ابلیس کی مجلس شوریٰ
حلقہ خیبر پختونخوا کے سینئر رفیق، رکن شوریٰ اور امیر تنظیم اسلامی مردان ڈاکٹر حافظ محمد مقصود صاحب نے علامہ اقبال کی شہرہ آفاق نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کا دو گھنٹے پر مشتمل ایک درس میں مطالعہ کروایا جس کو ان شاء اللہ قسط وار ندائے خلافت میں شائع کیا جائے گا۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے شیطان اور اس کے چیلوں کے درمیان ایک مکالمہ پیش کیا ہے۔ شیطان اپنے چیلوں کو ہدایات دے رہا ہے کہ دنیا میں چھوٹے اور کمزور ملکوں کو اپنے زیرنگیں کر لو۔ سود پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام اور سودی بینکاری سے دنیا کے معاشی نظام کو جکڑ لو۔ دراصل اس نظم میں علامہ اقبال نے موجودہ سیاسی نظام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ قرآن کی رو سے انسان کی حاکمیت شرک ہے۔ آج ہم خلافت کا روشن نظام چھوڑ کر مغرب کے جمہوری نظام کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اس نظم میں علامہ نے مشرقِ وسطیٰ میں تیسری عالمی جنگ کی پیشین گوئی کا بھی ذکر کیا ہے۔ ابلیس اور اس کی ذرّیت چاہتی ہے کہ مسلمان قرآن کے انقلابی اور آفاقی پیغام سے دور رہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کو ایسا مردِ مسلمان درکار ہے جو حمیّتِ دینی سے سرشار ہو اور دوبارہ اس چمنِ دنیا کو توحید کے نغموں سے آباد کرے۔ ایک ایسا مردِ مسلمان جو اسلامی تہذیب کی بقاء، اسلام کو بحیثیت دین اور بطور نظام حیات نافذ کرنے کا عزم صادق رکھتا ہو۔مسلمانوں کے پاس اِس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں کہ وہ منہج انقلاب نبویﷺ کو اپنائیں تاکہ دنیاوآخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (ادارہ)
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے فکر اور کلام کو ہم میں سے اکثر لوگ پڑھتے بھی ہیں اور سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور پھر اس سے بہت کچھ سبق حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ کئی لوگ ہیں جنہوں نے اقبال کو پڑھا اور پھر اقبالیات پر کتابیں لکھیں ۔ مجھے بھی سرسری طور پر اقبال کو پڑھنے کا موقع ملا اور جس قدر ضرورت تھی قرآن اور سنت کی تشریح و توضیح میں کلام اقبال سے مدد لینے کی کوشش کی۔ آج اسی جذبے کے تحت’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘جو اقبال کی بہت مشہور نظم ہے اور اس میں اقبال کا جو عمرانی اور سیاسی فکر ہے اس کو آپ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کروں گاتاکہ ہم پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے کہ ابلیس کا باطل اور طاغوتی نظام کس طرح اسلام پر حملہ آور ہےاور اس کے تحت پوری دنیا میں کس طرح مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اس دنیا میں معرکۂحق و باطل روزِ ازل سے جاری و ساری ہے ۔ خیر و شر کی یہ دونوں قوتیں باہم مقابل اور متصادم رہتی ہیں اور خیر و شر کی اس کشمکش میں ہی انسانوں کا امتحان ہے ۔ اگر ان دونوں قوتوں میں سے کسی ایک کو بھی ہٹا دیا جائے تو ساری سرگرمی ختم ہو جائے گی اور جس مقصد کے لیے یہ دنیا اللہ نے بنائی ہے وہ فوت ہو جائے گا ۔اس دنیا کو اللہ نے انسانوں کے لیے آزمائش بنایا اور پھر انسانوں کو صراط مستقیم عنایت فرما کر ہدف کا تعین بھی کر دیا کہ اس راستے کے ذریعے آپ نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے اور پھر اس راستے میں شیاطینِ جن و انس بٹھا دیے۔ لہٰذا اب شیاطین جن و انس کے ساتھ انسان کا ایک مقابلہ ہے۔اس مقابلے میں آزمائش یہ ہے کہ آیا انسان شیطان جن و انس پر غالب آکر اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرتا ہے یا پھر شیاطین جن و انس انسان پر غالب آکر اسے اللہ سے دور کر دیتے ہیں ۔ اگرانسان شیاطین جن و انس پر غالب آکر اللہ تعالیٰ کا قرب و رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ زندگی کے امتحان میں کامیاب ہے اور اگر شیاطین کا گروپ غالب آگیا تو اس میں انسان کی ناکامی اور نامرادی ہے ۔ یہ جو آزمائش اور امتحان ہے اس میں یہ فلسفہ پوشید ہ ہے کہ اس دنیا میں خیر و شر کی قوتیں تا قیام قیامت رہیں گی ۔ اسی حوالے سے اقبال نے ایک مقام پر کہا ہے ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بُولہبی
یعنی جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سےلے کر اب تک خیر و شر کی یہ دونوں قوتیں باہم برسر پیکار ہیں ۔ ایک طرف چراغ مصطفوی یعنی اسلام ہے جو دنیا میں حق اور خیر کا غلبہ چاہتا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف ابو لہب اور ابو جہل(شر) کی جماعت ہے جو چاہتی ہے کہ چراغ مصطفوی جلنے نہ پائے، وہ اس کو بجھانا چاہتی ہے ۔ جیسا کہ مولانا ظفر علی خان نے بھی کہا ہے ؎
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
یہ معرکہ خیر وشر ازل سے جاری ہے ۔ آگے اقبال فرماتے ہیں ؎
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیٔ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
دور حاضر میں خیر وشر کا یہ مقابلہ ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے ۔ حزب اللہ اور حزب الشیطان کے درمیان جنگ جاری ہے ۔ ایک طرف مرد مومن ہیں جن کا بھروسا اللہ پر ہے اور دوسری طرف ابلیس کو یورپ اور امریکہ کی ٹیکنالوجی پر بھروسا ہے ۔ فارسی میں اقبال کہتے ہیں ؎
لیکن ازتہذیب لادینی گریز
زاں کہ او بااہلِ حق داردستیز
فتنہ ہا ایں فتنہ پرواز آورد
لات و عزیٰ در حرم باز آورد
از فسونش دیدۂ دل نابصیر
روح از بے آبیٔ او تشنہ میر
لذتِ بے تابی ازدل می برد!
بلکہ دل زیں پیکرِ گل می برد!
یعنی ابلیس کا لشکر جس لادینی اور بے خدا تہذیب کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے تم اپنے آپ کو اس سے بچاؤ کیونکہ یہ شیطانی تہذیب تمہارے ایمان پر ڈاکہ ڈال رہی ہے ۔ لشکر ابلیس کی ساری جنگ اہل دل یعنی اہل ایمان کے خلاف ہے جبکہ دنیا داروں اور ہوس کے پجاریوں سے اس کی کوئی دشمنی نہیں ہے کیونکہ وہ انہیں اپنا سمجھتا ہے ۔ تاہم وہ لوگ جن کے دلوں میں ایمان کی حرارت ہے ، جن کے اندر اسلام کی عظمت اور نشاۃ ثانیہ کا جذبہ ہے اور ان کی زبانوں پر اللہ اکبر کی صدائیں ہیں ان سے اس شیطانی تہذیب کی اصل دشمنی ہے ۔یہ تہذیب ایسے ہی لوگوں کے دلوں سے ایمان کی حرارت چھین لینے کے لیے ابھاری گئی ہے اور اس مقصد کے لیے یہ تہذیب بے انتہا فتنے اپنے ساتھ لائی ہے ۔ وہ حرم کہ جس سے لات و منات کے بتوں کو رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام ؇ نے نکال باہر کیا تھا آج ابلیسی تہذیب لات و منات کے انہی بتوں کو دوبارہ حرم میں بسانا چاہتی ہے ۔ اسی طرح ایک حرم انسان کا دل بھی ہے جو اسلام کے نور سے منور کیا گیا تھا مگر آج شیطانی تہذیب انسان کے دل کو دوبارہ زہریلے فلسفوں اور باطل افکار کی ضلالت سے بھر رہی ہے۔ اس تہذیب نے دور حاضر کے انسان پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ اس کے دل کی آنکھ اندھی ہو چکی ہے ۔ یعنی باطل افکار اور زہریلے فلسفوں سے انسان کا دل بے نور ہو جاتاہے جیسا کہ قرآن میں بھی ہے :
’’تو اصل میں آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں‘ بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔‘‘ (الحج:46)
انسان کے دل میں ایک روحانی وجود موجود ہے ۔ جس طرح ظاہری جسمانی وجود کی آنکھیں اور کان ہیں ، اسی طرح اس روحانی وجود کی بھی آنکھیں اور کان ہیں ۔ یہ ابلیسی تہذیب انسان کے دل و دماغ پر حملہ آور ہے تاکہ انسان اس روحانی وجود کی آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے سے محروم ہو جائے ۔ ـ(جاری ہے ) خخخ