تقویٰ مفہوم ،تقاضے اور برکات
مسجد جامع القرآن،قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفیظ اللہ کے19 جولائی 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
انبیاء ورُسل ؊کی دعوت کے جو بنیادی نکات ہیں ان میں عبادت کا تقاضابھی شامل ہے ،اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرنے اور پیغمبروں کی اطاعت کرنےکا تقاضا بھی ہے ۔ پھر یہ کہ بشارت اور انذار کا فریضہ انجام دینا ، عدل و انصاف کے قیام کی جدوجہد کرنابھی شامل ہے۔ انہی تقاضوں میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا بھی شامل ہے۔ آج کی نشست میں پیغمبروں کی دعوت کےان بنیادی نکات میںسے اس ایک نکتہ یعنی تقویٰ پر کلام کرنا مقصود ہے ۔ قران کریم میں جا بجا تقویٰ کا تذکرہ آتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کے خطبات بالخصوص خطبہ نکاح کے موقع پربھی جو آیات (آل عمران:110،النساء:1،الاحزاب: 70)آپ ﷺ تلاوت فرمایا کرتے تھے ان میں بھی بار بار تقویٰ کی تلقین کی گئی ہے اور حدیہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے یہاں تک ارشاد فرمایا:((اوصیکم ونفسی بتقویٰ اللہ عزوجل))’’ لوگو! میں تمہیں بھی اور اپنے آپ کو بھی اللہ عزوجل کا تقویٰ اختیارکرنے کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘
ہم سورۃ الاعراف میں چھ رسولوں کا تذکرہ پڑھتے ہیں ۔ وہاں ان رسولوں کی دعوت کو قرآن اس طرح نقل کرتاہے :
{ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ } ’’اے میری قوم کے لوگو !اللہ کی بندگی کرو ۔‘‘(آیت :59)
اسی طرح سورۃ الشعراء میں بھی چھ رسولوں کے حالات کا تذکرہ قرآن کریم نے کیا اور ان کی دعوت کو نقل کیا:
{فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ(144)}’’پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
معلوم ہوا کہ جہاں عبادت پیغمبروں کی دعوت کا بنیادی نکتہ ہےوہیں تقویٰ اختیار کرنا بھی پیغمبروں کی دعوت کا بنیادی تقاضا ہےاوریہ زندگی بھر کا مطالبہ ہے۔ چنانچہ بہت
معروف آیت جو نبی اکرم ﷺ اپنے خطبات میں اور خطبہ نکاح کے موقع پر بھی تلاوت فرماتے تھے،وہ یہ ہے :
’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے‘اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں۔‘‘(آل عمران:102)
تقویٰ کا حق ادا کرنا تقویٰ کے تقاضوں کا ہی تسلسل ہے۔ بہرحال اگر زندگی بھر کے تقاضوں کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ عبادت بھی بنتا ہے اور ایک لحاظ سے تقویٰ بھی بنتا ہے ۔ اب سوال ہے کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں۔ اللہ کے رسول مکرمﷺ نےتو اپنے مبارک ہاتھ سے اپنے سینہ اطہر کی طرف اشارہ فرماکر تین مرتبہ فرمایا:((التقویٰ ھٰھنا،التقویٰ ھٰھنا،التقویٰ ھٰھنا)) یعنی’’ تقویٰ یہاں (دل میں)ہے۔‘‘ اس احساس کے ساتھ زندگی گزارنا کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے یہ تقویٰ ہے ۔ بدقسمتی سے آج ہم مادہ پرستی میں اس قدر گرچکے ہیں کہ رات کو سوتے وقت بھی سمارٹ فون زیادہ پیش نظر ہوتا ہے اور کئی مرتبہ تو لوگ اللہ کا ذکر ہی بھول جاتے ہیں ۔ رات کو بھی آنکھ کھلتی ہے تو سب سے پہلے ہاتھ موبائل کی طرف لپکتا ہے ۔ صبح بیدار ہونے کے بعد فوراً جو مسنون دعا پڑھنی چاہیے شاید وہ بھی توجہ میں نہیں ہوتی جتنا کہ موبائل ہوتاہے (الا ماشاء اللہ)۔ جبکہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر اللہ کا ذکر دل میں ہو ۔ ذکر کا مفہوم ہے :استحضار اللہ فی القلب ۔ یعنی د ل میںاللہ کو حاضر رکھنا ۔ دل میں اللہ کو حاضر رکھوں گا تو آنکھ بھی ٹھیک جگہ استعمال ہوگی، زبان بھی ٹھیک جگہ استعمال ہوگی، کان بھی صحیح جگہ استعمال ہوں گے۔ اسی طرح پوری زندگی کا ذکر یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کی جائے ۔
صحابہ؇ کی مجلس سے اس کی ہمیں وضاحت ملتی ہے۔ سیدنا عمر کی مجلس میںسوال اٹھا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ ابی بن کعب بھی موجودتھے ۔انہوں نے پوچھا: اے امیرالمومنین! یہ فرمائیے کہ اگر کسی تنگ راستے سے آپ کا گزر ہو جہاں دائیں بائیں کانٹے دار جھاڑیاں ہوں توآپ کیسے گزریں گے؟ فرمایا:میں اپنے لباس کو سمیٹ کر، بچ بچ کر گزرنے کی کوشش کروں گا۔ فرمایا: اسی کا نام تقویٰ ہے۔اسی طرح اس معاشرے میں بہت سارے کانٹے ہیں ، اللہ کی نافرمانیوں کے کانٹے، سرکشی کے کانٹے،برائی کے کانٹے، ان سارے کانٹوں سے اپنے آپ کو بچاکر زندگی گزار نا تقویٰ ہے، یہاں تک کہ ہم اللہ کی طرف لوٹ جائیں۔ تقویٰ محض ظاہری شکل و صورت کا نام نہیں، اگرچہ ہماری ظاہری شکل و صورت اور ہمارے ظاہر کے معمولات بھی سنت سے قریب تر ہونے چاہئیں لیکن اس سے آگے بڑھ کر ہمارا ظاہر و باطن اللہ کے دین کے مطابق ہو جائے تو یہ اصل تقویٰ ہے ۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تقویٰ دل میں ہوتا ہے۔ اس احساس کے ساتھ زندگی بسر کرنا کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ جیسے سی سی ٹی وی کیمرہ لگا ہو اور اس کی وجہ سے ہر کوئی محتاط ہو ۔ حالانکہ سی سی ٹی وی کیمرہ کی ریکارڈنگ ضائع بھی ہو سکتی ہےجبکہ اللہ کے پاس جو ریکارڈنگ ہورہی ہے، اس کا ایک سیکنڈ بھی ضائع نہیں ہونے والا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’کیا تم ان سے ڈر رہے ہو؟‘ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو ۔‘‘(التوبہ :13)
دنیا میں بندہ کتنا خیال رکھتا ہے کہ گھر والے ناراض نہ ہوجائیں ، دوست ناراض نہ ہو جائے ، باس ناراض نہ ہوجائے ۔ حالانکہ اللہ کا حق سب سے بڑھ کر ہے۔ سب سے زیادہ یہ احساس دل میں ہر وقت ہونا چاہیے کہ اللہ ناراض نہ ہو جائے ۔ چنانچہ ہمارے اسلاف نے تقویٰ کی وضاحت بعض احادیث مبارکہ کی روشنی میں یوں فرمائی ہے کہ اللہ کی اطاعت میں لگے رہنا، اللہ کی نافرمانی ، ناراضگی اور ناشکری سے بچنا اور اللہ کی شکر گزاری کی کوشش کرنا تقویٰ ہے اور یہ تقویٰ پوری زندگی میں مطلوب ہے ۔ سورۃ آل عمران کی آیت 102 توانسان کو لرزا دیتی ہے ۔
’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے‘اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں۔‘‘(آل عمران:102)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام ؇نے عرض کی : یا رسول اللہﷺ! کس کے بس میں ہے کہ وہ اللہ کے تقویٰ کا حق ادا کر سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ نےیہ آیت عطا فرمائی:
{فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} ’’پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اپنی حد ِامکان تک‘ ‘۔(التغابن:16)
یعنی مقصود اور مطلوب تویہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ ایسے اختیار کرو جیسا کہ اختیار کرنے کا حق ہے اور عملاً بتایاجا رہا ہے کم ازکم اتنا تو تقویٰ لازماً ہونا چاہیے جس کی تم میں استطاعت ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیوی معاملات میں تو ہم اپنی استطاعت سےبڑھ کر محنت کرتے ہیں ۔ نماز کے لیے ، قرآن کی تلاوت کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا لیکن سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں ۔ جب اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کامسئلہ ہوتاہے ، تقویٰ اختیار کرنے کا معاملہ ہوتاہے تو وہاں اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں کہ میرے بس میں نہیں ہے لیکن دنیوی معاملات میں ہم کم پر اکتفا نہیں کرتے۔ بچہ پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے تو ماں بھی اس کی تیاری میں محنت کر رہی ہے، باپ بھی مہنگے سے مہنگے سکولوں میں پڑھانے کی کوشش کرتاہے ، بچہ خود بھی محنت کرتا ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ میں نے کہاں پہنچنا ہے ۔ کتنے لوگوں نے سڑکوں پر ریڑھیاں لگائیں آج ان کا اپنا بزنس ہے ۔ کتنے لوگوں نے پبلک ٹرانسپورٹ میں ٹافیاں بیچیں آج ان کی فیکٹریاں ہیں۔ ان سب لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ میری اتنی استطاعت ہے کہ فلاں مقام پر پہنچ جاؤں ۔اسی لیے محنت کرتے ہیں ۔ کیا دین کے معاملے میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے تو اللہ آگے نہیں بڑھائے گا ؟فرمایا:
’’اور جو لوگ ہماری راہ میں ِجدوجہدکریں گے ہم لازماً ان کی راہنمائی کریں گے اپنے راستوں کی طرف۔‘‘(العنکبوت:69)
بخاری شریف میں حدیث قدسی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرا بندہ مجھے دل میں یاد کرتا ہےتو میں بھی اسے دل میں یاد رکھتا ہوں، وہ کسی مجلس میں میرا ذکر کرےتو میں اس سے بہتر مجلس میںاس کا ذکر کرتا ہوں ، وہ ایک بالشت میری طرف بڑھے تو میں ایک ہاتھ بھر اس کی طرف بڑھتا ہوں ، وہ ایک ہاتھ بھر میری طرف آئے تومیں دو ہاتھ بھر اس کی طرف آتا ہے ، وہ چل کر میری طرف آئےتو میں دوڑ کر اس کی طرف آتا ہوں ۔ہمارا وہ بچہ جو پہلے گھٹنوں کے بل چلنے کے قابل ہوتا ہے ، جس دن ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے کرسی یا ٹیبل پکڑ کر اٹھنے کی کوشش کی ہے تو ہم اس کا ہاتھ پکڑتے ہیں کہ نہیں پکڑتے؟ وہ بھی مسکراکر چلتا ہے اور چھلانگیں لگانے کی کوشش کرتا ہے ۔اس کو پتہ ہے اگر میں گروں گا تو میرا باپ مجھے تھام لے گا۔ اللہ بھی اپنے بندے سے یہی چاہتاہے کہ وہ دین میں آگے بڑھنے کی کوشش تو کرے ۔ دنیا کے معاملات میں ہم اس قدر خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ نہ اپنی استطاعت دیکھتے ہیں اور نہ مشکلات ۔ بیماری اور ضعف بھی اگر ہو ، ڈاکٹر آرام کرنے کا کہتا ہے لیکن ہم کہتے ہیں :آرام کا وقت نہیں ہے ، ڈیل فائنل کرنی ہے ، آفس بند نہیں رکھ سکتے، آج ہر صورت میں رپورٹ دینی ہے ، آج پریزنٹیشن ہے وغیرہ ۔ ادھر ہم بہانے تلاش نہیں کرتے کہ مجھ میں ہمت نہیں ہے ، استطاعت نہیں ہے ۔ ساری رعایتیں ، سارا استثنا ، ساری آسانیاں ہمیں اللہ کے دین میں چاہئیں؟ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جتنادنیا میں رہنا ہے اتنا دنیا کی فکر کریں جبکہ آخرت تو ہمیشہ کے لیے ہے ، اس کی فکر زیادہ ہونی چاہیے ۔
تقویٰ کا ایک ترجمہ ہم خوف خدا بھی کرتے ہیں ۔ بالکل صحیح بات ہے۔ مرنے کے بعد اللہ کو جواب دینا ہے۔ اسی لیے ہر پیغمبر کی دعوت کاایک بنیادی نکتہ اللہ کا خوف اختیار کرنا بھی ہے ۔ یہ دل سے نکل جائے تو پھر گھروں میں، کاروبار میں ، معاشرے میں ، حکومتوں کی سطح پر ، طاقتوروں کی سطح پر سب کچھ بگاڑ کی طرف چلا جاتا ہے۔ آج مجموعی طور پر ہمارا بیڑا غرق اسی لیے ہے۔ تقویٰ دل میں ہوتو سات پردوں میں بھی بندہ سیدھا رہتا ہے اور اگر یہ جواب دہی کا احساس دل سے نکل جائے تو پبلک میں بھی گناہ ہوتے ہیں، دھڑلےکے ساتھ حرام خوری ، لوٹ مار ، بے حیائی،سرکشی کے کام ہوتے ہیں ۔
تقویٰ کے مفہوم کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھنا چاہیے اور وہ ہے اللہ کی پکڑ کا خوف ۔ اس حوالے سے سب میں کمزوری ہے البتہ بعض اوقات دینداروں میں بھی یہ کمزوری آجاتی ہے کہ بندہ دین کی طرف آتاہے ، خیر کا ماحول مل جاتا ہے ، نیک اعمال میں بندہ آگے بڑھتا ہے لیکن دوسری طرف گناہوں سے بچنے کی خاص کوشش نہیں ہوتی ۔ حالانکہ اُمتی کے لیے جہاں امر بالمعروف کا حکم ہے وہاں نہی عن المنکر کا بھی حکم ہے ۔ نیک اعمال ضروری ہیں لیکن گناہوں سے بچنا بھی ضروری ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے سیدنا ابو ہریرہ کو پانچ وصیتیں فرمائیں۔ ان میں سے پہلی یہ تھی کہ تم اللہ کی حرام کردہ باتوں سے بچ جاؤ تم سب سے بڑے عبادت گزارہو جاؤ گے۔ہمارے ہاں اچھے بھلے دیندار لوگوں میں بھی اس حوالے سے کمزوری پائی جاتی ہے۔ بندہ نوافل میں، خیرات کے کاموں میں، نفلی امور میں آگے بڑھ رہا ہے مگر حرام کو نہیں چھوڑرہا، غیبت کو نہیں چھوڑ رہا،دھوکے کو نہیں چھوڑ رہا، ماں باپ کا دل دکھا رہا ہے، گھر والوں کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے، پڑوسی کا حق مار رہا ہے، رشتہ داروں سے قطع تعلقی کر رہا ہے، ناپ تول میں کمی کر رہا ہے، سود خوری میں مبتلا ہے، بے حیائی کے کسی کام میں مبتلا ہے ۔ یہ نہ تقویٰ ہے اور نہ دین کا مزاج ہے ۔ اللہ کا دین تو پورا پیکج فراہم کرتا ہے ۔ فرمایا :
’’اے اہل ِایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘ (البقرہ:208)
دین کا یہ مزاج نہیں ہے کہ بندہ نفلی عبادات میں تو آگے بڑھ رہا ہے لیکن نہ تو فرائض پورے کر رہا ہے اور نہ ہی گناہوں سے بچ رہا ہے ۔ معروف حدیث ہے کہ جو بندہ عمدہ اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اللہ کے ہاں اس شخص کا درجہ پاتا ہے جو ہمیشہ رات کو نوافل ادا کرتا ہو اور دن کو روزہ رکھتا ہو ۔ ایک اور حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا :جوبندہ اللہ کے حرام کردہ کاموں سے بچتا ہے اس کا مقام اللہ کے ہاں اس شخص جیسا ہے جو ہمیشہ رات کو نوافل ادا کرتا ہے اور دن کو روزہ رکھتا ہے ۔ اب ہم میں سے ہر شخص غور کرے اور تنہائی میں بیٹھ کر سوچےکہ ہم دین کے ان تقاضوں پر کتنا عمل کر رہے ہیں ۔ اگر ہمیں علم نہیں ہے تو دین سیکھنا چاہیے اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۔
تقویٰ کی برکات
تقویٰ کی برکات جا بجا قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص ہدایت کا محتاج ہے اور ہر نماز کی ہر رکعت میںہم دعا مانگ رہے ہیں :
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo}’’(اے ربّ ہمارے!) ہمیںہدایت بخش سیدھی راہ کی۔‘‘
اوراللہ سورۃ البقرہ کے شروع میں ارشاد فرما رہا ہے:
{ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(2)}’’ ہدایت ہے پرہیزگار لوگوں کے لیے۔‘‘
اگرہم ہدایت چاہتے ہیں تو پھر ہمیں تقویٰ اختیار کرنا ہوگا ۔ قرآن سب کے لیے ہدایت ہے ۔ ارشاد ہوتاہے :
{ہُدًی لِّلنَّاسِ} ’’(ہم نے بھیجا قرآن کو )لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر ۔‘‘ (البقرہ: 185 )
قرآن سارے انسانوں کے لیے ہدایت ہے مگر اس سے ہدایت وہ پائے گا جس کے دل میں تقویٰ ہوگا ۔ تقویٰ ہوگا تو ہدایت عطا ہوگی۔ سورہ طلاق کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاں تقویٰ کی بطور خاص تلقین کی ہے وہاں اس کی برکات بھی بیان کی ہیں ۔ فرمایا :
’’اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا ‘اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا۔‘‘ (ـالطلاق:2)
آج قوم کو شارٹ کٹ چاہیے کہ راتوں رات امیر ہو جائیںتو سب مشکلیں آسان ہو جائیں گی۔ یہ ہماری خواہشات تو ہو سکتی ہیں لیکن اللہ کا نظام یہ نہیں ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ مشکلات سے نکلنے کا راستہ اسے ملے گا جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا ۔ آگے فرمایا:
’’اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہو گا۔‘‘(ـالطلاق:2)
یہ ہم سب کا مسئلہ ہے اور قرآن اس مسئلے کاصاف ستھرا حل بتا رہا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرلو۔ اسی طرح قومی سطح پر بھی اس مسئلے کا حل قرآن بتارہا ہے :
’’اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر کھول دیتے آسمانوں اور زمین کی برکتیں۔‘‘( اعراف : 96 )
یہ باتیں دل کی گہرائیوں اور ایمان کی بصیرت سے سمجھنے والی ہیں ۔ آج ہماری معیشت کی تباہی ہمارا قومی سطح کا مسئلہ بن چکا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کا حل بتا رہا ہے کہ سب سے پہلے ایمان لے آؤ ، محض زبان سے کلمہ پڑھ لینے والا ایمان نہیں بلکہ دل سے ایمان لاؤ اور پھر اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ تمہارا عمل تمہارے ایمان اور تقویٰ کا ثبوت پیش کر رہا ہو ۔ آج ہمارے جو اعمال ہیں ان کو دیکھ کر کوئی کہے گا کہ یہ اللہ کو ماننے والے ہیں ؟ کوئی ہمیں متقی کہے گا؟ ہرگز نہیں ۔ اس لیے کہ ہمارے اعمال اور کردار ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ ہمارے دل میں ایمان اور تقویٰ نہیں ہے ۔ اگر ہوتا تو آج اللہ تعالیٰ ہمارے لیے زمین و آسمان کے خزانے کھول دیتا ۔ سورہ طلاق کی آیت 3 میں فرمایا:
’’اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہے۔‘‘
آج ہم نے قومی مسئلہ بنا لیا ہے کہ امریکہ ناراض نہ ہو جائے، IMFناراض نہ ہو جائے ، اسی گھن چکر میں ہم پستے چلے جارہے ہیں اور تباہی دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر سوچ بن گئی ہے کہ سود چھوڑ دیں گے تو نظام کیسے ہو گا ، رشوت ، کرپشن کا سہارا نہیں لیں گے تو گزارہ کیسے چلے گا ۔ جھوٹ نہیں بولیں گے تو کاروبار کیسے چلے گا ۔ اگر مسلمان یہ مان کر بیٹھا ہے تو پھر یہ کیسا ایمان ہے؟اللہ پر بھروسا ، اللہ کا تقویٰ کہاں ہے ؟
ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اللہ کےساتھ کمٹمنٹ کے لیے ہم تیار نہیں تو اس نے بھی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ رکھا ہے۔ حضرت امیر معاویہ نے حضرت عائشہ صدیقہ کو درخواست لکھ کر بھیجی کہ میرے لیے کوئی وصیت فرمائیے۔ امت کی ماں عائشہ صدیقہ نے اللہ کے رسولﷺ کا یہ فرمان لکھ کر بھیجا کہ : جو لوگوں سے توقعات توڑ کر اللہ پر بھروساکرلے اس کے لیے اللہ کافی ہو جائے گا اور جو اللہ پر بھروسا چھوڑ کر لوگوں سے توقعات لگائے ، اللہ اسے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا اور وہ در بدر کی ٹھوکریں کھائے گا ۔ یہ آج ہمارا قومی مسئلہ ہے ۔ اللہ پر ہمارا بھروسا نہیں رہا بلکہ انفرادی سطح پر جھوٹ ، کرپشن ، رشوت ، سود ، لوٹ مار اور اجتماعی سطح پر امریکہ ، IMFاور سودی نظام سے توقعات ہیں۔ ان کے کہنے پر یہاں خلاف شریعت قانون سازیاں ہو رہی ہیں ، اللہ کے دین سے سرکشی اور بغاوت دھڑلے سے ہورہی ہے ۔ اگر یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے تو پھر اللہ کی مدد ، رحمت اور برکت ہم پر کیسے نازل ہوگی؟ سورہ طلاق میںآگے فرمایا:
’’اور جو کوئی اللہ کاتقویٰ اختیار کرتا ہے وہ اُس کے کاموں میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔‘‘ (آیت:4)
’’اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا وہ اُس کی برائیوں کو اس سے دُور فرما دے گا‘اور اسے بہت بڑا اجرو ثواب عطا کرے گا۔‘‘(آیت:5)
یعنی جو تقویٰ اختیار کرے گا اس کی دنیا اور آخرت دونوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ یہی ہم سب کا مسئلہ ہے ۔ ہمارے جو بھی مسائل اور مصائب ہیں، یہ ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے ہیں۔ا رشاد ہوتا ہے :
’’اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی(اعمال) کے سبب آتی ہے اور (تمہاری خطائوں میں سے) اکثر کو تو وہ معاف بھی کر تا رہتا ہے۔‘‘(شوریٰ:30)
اب ان مسائل سے نکلنےکا راستہ یہ ہے کہ ہم اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور یہی ہماری آخرت کے لیے بھی بہتر ہے ۔ فرمایا :
’’اے اہل ِایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اُس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے!‘‘(الحشر:18)
دنیوی معاملات میں تو ہم روزانہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں ، کاروباری کھاتے بناتے اور چیک کرتے ہیں ، بینک بیلنس چیک کرتے ہیں ۔ حضورﷺ نے فرمایا:ہر بندہ صبح بیدار ہوکر یا تو اپنے آپ کو جہنم کے عذاب میں مبتلا کر لیتا ہے یا پھر اس سے خود کو آزاد کروا لیتا ہے ۔ یعنی اگر وہ اللہ کی فرمانبرداری کے کاموں میں لگ گیا تو گویا اس نے اپنے آپ کو جہنم سے آزاد کروا لیا ورنہ خود کو عذابِ جہنم میں مبتلا کرلیا ۔ آج ہم سب کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو کہاں کھپا رہے ہیں ؟ یہ ہر دن کا مسئلہ ہے۔ہر بندے نے اپنا حساب خود دینا ہے ۔
’’اور قیامت کے دن سب کے سب آنے والے ہیں اس کے پاس اکیلے اکیلے۔‘‘(مریم:95)
ہم سب تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟آگے فرمایا:
’’اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ‘یقیناً تم جو کچھ کررہے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔‘‘(الحشر:18)
دنیا میں توہمارا ڈیٹا ڈیلیٹ بھی ہو جاتاہے مگر اللہ کے ہاں جو ریکارڈ ہے وہ کبھی ضائع ہونے والا نہیں ہے ۔ فرمایا :
{اَحْصٰىہُ اللّٰہُ وَنَسُوْہُ ط}’’اللہ نے ان (اعمال) کو محفوظ کر رکھا ہے جبکہ وہ انہیں بھول چکے ہیں۔‘‘ (المجادلہ:6)
انسان کے وہم و گمان سے بھی جو چیزیں نکل جاتی ہیں وہ بھی اللہ کے ہاں محفوظ ہیں ۔ اسی لیے اللہ کے رسولﷺنے دعا سکھائی ہے:((اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا)) اماں عائشہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ یہ آسان حساب کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کسی کا حساب کتاب نہ کھولے اورنہ پوچھے ، جس کا حساب کتاب کھل گیا اور اللہ نےپوچھ لیا وہ تومارا گیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے حساب کو آسان فرمائے ۔ آمین !