غیر شادی شدہ افراد کی بڑھتی تعداد اورحلاورقادیانی مسئلہ پر سپریم کورٹ کافیصلہ
مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی،ڈیفنس کراچی میںامیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 26 جولائی 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
آج کے خطاب جمعہ میں تین حوالوں سے ذکر مقصود ہے ۔
(1)غیر شادی شدہ افراد کی بڑھتی تعداد کا مسئلہ
گزشتہ کئی دنوں سے ہمارے ملکی اخبارات میں کچھ اعداد و شمار شائع ہورہے ہیں جن کے مطابق پاکستان میںاس وقت غیر شادی شدہ افراد کی تعداد کروڑوں میں ہے ۔ کچھ رپورٹس کے مطابق ڈھائی کروڑ سے زائد لڑکے اور لڑکیاں ایسے ہیں جن کی عمریں 35کے قریب ہیں مگر ان کی شادی نہیں ہوپارہی ۔
اسلام دین فطرت ہے۔ رب کائنات نے ہمیں پیدا کیا اور اسی نے ہمارا دین بھی بنایا ۔ وہ فرماتا ہے:
{اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط} ’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟‘‘(الملک:14)
اس رب نے ہمارے اندر کچھ جذبات رکھے ہیں۔ اگر ان کا استعمال صحیح رُخ پر یعنی دین فطرت کے مطابق کیا جائے تو اس کے کردار و عمل پربھی ، زندگیوں پر بھی اور معاشرے پر بھی اچھے اثرات پڑیں گے اور اگر ان کا استعمال غلط رُخ پر یعنی دین فطرت کے خلاف کیا جائے تو اس سے کردار وعمل ، زندگیوں اور معاشرے میں بگاڑ اور فساد پیدا ہوگا ۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ انسان کو غصہ آتا ہے ۔اللہ کے پیغمبر ﷺ کو بھی غصہ آتا تھا مگر وہاں جہاں اللہ کا حکم ٹوٹتا تھا ۔ اماں عائشہ فرماتی ہیں:جب اللہ کا حکم ٹوٹتا تھا تو سب سے بڑھ کر غصہ رسول اللہ ﷺ کو آتا تھا ۔ صحابہ کرام ؇کی شان قرآن یوں بیان کرتا ہے:
{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ } ’’محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں‘ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں‘‘(الفتح:29)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بندوں میں ایک فطری جذبہ رکھا ہے جو خواہش نفس سے تعلق رکھتا ہے ۔ اگر اس جذبے کو دین فطرت کے تقاضوں کے مطابق استعمال کیا جائے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے جو نکاح کا راستہ عطا فرمایا ہے اس کے ذریعے اس جذبے کو پورا کیا جائے تو اس سے انسانی زندگیوں ، کردار و عمل اور انسانی معاشروں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ گھر بنیں گے ، خواتین کو تحفظ ملے گا ، نسل بڑھے گی ، چادر اور چاردیواری کا تقدس ہوگا ۔ نکاح کی ضرورت صرف خواہش نفس کو پورا کرنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اس کے دیگر مقاصد بھی ہوتے ہیں ۔ جب بندہ 60 سال کی عمر تک پہنچتا ہے تو اس کو مدد اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ، آرام و سکون کی ضرورت ہوتی ہے ، غم خواری کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر نکاح ہوگا ، گھر آباد ہوگا ، اولاد ہوگی ، بیوی ہوگی تو وہ اس عمر میں سہارا بنیں گے۔
دوسری طرف اسی خواہش نفس کو اگر دین فطرت کے تقاضوں سے ہٹ کر استعمال کیا جائے گا ، نکاح کی مخالفت کی جائے گی تو زنا کے نتیجے میں معاشرے گندگی کاڈھیر بن جائیں گے ۔ انسانی زندگیوں اور کردار و عمل میں بگاڑ اور فساد پیدا ہوگا ، گھر کا تصور ، خاندان کا نظام ختم ہو جائے گا ، اولاد کی نعمت ،ایک دوسرے کا سہارا بننے اور ایک دوسرے کی غم خواری سے انسان محروم ہو جائیں گےاور آخری عمر کو جب پہنچیں گے تو بے سہارا اور تنہا ئی کا شکار ہو کر اولڈ ہاؤسز میں سڑیں گے ۔ کوئی پوچھنے والا تک نہ ہوگا ۔
اسی طرح نکاح ہوگا تو عورت کو بھی تحفظ ملے گا ، چادر اور چاردیواری کا تقدس ہوگا ، عورت کو کمانے کے لیے در بدر کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑیں گی بلکہ اپنے گھر میں باعزت طور پر زندگی گزارنے کا موقع میسر آئے گا ۔ نکاح کی صورت میں وہ جس کی بیوی ہوگی تو وہ خیال رکھے گا ، بعد میں ماں بنے گی تو اولاد کی محبت حاصل ہوگی ، ماں کو جو رُتبہ اور عزت اسلام نے دیا ہے وہ حاصل ہوگا ۔
اس وقت اخبارات کی رپورٹس ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کروڑوں جوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں جن کی شادی نہیں ہورہی ۔ یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ غیر نکاحی زندگی غیر فطری زندگی ہے جبکہ نکاح ایک فطری تقاضا ہے۔ اگر حلال سے پورا نہیں ہوگا تو لامحالہ شیطان حرام کی طرف لے کر جائے گا۔ صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ جو بُری نگاہ سے غیر محرم کو دیکھے تو وہ آنکھ کا زنا ہے ، جو فحش اور بے حیائی پر مبنی بات سنے ، غیر محرم کی گفتگو بری نیت سے سنے تو وہ کان کا زناہے ، جو فحش کلام کرے یا غیر محرم سے بری نیت سے کوئی کلام کرے تو وہ زبان کا زنا ہے ،بری نیت سے دل میں کسی غیر محرم کا خیال لائے تو یہ دل کا زنا ہے ، بری نیت سے غیر محرم کو چھوا تو وہ ہاتھ کا زنا ہے ، بری نیت سے چل کر غیر محرم کی طرف گئے تو وہ پاؤں کا زنا ہے ۔پھر وہ زنا جس پر شرعی حد جاری ہوتی ہے اس کے علاوہ ہے ۔ اگرچہ ہمارے ملک میں سزاؤں میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے لیکن آخرت کی سزا سے کوئی بچ نہیں سکے گا ۔ آج اسمارٹ فون کے ذریعے کیا کچھ نہیںہوتا اور انٹر نیٹ پر کیا کچھ مواد نہیں ہے ۔ ایک طرف بے نکاحی زندگی اور دوسری طرف شیطان کے یہ سب حملے اور ان شیطانی حملوں کے لیے سارا ماحول بھی فراہم کیا جارہا ہے تو کون ہے جو ان شیطانی حملوں سے بچ سکتاہے مگر جس کو اللہ بچانا چاہے ۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ زندگیاں تباہ ہورہی ہیں ۔
رپورٹس کے مطابق 1 کروڑ سے زائد تعداد ایسی لڑکیوں کی ہے جو 35 سے اوپر ہو چکی ہیں مگر ابھی تک ان کی شادی نہیں ہوئی۔ پوچھا جائے کہ ابھی تک نکاح کیوں نہیں کیا تو جواب ملے گا : بس تعلیم مکمل ہو جائے، جاب مل جائے ، کیرئیر سیٹ ہو جائے تاکہ انڈیپنڈنٹ ہو جائیں ۔ انڈیپنڈنٹ ہونے کے بعد دماغ خراب ہے کسی عورت کا کہ وہ نکاح کرے ؟ پھر بڑے دور کے سہانے خواب کہ دس پندرہ کروڑ کابنگلہ ، 5 کروڑ کی گاڑی ، 2 کروڑ کا سونا اور زیور ہونا چاہیے ۔ لڑکا چاند سے اُترا ہوا ہونا چاہیے ۔ ان حسین خوابوںکے ساتھ عمریں نکلی جارہی ہیں ۔ بالوں میں سفیدی آجاتی ہے لیکن نکاح کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جوانیاں لٹ رہی ہیں، گھر برباد ہورہے ہیں ، خودکشیاں اور قتل ہورہے ہیں ۔ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا تھا : اے نوجوانو! تم میں سے جو استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نکاح نگاہوں کو نیچا رکھتا ہے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرتا ہے ۔ خود اللہ کے رسول ﷺکا پہلا نکاح 25 سال کی عمر میں ایک بیوہ خاتوں سے ہوا تھا ۔ اسی طرح صحابہ کرام؇ کی زندگیاں دیکھیں بالغ ہونے کے بعد فوراً نکاح کو ترجیح دی جاتی تھی ۔
فطری جذبات کو کچلا نہیں جا سکتا ۔ خدارا! اس بات پر ہم توجہ کریں۔ ہمارے استاد ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے باقاعدہ اس حوالے سے ایک تحریک چلائی کہ نکاح کو آسان کیا جائے تاکہ معاشرے میں اس کو فروغ ملے ۔ انہوں نے باقاعدہ خطبہ نکاح کو رواج دیا تاکہ اس موقع پر لوگوں کی تذکیر ہو سکے ۔ ہمارے بعض علماء بھی کوشش کرتے ہیں کہ جب نکاح کے خطبے کا بیان ہو تو بتایا جائے کہ نکاح کی کیا اہمیت ہے اور اسلام میں نکاح کا معاملہ کتنا آسان ہے جس کو ہم نے جہالت کی وجہ سے مشکل بنا لیا ہے ۔
نکاح میں تاخیر کی وجہ سے اگر جوان اولاد کسی گناہ میں مبتلا ہوگی تو اس کا وبال والدین پر بھی آئے گا ۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایاکہ ماں باپ بھی اس وجہ سے پکڑ میں آئیں گے۔ رسولﷺکی ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ لوگ نکاح کرتے وقت خوبصورتی کو دیکھتے ہیں یا مال کو اور خاندان کو یا دینداری کو ۔ تم دینداری کو ترجیح دو ۔ آخرت میں نجات ایمان کی بنیاد پر ہوگی ، مال پیسے ، خاندان اور شکل و صورت کی بنیاد پر نہیں ۔ اگر آخرت پیش نظر ہو تو دنیا بھی بہتر ہو جائے گی ۔ سنت کے مطابق مسجد میں نکاح کو ترجیح دی جائے اور اس کا اعلان کیا جائے ۔ منگنی وغیرہ کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ مسجد میں نکاح پڑھاتے تھے اور اس موقع پر لڑکے والوں کو صرف چھوہارے تقسیم کرنے کی اجازت تھی۔ لڑکی والے لڑکی لاتے تھے اور وہاں سے لڑکادلہن کو گھر لے جاتا تھا ۔ بارات کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے ۔ لڑکا یا لڑکی کو شرعی تعلیم دینا والدین پر واجب ہے ۔ ڈگریوں کے چکروں میں پڑ کر زندگیاں خراب کرنا اور شادی کے موقع پر غیر شرعی رسومات کےلیے کروڑوں خرچ کرنا درست نہیں ہے ۔ البتہ سادہ نکاح کے بعد ولیمہ کرنا اور اس میں بھی سادگی کا خیال رکھنا اسلام کے قریب تر ہے۔ البتہ لڑکی والوں کا کوئی خرچ نہ ہو اس بات کا خیال رکھا جائے ۔ لڑکی والوں سے جہیز کی ڈیمانڈ کرنا کہ گاڑی بھی چاہیے ، کپڑے بھی چاہئیں ، پیسہ بھی چاہیے ، لڑکی والوں کے گھر بارات لے کرجانا اور وہاں کھانا بھی کھانا وغیرہ ، ان چیزوں کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے ۔ بلکہ دین نے کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے کہ عورت کے تمام تر اخراجات وہ پورے کرے ۔ اولاد کی کفالت کی ذمہ داری بھی والد پر ہے ۔ آج لوگوں کے پاس بجلی کا بل دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں ، لڑکی کا باپ بے چارا اتنا جہیز کہاں سے لا کر دے گا ؟ آخر کار مرنا ہے اور اللہ کو جواب دینا ہے ۔ اصل ٹھکانہ تو آخرت ہے ، اگر آخرت کی بھلائی مطلوب و مقصودہو تو انسان دنیا میں تھوڑے پر بھی صبر کرلیتا ہے ۔ یہ لمبے چوڑے خرچوں کے جو ہم نے بہانے بنا رکھے ہیں اورجو بڑے بڑے حسین خواب پال رکھے ہیں اس کے نتیجہ میں زندگیاں خراب ہورہی ہیں، معاشرے تباہ ہورہے ہیں۔ اس موضوع پر ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا کتابچہ ’’ ایک اصلاحی تحریک مع خطبہ ٔنکاح ‘‘بہت ہی مفید ہے ۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اس کو منگوا کر خود بھی پڑھیں اور اپنے عزیز و اقرباء کو بھی پڑھائیں ۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ نکاح کے عمل کو ہم آسان کریں ۔آمین !
(2)مبارک ثانی کیس کا فیصلہ
2019ء میں قادیانیوں کے کالج میں ایک کتاب تقسیم کی گئی جس کو وہ تفسیر صغیر کہتے ہیں ۔اس میں ختم نبوت کا انکار کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا مذاق بھی اُڑایا گیا تھا ، اسلامی شعائر کا انکار اور اپنے غلط عقائد کا پر چار بھی کیا گیا تھا ۔ اس کے خلاف عدالت میں کیس کیا گیا اور 6 فروری 2024ء کو سپریم کورٹ نے مبارک ثانی نامی قادیانی کو بری کردیاجو اس جرم میں ملوث تھا ۔ اس پر پوری قوم کے علماء نے متفقہ طور پر توجہ دلائی تھی کہ آپ کے فیصلے میں یہ سقم ہے۔ اس کے بعد چیف جسٹس صاحب نے قرآن اکیڈمی لاہور سمیت دس اداروں سے آراء طلب کیں اور کہا کہ فیصلے میں اگر کوئی غلطی ہوگی تو اس کا ازالہ کیا جائے گا ۔ اس کے بعد ہمارے ادارے سمیت چھ اداروں نے ایک متفقہ رائٹ اپ سپریم کورٹ میں جمع کروایا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اپنا رائٹ اپ دیا۔ اس کے بعد پھر سماعت ہوئی اور 24 جولائی کو سپریم کورٹ نے صرف ایک نوٹ لگا کر پہلے فیصلے کو ہی برقرار رکھا ۔ کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ۔ اس کے خلاف دینی حلقے ایک بار پھر سراپا احتجاج ہیں کیونکہ کوئی بے شک بے عمل مسلمان ہی کیوں نہ ہو لیکن ختم نبوت پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔
اب اگلے لائحہ عمل کے طور پر ایک تو قانونی پہلوؤں کو دیکھنا چاہیے کہ کس طرح اس فیصلے کا تعاقب کیا جاسکتا اور دوسرا یہ کہ علماء اور دینی جماعتوں کی آپس میں مشاورت ضروری ہے تاکہ کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار ہو سکے ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک بیان سوشل میڈیا پر کافی عرصہ سے عام ہو رہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو انگریز کے دور سے یہ عادت پڑ گئی ہے کہ جو جتنا تگڑا جوتا لے کر آئے گا اس کی بات مانیں گے ۔ آج ہمارے حکمران اور ججز ایک بارپھر عوام کو مجبور کر رہے ہیں کہ کوئی ممتاز قادری پیدا ہو ۔ ایک رات پہلے امریکہ سے دس کروڑ ڈالرز کی امداد آتی ہے اور صبح یہ فیصلہ سپریم کورٹ سے آجاتا ہے ۔ چیف جسٹس صاحب فرماتے تھے کہ آئین کے خلاف جو کچھ بھی ہوگا ہم اس کو اڑا کر رکھ دیں گے۔ملک کا پورا سودی نظام آئین کے خلاف ہے ، عدالتوں کے فیصلے بھی سود کے خلاف آچکے ہیں تو آپ کب اس نظام کو اُڑائیں گے ؟ ابھی تک آپ نے شریعت اپیلٹ بینچ نہیں بنایا ۔ کیا اللہ کا دین ہی اس کھلواڑ کے لیے رہ گیا ہے ؟ محمدرسول اللہﷺکی ناموس کے ساتھ ہی فیصلوں نے کھیلنا ہے ؟ 400 گستاخوں کے کیس عدالتوں میں موجود ہیں لیکن ان کی سماعت ہی نہیںہورہی ۔ اگر آپ کچھ نہیں کر سکتے ، آپ بے بس ہیں تو پھر ہمارے اس منبر کا ہم سے تقاضا ہے کہ ہم بات بلند کریں ۔
ہمارے آئین میں 1974ء سے واضح ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں۔یہ بھی طے ہے کہ قادیانی عوامی مقامات پر اپنا لٹریچر تقسیم نہیں کر سکتے ۔ 1984ء کے امتناع قادیانیت ایکٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ قادیانی اسلامی شعائر اور اصطلاحات کو بھی استعمال نہیں کر سکتے ۔ جس کتاب کو انہوں نے تفسیر صغیر کے نام سے تقسیم کیا اس قانون کی رو سے وہ اسے تفسیر نہیں کہہ سکتے لیکن فیصلہ میں یہ بات لکھ دی گئی کہ قادیانی اپنے گھر میں کتاب تقسیم کر سکتے ہیں۔ حالانکہ کتاب کالج میں تقسیم ہوئی اور اس میں اہانت آمیز اور خلاف اسلام مواد موجود ہے ۔عدالت سے پوچھتے ہیں کہ کوئی شخص گھر میں بیٹھ کر جرم کرتا ہے تو کیا وہ جرم نہیں ہے ؟فیصلہ میں لکھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ تو رحمت للعالمین ہیں ۔ بے شک آپ ﷺ رحمت للعالمین ہیں لیکن کیا فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے حکم نہیں دیا تھا کہ گستاخ رسول چاہے خانہ کعبہ کے غلاف میں بھی لپٹا ہوا ہو تو تب بھی اس کو قتل کر دو ۔ کیا کعب بن اشرف ، ابن خطر اور اس کی لونڈیوں کو قتل نہیں کیا گیا تھا ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺنے سب کو معاف کیا لیکن گستاخ رسول کو معاف نہیں کیا ۔
ہیومن رائٹس کے چیمپین بھی کھڑے ہو رہے ہیں کہ اقلیتوں کو مذہبی آزادی نہیں ہے ۔ حالانکہ حکومت مندر اور گردوارے بنانے کے لیے غیر مسلموں کو پیسے دے رہی ہے ، چرچ بنانے کے لیے پیسے دے رہی ہے ۔جبکہ دوسری طرف مدارس کی رجسٹریشن بھی نہیں کرتی ، مساجد کے لیے کوئی پیسہ حکومت نہیں دیتی ۔ سب آزادی غیر مسلموں کے لیےہے ۔ عیسائی اپنے آپ کو عیسائی کہتا ہے، ہندو اپنے آپ کو ہندو کہتا ہے، سکھ اپنے آپ کو سکھ کہتا ہے،اس پر ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ عیسائی اپنے چرچ کو مسجد نہیں کہتا ، ہندو اپنے مندر کو مسجد نہیں کہتا ۔ قادیانیوں کی مخالفت ہم اس لیے کرتے ہیں کہ وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنے پر تلا ہوا ہے ۔وہ مرزا قادیانی کی کتاب کو قرآن کہتے ہیں ۔ کیا ہم مسلمان یہ سب قبول کرلیں ؟
سپریم کورٹ کے ججز کوبھی اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے ، ہر بندہ اپنے اندر جھانک کر دیکھ لے وہ کیا کررہا ہے ، آپ نے توہین رسالت ، توہین قرآن ، توہین صحابہ اور توہین اہل بیت کی گنجائش نکال دی ۔ اس کے بعد قادیانی اپنے گھر میں ، اپنے کالجز میں یہ سب کریں گے ، کیا اس عمل سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ راضی ہوں گے ؟
میری علمائے کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنا لائحہ عمل تیار کریں ۔ یہ دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث ، شیعہ ، سب کا متفقہ مسئلہ ہے ۔ سب اس فتنے کے خلاف متحد ہو کر آواز بلندکریں اور بھرپور تحریک چلائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !
(3)ملکی حالات اور واقعات
اس وقت ملک جس بُرے طریقے سے گرداب میں پھنس چکا ہے اس کے نتائج ہم سب بھگت رہے ہیں ۔ نظریہ آرہا ہے کہ کچھ ہمارے ریاستی ادارے بے دریغ طاقت کے استعمال پر آمادہ ہوگئے ہیں ۔ ایک طرف اپوزیشن کے خلاف کیس در کیس اور جبر پر جبر جاری ہے ۔ عمران خان سے اختلاف اپنی جگہ مگرانصاف کا حق ہر شہری کو حاصل ہے ۔ دوسری طرف خیبر پختونخوا کے لوگ اپنی جگہ پریشان ہیں ، وہ اپنے حقوق کی بات کررہے ہیں ، تیسری طرف بلوچستان میں بھی لوگ پریشان ہیں اور اپنے حقوق کی بات کررہے ہیں ۔ بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافے اور ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام الگ پریشان ہے ۔ اوپر سے ہمارے حکمران اور طاقتور ادارے طاقت کے استعمال کی باتیں کررہے ہیں ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ طاقت کے نشے میں مدہوش لوگوں نے پہلے بھی آدھا ملک کھویا تھا۔ 1971 ء میں اس وقت کے جرنیلوں کو سبکی اٹھانا پڑی ۔ ایک اور جنرل یعنی مشرف دنیا سے ذلت لے کر گیا، بددعائیں لے کر گیا۔ اس نے بھی امریکہ کی گود میں بیٹھ کر اور طاقت کے نشے میں آکر یہ ساری چیزیں کیں اور ملک کے اندر انتشار اور افتراق پیدا کیا ۔ اب مزید کچھ لوگ ایڈونچر کے موڈ میں ہیں کہ ہم برادر مسلم ملک افغانستان پر پھر آگے بڑھ کر حملہ کریں گے۔ ہمارے حکمرانوں اور متقدر لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔ یہ طاقت کا گھمنڈ اور یہ جبر آخر کار پشیمانی اور ندامت ہی کا باعث بنا کرتاہے ۔ پھر سبکی اٹھانا پڑتی ہے اور معذرتیں پیش کرنا پڑتی ہیں ۔ اس سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے ۔ اس وقت جو ملکی صورتحال ہے اس میں طاقت کا استعمال تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ اللہ تعالیٰ حکمرانوں اور مقتدرہ کو بھی ہدایت دے اور ہم سب کو بھی ہدایت دے ۔ آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2025