے خلاف نئے آپریشن کا عزم کیا ہے ۔ البتہ اس کے پس منظر کو بھی دیکھنا ضروری ہے کیونکہ پس منظر اس کے نتائج پر اثر انداز ہوتاہے ۔ ہمیں یہ جنگ لڑتے ہوئے بیس سال ہو چکے ہیں ، ان بیس سالوں میں ہم نے کیا حاصل کیا ہے اس پر بھی غور کیا جانا چاہیےاور یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہ جنگ آخر ختم کیوں نہیں ہورہی ۔ ان بیس سالوں میں ہمارے لیڈرز نے پاکستان کے حق میں آپریشن کیے لیکن اس کے نتائج پاکستان کے حق میں برآمد نہیں ہوئے ۔ اگر آپ ایک دوائی کھاتے ہیں اور وہ اثر نہیں کرتی تو کیا وہ دوائی آپ ہمیشہ کھاتے ہی رہیں گے ؟ میری گزارش یہ ہے کہ آپریشن ضرور کریں مگر اس حوالے سے چند چیزوں کو بھی مدنظر رکھیں ۔ ملک کا بہت بڑا طبقہ اس کی مخالفت کررہا ہے ، اس کو سمجھانا ضروری ہے کہ یہ ہم کیوں کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے خدوخال آپ واضح کریں تاکہ اتفاق رائے سے یہ ممکن ہو اور امن قائم ہو ۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک نیشنل ڈائیلاگ ہو ، جو لوگ اختلاف کررہے ہیں ان کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ ساری قوم یک زبان ہو کر یک سوئی کے ساتھ آپریشن کے ساتھ کھڑی ہو ۔
سوال:وزیراعظم پاکستان نے عزم استحکام آپریشن کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی ہے ۔ اگر اس کانفرنس میں کوئی اتفاق رائے قائم نہیں ہوتا تو پھر پاکستان میں امن کی راہ کیسے نکالی جا سکتی ہے ؟
اوریا مقبول جان: پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور کوئی راستہ نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان ، افغانستان اور ایران کے حکام آپس میں مل بیٹھ کر اتفاق رائے قائم کرلیں ۔
فرید احمد پراچہ:یہ آل پارٹیز کانفرنس تو حکومت اپنی ضرورت کے تحت بلارہی ہے اور بہانہ دہشت گردی کو بنارہی ہے ۔ جبکہ اگر مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہو تو پھر اس کے لیے اسمبلی میں کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں ، بعض آئینی ادارے بھی قائم ہیں وہاں بات کی جاسکتی ہے ۔ آل پارٹیز کانفرنس اگر آپ نے بلانی ہے تو اس کا ایجنڈا سیاسی ہونا چاہیے ۔
رضاء الحق :پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ صرف سول اداروں کی بالادستی سے ممکن ہے ۔ فوج کا کام آئینی لحاظ سے صرف اتنا ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے اور بیرونی دشمنوں سے لڑے ۔ ملک کے اندر امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے سول اداروں کا کام ہوتا ہے کہ وہ معاملات کو ٹھیک کریں ۔