اداریہ
خورشید انجم
سپریم کورٹ کا متنازعہ فیصلہ ......ایک لمحہ ٔ فکریہ
سپریم کورٹ کی طرف سے مبارک ثانی (قادیانی) کیس میں نظرثانی درخواست مسترد ہونے کے بعد ملک کی مختلف مذہبی جماعتوں کی طرف سے ردِعمل دیکھنے میں آرہا ہے اور مختلف جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم ملی یکجہتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی 25جولائی کو اسلام آباد میں طلب کیا گیا ۔اگلے دن علمائے کرام کا اسی موضوع پر خطبات جمعہ دینے کا فیصلہ رہا اور جمعہ کے بعد مختلف مذہبی جماعتوں نے احتجاج بھی کیا ۔ یاد رہے کہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے 6 فروری 2024ء کے فیصلے میں نظر ثانی کےلیے درخواست جمع کروائی گئی تھی جس کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سابقہ فیصلے کو برقرار رکھا ۔ فیصلے کی تفصیلات میں جانے سے پہلے بہتر ہوگا کہ مبارک ثانی کیس کی کچھ تفصیل بیان کر دی جائے ۔
مبارک ثانی نامی قادیانی 2019ء میں بدنام زمانہ کتاب کو تقسیم کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا جس کو قادیانی تفسیر صغیر کا نام دیتے ہیں اور اس میں قرآن مجید کے تحریف شدہ ترجمہ کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کے گمراہ عقائد پر مبنی تفسیر کی گئی ہے ۔ اس کتاب پر 2016 ء میں حکومت پنجاب نےپابندی عائد کر دی تھی۔ پھر 2019ء میں بھی اس کے خلاف ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر ہوئی اور اس پر جسٹس شجاعت علی خان نے بڑا واضح فیصلہ دیا تھا کہ کوئی غیر مسلم قرآن مجید کا ترجمہ شائع کر سکتا ہے اور نہ ہی قرآن کا کوئی حصہ شائع کر سکتا ہے ۔ اس کے باوجود بھی قادیانی باز نہیں آئے ۔ دو دن بعد ہی انہوں نے چناب نگر(جسے قادیانی ربوہ کہتے ہیں) میں پروگرام کیا اوروہاں اس کتاب کو دوبارہ تقسیم کیا گیا ۔ اس پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کی گئی لیکن حکام بالا کی طرف سے اس میں رکاوٹ ڈالی گئی ۔ یہاں تک کہ 6دسمبر 2022ء میں جا کر پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں مبارک ثانی سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا ۔ مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیر کی تقسیم کا یہ عمل تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295 بی، 298 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے ۔
FIAکی فرانزک رپورٹ کے مطابق یہ متنازع تفسیر جہاں جہاں تقسیم ہوئی اور جہاں جہاں اپ لوڈ ہوئی اس کا ذمہ دار مبارک ثانی تھا ۔ایف آئی آر کے باوجود ملزم کو گرفتار کرنے میں ایک سال لگ گیا اور 7 جنوری 2023ء میں جاکر یہ گرفتاری ہوئی ۔اس کی گرفتاری کے بعد ایڈیشنل سیشن جج نے کیس کی سماعت کی اور 10 جون 2023ء کو ملزم کی ضمانت خارج کر دی ۔اس کے بعد کیس لاہور ہائی کورٹ میں گیا اور 27 نومبر 2023 ءکولاہور ہائی کورٹ نے بھی ملزم کی ضمانت خارج کردی ۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے 6 فروری 2024 ءکو فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف مبارک ثانی کو پانچ ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیابلکہ اُس کے خلاف مقدمہ ہی سرے سے ختم کردیا ۔ پھر یہ کہ بعض آیات ِ قرآن سے غلط استدلال کرتے ہوئے گویا قادیانیت کے لیے چور دروازہ کھولنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ فیصلہ اس قدر جلد بازی میں کیا گیا کہ مدعی کے وکیل کا موقف سننے کی بھی زحمت گوارا نہ کی گئی۔ سرکاری وکیل نے کہا مجھے ایک دن کی مہلت دی جائے تاکہ میں تیار ی کر سکوںلیکن چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ان کو بھی جھڑک دیااور صرف قادیانی وکیل کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دے دیا ۔
6 فروری 2024ء کے اس غیر منصفانہ فیصلہ کے خلاف مسلمانان ِ پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور تمام دینی و مذہبی جماعتوں ،مذہبی حلقوں اور اہل علم و دانش نے اس فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے نظر ثانی کا تقاضا کیا ۔ دینی جماعتوں کی جانب سے باقاعدہ نظر ثانی کے لیے درخواست دی گئی اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت نے FIRیا فردجرم میں شامل دفعات کو رائٹ آف اورسٹرائیک آف کر تے ہوئےفیصلہ دیا ہے ۔FIR میں پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ 2011 ء کی دفعات 7 اور 9 کا بھی حوالہ دیا گیا تھا اور فرد جرم میں آرٹیکل 295بی اور 298سی کا بھی حوالہ دیا گیا تھا لیکن عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بنچ نے ان تمام دفعات کونظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے ۔ نیز درخواست میں کہا گیا تھا کہ فیصلے کے دوسرے حصے میں چیف جسٹس نے آئین کے آرٹیکل 20اور 22 کی جو تشریح کی، اس میں بھی سقم موجود ہیں ۔ ان آرٹیکلز میں مذہبی آزادی کے حوالے سے جو بات کی گئی ہے وہ قادیانیوں کے لیے نہیں ہے۔ تیسری بات درخواست میں یہ بھی شامل کی گئی تھی کہ چیف جسٹس صاحب نے جو قرآنی آیات کا حوالہ دیا وہ موقع و محل کے مطابق نہیں تھا۔ان تمام حوالوں سے فیصلے کا جائزہ لینے کے بعد مذہبی اور دینی حلقوں نے چیف جسٹس کوغلطی کا احساس دلایا ۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے تمام مکاتب فکر کے10 بڑے اداروں سے آراء مانگیں ۔ قرآن اکیڈمی لاہور سمیت 6 اداروں نے متفقہ مؤقف پر مبنی رائٹ اپ جمع کروایا ۔ اس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی اور 24 جولائی 2024ء کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نظرثانی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ملزم کی ضمانت برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے جس پر دینی حلقوں میں ایک بار پھر اضطراب پھیل رہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ فیصلہ آئینی اور قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئےدیا گیا ہے ۔
متنازعہ فیصلے میں ایک بار پھر وہی مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مذہبی آزادی کا بنیادی حق آئین، قانون اور امنِ عامہ سے مشروط ہے۔حالانکہ آئین کے آرٹیکل 20اور 22کے مطابق مذہبی آزادی تو ان کے لیے ہے جو قانون ، آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو مانیں ۔ قادیانی تو پہلی شق پر ہی عمل نہیں کرتے ، وہ اس قانون کو سرے سے ہی نہیں مانتے جس میں ان کو غیر مسلم قراردیا گیا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 260 کی شق 3Aمیں مسلم کی تعریف بھی موجود ہےاور 3Bمیں قادیانی کی تعریف بھی موجود ہے۔ لیکن قادیانی خود کو اقلیت نہیں مانتے بلکہ وہ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر دھوکا دے رہے ہیں ۔لہٰذا مذہبی آزادی کے حوالے سے جو قانون ہے، وہ ان پر لاگو نہیں ہوتا اور نہ ہی مذہبی آزادی والے آرٹیکل میں ان کا ذکر ہے ۔
عدالتی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے سامنے اس کیس میں دو سوالات تھے جن میں پہلا تو ملزم کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست تھی۔ دوسرا معاملہ فرد جرم سے مختلف جرائم کو حذف کرنے کی درخواست تھی۔پہلے سوال کے جواب کے طور پر عدالت نے لکھا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 12 واضح ہے کہ کسی کو بھی کسی ایسے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی جسے کرتے وقت وہ کام کسی قانون کے تحت جرم کی تعریف میں نہ ہو۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ چونکہ تفسیرِصغیر 2019 میں تقسیم کرنا جرم نہیں تھا، اس لیے پنجاب اشاعت قرآن قانون کے تحت ملزم کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی تھی۔ حالانکہ چیف جسٹس صاحب کو معلوم ہوگا کہ قرآن ایکٹ 2011 ء میں بنا ہے اوراس میں اس کی سزا 3 سال اور جرمانہ 20 ہزار روپے تھا۔ 2021ء میں اس قانون میں معمولی سی ترمیم کرکے سزا بڑھائی گئی اور جرمانہ ایک لاکھ روپے کر دیا گیا اور پھرقرآن بورڈ گورنمنٹ کا ادارہ ہے وہ کہتا ہے کہ جب تک آپ رجسٹریشن نہ کروائیں آپ قرآن کا کوئی بھی نسخہ یا تفسیر شائع نہیں کرسکتے ۔ غیر مسلم کو تو بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔پاکستان کے آئین کے مطابق قادیانی غیر مسلم ہے اس کو کس طرح اجازت دی جاسکتی ہے ؟
سپریم کورٹ نے ملزم کے خلاف دیگر دو الزامات یعنی توہینِ قرآن اور خود کو مسلمان ظاہر کرناکے حوالے سے فیصلے میں کہا کہ ملزم کے خلاف نہ تو ایف آئی آر اور نہ ہی پولیس کے چالان میں ان الزامات کے حوالے سے کوئی بات ہے۔ اس وجہ سے عدالت نے دونوں دفعات فردِ جرم سے حذف کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔حالانکہ FIR میں پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ 2011 ء کا حوالہ دیا گیا تھا جس کی دفعہ 7 میں بڑی تفصیل کے ساتھ درج ہے کہ قرآن مجید کے جو مسلمہ ترجمے اور تفاسیر ہیں ان سے ہٹ کر کوئی شخص بھی تحریف شدہ ترجمہ ، تفسیر یا قرآن کا کوئی حصہ شائع کرے گا تو اس ایکٹ کی دفعہ 9 کے تحت اس کو باقاعدہ سزا ہوگی ۔ پھر یہ کہ فرد جرم میں 295 بی اور 298 سی کو بھی شامل کیا گیاتھا ۔ 295 بی کے مطابق اگر کوئی شخص جان بوجھ کر قرآن مجید کے کسی حصہ یا ترجمہ میں تحریف کرتا ہے اور اس کو شائع کرتا ہے تو اس کی سزا تین سال سے لے کر تاحیات قید ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح 298 سی کے مطابق قادیانی ، احمد یا لاہوری گروپ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی اسلامی شعائر کو اپنا سکتے ہیں ، نہ اپنی عبادتگاہوں کو مسجد کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی کتابوں کو قرآن کہہ سکتے ہیں ۔ وہ اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتا اور نہ ملعون مرزا قادیانی کو صلی اللہ علیہ وسلم کہہ سکتا ہے۔لیکن قادیانی یہ سب گستاخیاں کرتے ہیں۔ وہ تو ملعون مرزا قادیانی کی بیوی کو ام المومنین کہتے ہیں، اس کے دوستوں کو صحابہ کہتے ہیں، اس کی عبادت گاہ کو مسجدکہتے ہیں ۔ اس کی باتوں کو حدیث کہتے ہیں ،اس کی خرافات کو نعوذ باللہ قرآن کہتے ہیں۔ مرزا قادیانی ملعون نے اپنی کتاب میں یہ گستاخانہ بات بھی کی ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو قادیان کے قریب نازل کیا۔ اسی طرح قادیانیوں کو قرآن کی تفسیر کرنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے تو پھر قادیانیوں کو عدالت مذکورہ تفسیر شائع اور تقسیم کرنے کی اجازت کس طرح دے سکتی ہے؟
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فوج داری مقدمات میں مقدمہ بروقت دائر کرنا اہمیت کا متقاضی ہوتا ہے۔ لیکن اس کیس میں 2019 ءکے الزام کی بابت ایف آئی آر 2022 ء کے آخر میں درج کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔حالانکہ ایف آئی آر وقوعہ کے فوراً بعد درج کروانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن درج نہیں کی گئی اور 2022ء میں جاکر درج کی گئی اور ملزم کو اس کے بھی ایک سال بعد گرفتار کیا گیا ۔ اس میں مدعی کا تو قصور نہ ہوا ۔
سب سے خطرناک بات یہ کہ نظر ثانی درخواست کے اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے قادیانیوں (جنہیں نہ جانے کیوں فیصلہ میں ہر مقام پر احمدی لکھا گیا ہے ) کو مذہبی آزادی اور گھر کی خلوت کے نام پر اپنے گھروں ، عبادت گاہوں اور نجی اداروں کے اندر تحریف ِقرآن اور توہین ِرسالت ﷺکی اجازت دے دی ہے ۔ قادیانیت درحقیقت محض انکار ِختم ِنبوت نہیں بلکہ قرآن کی لفظی اور معنوی تحریف ، تکفیر اہل اسلام ، توہین رسالت ﷺاور صحابہ کرام ، امہات المومنین اور اہل بیت ؇کی اہانت کا نام ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کا سب سے زیادہ نقصان یہی ہے کہ اپنے عقائد کے حامل کفار کو اپنا تکفیری لٹریچر چھاپنے ، تقسیم کرنے ، پڑھانے ، بطور نصاب متعین کرنے میں قانونی جواز فراہم کر دیا گیا ہے ۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا اور نظریۂ اسلام کا عملی نفاذ ہی اس کا مستقبل ہے ۔ مقاصد شریعت میں شرط اوّل حفاظت دین ہے ۔ دین کی حفاظت کا محور کتاب اللہ اور ناموسِ رسالت مآب ﷺہیں ۔ اگر مذہبی آزادی کے دلفریب نعرہ کے نام پر تحریف قرآن اور اہانت رسولﷺ کی گھر اور گراؤنڈ کی خلوت میں اجازت دی گئی تو شریعت اسلامیہ کے تمام مقاصد ہی فوت ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام صاحبان ِحل و عقد اور فیصلہ کی مسند پر بیٹھے تمام افراد کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین ۔