(فکر وطن) جشن آزادی کے لیے آزادی بھی تو چاہیے! - عادل سہیل

10 /

جشن آزادی کے لیے آزادی بھی تو چاہیے!

عادل سہیل

جس پاکستان کو بنانے کے لیے ، حاصل کرنے کے لیے ہزاروں مُسلمانوں نے اپنے مال اور جانیں قربان کیں ،  ہزاروں ماؤں بہنوں ، بیٹیوں کی عِزتیں لُٹ گئیں ، ہزاروں محل نشین خانہ بدوش ہو کر رہ گئے ، اُس پاکستان کا مطلب تھا : ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘’’ اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا حقیقی معبود نہیں۔‘‘
دراصل اُن لوگوں نے کیا حاصل کرنے کے لیے ، کیا بنانے کے لیے یہ سب قربانیاں دیں تھیں ؟
اُن لوگوں کا ہدف زمین کا ایک ایسا ٹکڑا حاصل کرنا تھا جہاں وہ لوگ خود اور اُن کی آنے والی نسلیں کِسی بھی اندرونی دباؤ کے بغیر ، کِسی خلفشار اور منافقت کے بغیر، اور بیرونی دباؤں کو بھی خوب اچھی طرح سے رد کرتے ہوئے ، اِس کلمہ طیبہ یعنی’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ ’’اللہ کے علاوہ کوئی سچا حقیقی معبود نہیں ‘‘کے مُطابق اپنی زندگیاں بسر کر سکیں ، اِس  کلمہ طیبہ کو اپنی زندگیوں کے تمام معاملات پر نافذ کر سکیں، سچے عملی مُسلمانوں کی سی زندگیاں گزارتے ہوئے اپنے اللہ کے سامنے حاضر ہوں ،جی ہاں ، اُن کی تمنا ، اُن کا ہدف ایک اِسلامی ریاست (Islamic State)تھی،نہ کہ کوئی نام نہاد مُسلم ریاست(Muslim State)،اور نہ ہی محض جغرافیائی طور پر آزاد کوئی ریاست(So Called An Independent State)،انگریزی میں یہ نام اِس لیے لکھے ہیں کہ دھوکہ دینے والے یہ نام اور اِن سے ملتے جلتے نام اور الفاظ استعمال کر کے دھوکہ دیتے چلے آ رہے ہیں ، اور اللہ جانے کہ ہمیں اُن مکاروں کی چالبازیوں کی سمجھ کیوں نہیں آتی ؟
یا ہم سمجھ بوجھ کر بھی انجان بنے ہوئے غلامی کی زنجیروں کو اپنے اِرد گِرد کستے چلے جا رہے ہیں ؟
اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ جس نے بھی اللہ کے دِین کے نفاذ کے لیے اِسلامی ریاست بنانے کے لیے قُربانی دی ، اللہ تبارک و تعالیٰ اُسے اُس کی نیت کے مطابق اجر عطا فرمائے گا ۔اور جس نے مُسلم ریاست کے قیام کے لیے کام کیا،اللہ تبارک و تعالیٰ اُسے اُس کی نیت کے مطابق اجر عطا۔ فرمائے گا ۔اور جس نے محض جغرافیائی طور پر آزاد ریاست بنانے کے لیے کام کیا ، ، اللہ تبارک و تعالیٰ اُسے اُس کی نیت کے مطابق اجر عطا فرمائے گا ۔
قارئین کرام ، یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جغرافیائی طور پر آزاد زمین کا جو ایک حصہ عطا فرمایا ہے ، جس میں ہم رہ رہے ہیں جسے ہم اپنا وطن کہتے ہیں ، وہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے محض اپنی رحمت کے طور پر عطا فرمایا ہے ، کیونکہ اِس نعمت کو پانے کے ظاہری اسباب میں ہم سمیت آج کی نسل کی کوئی قربانی شامل نہیں ،قُربانی تو دُور کی بات ہے کہیں کوئی رتی برابر محنت یا کوشش بھی دِکھائی نہیں دیتی ، بلکہ اِس نعمت کے ملنے کا ظاہری سبب اُن لوگوں کی قربانیاں تھیں جِن کا ذِکر بات کے آغاز میں کیا گیا ۔ہمارے سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اُن لوگوں کی قربانیوں کی کیا قدر کر رہے ہیں ؟اور اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی اِس عظیم نعمت کی کیا قدر کر رہے ہیں ؟ اور اِس نعمت کو واقعتاً ایک آزاد اور مضبوط اِسلامی ریاست بنانے کے لیے کیا کر رہے ہیں ؟
سوچیے ، سوچیے ، اور پھر سوچیے ! کہ’’ اللہ کی خوشی حاصل کر کےیہ نعمت برقرار رہے گی‘‘ یا ’’اُس کی ناراضگی پا کر؟‘‘
کیا اللہ کی اِس نعمت کا شکر اُس کی نافرمانی کر کے ادا کیا  جانا چاہیے ؟
نام نہاد آزادی کے جشن کے نام پر ایسے کتنے کام کیے جاتے ہیں جو سراسر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں پر مشتمل ہوتے ہیں ؟جی ہاں ، میں نے کہا :’’نام نہاد آزادی ‘‘
جشن منانا شرعی طور پر جائز ہیں یا نہیں ۔
فی الحال تو یہ سمجھنا اور سمجھانا چاہتا ہوں کہ کیا ہم آزاد ہیں ؟
کیا محض جغرافیائی طور پر آزاد زمین کے ایک حصے پر بسنا آزادی ہے ؟کیا ہمارے جِسم ، ہمارے اذہان ، ہمارے دِل ، واقعتاً آزاد ہیں ؟
جی نہیں ، اور ہر گز نہیں ! ہماری معیشت ، مُعاشرت ،  قوانین اور قانون نافذ کرنے کے انداز و اطوار، کِردار و گُفتار، حُلیہ و اِخلاق کونسی چیز ہے جو آزاد ہے ، جِس پر غیروں اور ہمارے رب اللہ جلّ جلالہُ ، اور رب کے  رسول کریم محمد ﷺ کے مُخالفین اور دُشمنوں کا اثر نہیں ،کیا یہ آزادی ہے ؟تو پھر کس آزادی کا جشن منایا جائے ؟
یاد تو کیجیے کہ محمد بن قاسم رحمہُ اللہ کو عرب سے سندھ کیوں بھیجا گیا ؟خلیفہ متعصم باللہ ، رحمہُ اللہ نے ایک مُسلمان بہن کی پکار پر اُس کی مدد کے لیے لشکر روانہ کر دیا ، کیوں ؟
اور ایک ہم ہیں ’’آزاد اِسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ کے ’’پاکستانی مُسلمان ‘‘جو اپنی بہنوں ، بیٹیوں کی عِزتوں کو خُود بھی پامال کرتے ہیں ، اور دُوسروں کے ہاتھوں بیچتے بھی ہیں ، یہ فروخت پیسہ کمانے کے لیے بھی ہوتی ہے ، عہدے اور منصب پانے کے لیے بھی ہوتی ہے ، سیاست چمکانے کے لیے بھی ہوتی ہے ، اوراُن کی ناراضگی اور گرفت سے بچنے ، اُن کی رضا پانے کے لیے بھی ہوتی ہے، جنہیں ہم نے عملی طور پر اپنے ’’اِلٰہ (معبُود )‘‘ بنا رکھا ہے ۔
کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کا مطلب : ’’ لالٰہ الا اللہ ‘‘’’ اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا حقیقی معبود نہیں ‘‘ ہونا  مقرر کیا گیا تھا ؟کیا یہ آزادی ہے ؟
تو پھر کس آزادی کا جشن منایا جائے ؟
اُس آزادی کا ، جو ہمارے پاس ہے ہی نہیں ؟
یا اُس آزادی کا جو ہمیں عطا تو کی گئی تھی لیکن ہم نے اُسے پہچاننے اور جاننے کے بعد بھی اُس کی قدر نہ کی، اللہ کی اُس نعمت کا اِنکار کر دِیا ، کیا ہمارا حال مندرجہ ذیل آیت کے مطابق نہیں ہے :
{یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللہِ ثُمَّ یُنْکِرُوْنَہَا وَاَکْثَرُہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(83)}( النحل: 83)  ’’ وہ اللہ کی نعمتوں کو جانتے ہیں لیکن اُن نعمتوں ( کو جاننے ، پہچاننے کے باوجود اُن نعمتوں ) کا اِنکار کرتے ہیں ، اور اُن لوگوں کی اکثریت اِنکار کرنے والوں کی ہے ‘‘
ہم بحیثیت قوم ، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچاننے کے باوجود ، جاننے کے باوجود، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اُس کی تابع فرمانی اختیار کرنے کی بجائے ، اُ س کی نافرمانیاں کر کر کے اُس کی عطا کردہ نعمتوں کا اِنکار کرتے ہیں ، کیونکہ ہم آزاد ہیں !
اور آزادی کی خوشی منانا تو بنتا ہی ہے ، اور خوشی کے اظہار کے لیے جشن منانے سے اچھا طریقہ بھلا کون سا ہو سکتا ہے ؟ اور جشن منانا اُس وقت تک نہیں ہوتا جب تک اُس میں ڈھول ڈھمکا، مُوسیقی ، ناچ گانا ، مرد و عورت کا اختلاط ، وغیرہ نہ ہو ، اگر یہ سب کچھ، یا اِن میں سے کچھ نہ کیا جائے تو اپنے دِین اور اخلاقیات سے آزاد خوشی کا اظہار ہو گا نہیں ۔پھر بھی اگر آپ ، ایسی آزادی کا جشن منانا ہی چاہتے ہیں جِس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ، تو یہ بھی ضرور سوچیے گا کہ اُس جشن کا انجام کیا ہو گا؟اُس کے بدلے میں کیا ملے گا ؟ جس میں اللہ کی لعنت پانے والی آوازیں گونجتی رہی ہوں۔
رسول اللہﷺ کا اِرشاد ہے:’’دو آوازیں لعنتی ہیں ، نعمت ملنے پر موسیقی کے آلات کی آواز، اور مصیبت آنے پر ماتم و نوحہ کی آواز۔‘‘(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ)
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں توفیق عطافرمائے کہ ہم معاملات کو درست طور پر ہمیں سمجھ سکیں اور حقیقی طور پر باعزت اورآزاد ہونے کی جرأت عطا فرمائے۔