الہدیٰ
پیغمبروں کابھیجا جانا اللہ تعالیٰ کا احسان اور اتمامِ حجت کا ذریعہ!
آیت 47 {وَلَوْلَآ اَنْ تُصِیْبَہُمْ مُّصِیْبَۃٌ م بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا} ’’اور(یہ ہم نے اس لیے کیا کہ) کہیں ایسا نہ ہو کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچے ان کے کرتوتوں کے سبب تو یہ کہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تُو نے کیوں نہ بھیجا ہماری طرف کوئی رسول‘‘
{فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(47)} ’’کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور ایمان لانے والوں میں سے ہو جاتے!‘‘
اگر رسول مبعوث کیے بغیر ان پر عذاب آ جاتا تو یہ لوگ عذر کرتے کہ ہمیں متنبہ کیوں نہیں کیا گیا؟ جب ہمارے معاملے میں اتمامِ حُجّت نہیں ہوئی تو پھر یہ عذاب ہمارے اوپر کیونکر مسلط کر دیا گیا؟ یہی مضمون سورۂ طٰہٰ میں اس طرح بیان ہوا ہے:{وَلَوْ اَنَّآ اَہْلَکْنٰہُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِہٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰی(134)}’’اور اگر ہم اس (قرآن کے نزول ) سے پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تویہ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار! تُو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجاکہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے!‘‘
درس حدیث
بہتر سرمایہ
عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ ((یَا ابْنَ آدَمَ اِنّکَ اَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَیْرٌ لَکَ وَاَنْ تُمْسِکُہُ شَرٌّ لَکَ وَلَا تُلَامُ عَلٰی کَفَافٍ وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ وَالْیَدُالْعُلْیَا خَیْرٌمِنَ الْیَدِالسُّفْلیٰ))(رواہ مسلم)
حضرت ابو امامہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم:ﷺ نے فرمایا :’’اے آدم کی اولاد ‘اگر تو بچت کو (اللہ کی راہ میں) خرچ کرے گا تو یہ تیرے لیے خیر کا سامان ہو گا اور اگر بچت کو جمع کرے گا تو یہ برائی پیدا کرے گی اور کفالت کی حد تک جمع رکھنے میں ملامت نہیں ہے اور جب خرچ کرو تو ابتدا ان سے کرو جو تمہاری ذمہ داری میں ہیں --- اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘۔
تشریح:انسان کی بچت فاضل سرمایہ ہوتا ہے جسے یا تو دنیا کاسامان جمع کرنے کے لیے وہ استعمال کرے گا یا پھر آخرت کا توشہ بنانے کے لیے ‘ اور ظاہر ہے آخرت کا سرمایہ بہترین سرمایہ ہے اور دنیا کی دولت توانسان کو دنیا کے ساتھ ملوث کر دیتی ہے جس سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اپنی آمدن کے لحاظ سے گھر گھر ہستی کے معاملات کو نمٹانے کے لیے ماہانہ اخراجات یا سالانہ معاش کی حد تک جمع رکھنے پر ملامت نہیں ہے ۔ پھر یہ کہ خرچ کرنے میں سب سے پہلے گھر والے اور پھر قرابت دار ہی حقدار ہیں۔