(زمانہ گواہ ہے) بجلی کے بلوں میں اضافے کا سببIMFیا IPPs - محمد رفیق چودھری

10 /

ملک کی معاشی تباہی ، مہنگائی، بے روزگاری اور ملک

کو مقروض بنانے میں بہت بڑا ہاتھ IPPsکا ہے ،

40خاندانوں کی ہوس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر

لا کھڑا کردیا ہے  :ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

عوام میں اضطراب اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ خدانخواستہ

سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں،

اگر ہم نے اپنی اصلاح نہ کی اور حالات پر قابو نہ پایا تو

ملکی سلامتی اور بقاء خطرے میں پڑ سکتی ہے: رضاء الحق

بجلی کے بلوں میں اضافے کا سببIMFیا IPPs کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:بجلی کےبلوں میں روز بروز جو اضافہ ہو رہا ہے اس نے عوام کو کنگال کر دیا ہے اور صحیح معنوں میں سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے۔جماعت اسلامی نے بھی اسلام آباد میں دھرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ بلوں میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں اور آئی پی پیز جیسی مہنگی بجلی پیدار کرنے والی کمپنیوں کے معاہدوں کی حقیقت کیا ہے؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: حقیقت تویہ ہے کہ یہ سارا ظالمانہ نظام عوام کے لیے عذاب بنا ہوا ہے اور لوگ اگر سڑکوں پر نہیں آرہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ظالمانہ نظام نے لوگوں کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ لوگ دو دو نوکریاں کر رہے ہیں اور اس کے باوجود بھی گھر کے اخراجات ، بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے ۔ ورنہ کوئی دن ایسا نہ ہو کہ دھرنا نہ ہو ۔ آپ اندازہ کریں کہ ہمارے ہاں سارا سال دریا بہتے ہیں ، سارا سال دھوپ چمکتی ہے اور ہوائیں چلتی ہیں۔ دنیا کے کسی ملک کے پاس اتنی سہولتیں نہیں ہیں ۔ لیکن ان ظالموں نے نہ تو ڈیم بنائے ، نہ سولر ٹیکنالوجی سے کام لیا اور نہ ہی ونڈ پاور کو بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کیا تاکہ عوام کو سستی بجلی مل سکے ۔ اس کی بجائے ان ظالموں نے اپنے کمیشن کے لیے ، اپنے خاندانوں کی دولت بڑھانے اور بیرون ممالک جائیدادیں بنانے لیے 1994ء میں آئی پی پیز کے ساتھ ملک دشمن معاہدے کیے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی دشمن نے ہمارے ساتھ معاہدے کیے ہوں۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی اس ساری صورتحال کی ذمہ دار ہیں کیونکہ کالا باغ ڈیم ہو یا کوئی بھی ڈیم ہو اس کو بنانے سے اگر ملک کو توانائی ملتی ہے تو کسی کو کیا تکلیف ہے ۔ ایک بہانہ بنایا گیا کہ نوشہرہ اور کچھ اضلاع ڈوب جائیں گے ۔ حالانکہ واپڈا کے جس چیئرمین نے ڈیم کا ڈیزائن بنایا اس نے بتایا کہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے ، حکومت اس پر توجہ دے لیکن کوئی توجہ نہیں دی گئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بجلی 64 روپے فی یونٹ مل رہی ہےاور 64 روپےفی یونٹ میں نہ کوئی گھر چل سکتا ہے ،نہ انڈسٹری چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی کاروبار چل سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ کھیت میں ٹیوب ویل تک نہیں چل سکتے ۔ گویا ان چالیس خاندانوں نے ملک کو جام کرکے رکھ دیا ہے جو آئی پی پیز کے ساتھ معاہدات میں ملوث ہیں۔ ان خاندانوں کو ملک اور قوم پر ترس بھی نہیں آتا ۔ چنیوٹ پاورز کے نام سے ان میں سے ایک یونٹ سلمان شہباز کا ہے جس نے تین مہینے کے اندر 63 کروڑ روپے قوم سے صرف capacity کی مدمیں وصول کیے ہیں ۔ یعنی وہ بجلی پیدا نہیں کریں گے تب بھی قوم ان کو پیمنٹ کرنے کی پابند ہوگی ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے اور دنیا میں کہاں اس طرح کے معاہدے ہوتے ہیں ۔ پھر یہ کہ معاہدہ کے تحت قوم نے ان کو ادائیگی بھی صرف ڈالروں میں ہی کرنی ہے ۔ حالانکہ وہ رہتے اس ملک میں ہیں اور یہاں سے پیسہ اکٹھا کرکے باہر کے ملکوں میں لے جاکر رکھتے ہیں ۔ ان کو ڈالرز میں پیسے دینے کے لیے پھر ہمارے حکمران کشکول لے کر پوری دنیا میں پھرتے ہیں ، کبھی آئی ایم ایف سے معاہدے کرتے ہیں ، ان کی بدترین شرائط مانتے ہیں جس کے نتیجہ میں بجلی اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ جس کا ایک بلب اور ایک پنکھا ہے وہ بھی اب چیخ رہا ہے ۔ لوگ یہاں سے جاکر بنگلہ دیش میں فیکٹریاں لگا رہے ہیں ۔ گویا کہ اس ملک کے ساتھ اتنی بڑی دشمنی ہورہی ہے ۔ لہٰذا جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس دشمنی کے خلاف ضرور آواز اٹھائیں گے چاہے کوئی بولے یا نہ بولے ۔ آپ عوام کو کیوں اتنی کند چھری سے ذبح کر رہے ہیں ۔ کیا آپ یہی چاہتے ہیں کہ انقلاب فرانس کی طرح لوگ سڑکوں پہ نکل آئیں۔جماعت اسلامی اس حوالے سے پُرامن مظاہرہ کرنے جارہی ہے ۔
سوال:کیا آئی پی پیز کے ساتھ معاہدےہی بجلی کے بلوں میں پے در پے اضافے کی اصل وجہ ہیں یا اس کے علاوہ بھی کوئی وجہ ہے ؟
رضاء الحق : اس میں بیرونی طاقتیں بھی یقیناًاثر انداز ہوتی ہیں اور اندرونی طور پہ بھی جسے ہم اشرافیہ کہتے ہیں اس کا ایک بہت اہم رول ہے۔ یہ ساری چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں ۔جب نا اہل ، بدعنوان اور مفاد پرست لوگ اوپر آتے ہیں تو بیرونی قوتوں کے لیے ان کے ذریعے ملکی مفاد کے خلاف کام کروانا آسان ہو جاتا ہے۔یہ بدنام زمانہ معاہدے 1994ء میں پیپلز پارٹی کے دور میں ہوئے اور پھر مشرف دور میں ان میں تھوڑی ترمیم کی گئی ۔ اس وقت 42 آئی پی پیز پاکستان میں کام کررہی ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد پاکستانیوں کی ملکیت میں ہیں جن میں سے 52فیصد حکومت جبکہ 28 فیصد صرف چالیس خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ ان میں سابق اور موجودہ حکمرانوں کے بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں ۔ جن شرائط کے تحت یہ معاہدے کیے گئے ایسا لگتا ہے وہ شرائط کسی دشمن نے ہم پر مسلط کردی ہیں ۔ جیسا کہ ان کمپنیز کو قوم نے صرف ڈالرز میں ہی ادائیگی کرنی ہے۔ پھر یہ کہ اگر حکومت معاہدہ پورا نہیں کرے گی تو اسے عالمی عدالت میں جاکر بھاری ہرجانہ بھرنا پڑے گا ۔ اسی طرح یہ شرط بھی رکھی گئی کہ جتنی بجلی پیدا کرنے کی ان اداروں میں capacity ہوگی اس کے حساب سے قوم انہیں ادائیگی کرے چاہے وہ اتنی بجلی پیدا کر رہے ہوں یا نہ کررہے ہوں یا چاہے اتنی ڈیمانڈ ہو یا نہ ہو ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک میں بجلی کی ڈیمانڈ کئی سالوں سے صرف 13 ہزار میگاواٹ ہے کیونکہ 30 سے 40 فیصد انڈسٹری ملک میں بند ہو چکی ہے۔ عام صارفین اور تاجر بھی کم سے کم بجلی استعمال کر رہے ہیں کیونکہ لوگوں کے پاس بجلی کے بھاری بل بھرنے کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں ۔ جبکہ یہ بدنام زمانہ کمپنیاں 46 ہزار میگا واٹ کے حساب سے قوم سے پیسہ لے رہی ہیں ۔ گوہر اعجاز صاحب نے جو تفصیلات بتائی ہیں ان کے مطابق جنوری تا مارچ 2024ء تک ان آئی پی پیز کی طرف سے بجلی کی سپلائی صفر رہی ہے لیکن اس کے باوجود ان تین ماہ میں انہوں نے قوم سے 10 ارب روپےماہانہ وصول کیے ہیں ۔یہ کمپنیاں 100 فیصد کیپسٹی کے مطابق قوم سے پیسہ لے رہی ہیں جبکہ بجلی اوسطاً صرف 25 فیصد پیدا کر رہی ہیں ۔ ان میں سے 4 کمپنیاں تو ایسی ہیں جو سرے سے بجلی پیدا کر ہی نہیں رہیں لیکن اس کے باوجود قوم سے رقم 100 فیصد کیپسٹی کے حساب سے لے رہی ہیں ۔ یہ مہنگائی اور معاشی بدحالی کی اہم وجوہات ہیں۔افغانستان میں اس وقت فی یونٹ 15 روپے کے حساب سے بجلی مل رہی ہے ، بنگلہ دیش میں 20 روپے میں مل رہی ہے ۔ جبکہ پاکستان میں 64 روپے فی یونٹ بجلی مل رہی ہے جس کی وجہ سے یہاں انڈسٹری بھی بند ہوگئی ہے اور انڈسٹری بند ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ بھی ختم ہوگئی ہے ، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ۔پھر یہ کہ ہمارے ہاں بجلی کی ترسیل کا نظام ایسا ہے کہ 50 فیصد سے زائد بجلی ضائع ہو جاتی ہے ۔
سوال:ایک طرف عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں بلکہ کنگال ہو چکے ہیں ،بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے ان کو قرضے لینے پڑ رہے ہیں، گھر کی چیزیں بیچنی پڑرہی ہیں اور دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ وہ اشرافیہ جو پہلے ہی اس نظام سےفائدہ اُٹھا رہی تھی موجودہ صورتحال میں پہلے سے بھی زیادہ فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:آپ اندازہ کریں کہ جس غریب ملک کا نظام قرضوں پر چل رہا ہے اس کی صرف وفاقی حکومت کے پاس 90 ہزار گاڑیاں ہیں جن میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جو ایک لٹر پٹرول یا ڈیزل میں صرف 3 کلو میٹر چلتی ہیں اور ان 90 ہزار گاڑیوں کی خریداری ، مرمت ، پٹرول ، ڈرائیور سمیت ہر چیز کا خرچہ غریب عوام اُٹھا رہے ہیں ۔ پھر اس اشرافیہ کو بجلی ، گیس اور ہر چیز مفت مل رہی ہے اور اس کا خرچہ بھی غریب عوام اُٹھا رہے ہیں ۔ ایک جج صاحب نے یہاں تک لکھا کہ میں نے چونکہ اب سولر لگوا لیا ہے ، اس لیے دوہزار یونٹ بجلی جو مجھے پہلے مفت مل رہی تھی اب اس کے بدلے میں مجھے پیمنٹ کی جائے ۔ ان ظالموں کو کوئی ترس نہیں آتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آئی پی پیز جیسے ملک دشمن معاہدے کرنے والوں کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت قوم سے غداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے ۔ جب ہمارے پاس اتنی ٹرانسمیشن نہیں ہے تو آپ ایسے معاہدے کیوں کر رہے ہیں ؟کیوں قوم کے اربوں روپے capacity کی مد میں ان کو دے رہے ہیں؟اور جو لے رہے ہیں وہ وہی چالیس خاندان ہیں جن کی اپنی ملیں ہیں اور اگر مہنگائی ہورہی ہے تو اس کا فائدہ بھی انہیں کو پہنچ رہا ہے ۔ یہ ایک لوٹ مار مچائی ہوئی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ اس کے بعد افسر شاہی کے شاہانہ اخراجات آپ دیکھیں ، دنیا کے کسی ملک میں اتنے نہیں ہیں جتنے یہاں ہیں ۔ ان کے محلات اور جائیدادیں بن رہی ہیں ۔گورنر ہاؤس میں صرف ایک آدمی کے لیے اتنے ملازمین رکھے ہوئے ہیں کہ ان کے لیے گورنر ہاؤس میں پوری کالونی بنی ہوتی ہے اور ان کے بچوں کے لیے وہاں پرائمری سکول ہوتا ہے ۔ پھر آپ دیکھئے کہ سینیٹ کے چیئرمین نے بل منطور کروایا کہ سینیٹ کا چیئرمین چاہے ریٹائر ہوجائے اس کے بعد بھی اس کے لیے سرکاری ملازمین ، گارڈز ، گاڑیاں اور بیرونی ممالک کے لیے ٹکٹ فری ہوگا ۔ مطلب یہاں لوٹ مارلگی ہوئی ہے، ان ظالموں کو تو آخرت کا بھی خوف نہیں ہے لیکن کم ازکم اتنا تو ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ جب بھوکی رعایا اشرافیہ کے ایوانوں پر یلغار کرتی ہے تو پھر لوگ چوراہوں پر عدالتیں لگاتے ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ اب ہم ان معاہدوں سے نکل نہیں سکتے ۔ کم ازکم وہ چالیس خاندان خود تو اللہ کا خوف کرلیں جو حکومتوں میں بھی ہیں ۔ یہ اشرافیہ جو قوم سے بجلی ، گیس ، پٹرول سمیت تمام تر مراعات اپنے شاہانہ اخراجات کے لیے مفت لے رہی ہے اس کو تو یہ ختم کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ تو ان کے اختیار میں ہے ۔
سوال: عوام میں اس وقت اشتعال اور اضطراب بڑھ رہاہے ، جماعت اسلامی بھی دھرنا دینے جارہی ہے، اس احتجاج میں اگر کوئی بڑی سیاسی جماعت بھی شامل ہوگئی تو پھر کیا پاکستان کے حالات خونی انقلاب کی طرف نہیں بڑھیں گے ؟
رضاء الحق :انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ یہاں ایک اور مافیا بھی جنم لے رہا ہے جو بڑے بڑے سولر پلانٹ لگا کر بجلی گرڈ کو فروخت کرتاہے اور عام آدمی وہی بجلی مہنگے داموں خریدتا ہے کیونکہ عام آدمی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ بھی بڑے پلانٹ لگا کر بجلی گرڈ کو بیچ سکے ۔ لہٰذا یہاں ایک اور طبقاتی خلیج پیدا ہورہی ہے۔ امریکہ میں1980ء کی دہائی میں اس خلیج کو روکنے کے لیے قانون بنایادیا گیاتھا کہ عام آدمی کو بھی بجلی اسی قیمت میں ملے گی جتنی ایک بڑے سرمایہ دار کو ۔ یہاں بھی یہ قانون بننا چاہیے ۔ جہاں تک عوام کے اشتعال اور اضطراب کی بات ہے تو لوگ اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ کہیں سری لنکا جیسے حالات پیدا نہ ہو جائیں ۔ سری لنکا کے بعد کینیا میں بھی بغاوت پھوٹ پڑی ہے ۔ یہ بات اب لوگوں کی سمجھ میں آچکی ہے کہ اشرافیہ لوٹ مار کررہی ہے ۔ صرف 52 ارب روپے انوسٹ کرکے چند خاندان آئی پی پیز کے ذریعے 472 ارب روپے کما چکے ہیں ۔ عدالتی انتشار اپنی جگہ عدم استحکام پیدا کر رہا ہے اور پھر دہشت گردی بھی بڑھ رہی ہے اور اس کو کنٹرول کرنے کے لیے ہماے مقتدر ادارے جو طریقہ اپنانے جارہے ہیں اس سے مزید بدامنی پھیل سکتی ہے ۔ ان حالات میں مقتدر لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔ آئی پی پیز میں فوجی فاؤنڈیشن سمیت پانچ فوجی اداروں کا شامل ہونا بھی ایک المیہ ہے ۔ ایسی بہت ساری چیزیں ہیں ، اگر ہم نے ان پر قابو نہیں پایا اور ملک کو اپنا گھر سمجھ کر نہیں چلایا ، صرف ذاتی اور گروہی مفاد کے پیچھے لگے رہے تو ملکی سلامتی اور بقاء خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
سوال:چیمبر آف کامرس کی فیڈریشن نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ آئی پی پیز کے معاہدات کو عدالت میں چیلنج کریں گے ۔ کیا اب ان معاہدوں سے نکلنا ممکن ہے ؟ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر خارجہ پالیسی کے تحت جو معاشی معاہدات ہیں کیا ان پر بھی نظر ثانی کرکے صورتحال میں بہتری نہیں لا ئی جا سکتی ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:آئی پی پیز کے معاہدات کو عدالت میں بالکل چیلنج ہونا چاہیے ۔ یہ تو جماعت اسلامی کا بھی مطالبہ ہے ۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ان معاہدات کا فرانزک آڈٹ بھی ہونا چاہیے کیونکہ جو اس میں ملوث ہیں انہوں نے قوم کو دھوکہ دے کر اربوں روپے قوم کے چرائے ہیں ، کیپسٹی کے نام پر قوم کا پیسہ لوٹا ہے ۔ یہی لوگ حکومتوں میں ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی ایسے معاہدات کرتے ہیں جس سے ان کو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن ملک اور قوم خسارے میں جاتے ہیں ۔ ان سب چیزوں کو عدالت میں جانا چاہیے ۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے عام ممبران کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ جو بل پاس کروایا جارہا ہے اس کی حقیقت کیا ہے ۔ میں جب اسمبلی ممبر تھا تو ایک حکومتی پارٹی کے وزیر اپنے ایم این ایز کو سمجھا رہے تھے کہ جہاں میں ہاتھ اُٹھاؤں تو آپ نے ہاں کہنی ہے اور جہاں میں ہاتھ ایسے کروں تو آپ نے نہ کہنی ہے ۔ یہ حال اسمبلی ممبران کا ہے ۔ انہیں پتا ہی نہیں چلتا ہے کہ جو بین الاقوامی معاہدہ ہو رہا ہے اس کی نوعیت کیا ہے ۔ چین نے پوری دنیا میں جو معاہدے کیے ہیں ان میںشرح سود بہت کم رکھی ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ جو معاہدے ہوئے ہیں ان میں چار اور پانچ پرسنٹ تک سود رکھا ہوا ہے اور سودی قرضہ تو ویسے ہی لعنت ہے۔ یہ چیزیں قوم کے سامنے بھی نہیں لائی جاتیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ قوم یہ سب کچھ جانے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہمارے نمائندے کیا کیا گل کھلاتے ہیں ۔ دنیا بھر میں امیروں پر ٹیکس لگتا ہے اور غریب آدمی کو ریلیف ملتا ہے جبکہ یہاں امیروں ، سرمایہ داروں اور اشرافیہ کے اخراجات کا سارا بوجھ بھی غریب آدمی اُٹھاتا ہےاور سب سے زیادہ ٹیکس بھی غریب عوام پر لگا دیا گیا ہے ۔ صرف بجلی کے بل میں چودہ قسم کے ٹیکس شامل ہیں ۔ ہمارا مطالبہ یہ بھی ہے کہ ان تمام ٹیکسوں کو ختم کیا جائے ۔ طاقتور کے لیے تو عدالت اتوار کے دن بھی کھل جاتی ہے لیکن غریب عوام کے لیے عدالتیں بھی انصاف فراہم نہیں کرپاتیں ۔افسر شاہی کے لیے دو دو ہزار یونٹ بجلی مفت ہے اور غریب آدمی کےلیے 201 یونٹ پر بجلی کا بل ڈبل ہو جاتاہے ۔ ان ساری چیزوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے لیکن جنہوں نے ٹھیک کرنا ہوتاہے وہی مجرم ہوتے ہیں ا س لیے حالات ٹھیک نہیں ہوتے ۔
سوال: اس وقت پاکستان کو جو معاشی چیلنجز درپیش ہیں، آپ کی نظر میں ان کا حل کیا ہے؟
رضاء الحق :بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اس حوالے سے ایک بڑا اہم ڈاکومنٹ تنظیم کی شوریٰ کی مشاورت کے بعد ترتیب دیا تھاکہ پاکستان میں معاشی ، سیاسی اور سماجی سطح پر ایسے کون سے اقدامات کرنے والے ہیں جن سے ہمارے پورے نظام اور ریاست کو اسلامائز کیا جا سکتاہے۔اس کو موجودہ صورتحال کے تناظر میں اپ ڈیٹ کرنے کے لیے امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ صاحب مشاورت کر رہے ہیں۔ پاکستان اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا اور قائداعظم ؒ نے شروع میں ہی معاشی اصول بھی طے کر دیے تھے ۔ بدقسمتی سے اس پر شروع میں تھوڑا عمل ہوا ، قرارداد مقاصد بھی پاس ہوگئی لیکن اس کے بعد ہم پٹری سے اُتر گئے ۔ اسلامی فلاحی ریاست میں عوام کو غذا ، رہائش ، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے جسے کفالت عامہ کہا جاتاہے ۔ اسلامی ریاست میں زکوٰۃ اور عشر کا باقاعدہ نظام ہوتا ہے۔ اگر یہ نظام آج بھی رائج کر دیا جائے تو غریب عوام کو ریلیف مل سکتاہے اور ہمیں کسی قرضے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی ۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور میں اسی نظام کی برکت تھی کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا ۔ پھر یہ کہ سودی نظام کو ختم کرنا بھی ناگزیر ہے ۔ وفاقی شرعی عدالت کا اس حوالے سے فیصلہ بھی موجود ہے کہ 2027ء تک ملک کے معاشی نظام کو سود سے پاک کرکے اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھال دیا جائے ۔ سودی معیشت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اعلانیہ جنگ ہے ۔ جب تک یہ جنگ ہم ختم نہیں کرتے ملک صحیح راستے پر نہیں آسکتا ۔ بیرونی کمپنیوں کے ساتھ اگر معاہدے کرنے ہیں تو وہ اس طرح کے ہونے چاہئیں کہ ہمارے اثاثہ جات ہماری ملکیت میں رہیں اور کچھ عرصہ بعد ان منصوبوں کا کنٹرول بھی ہمارے ہاتھ میں آجائے ۔ پھر یہ کہ جاگیردارانہ نظام کو ختم کر دیا جائے ۔ سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان جو خلیج بڑھ رہی ہے اس کو بھی کم کیا جائے ۔ یہ سارے کام ہوں گے تو ان شاء اللہ ہمارے ملک کے حالات سدھریں گے ۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:جماعت اسلامی کے منشور میں بھی پورا معاشی ، سیاسی اور سماجی چارٹر موجود ہے ۔ اس کے علاوہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ہمیں اس پر focus کرنا چاہیے۔ زرعی پیداوار اور اس سے متعلقہ انڈسٹری کو فروغ دینا چاہیے تاکہ ہم باہر سے چیزیں امپورٹ کرنے کی بجائے ایکسپورٹ کر سکیں ۔ ہم اپنے کسانوں کو مراعات دیں ۔ ڈیزل ، بجلی اور گیس کے معاملے میں کسانوں کو رعایتیں دیں ۔ اپنے شاہانہ اخراجات کم کریں ، افسر شاہی کو جو مفت بجلی ، گیس ، پٹرول اور دیگر مراعات دی جارہیں ان کو ختم کریں ۔ حکمرانوں کے پروٹوکولز اور اخراجات میں کمی لائی جائے ۔ اتنی مہنگی بجلی کے ساتھ نہ تو انڈسٹری چل سکتی ہےا ور نہ ایکسپورٹ بڑھ سکتی ہے ۔ سب سے پہلے بجلی کا مسئلہ حل کیا جائے اس کے بعد ہم دنیا کا ایکسپورٹ میں مقابلہ کر سکیں گے ۔ چاہے وزیراعظم ہو ، صدر ہو ، کوئی بھی ہو اس کے صوابدیدی اختیارات ختم کر دیے جائیں ۔ ڈیم بنائیں ، سولر ٹیکنالوجی کو فروغ دیں ، ونڈ پاور کو استعمال کریں اور مہنگی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے جان چھڑائیں ۔ اس کے بعد ان شاء اللہ ہمارے حالات بدلنا شروع ہو جائیں گے ۔