(مطالعۂ کلام اقبال) ابلیس کی مجلس شوریٰ (2) - ڈاکٹر حافظ محمد مقصود

10 /

ابلیس کی مجلس شوریٰ (2)

(گزشتہ سے پیوستہ)
روحانی وجود کے حوالے سےاقبال اپنی فارسی کتاب زبور عجم میں فرماتے ہیں ؎
دم چیست؟ پیام است، شنیدی، نشنیدی!
یعنی یہ سانس ایک پیغام ہے کہ انسان زندہ ہے۔ میرے سامنے ایک شاگرد بیٹھا ہے جو کچھ لکھ رہا ہے ۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ یہ زندہ ہے یا مردہ تو میں کہوں گا کہ زندہ ہے۔ پھراگلا سوال مجھ سے کیا جائے گا کہ زندگی کی بنیادکیا ہے ۔ میں کہوں گا سانس لینا ۔ میں سانس کی آواز نہیں سن سکتا اور نہ اسے دیکھ سکتا ہوں البتہ اس کے آثار مجھے نظر آرہے ہیں کہ یہ شاگرد ہاتھ ہلا رہا ہے ، کچھ لکھ رہا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کو میں دیکھ نہیں سکتا مگر اللہ تعالیٰ کے آثار  اس کائنات میں ہر جگہ دیکھ رہا ہوں ۔ سانس زندگی کا پیغام ہے چاہے تم سنو یا نہ سنو ۔
در خاکِ تُو یک جلوۂ  عام  است  ندیدی!
 تمہارا جو خاکی وجود ہے اس کے اندر ایک جلوہ ہے ، ایک روشنی ہے اور ایک روحانی وجود ہے ۔ وہ وجود تمہیں نظر نہیں آرہا مگر اس بنیاد پر اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ جیسے سانس کو ہم دیکھ اور سن نہیں سکتے مگر اس کا وجود ہے ۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین کے اندر کشش کی طاقت ہے ۔ وہ ہمیں نظر نہیں آتی مگر اس کا ہم انکار نہیں کر سکتے کیونکہ اونچائی سے جوچیز گرتی ہے تو وہ سیدھی زمین کی طرف آتی ہے۔ اسی طرح انسان کے اندر روحانی وجود ہے جس کا ہم انکار نہیں کرسکتے ۔ 
دیدن  دگر  آموز!  شنیدن  دگر  آموز
اے انسان وہ دوسری طرح کا دیکھنا سیکھو اور وہ دوسری طرح کا سننا سیکھو۔ سانس ہو یا کشش ثقل ہو اس کو ہم اپنی مادی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کے وجود سے انکار بھی نہیں کر سکتے ۔اس لیے کہ ان کا وجود ہے لہٰذا اس وجود کو دیکھنے کے لیے ہمیں روحانی آنکھ چاہیے اور سانس کی آوز سننے کے لیے ہمیں روحانی کان چاہئیں۔ اس کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر و ۔ یہ بات مولانا روم کہتے ہیں:
گوش خر بفروش و دیگر گوش خر
کین سخن را در نیابد گوش خر
یہ گدھے کے کان ہیں ان کو بیچ ڈالوکیونکہ میں جس روحانی مقام سے بات کر رہا ہوں اس کو گدھے کےکانوں سے سنا نہیں جا سکتا ۔اپنے اندر وہ صلاحیت پیدا کرو کہ تم اپنے روحانی وجود کے کانوں سے سن سکو ۔ قرآن میں ہے : 
{اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَـہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْــقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ (37)}’’یقیناً اس میں یاد دہانی ہے اُس کے لیے جس کا دل ہو یا جو توجہ سے سنے حاضر ہو کر۔‘‘(ق  ٓ:37)
 قرآن سے نصیحت وہ حاصل کرے گا جس کا روحانی وجود بیدار ہے لیکن جو شخص اندر سے مر چکا ہےوہ قرآن کی آواز نہیں سن سکتا ۔ ابو جہل اور ابولہب اندر سے مرچکے تھے ، اس لیے وہ قرآن کی آواز نہ سن سکے۔ مولانا روم کے الفاظ ہیں:
لحن داؤدی چناں محبوب بود
 حضرت داؤد علیہ السلام جس ترنم اور خوش آوازی کے ساتھ زبور پڑھتے تھے تو پرندے بھی آ کر فضا میں رک جاتے تھے ۔قرآن میں ہے:
{یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَج}(السبا:10) ’’(ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو! تم تسبیح کو دہرائو اس کے ساتھ اور پرندوں کو بھی (یہی حکم دیا تھا)۔‘‘
 دوسرے مصرے میں مولانا روم کہتے ہیں:
لیک بر محجوب بانگ چوب بود
مگر وہ شخص جس کے روحانی وجود پر پردہ پڑا ہوا ہے اس کو داؤد علیہ السلام کی آواز ایسی لگے گی جیسے دروازہ کھولنے اور بند کرنے پر چرچراہٹ پیدا ہوتی ہے جو کسی کو بھی پسند نہیں ہوتی ۔ مطلب یہ کہ اندر سے اگر آپ حاضر نہیں ہیں تو پھرجو روحانی آواز ہے یا قرآن کی آواز ہے وہ آپ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ لہٰذا اسی طرح:
از فسونش دیدۂ دل نابصیر 
روح از بے آبیٔ او تشنہ میر
اس تہذیب کے جادو سے دل کی آنکھ اندھی ہو چکی ہے، یہ تہذیب روح کی پرورش نہیں کررہی بلکہ اس نے روحانی وجود کا سرے سے انکار ہی کر دیا ہے ۔ یہ تہذیب صرف جسمانی وجود کو ہی پال پوس رہی ہے ۔ اگر آپ کسی جانور کو ایک کمرے میں بند کردیں اور اس کی دیکھ بھال نہ کریں اور نہ غذا مہیاکریں بلکہ دروازہ ہی نہ کھولیں تو وہ جانور لاغر اور کمزور ہو جائے گا جبکہ دوسرے جانور کو آپ چارا بھی دے رہیں ، اس کی دیکھ بھال بھی کر رہےہیں تو وہ فربہ اور موٹا تازہ ہو جائے گا۔ اسی طرح موجود نظام تعلیم میں طلبہ کو صرف ظاہری تعلیم دی جاتی ہے اور روحانی وجود کا اس نظام میں سرے سے ہی انکار ہے تو پھر ہماری نسلوں کا روحانی وجود واقعی ختم ہوجائے گا کیونکہ ان کو احساس ہی نہیں ہوگا کہ ہمارا کوئی روحانی وجود بھی ہے اور اس کی ہم نے دیکھ بھال بھی کرنی ہے ، اس کی کوئی غذا بھی ہے ۔ اس لیے اقبال چاہتے ہیں کہ اس تہذیب کی زہرناکی سے بچا جائے ۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ جب ہم پڑھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اقبال ہمیں اس حوالے سے کس قدر ہوشیار اور خبردار کر رہے ہیں ، اس میں ابلیس کہتاہے؎ 
یہ عناصر کا پرانا کھیل یہ دنیائے دوں
ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں
موحدین کے نزدیک صرف اللہ کی ذات قدیم اور دائمی ہے باقی ہر چیز بعد میں پیدا ہوئی اور فانی ہے لیکن باطل تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ مادہ قدیم ہے ، شروع سے ہے اور اسے کوئی فنا نہیں ہے ۔ جیسا کہ نیوٹونین فزکس کے د ور میں  کہا جاتاتھا ۔ جبکہ مادے کو قدیم ماننے کا مطلب ہوگا کہ آپ نے اسے خدا مان لیا ہے کیونکہ خدا قدیم ہے ۔ مگر ابلیس یہ تصور دے رہا ہے کہ یہ عناصر کا کھیل پرانا ہے (پہلے یہ خیال تھا کہ دنیا میں موجود ساری چیزیں چار عناصر یعنی ہوا، پانی، مٹی اور آگ سے یا ان کی ترکیب باہمی سے وجود میں آئی ہیں ۔)، قدیم ہے ۔ مادہ کوئی حادثاتی پیداوار نہیں ہے بلکہ شروع سے چلا آرہا ہے اور اس بے حقیقت دنیا کی ہر شے اسی مادے سے بنی ہے ۔  (جاری ہے)