اداریہ
خورشید انجمفَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُ وْلِی الْاَبْصَارِ
18 مئی 2024ء کو سری لنکامیں سرکاری سطح پر تامل علیحدگی پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی کامیابی کے پندرہ سال مکمل ہونے پر خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ 18 مئی2009ء کو تامل ٹائیگرز کے لیڈر پربھاکرن کو ہلاک کرنے پر سری لنکا کی حکومت اور فوج نے حتمی فتح کا اعلان کیا تھا۔سنہالی زبان و ثقافت کے گڑھ ماتارا سےرنیل وکراماسنگے جنہوں نےسابق صدر راجا پاکسے کی جگہ اُس وقت سری لنکاکے صدرکاعہدہ سنبھالا جب بدترین معاشی صورتحال اور ظلم کی چکی میں پسی عوام اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور عوام کے ایک سمندر نے صدارتی محل پر ہلہ بول دیا تھا۔راجا پاکسے کو تو فوج نے پناہ دے کر بچا لیا لیکن سری لنکا آج بھی اس بدترین معاشی اورسیاسی بحران سے نہیں نکل پایا۔اُنہوں نے ٹیلی ویژن پر عوام سے خطاب کیا۔ اپنی تقریر میں سری لنکن صدر کا کہنا تھا کہ عوام شاید اِس کامیابی کے حوالے سے گونگی، بہری اور نابینا ہو چکی ہے اور اُن کی ناپسندیدگی کے باوجود ہر سال اسی تاریخ پر ایسی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا رہے گا۔اس سے قبل 2009ء سے 2021ء تک راجا پاکسے ہر سال 18 مئی کو قوم سے یوں خطاب کرتے گویا کہ وہ اپنے ملک میں جنگ میں جیت کی فتح کا جشن نہیں منا رہے بلکہ امن حاصل کرنے کی یہ تقریبات ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ سری لنکا میں 37 برسوں سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ اٹھارہ مئی 2009 ءکو ہوا تھا۔ سری لنکا میں خانہ جنگی کی متعدد وجوہات تھیں اور یقیناً تامل علیحدگی پسندوں نے بھی عوام اور افواج کو نشانہ بنایا۔ ہمارے لیے مقام ِ شکر ہے کہ پاکستان میں جن کے خلاف آپریشن کیے جاتے ہیں اور اب بھی جاری ہیں وہ کم از کم ملک سے علیحدگی کا کھلم کُھلا نعرہ بلند نہیں کررہے بلکہ پون صدی سے تمام حکومتوں اور مقتدرہ کے ظلم و نا انصافی سے ناراض ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق سری لنکا کے اس پُرتشدد تنازعہ میں ایک لاکھ افراد کی ہلاکت ہوئی تھی اور ان میں 40 ہزار کی ہلاکت فوجی آپریشن کے آخری ایام میں ہوئی تھی۔بین الاقوامی ماہرین کے مطابق تامل ٹائیگرزکے خلاف فوجی آپریشن میں 80 فیصد ہلاکتیں عام شہریوں کی ہوئیں۔بہر حال اس سال 18 مئی کو تامل ٹائیگرزکے حق میں عام تقریب منعقد کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ حکومت نے تامل ٹائیگرز کی تنظیم کی جھنڈیاں یا نشان لگانے کے علاوہ ہر قسم کے اجتماعات کو بھی ممنوع قرار دے دیا۔پولیس نے جافنا میں کئی مقامات پر ہونے والی دعائیہ تقاریب پر دھاوا بول کر اُنہیں منتشر کر دیا ۔18 مئی2009 ءکو تامل باغیوں کے لیڈر وِلُوپلائی پربھاکرن کو مولی وائیکال نامی گاؤں کے قریب پانی کے تالاب پر بنائی گئی پناہ گاہ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 37 سال سے جاری رہنے والی خانہ جنگی نے سری لنکا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔نہ جانے کیوں سری لنکا کے حالات اور واقعات کو دیکھ کر پاکستان کے حوالےسے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ 18 مئی کو 2 سے تقسیم کرنے پر 9 مئی کی تاریخ سامنے آتی ہے!
سری لنکا میں سنہالی لوگ اکثریت میں ہیںاور تامل اقلیت کو اس سے بڑی شکایات رہی ہیں۔ مذاہب کو دیکھا جائے تو ستر فی صد آبادی بدھ مت پر یقین رکھتی ہے جب کہ ہندو،مسلم اور مسیحی تقریباً دس دس فی صد کے تین بڑے گروہ ہیں۔ آبادی تقریباً سوا دو کروڑ ہے یعنی کراچی کی آبادی کے برابر ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی سری لنکا سے تقریباً دس گنا زیادہ ہے لیکن پاکستان کی فی کس پیداوار سالانہ صرف تیرہ سو ڈالر ہے جب کہ سری لنکا کی تقریباً چار ہزار ڈالر کو چھو رہی تھی۔ بہرحال سری لنکا کی تاریخ میں دو شخصیات بڑی اہم رہی ہیںایک سری ماوو بندرا نائیکے اور دوسری جے وردھنے۔ سری ماوو بندرا نائیکے اپنے والد کے قتل کے بعد 1960 ءمیں سری لنکا کی وزیراعظم بنیں اور وہ دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ وہ 1970 ء سے 1977ء تک وزیراعظم رہیں۔ 1977ء میں دائیں بازو کے جے وردھنے وزیراعظم بنے اور اُنہوں نے ایسا صدارتی نظام متعارف کروایا جس میں وزیراعظم صدر کے تابع رہتا ہے۔ جے وردھنے 1977 ءسے 1989 ءتک کُل بارہ سال اقتدار میں رہے۔ ایک سال بحیثیت وزیراعظم اور گیارہ سال صدر کے طور پر۔ ان کے بعد دائیں بازو کی یونائٹڈ نیشنل پارٹی مزید پانچ سال اقتدار میں رہی۔ 1994 ء کے بعد سری ماوو بندرا نائیکے کی صاحبزادی چندریکا کمارا ٹنگا 2005 ءتک یعنی گیارہ سال صدر رہیں۔ اسی دوران1994ء سے 2000ء تک ان کی والدہ بندرا نائیکے کے پاس وزیراعظم کا عہدہ رہا۔ 2000ء میں اپنی وفات کے وقت وزیراعظم بندرا نائیکے کی عمر چھیاسی برس تھی۔ 2006ءمیں سری لنکا فریڈم پارٹی کی قیادت چندریکا کے ہاتھ سے نکل کر مہندرا راجا پاکسے کے ہاتھ میں آگئی، جس کے بعد راجا پاکسے خاندان کا عروج شروع ہوا ، انہیں صدر اور وزیراعظم کے عہدے ملتے رہے۔
سری لنکا فریڈم پارٹی کےمہندرا راجا پاکسے 2005 ءسے 2015 ء تک دس سال صدر رہے۔ اس دوران انہوں نے 26 سال سے جاری خانہ جنگی کو سختی سے کچل دیا،اور اس دوران اُن پر سنگین جنگی جرائم کا الزام بھی لگا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس وجہ سے وہ 2015 ءمیں انتخاب ہار گئے، جس کے بعد سری سینا کی حکومت رہی جو فریڈم پارٹی اوریو این پی، کی مخلوط حکومت تھی۔ لیکن پھر 2019 ءمیں مہندرا راجا پاکسے کے بھائی گوٹا بایا راجا پاکسے صدر بن گئے ۔صدر گوٹا بایا ایک سابق فوجی افسر تھے جو اپنے بھائی کے دور صدارت میں 2005ء سے 2015ءتک وزارتِ دفاع کے سیکرٹری رہ چکےتھے۔ انہوں نے صرف بیس سال فوج میں کام کرنے کے بعد بیالیس سال کی عمر میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے جلد ریٹائرمنٹ لے کر کاروبار شروع کردیا تھا۔ گویا موروثی سیاست کا جو بیج روزِ اول سے ڈال دیا گیا تھا اُس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا۔ عوام اشرافیہ سے تنگ آئی ہوئی تھی ۔ راجا پاکسے خاندان سری لنکا کا سب سے بااثر سیاسی خاندان بن چکا تھا۔ ایسا وقت بھی دیکھنے میں آیا کہ اسی خاندان کا ایک بھائی صدر تھااور دوسرا وزیراعظم ۔آرمی چیف ،چیف جسٹس اور ایوان بالا کے سپیکر بھی اسی خاندان کے لوگ تھے ؕ۔ان دونوں بھائیوں نے بے تحاشا قرضے لیے اور زرمبادلہ کے ذخائر کوہضم کرلیا، پھر اشرافیہ کو ٹیکس میں کھلی چھوٹ دی گئی ۔ دھڑا دھڑ نوٹ چھاپنے شروع کردیے۔ بجٹ کا خسارہ حد سے بڑھ گیا۔جس کے نتیجے میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہوگئی۔سری لنکا کو دیوالیہ کردیا گیا۔ اس کے پاس صرف دو ارب ڈالر کے ذخائر بچے ۔ جب کہ سری لنکا کو چار ارب ڈالر کے قرضے ادا کرنےتھے۔ ان کے علاوہ ایک ارب ڈالر کے بین الاقوامی بانڈ کی ادائیگی بھی کرنی تھی۔ اگر سری لنکا کے ملکی اور بین الاقوامی قرضے ملا لیے جائیں تو بہت جلد اسےفوری طور کُل نو ارب ڈالر ادا کرنے تھے۔ اس بحران کو پیدا کرنے میںآئی ایم ایف کا بھی اہم کردار تھا۔پھر آئی ایم ایف ہی نے نجات دہندہ کے طور پر میدان میں چھلانگ لگائی۔کڑی ظاہری اور باطنی شرائط لگائی گئیں۔ آج سری لنکا تاریخ کے بدترین بحران میں مبتلا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ چھوٹا سا ملک اس بحران کا شکار کیسے ہوا۔ اس کی ایک بڑی وجہ خود سری لنکا کے حکمرانوں کی بداعمالیاں ہیں، بدعنوانیاں، اقرباء پروری اور ضرورت سے زیادہ اخراجات ہیں جبکہ آئی ایم ایف اور قرضوں پر انحصار نے معیشت کو ڈبو دیا۔ اشرافیہ کی لوٹ مار اور موروثی سیاست کی وجہ سے بدترین ارتکازِ دولت دیکھنے میںآئی۔پھر یہ کہ امن کے نام پر عوام خصوصاً تاملوں کو نشانہ بنایا گیا اور شر پسندوں سے زیادہ عام آدمی کو پیس کر رکھ دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے۔ حکمرانوں کی انہی بداعمالیوں، بدعنوانیوں، اقرباپروری،شاہانہ اخراجات، قرضوں پر انحصار اوربدا منی و انسانی حقوق کی پامالی نے ملک کو ڈبو دیا۔سری لنکا کی کہانی اس لیے سنائی گئی ہے کہ’’فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُ وْلِی الْاَبْصَارِ‘‘ (شاید ہم دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھ لیں۔)اللہ کرے کہ ہم سبق سیکھیں اور ملک وملت کی بہتری کے لیے اپنا قبلہ درست کریں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024