IPPs سے معاہدے اور دو سیاسی خاندان
ایوب بیگ مرزا
پاکستان میںاِس طرح کی وارداتیں آپ نے دیکھی ،سنی اور پڑھی ہوں گی جن میں’’قاتل مقتول کے جنازے پر سر پیٹ رہا ہے اور بلک بلک کر رو رہا ہے ‘‘ موجودہ حکومت میں زر داری اور شریف خاندان پر یہ مثال صد فی صد منطبق ہوتی ہے جب وہ بجلی کے بِلوں پر اظہارِ افسوس اور تشویش کا اظہار کررہے ہوتے ہیں ۔ذرا تصورکیجئے کہ آج وطن عزیرکا کیا حشر ہوتا اگر عمران خان نے اپنے دورمیںIPPs سے لڑ جھگڑ کریہ طے نہ کرو الیا ہوتا کہ ڈالر کا ریٹ کتنا ہی کیوں نہ بڑھ جائے IPPsکو 150/-روپے فی ڈالر کے حساب سے ادائیگی کی جائے گی اور اگر ڈالر150/- روپے سے کم ہو گا تو پھر کم ریٹ پر ادائیگی ہوگی۔ یہ عمران خان کا قوم پر ہر گز احسان نہیں تھا اِس لیے کہ لیڈر کہتے ہی اُس کو ہیں جو ہر قدم پر یہ سوچے کہ میری قوم کا فائدہ کس میں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اِن دو خاندانوں سے پہلے تمام حکمران دودھ کے دھلے تھے۔ راقم یہی بات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ یہ دو خاندان پاکستان پر مسلط کردیئے گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا آغاز ماشاء اللہ بہت ہی اچھا تھا ۔قیام پاکستان کے ڈیڑھ سال بعد قراردادِ مقاصد منظور ہوگئی۔ پاکستان کی معیشت فراٹے بھرنے لگی۔ پاکستان کی کرنسی کی پوزیشن اپنے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت سے کہیںبہتر تھی۔ پہلے چار سال تو سیاسی استحکام بھی رہا ۔لیکن قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد محلاتی سازشوں نے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا۔راقم کی رائے میں پاکستان کی سلامتی پر پہلا وار تب ہوا جب عدلیہ نے نظریۂضرورت کو جنم دیا۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ عدل کا قتل بالآخر قوموں کے زوال کا باعث بنتا ہے۔ عدل کا زوال کبھی ریاست پر تیشہ بن کر گرتا ہے اور کبھی سلو پوائزنگ (Slow Poisoning) کی صورت اختیار کرکے اُس کی جڑوں کو کھوکھلا کردیتا ہے۔ گویا عدل کا فقدان اور ظلم کا عام ہونا کبھی قوموں کی فوری بربادی کا باعث بنتا ہے اور کبھی وہ رینگ رینگ کر موت کی وادی میں اتر جاتی ہیں۔ پاکستان کے معماروں نے اِس کی بنیادیں اتنی مضبوط باندھی تھیں کہ سیاسی عدم استحکام آغاز میں، معاشی استحکام پر گہرا زخم نہ لگا سکا۔ بعد ازاں ایوب خان کا مارشلائی دور آگیا جس سے عارضی سیاسی استحکام نے معاشی استحکام کو سہارا دیے رکھا، لیکن یہ چونکہ عارضی اور مصنوعی سیاسی استحکام تھا لہٰذاایوب خان کے بعد سب کچھ دھڑام سے گرگیا اورپاکستان کو معاشی لحاظ سے زبردست دھچکا لگا۔پھر یہ کہ قراردادِ مقاصد کو بھی ایسا دھوبی پٹرا مارا گیاکہ پاکستان اسلامی ریاست بننے کی بجائے عملی طور پر سیکولر ریاست کی شکل اختیار کر گیا ۔ قریباً ربع صدی میں پاکستان اسلامی نظریہ کو منوں مٹی تلے دبا کر عملاً قراردادِ مقاصد سے دستبردار ہوگیا۔اِس منافقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ تب 1971ء میں عذاب الہٰی کا کوڑا پاکستان کی پیٹھ پر پڑا اور پاکستان دو لخت ہوگیا اور بقول اندرا گاندھی کے اُ س نے نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ چند دن اہلِ مغربی پاکستان بہت روئے پیٹے، لوگوں کو مال روڈ پر دیواروں سے ٹکریں مارتے دیکھا گیا، لیکن جس طرح جنازے میں شریک لوگ بڑے غمگین نظر آتےہیں اور دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کر رہے ہوتےہیں، لیکن دفنانے کے بعد یوں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اِسی طرح سقوطِ ڈھاکہ کے کچھ عرصے بعد ہی انفرادی اور اجتماعی زندگی پھر اُسی ڈگر پر رواں دواں ہوگئی اور سچ پوچھیے تو پہلے سے زیادہ رنگین اور مستانہ ہو گئی۔ بلکہ کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ اچھا ہوا بنگالیوں سے جان چھوٹی ، نکمے لوگ تھے، وہاں کے سیلابوں کے متاثرین کا خواہ مخواہ بوجھ مغربی پاکستان پر پڑتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات الگ ہے کہ آج کا مغربی پاکستان کشکول لیے در بدر ہو رہا ہے اور ’’نکمے‘‘ بنگالیوں کا بنگلہ دیش اپنے خزانے میں اربوں ڈالر رکھتا ہے۔
بہر حال جب اہل پاکستان نےا پنی بُرائیوں اور کوتائیوں پر نہ صرف اصرار کیا بلکہ ہرقسم کی معاشی بدعنوانی ، کرپشن اور سیاسی عاقبت نا اندیشی میں حد کردی اور پاکستان میں اسلام کے نفاذ کا معاملہ قصۂ پارینہ بن گیا تو پھر اللہ کے عذاب کا دوسرا کوڑا برسا اور اہل پاکستان پر زرداری اورشریف خاندان بطور عذاب مسلط کردیئے گئے۔
راقم نے جو آغاز میں قاتل کی مقتول کے جنازے پر آہ و بکا کی بات کی ہے وہ اِس لیے کہ جس بجلی کے مہنگے ہونے پر زرداری اور شریف خاندان سر پیٹ رہے ہیں اُس کے سب سے بڑے مجرم وہ خود ہیں۔ اِن دونوں خاندانوں کے دورِ حکومت میں IPPsکے ساتھ عوام کُش معاہدے ہوئے تھے جن کے بارے میں اب کہا جار ہا ہے کہ اگر بھارت جیسے دشمن کوبھی اجازت دے دی جاتی کہ وہ پاکستان کے IPPs معاہدے کروا دے تو وہ ازلی دشمن بھی پاکستانی عوام سے اتنا بڑا ظلم نہ کرتا۔ زرداری اور شریف خاندان کے علاوہ مشرف کے دور میں بھی یہ ظالمانہ معاہدے ہوئے تھے جو بہر حال نواز شریف کا پسندیدہ اور چنیدہ جرنیل تھا جسے دوسرےسینئر جرنیلوں پر ترجیح دے کر سپہ سالار مقرر کیا گیا تھا لیکن اُسی مشرف نے نواز شریف کو ڈسا بھی ۔ اخباری اطلاع کے مطابق بجلی کے بل ادا کرنے کے جھگڑے پر بھائی نے بھائی کو اگر قتل کیا اورچھوٹے چھوٹے بچوں سمیت مائیں خود کشی کررہی ہیں تو اِن سب کا خون IPPsسے معاہدے کرنے والوں کے ہی گردن پرہے اور روز قیامت اِس قتل و غارت گری کااُنہیں جواب دینا ہوگا۔ بجلی بنانے کے نام پر بجلی کے بھاری بلوں کے ذریعے عوام سے رقم وصول کرنےو الے 28%اداروں کی مالک شریف فیملی ہے۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز نے چینوٹ پاور جنریشن کے نام سے پلانٹ لگا رکھا ہے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اربوں روپے ہڑپ کررہے ہیں۔ دوسرے صاحبزادے حمزہ شہباز نے اپنی شوگر مل کے ساتھ بجلی کی پیداوار کا ایک پلانٹ لگایا ہوا ہے جو گنّے کی باقیات سے بنتی ہے اِس میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ بھی عوام کو سونے کے بھاؤ بیچی جارہی ہے۔ معروف صنعت کار گوہر اعجاز کے مطابق اِن پلانٹس میں پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت30 روپے فی یونٹ آتی ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو گنّے کی باقیات سے بننے والی بجلی کہیں سستی پڑتی ہوگی ۔لیکن 1990ء سے اِن دونوں خاندانوں کو عوام کا خون ایسے منہ کو لگا ہے کہ چھوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ راقم کو اگرچہ اِس بات پر شدید دکھ ہے کہ یہ دو سیاسی خاندان کس طرح عوام کو زندہ درگور کر رہے ہیں لیکن کچھ نہ کچھ، کم سطح پر ہی سہی قصور عوام کا بھی ہے۔ عوام بھی صرف اپنے پیٹ پر لات پڑنے پر چیختی چلاتی ہے۔ عوام کا حال بھی یہ ہے کہ مرغیوں کے ڈربے میں سے جو مرغی ذبح کرنے کے لیے نکالی جاتی ہے وہی چیختی ہے، باقی کہتی ہیں شکر ہے ہم بچ گئیں۔ آج ملک ظلم وستم کے اندھیروں میں لپٹا ہوا ہے۔ سیاسی ٹارگٹ کلنگ ہوئی، خواتین کی بے حرمتی کی گئی، سیاسی بنیادوں پر لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیئے گئے۔ سیاسی حریفوں کی صنعتیں تباہ وبرباد کر دی گئیں،یہاں تک کہ معصوم بچوں کو قتل کردینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا لہٰذا اِن دو خونی خاندانوں کا انجام تو نوشتہ ٔدیوارہے۔ پس فطرت اِن عوام کا خون پینے والوں کو بدترین انجام تک تو پہنچائے ہی گی لیکن عوام نےبھی صرف اِس پر اکتفا کیا ’’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘‘ سے۔ لہٰذا صاف نظر آرہا ہے کہ آنے والے وقت میں گیہوں کے ساتھ گھُن بھی بُری طرح پس جائے گا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025