لہو کے سارے شعبدے،لہو کے سارے معجزے!
عامرہ احسان
حالات و واقعات کی برق رفتاری بے پناہ ہے۔ ایک خبر سے سنبھلتے نہیں ہیں کہ دوسری خبر توجہات سمیٹے لیتی ہے۔ بنگلہ دیش پر جبر و استبداد کی طویل حکمرانی، فسادات اور پھر اس سے نجات کا غیرمتوقع سامان۔ ایران کے صدر کا فلسطینی مہمان نہایت غیرمتوقع طور پر تمام عالمی مہمانوں میں سے نشانے پر رکھ لیا گیا! کس نے سوچا تھا! وہ جو جنگی مذاکرات کا مرکزی کردار اور اہم ترین فریق تھا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت، فی نفسہ جہاں ایک غم کا گھائو ہے وہاں انہی کے بیٹے عبدالسلام ہانیہ کے مطابق: آج شہدا کے استاد / قائد کی فلسطین میں تاج پوشی ہے!… ہماری تشفی، اطمینان یہ ہے کہ وہ ایک شہید ہے دائمی جنتوں میں۔ فلسطین کے عظیم قافلے کے لیڈروں میں شامل!شہادت بھی یوں ہوئی کہ میزائل نے فانی خاکی وجود کا اوپر کا حصہ نشانہ بنایا…! بوٹی بوٹی بکھری عبداللہ بن جحشh کے بیٹے کی طرح اور وہ وعدہ پورا ہوا۔ شیروں کی طرح حیات مستعار میں ہنیہ ؒ نے پکارا تھا: ارواحنا و دماؤنا و اھلنا و ابناؤنا و بیوتنا فداء علیٰ قدس و الاقصیٰ! (ہماری جانیں، ہمارا خون، ہمارے خاندان، ہماری اولاد، ہمارے گھر بار، سب اقصیٰ اور قدس پر قربان) ایمان اور اسلام سے لاعلم، اپنی تاریخ اور سیرت مطہرہ ﷺ، غزوات کی تعلیم سے بچا بچا کر پا لی گئی نسلیں اس لذت سے ناواقف ہیں۔
بنا کر دند خوش رسمے بہ خاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت رابیٹے کے مطابق اسماعیل ہنیہ نے خاندان کے (اولاد سمیت) 100 سے زیادہ شہداء اس جنگ میں پیش کیے، گھر بار لٹائے! اسلامی تاریخ نے بعثت نبوی کے بعد بار بار فتوحات حاصل کیں اور خلافت عثمانیہ تک تین براعظموں پر حکمرانی کی، تو انہی شیروں کی بدولت۔ ہماری تاریخ کاہر صفحہ خونِ شہداء کے چھینٹوں سے معطر ہے اور یہ عظیم ترین اعزاز ہے! خواہ وہ روس یا امریکا نیٹو جیسی قوت و جبروت کی سلطنتیں اور عساکر ہوں! امریکا کے خلاف لڑنے والوں میں سے وہ ایک محمد بن قاسمؒ کی عمر کا مجاہد، جس پھول کی ہر پتی اسی طرح ’’ہیل فائر‘‘ (جہنم کی آگ) میزائل سے بکھری اور بوٹی بوٹی کو معطر کرگئی! زمیں کے نیچے بھی روشنی ہو، چراغ مٹی میں رکھ دیا ہم نے! قطر نے اسماعیل ہنیہ کو شایان شان استقبال دے کر غم رسیدہ اُمت کا سر فخر سے بلند کردیا۔ یہ کہا سرکاری ٹیلی ویژن سے: ’’قطر آج فلسطین کا ایک خالص اور پاکیزہ ٹکڑا قبول (کرنے کی سعادت حاصل) کررہا ہے۔‘‘ (قطر کی سرزمین پر شہید ِقدس و اقصی کا وجودِ فانی، مدفون خزانہ! )
خان یونس میں کیمپوں میں فلسطینی شہادت پر کھجوریں (بطور مٹھائی) پیش کی گئی۔ شہادت پر مٹھائی کھلانا ان کی روایت رہی ہے۔ وہ اس کی قدر و قیمت سے واقف ہیں:
لہو کے سارے شعبدے، لہو کے سارے معجزے
کہیں شرر افشاں لہو، کہیں ہے گل فشاں لہوادھر قندھار میں محبت ایک اور رنگ میں ہے۔ اعلیٰ فوجی حکام کے اجلاس میں جب ہنیہ کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو دنیائے کفر کو خون کے آنسو رلانے والوں کے اپنے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے! ڈاڑھیاں محبت بھرے آنسوئوں سے تر ہوگئیں! امیر قطر شیخ تمیم بن حمد اٰل ثانی نے نماز جنازہ میں اپنی عقال (سر کی سیاہ پٹی) اُتار دی۔ عرب روایت کے مطابق یہ اظہار ہے کہ: ’’یہ میرا ذاتی نقصان ہے!‘‘ اور ادھر ہم عقل سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بانی ٔپاکستان فلسطین اور قدس پر قومی موقف، وابستگی اور عزم طے کر گئے تھے جس پر دو رائے ممکن نہیں۔ بائیڈن اگر بحکمِ خداوندی مر جاتا تو ہمارے سبھی حکمران پہنچ جاتے! یہاں غائبانہ نماز جنازہ پر اکتفا کیا۔ قرارداد میں اسرائیل کا ذکر حذف کردیا مارے خوف کے!
حماس ،کسی فرد کا نام نہیں۔ یہ اقصیٰ ہے، قدس ہے۔ ایک ناقابلِ شکست عزائم کی حامل مضبوط قوم ہے۔ کچھ وہ ہیں جو کہ مر کر بھی زندہ ہیں۔ (قبر جنہاں دی جیوے ھُو!) مت کہو وہ مردہ ہیں۔ ایسا سوچو بھی مت! تم زمین سے چمٹے (میکڈونلڈ) چر چگ رہے ہو، وہ اللہ کے ہاں (بے مثال جنتوں میں) رزق پا رہے ہیں! اہلِ غزہ ایسے کیوں کر ہوگئے؟ انہیں وہ قیادت میسر آئی (شیخ احمد یٰسین جیسے)جنہوں نے ’’قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن‘‘ کی روح اور تربیت قوم میں اُتار دی۔
حضرات انبیاء کرامf کی سرزمین کی وراثت، قدس اور مسجد اقصیٰ کی عظمت ان کی ہر بنِ مو میں بھر دی۔ وہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے پیغام کو گویا حرزِ جاں بنا بیٹھے، جسے مولاناؒ کی اپنی قوم نے کما حقہ اہمیت نہ دی۔ سب جا بجا یہ پڑھ چکے ہیں جو اُن کا مالٹا (اُس دور کا گوانتا نامو!) کی قید سے واپسی پر اہم ترین پیغام، وصیت اور عزم تھا: … قرآن کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے۔ بچوں کے لیے لفظی تعلیم، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کی معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت برداشت نہ کیا جائے۔ سوائے باضابطہ مدارس میں تعلیم کے، کم نصیبی سے قوم قرآن پاک، سیرت ِنبویﷺ اور تاریخِ اسلام سے نہ صرف یکسر نابلد ہے، اُلٹا دیندار طبقہ بھی اب خشوع و خضوع سے آکسفورڈ، کیمرج، لندن سے یہاں بیٹھے او لیول، اے لیول کا طلبگار ہورہا ہے۔ کہ زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!
غزہ کی خوبصورت طویل داستان ہے کہ حکومتی سطح سے کس طرح ہر بچے، نوجوان، تعلیمی اداروں، دفاتر، سرکاری اہلکاروں تاجروں میں تعلیمِ قرآن، حفظ اور فہم اُتارا گیا۔ روح کا حصہ بنا۔ شرح خواندگی بھی 100یصد ہے۔ قرآن پر محنت نے انہیں فہم و فراست، صبر و ثبات عطا کیا۔ جہاد فی سبیل اللہ اور پُرمشقت زندگی نے انہیں دین و دنیا میں یکتا کر دیا۔ اسماعیل ہنیہ 2006ء میں وزیراعظم منتخب ہوئے تو شاندار سرکاری رہائش قبول کی نہ ہیلی کاپٹر پروازیں! مہاجر کیمپ کے سادہ گھر میں رہے۔ کہا: میں اپنے لوگوں، مہاجرین اور مفلوک الحال عوام میں رہنا پسند کرتا ہوں۔ یہ سیاست نہیں ہے۔ یہ ہمارے خلفائے باصفا کی شان کا اتباع تھا۔ شیخ احمد یٰسینؒ کا تربیت یافتہ معاون، لوگوں کے دلوں کی دھڑکنوں میں بستا تھا۔
نیتن یاہو کا یہ حملہ مذاکرات اور امن پر حملہ ہے، جنگی جرم ہے۔ امریکا اسرائیل، قدسی، فلسطینی مہمان پر، پُراسرار حملے کے جواب دہ یہ سبھی ہیں، بشمول میزبانوں کے۔ جو قطر، ترکی میں محفوظ رہا وہ یہاں عدم تحفظ شکار کیوں کر ہوا؟اگرچہ وہ کامیابی کی عالی شان منزل مراد پا گیا اور حماس میں رجال کار کی کمی نہ کل تھی نہ آج۔ مگر جنگی جرائم اور شراکت کاری میں ایک اور اضافہ اپنی جگہ!
ادھربنگلہ دیش کی 30 سالہ تاریخ میں 20 سال حسینہ واجد نے بھارت پرستی اور پاکستان دشمنی کی بنیاد پر جبر کی حکمرانی کی ہے۔ اس کی سیاست مکمل سیکولر، اسلام مخالفت پر مبنی رہی۔ مکتی باہنی کی نسلوں کے معاشی تحفظ کے لیے کوٹہ مسلط کیا جانا اسے لے ڈوبا۔ صبر کے سبھی پیمانے لبریز ہوئے، پوری دنیا کی فضا بدل چکی ہے، یہاں بھی یہ انقلاب نوجوان طلبہ کی تحریک، خون اور گرفتاریوں کا مرہون منت ہے۔ ڈھاکا کی سڑکوں پر ٹینک بکتربند گاڑیوں کے مناظر جولائی سے شروع ہوئے اور اب حسینہ واجد … پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا! یعنی ڈھاکہ سے جان بچا کر اگرتلہ (بھارت) پہنچی جہاں مجیب الرحمن نے بھارتی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر پاکستان توڑنے کی سازش کی تھی!پھر بھارتی تحویل میں دہلی منتقل۔فی الوقت عبوری حکومت کی تیاری ہے۔ وہاں جماعت اسلامی قربانیوں، پھانسی کے تختے حق کے خاطر چوم لینے کی روایت (2001ء کے بعد امریکا کی بین الاقوامی سطح پر اسلام دشمنی کی ہر خطے میں حوصلہ افزائی ہوئی) خالدہ ضیاء کی پارٹی اور دیگر اپوزیشن کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا حصہ رہی، پاکستان سے محبت کی بھرپور سزا بھی پاتی رہی! وقارالزماں آرمی چیف حسینہ واجد کا قریبی عزیز اور معتمد رہا ہے۔ یہ تبدیلی 30سالہ بھارتی آسیب سے بنگلہ دیش کو نجات دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ اپوزیشن اور بالخصوص طلبہ قیادت اس پر متفق ہے۔ اللہ امن و امان وہاں جلد بحال کرے اور بہترین قیادت سے نوازے۔ ؎
ایں دعا از من و از جملہ مومنین آمین باد!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024