جوئے بنگلہ رجاکار
آصف محمود
پاکستان نے پاکستان سے عشق کرنے والے جن پاکستانیوں کو ڈھاکہ کے مقتل میں اکیلے چھوڑ دیا تھا، آج وقت نے انہیں مقتل میں سر بلند کر دیا ہے۔ سلیم منصور خالد صاحب نے ’البدر‘ لکھی تو انتساب میں سارا درد انڈیل دیا: اس خون کے نام جو پاکستان کے لیے بہا اور پاکستان میں اجنبی ٹھہرا۔ اس ملک میں سلیم منصور خالد کے سوا کون ہے جسے سب سے پہلے مبارک دی جائے کہ جو خون دیار عشق میں اجنبی ٹھہرا تھا وہ خون مقتل میں بشارت بن گیا ہے۔
کیسے کیسے لوگ حسینہ واجد نے پھانسی پر چڑھا دیے، یاد کرنے بیٹھیں تو دل سے دھواں اٹھتا ہے۔ نسلیں پاکستان پر قربان ہو گئیں لیکن پاکستان کی حکومتوں نے مڑ کر ان کی طرف نہ دیکھا۔ بڑھاپے میں لوگوں کو مقتل میں لٹکایا گیا کہ جوانی میں انہوں نے پاکستان سے محبت کی تھی۔ آفرین ہے ان لوگوں پر ایک کے بعد ایک قتل ہوتا گیا، مقتولوں نے سروں کی مالا پرو دی لیکن کسی ایک کے قدم نہ ڈگمگائے۔ کسی ایک نے معافی نہ مانگی۔
مکتی باہنی کے جرائم اور درندگی پر پردے ڈال دیے گئے ا ور البدر اور الشمس والوں پر مقدمے قائم ہونے لگے۔ گواہیوں کا معیار یہ تھا کہ اگر کسی کے خلاف عوامی لیگ کے کسی اخبار میں بھی کوئی خبر چھپی تھی تو وہ ثبوت قرار دیاگیا۔ 1971 کے واقعات پر 2022 اور 2024 میں پھانسیاں ہونے لگیں۔ جھوٹے مقدمے، سفاک عدالت اور پھر مقتل۔
لوگ 55 سال بعد بھی مسکراتے ہوئے پھانسی گھاٹ جاتے رہے لیکن پاکستان کی حکومتیں یوں اجنبی بن گئیں جیسے جانتی ہی نہ ہوں کہ یہ کون ہیں جو آج بھی پاکستان کی محبت کے جرم میں پھانسیاں پا رہے ہیں۔
یہاں تک کہ برطانوی سپریم کورٹ نے بھی حال میں ان مقدمات کو ادھیڑ کر رکھ دیالیکن برطانوی سپریم کورٹ کا یہ شاندار فیصلہ پاکستان میں کہیں زیر بحث تک نہ آ سکا۔ میں نے اس پر انگریزی میں کالم لکھا، وہ بھی تب جب سلیم منصور خالد صاحب نے توجہ دلائی اور اصرار کیا۔ سوچتا ہوں کوئی یار مار ہو توہم سا۔ علی گیلانی سے ملا عبد القادر تک ہم نے ہر اس شخص کو مقتل میں اکیلا چھوڑا جس نے پاکستان سے محبت کی۔ دل کٹ جاتا ہے۔
مکتی باہنی کے مجرموں کے لیے آج بھی چالیس فی صد کوٹے پر اصرار اور احتجاج پر قتل و غارت، یہ رویہ بتا رہا ہے کہ باپ کی طرح بیٹی کا بھی جمہوریت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ وحشت تھی۔ ایسی ہی وحشت کا علم شیخ مجیب نے بھی اٹھایا تھا اور جب قتل ہوا تو اگلے روز شائع ہونے والے بنگلہ دیش آبزرور کے اداریے کا آغاز اس فقرے سے ہوا کہ:
"The killing of Sheikh Mujib was a historic necessityـ"
پاکستان نے تو شیخ مجیب کو جیل سے نکال کر بنگلہ دیش بھیج دیا لیکن اگست1975 میں بنگلہ دیش کی فوجی بغاوت میں انہیں ان کے بچوں، بیوی، بہو سمیت قتل کر دیا گیا۔ اہل خانہ میں صرف دو بیٹیاں بچ سکیں جو ملک سے باہر تھیں۔کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ ساری خرابی اگر مغربی پاکستان کے فیصلہ سازوں ہی کی تھی تو بنگلہ دیش کی فوج نے اپنے بنگ بندھو کو تیسرے ہی سال کیوں قتل کر دیا؟
اس کا جواب بہت سادہ ہے؛ اس نے بھی وہی حرکتیں کی تھیں جو حسینہ واجد کر رہی تھی۔ باپ کے قتل کے وقت بچ اس لیے گئی کہ ملک سے باہر تھی۔(ورنہ قاتلوں نے تو شیخ مجیب کے دس سالہ بچے ارسل کو بھی معاف نہیں کیاتھا)۔اور اب شاید بچ اس لیے گئی کہ ملک سے بھاگ گئی۔ شیخ مجیب کی فسطائیت بھی شرم ناک تھی، اس کی بیٹی کی فسطائیت بھی شرم ناک رہی۔
شیخ مجیب کو مارنے والے کون تھے؟ یہ مغربی پاکستان کے لوگ نہ تھے۔ یہ بنگلہ دیش کے اپنے فوجی تھے۔ اور عام فوجی بھی نہیں تھے۔ ان میں سے تین تو وہ تھے جو بنگلہ دیش نے باقاعدہ جنگی ہیرو قرار دے رکھے تھے کہ انہوں نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر ”آزادی کی جنگ“ لڑی تھی۔درجنوں گواہیاں موجود ہیں کہ یہ شیخ مجیب کے کارندوں کے ہاتھوں فوجی افسران کے اہل خانہ کی عصمت دری کا انتقام تھا۔ قاتل بھی وہی تھے جو مکتی باہنی کے ”ہیرو“ تھے۔
شیخ مجیب کے قاتلوں میں سے تین ایسے تھے جو بنگلہ دیش میں ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔سوال یہ ہے کہ وہ کیوں قاتل بنے؟
ڈھاکہ عوامی لیگ کے صدر اور شیخ مجیب کے دست راست شیخ غلام مصطفیٰ نے بنگالی میجر کی بیوی اور بیٹی کو اغوا کر لیا تھا۔اور جب اس پر بنگلہ دیش کے فوجی دستے غصے میں ان کی تلاش کے لیے شہر بھر میں پھیل گئے تو شیخ مجیب نے انڈر ورلڈ کے ڈان کی طرح اپنے گھر پر صلح کروا دی۔ شیخ غلام مصطفیٰ کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی البتہ افسران کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ اتفاق دیکھیے کہ اسی رجمنٹ کے افسران بعد میں شیخ مجیب کے قتل میں شامل تھے۔
عوامی لیگ کے ایک غنڈے اور مقامی صدر مزمل نے ایک بارات میں سے دلہا اور دلہن کی کار کو قبضے میں لے لیا۔ دلہا وہیں قتل کر دیا گیا۔ دلہن کی عزت لوٹ کر دو روز بعد اس کی لاش پھینک دی گئی۔ فوج نے مزمل کو گرفتار کر لیا۔ شیخ مجیب نے حکم دیا اسے رہا کر دیا جائے۔روایت ہے کہ میجر فاروق اسی واقعے کے رد عمل میں شیخ مجیب کے قاتلوں کے ساتھ شامل ہوا۔
عوامی لیگ کا یہی غنڈہ مزمل اس وقت بنگلہ دیش میں وفاقی وزیر تھا اور البدر کے لوگوں کی گرفتاریوں اور پھانسیوں کے معاملات انہی کی نگرانی میں چل رہے تھے۔
حسینہ واجد باپ کی طرح سفاک آمر تھی۔ تحریک اٹھی تو اس نے اسے کچلنے کا آسان راستہ اپنایا اور کہا یہ سب ”رجاکار“ ہیں۔ یعنی یہ سب البدر کے ہیں، یعنی غدار ہیں اور پاکستان کے ایجنٹ ہیں۔ اس کاجواب اسے یہ ملا کہ اگلے روز ہزاروں طلبہ چھ بڑے شہروں میں یہ نعرے لگاتے سڑکوں پر تھے کہ:
توئی کے، آمی کے؟ رجاکار رجا کار
(تو کون، میں کون؟ رضاکار، رضاکار)
جیٹے گیلم، آدھی کار بوئے گیلم رجاکار
(مطالبات منوانے کا ایک ہی رستہ، رضاکار، رضاکار)
یہ ایک پوسٹ ٹروتھ تھا جسے اس کے باپ نے کیش کیا اور بھارت کی شہہ پر غداری کی۔ اس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہ تھا، میں اس سب پر تفصیلی کالموں کی سیریز لکھ چکا ہوں اس لیے یہاں اس کی تکرار کا موقع نہیں۔
وقت سارے حجاب اٹھا دیتا ہے۔ غدار کی بیٹی بھاگ کے بھارت کی پناہ میں چلی گئی۔ اگر تلہ ساش کیس کے مرکزی کردار کی بیٹی بھاگ کر پہنچی بھی تو کہاں؟ اسی شہر اگر تلہ میں۔
جو مقتل میں گئے سرخرو رہے، جو اقتدار میں تھے ذلیل ہو کر بھاگ گئے۔ ایک وقت آئے گا بنگال میں میر جعفر کی نمک حرام ڈیوڑھی کے ساتھ ایک اور نمک حرام ڈیوڑھی کا اضافہ ہو جائے گا۔ نمک حراموں کی ڈیوڑھیاں عبرت کدہ ہوتی ہیں۔(روزنامہ بشکریہ’’ 92 نیوز‘‘ لاہور)