(زمانہ گواہ ہے) قادیانیت کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ - محمد رفیق چودھری

10 /

تحفظ ناموس رسالت کےلیے ایک بھرپور تحریک چلانا

وقت کی ضرورت ہے : رضاء الحق

میں تمام دینی جماعتوں او رعلمائے کرام سے درخواست

کرتا ہوں کہ وہ ایک بار پھر عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ

کے لیے اکٹھے ہوں : محمد متین خالد

قادیانیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کاپورا فیصلہ ہی

ناقابل عمل اورآئین و قانون سے متصادم ہے : راؤ عبدالرحیم

قادیانیت کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مبارک ثانی قادیانی کیس کی ریویو پٹیشن کا فیصلہ سنا دیا ہےجس کو تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے مسترد کیا ہے۔ اس فیصلے کے متنازعہ اور قابل اعتراض نکات کیا ہیں؟
محمد متین خالد:سپریم کورٹ نے6 فروری 2024ء کو ایک فیصلہ دیا تھا ۔ اس کے خلاف عوامی حلقوں ، دینی اداروں اور مختلف طبقات کی جانب سے نظرثانی کی اپیل کی گئی تھی جس کو چیف جسٹس نے مسترد کرتے ہوئے سابقہ فیصلے کو بحال رکھا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ نہیں بلکہ فساد ، انتشار اوراشتعال انگیزی کی جڑ ہے جس نے امن و امان کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ ہم عدالت کے پاس درخواست لے کر گئے تھے کہ آپ کا جو فیصلہ ہے اس کا پیرا نمبر 6 سے لے کر پیرا نمبر 10 تک متنازعہ ہے ۔ ایک آدمی آپ کے پاس ضمانت کے لیےآیا ہے اورآپ سیاق و سباق سے ہٹ کر قرآن مجید کی آیات کی تشریح میں چلے گئے ، لہٰذا آپ اس کو حذف کریں ۔ریویو پٹیشن کے فیصلے کا پیرا نمبر 42 انتہائی متنازعہ ہے ۔ پوری دنیا میں جرم جرم ہوتاہے چاہے بند کمرے میں ہو یا کھلے عام ہو ۔ ایک آدمی چار دیواری کے اندر جاکر کہے کہ میں جعلی کرنسی بنا رہا ہوںیا دھماکہ خیز مواد بنا رہا ہوں تو کیا وہ جرم نہیں ہوگا ؟ اسی طرح قادیانی اگر توہین رسالت اور توہین قرآن کے مرتکب ہوتے ہیں تو تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 بی اور 298سی کے مطابق وہ مجرم ہیں ۔ لیکن عدالت نے فیصلہ کے پیرا نمبر 42میں قادیانیوں کو چھوٹ دے دی کہ آپ چار دیواری کے اندر جو چاہےکریں ۔ حالانکہ خود سپریم کورٹ کا 1993ء کا فیصلہ ظہیر الدین بنام سرکار موجود ہے جس میں عدالت نے لکھا ہے کہ قادیانی جب کلمہ پڑھتے ہیں تو اس میں رسول اللہ سے مراد ملعون مرزا قادیانی ہوتاہے ۔ اب سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے تو اس کے مطابق تو گویا قادیانیوں کو توہین رسالت کی اجازت دےدی گئی ہے۔ مرزا ملعون اپنے جعلی قرآن میں کہتا ہے کہ اناانزلنہ قریبا من القادیان۔ قادیانی کہتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی ہے(معاذ اللہ)کہ اے مرزا ہم نے قرآن مجید کو قادیان کے قریب اُتارا۔ اسی طرح قادیانی قرآن مجید کی اس آیت :
{اِنَّآاَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (1)} ’’(اے نبیﷺ!) ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کیا۔‘‘
کا یہ مطلب نکالتے ہیں کہ یہ آیت مرزا ملعون کی شان میں نازل ہوئی (استغفراللہ)۔ اسی طرح وہ اس آیت کے بارے میں بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں : 
{وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ}’’ اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کردیا۔‘‘
اس طرح کی جتنی آیات ہیںجن میں نبی اکرم ﷺ کی شان بیان ہوئی ہے ان سے مراد وہ یہی لیتے ہیںکہ یہ نعوذ باللہ مرزا ملعون کے لیے نازل ہوئی ہیں۔ اسی طرح  قادیانی کہتے ہیں کہ لیلۃالقدر سے مراد مرزاملعون کی بیوی نصرت بائی ہے ۔قادیانی مرزا قادیانی کو رسول اللہ کہتے ہیں ، اس کی بیوی کو ام المومنین کہتے ہیں ، اس کی بیٹی کو سیدۃ النساء کہتے ہیں ۔ اس ملعون کے دوستوں کو صحابہ کہتے ہیں ۔ اس کی خرافات کو قرآن مجید کہتے ہیں (معاذاللہ) ۔ سپریم کورٹ نے ان سب گستاخیوں کی اجازت قادیانیوں کو دے دی ہے اور یہ ظلم عظیم ہے ۔خدشہ ہے کہ اس کے خلاف عوام میں اشتعال پھیلے گا اور امن و امان خطرے میں پڑجائے گا ۔ لہٰذا یہ فیصلہ ہر لحاظ سے ناقابل قبول ہے اور آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیا گیا ہے ۔ جس کتاب کے متعلق کیس تھا اس پر خود حکومت پنجاب نے پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس اس کی اشاعت اور تقسیم کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں ؟ ایک جج صاحب نے اپنے گھر کے باہر Justiceلکھ کر لگا دیا تو چیف جسٹس صاحب نے شوکاز نوٹس جاری کر دیا کہ آپ سیشن جج ہیں ، آپ یہ سٹیٹس نہیں لگا سکتے ۔ یہ تو عدالت سے برداشت نہیں ہوا لیکن اللہ کے رسول ﷺ کی جو شان قرآن میں  بیان ہوئی اس کو آپ نے ملعون مرزا قادیانی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے دی؟ لہٰذا یہ پوری اُمت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئینی ، قانونی ، شرعی اور ہر لحاظ سے غلط ہے ۔
رضاء الحق: سپریم کورٹ نے 6 فروری 2024ء کے فیصلہ میں تصحیح کی بجائےنہ صرف اُسے بحال رکھا ہے بلکہ مزید تنازعہ کھڑا کر دیا ہے ۔ بنیادی طور پرکیس یہ ہے کہ 2019ء میں قادیانیوں کے ایک مدرسہ میں مبارک ثانی نامی قادیانی بدنام زمانہ تفسیر صغیر تقسیم کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ 1974ء میں جب قادیانیوں کو کافر قراردیا گیا تھا تو اس کے بعد قانون میں باقاعدہ دفعات شامل کی گئی تھیں کہ قادیانی نہ تو خود کو مسلمان کہہ سکتے ہیں ، نہ مسلمانوں کے شعائر کا استعمال کر سکتے ہیں ،نہ اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ قرآن کی تفسیر یا ترجمہ شائع کر سکتے ہیں ۔لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ میں ان کو اس بات کی اجازت دے دی گئی ہے۔پھر یہ کہ حالیہ فیصلہ میں جگہ جگہ ان کو احمدی لکھا گیا ہے ۔ ہمارا قانون تو کسی بھی مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دیتا تو اسلام کے ساتھ یہ ظلم کیوں  ہو رہا ہے ؟ 2019ء میں جب قادیانیوں کے مدرسہ کی تقریب میں متنازعہ کتاب تقسیم کی گئی تو وہ قانون کے مطابق جرم تھا ۔ اسی وجہ سے سیشن کورٹ نے بھی اور بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے بھی ضمانت کی درخواست خارج کر دی تھی۔ اس کے بعد قادیانی سپریم کورٹ میں چلے گئےاور سپریم کورٹ نے نہ آئین اور قانون کے تقاضوں کو دیکھا ، نہ ایف آئی آر اور فرد جرم میں شامل دفعات کو دیکھا اور نہ ہی مدعی کے دلائل سننے کی زحمت گوارا کی ، صرف قادیانی وکیل کے دلائل سن کر فیصلہ دے دیا ۔ جواز یہ دیا کہ 295بی اور 298سی کا اطلاق نہیں ہوتا اور ہولی قرآن ایکٹ 2011ء کے حوالے سے بہانہ یہ بنایا کہ اس میں 2021ء میں تبدیلی کر دی گئی تھی۔لہٰذا 2019ء کے جرم کی سزا 2021ء کے قانون کے مطابق نہیں دی جاسکتی ۔ کہا گیا کہ 2011ء کے ہولی قرآن کے ایکٹ کے مطابق سزاچھ ماہ قید بنتی تھی جو ملزم نے کاٹ لی ہے لہٰذا کیس ہی خارج کر دیا گیا ۔ بہرحال صاف طور پر نظر آرہا ہے کہ فیصلے میں 295بی اور 298سی کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے ۔ جن کے مطابق قادیانی نہ تو شعائر اسلام کو استعمال کر سکتے ہیں اور نہ قرآن اور اس کے کسی جز کا ترجمہ و تفسیر کر سکتے ہیں ۔ پھر 2011ءسے جس کتاب پر پنجاب گورنمنٹ نے پابندی لگائی ہوئی ہے وہ آج کیسے شائع ہورہی ہے ؟  اب عدالت نے فیصلہ کے پیرا نمبر 42 میں قادیانیوں کو اجازت دے دی ہے کہ وہ خلوت میں بے شک توہین قرآن کریں یا توہین رسالت کریں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ یہ بہت بڑی ناانصافی ہے ۔
محمد متین خالد:یہ فیصلہ قادیانیوںکی سہولت کاری پر مبنی ہے۔ مدعی کی پٹیشن کو عدالت نے خارج کرنے کے بعد 6 فروری کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے ۔ جس میں یہ بھی لکھا ہے کہ مبارک ثانی کو گرفتار کرنے والے پولیس آفیسرز نے اگر قانون پڑھا ہوتا اور قرآن کا مطالعہ کیا ہوتا تو وہ اسے کبھی گرفتار نہ کرتے ۔ فیصلے میں یہ سب سے خطرناک بات اس لیے ہے کہ آئندہ کوئی بھی قادیانی توہین قرآن اور توہین رسالت پر مبنی کتابیں تقسیم کرتا ہوا پکڑا گیا تو اس کے خلاف کوئی FIRدرج نہیں ہوگی ۔
سوال:مبارک ثانی قادیانی کیس کا فیصلہ آ چکا ہے۔ اس فیصلے میں کیا آئینی اور قانونی سقم موجود ہیں؟
راؤ عبدالرحیم: سقم تو بہت ہیں مگر میں کہوں گا کہ پورا فیصلہ ہی ناقابل عمل اور قانون سے متصادم ہے ۔ کیونکہ 6 فروری کے فیصلہ کو نہ صرف برقرار رکھا گیا ہے بلکہ اس میں قادیانیوں کو وہ رعایتیں بھی دے دی گئی ہیں جو انہوں نے مانگی بھی نہیں تھیں ۔
سوال: سپریم کورٹ کے اس متنازعہ فیصلے سے قادیانیوں کےبارے میں پہلے سے طے شدہ آئینی اور قانونی سٹیٹس میں کوئی فرق پڑے گا؟
راؤ عبدالرحیم:میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسے فیصلوں کےذریعے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ قادیانیوں کے سٹیٹس میں فرق ڈالا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی فرق پڑے گا یا نہیں کیونکہ فیصلہ نہیں چلتا بلکہ قانون چلتا ہے ۔ فیصلہ صرف چند چیزوں کی تشریح کرتاہے ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس فیصلے سے قادیانیوں کے لیے قانون بدل گیا ہے تو ایسا نہ ہوا ہے اور نہ ہونے دیا جائے گا ۔ آئین اور قانون میں قادیانیوں کا سٹیٹس بہت واضح ہے، اس میں مزید کسی تشریح  اور وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ ضرور ہوگا کہ قادیانی اس فیصلے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان کے تمام اداروں پر واضح ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور قانون کے مطابق وہ اسلامی شعائر کا استعمال نہیں کر سکتے ۔ قادیانی صرف جعل سازی کرتےہیں اور ہمارے قانون کے مطابق کسی کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔
سوال: سپریم کورٹ اس کیس کے ریویو پٹیشن کا بھی فیصلہ دے چکی ہے تو کیا اس معاملے پر مزید عدالتی جنگ کا کوئی فورم باقی ہے؟ اور آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوناچاہیے؟
راؤ عبدالرحیم:جی الحمدللہ ! یہ عدالتیں اور یہ قانون ہی ہمارا فورم ہیں ۔ ایک راستہ بند ہوگاتو سو راستے کھلے ہیں۔ میں اور میری ٹیم تیار بیٹھے ہیں۔ ہم ان شاء اللہ دوبارہ سپریم کورٹ جارہے ہیں ۔ ہم اس وقت تک لڑیں گے جب تک قادیانی جعل سازی چھوڑ نہیں دیتے اور وہ اسلامی شعائر کا استعمال چھوڑ نہیں دیتے ۔ ہم پورے پاکستان کو ، اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو ، عدالتوں کو یہ کہتے ہیں کہ بلائیں مرزا مسرور کو اس سے پوچھیں کہ اس کا مذہب کیا ہے ؟ قادیانی بتائیں کہ ان کو اپنے مذہب یعنی قادیانیت میں کون سے حقوق چاہئیں ۔ ہم ان کو حق دیں گے مگر جو چیز ہمارے قانون میں جرم ہے اس جرم کی اجازت ہم ان کو ہرگز نہیں دیں گے ۔ اگر وہ یہ جرم کریں گےتو ہم ان کے خلاف ایفFIRدرج کروائیں گےاور قانون کے مطابق کارروائی کریں گے ، ان کو عدالتوں میں گھسیٹیں گے اور ان کو مجبور کر دیں گے کہ وہ قادیانیت کے متعلق قانون کو فالو کریں ۔ یہی ہمارا مطالبہ ہےکہ امتناع قادیانیت آرڈینینس پاکستان میں بغیر کسی تفریق کے نافذ ہونا چاہئیں ۔اگر وہ قانون کو نہیں مانتے اور کوئی ان کو بلا کر بٹھانا چاہتا ہے اور وہ نہیں بیٹھنا چاہتے تو پھر سازشی کون ہے یہ سب پر عیاں ہے ۔
سوال:مبارک ثانی کیس کی سماعت کے دوران تین رکنی بنچ نےقرآن اکیڈمی لاہور سمیت دس نامور دینی اداروں  سے قانونی اور شرعی رہنمائی طلب کی تھی۔ آپ یہ بتائیے کہ ان دینی اداروں کی طرف سے جو رہنمائی دی گئی ، حالیہ فیصلہ میں اس سے استفادہ کیا گیا یا نہیں ؟
رضاء الحق:سچی بات تو یہ ہے کہ ان اداروں کی طرف سے بڑی محنت اورعرق ریزی کے ساتھ جورہنمائی دی گئی تھی اس سے بالکل بھی استفادہ نہیں کیا گیا۔ ان اداروں  میں اسلامی نظریاتی کونسل بھی شامل ہے۔ سماعت کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب بھی پیش ہوئے۔ انہوں نے پورا کیس سمجھانے کی کوشش بھی کی ۔ اس کے علاوہ قرآن اکیڈمی لاہور، جامعہ دارالعلوم کراچی ،جامعہ نعیمیہ کراچی، جامعہ سلفیہ فیصل آبادسمیت چھ اداروں نے تو متفقہ مؤقف پیش کیا ۔ عدالت نے نہ صرف نظر ثانی درخواست کو رد کیا بلکہ کیس میں لکھ دیا کہ approved for reporting ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ فیصلہ آئندہ کے لیے دوسری عدالتیں نظیر کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں ۔ یعنی دوبارہ اگر مبارک ثانی جیسا کیس عدالت میں آتاہے تو وہ عدالت اسی طرح کا فیصلہ دے گی۔ یہ ایک طرح سے قادیانیوں کو چھوٹ دی گئی ہے کہ چاہے کوئی قادیانی قرآن میں تحریف کرے ، اپنے گمراہ عقائد کی تبلیغ کرے ، اپنا لٹریچر تقسیم کرے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ حالانکہ 1993ء کا ظہیرالدین بنام سرکار کیس کا فیصلہ موجود ہے جس میں قادیانیوں کو دھوکے باز قرار دیا گیا ہے اور صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور وہ قرآن کے نام پر یا تفسیر اور ترجمہ قرآن کے نام پر کوئی کتاب یا لٹریچر شائع و تقسیم نہیں کر سکتے ۔ عدالت کے حالیہ فیصلہ میںعلمی اور عملی خیانت بھی ہے اور ان دس اداروں کی طرف سے جو رہنمائی دی گئی اس سے بھی کوئی استفادہ نہیں کیا گیا ۔
محمد متین خالد:بد دیانتی کی حدیہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 20 کے تناظر میں کہا گیا کہ ان کو مذہبی آزادی کا حق حاصل ہے جبکہ آرٹیکل 20 کو بھی آدھا بیان کیا گیا ۔ اس پر جب ہمارے پیٹیشنرز اور مدعی کے وکیل نے توجہ دلانے کی کوشش کی تو ان کو کہا گیا کہ آپ ہمیں قانون نہ پڑھائیں ۔ یعنی ہمیں کیس کو صحیح طور پرپیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ۔ اگر آرٹیکل 20 مکمل بیان کیا جاتا تو قادیانیوں کا راستہ ہی بند ہو جاتا ۔ یعنی عدالت نے قادیانیوں کے دلائل سن لیے لیکن مسلمانوں کے سارے دلائل اُٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے۔
سوال: مبارک ثانی تو ضمانت کے لیے حاضر ہوا تھا ، عدالت نے ایک تفصیلی متنازع فیصلہ دے دیا جس کو تمام مکاتب فکر اور دینی طبقات نے مسترد کر دیا اور دس دینی اداروں سے رہنمائی لی گئی ، ریویو پٹیشن آیا ۔ اس کے بعد بھی عدالت نے سابقہ فیصلہ ہی برقرار رکھا بلکہ مزید اس کو الجھا دیا ۔ آپ یہ بتائیے کہ کیس کیا ہے اور فیصلہ کیا ہے ؟
محمد متین خالد:آپ سوشل میڈیا پر چلے جائیں یا ہمارے معزز علمائے کرام سے رائے معلوم کریں تو وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے کسی جج نے خود نہیں لکھا کیونکہ اس میں جو فقہی اور شرعی عبارات عربی میں لکھی گئی ہیں وہ کسی جج کا کام نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ کہیں اور سےلکھا ہوا آیا ہے۔
سوال:قادیانی پوری دنیامیں یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان میں قادیانیوں پر جبر ہوتا ہے حالانکہ اس کیس نے ثابت کیا ہے کہ قادیانی پاکستانی عوام کی مرضی اور رائے کے برعکس قرآن پاک کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں ،اس کو چھاپنا چاہتے ہیں ،اس کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں۔اگر وہ قرآن کے ترجمہ میں تحریف کرتے ہیں اور پھر اس کی تبلیغ بھی کرتے ہیں تو اس صورتحال میں کیا مسلمان مظلوم اور قادیانی ظالم نہیں ہیں؟
محمد متین خالد:قادیانی جعل سازی ، جھوٹ اور مکر سے کام لیتے ہوئے یورپی ممالک کے سفراء ، وہاں کے وزرائے اعظم ، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، اقوام متحدہ ،امریکن کانگریس کےانسانی حقوق کے سیل ، صدرامریکہ کو خطوط لکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ظلم ہو گیا ۔ پھر وہاں سے خط ہماری وزارت خارجہ کے پاس آتے ہیں اور ان سے جواب طلبی کرلیتے ہیں۔ میں آپ کے پروگرام کی وساطت سے تمام قادیانیوں اور قادیانی نوازوں سے پوچھتا ہوں کہ کوئی ایک حق بتا دیں جو آئین کا آرٹکل 20، 22، 25 ، 26 دوسرے لوگوں کو دیتا ہے ان کو حاصل نہیں ؟ یہ قادیانی ایسے ایسے کلیدی عہدوں پر بیٹھے ہیں کہ اگر میں بتا دوں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ اس وقت ان کی پاکستان میں کتنی پراپرٹیز ہیں ، کتنی شوگر ملیں ہیں، کتنی ٹیکسٹائل ملیں ہیں ، آئی ٹی کے ادارے ہیں ، تعلیمی ادارے ہیں ، سٹاک ایکسچینج میں ان کا حصہ ہے ، تمام پوش ایریاز میں ان کے پلازے ہیں ۔ تمام سہولتیں ان کو میسر ہیں ۔ یہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ انہیں مرزا قادیانی کو محمد رسول اللہ کہنے کی اجازت دی جائے (نعوذ باللہ )۔ یعنی یہ ظالم نبی ﷺ کا حق چھیننا چاہتے ہیں ، پوری دنیا کے مسلمانوں کا ایمان اور عقیدہ چھیننا چاہتے ہیں ۔تو بتائیے ظالم کون ہوا؟جج صاحب کہتے ہیں برداشت کریں ، اللہ کے نبی ﷺ رحمت للعالمین تھے ۔ بے شک آپﷺ رحمت للعالمین تھے ۔ لیکن جہاں اللہ کا حکم ٹوٹتا تھا تو سب سے زیادہ غصہ آپ ﷺکو آتا تھا ۔ کیا ابن خطل کو خانہ کعبہ کے پردے سے نکال کر قتل کرنے کا حکم آپ ﷺ نے نہیں دیا تھا۔ کیا صحابہ کرام؇ نے جھوٹے نبیوں  کے خلاف جنگیں نہیں کی تھیں ؟
سوال: اس فیصلے کے بعدسوشل میڈیا پر یہ خبریں آرہی ہیں کہ چیف جسٹس کو بہت دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے ؟
رضاء الحق:قادیانیوں کو جو حق آئین پاکستان میں دیا گیا ہے اس کو وہ استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ وہ یہ ہے کہ اپنا مذہب ڈکلیئرکریںاور پھر اس کے مطابق اپنے حقوق حاصل کریں ۔بنیادی فساد کی جڑ یہی ہے کہ قادیانی اپنا مذہب ڈکلیئر نہیں کر رہے اور جعل سازی سے کام لے رہے ہیں ۔ لہٰذا جو فیصلہ آیا اس کے خلاف ردعمل یقیناً آنا تھا ۔ کوئی بھی کلمہ گو مسلمان اس کو کبھی برداشت نہیں کرسکتا کہ کسی کو توہین رسالت اور توہین قرآن کا لائسنس دے دیا جائے ۔ پہلے بھی اس طرح کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا ۔ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہا تھا اور پھر اس کا نتیجہ دنیا نے دیکھا ۔ عدلیہ سمیت ہمارے ریاستی اداروں کو سمجھنا چاہیے کہ ایسے کام نہ کریں جس سے اشتعال پھیلے ۔ اس وقت 400 سے زائد توہین رسالت کے کیس عدالتوں میں pendingہیں ۔ عدالت ان کو سن ہی نہیں رہی اور قادیانیوں کے حق میں فوراً فیصلہ دے دیا ۔ جب عوام دیکھتے ہیں کہ ہمارا نظامِ عدل کام نہیں کررہا تو پھر وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ عدالت بہانہ یہ بنا رہی ہے کہ وقوعہ 2019ء میں ہوا اور ایف آئی آر 2022ء میں کٹ رہی ہے ۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ ملزم کے خلاف ایف آئی آر 2019ء میں ہی درج کروانے کی پوری کوشش کی گئی تھی لیکن نظام ایسا بنا دیا گیا ہے کہ پہلے جے آئی ٹی بنے گی وہ تحقیق کرے گی اور پھر وہ رپورٹ پیش کرے گی ، پھر معاملہ قرآن بورڈ کے پاس جائے گا ۔ اس کے بعد ایف آئی آر کٹتی ہے ۔ یہ سارا الجھاؤ جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہے ۔ پھر عذر گناہ بدتراز گناہ کے مصداق فیصلہ کے دو دن بعد سپریم کورٹ کی جانب سے پریس ریلیز بھی جاری کر دی گئی کہ ہم نے فیصلہ بالکل ٹھیک کیا ہے اور جو لوگ اس کے خلاف بات کررہے ہیں ان سے ہم نمٹ لیں گے ۔ یہ سارے وہ کام ہیں جو عوام میں انتشار اور اشتعال پیدا کرنے والے ہیں ۔
سوال: 1974 ءمیں قادیانیوں کو ہماری پارلیمنٹ نے غیر مسلم قرار دیا۔ اگلے ماہ ستمبر میں اس فیصلے کو پچاس سال ہو جائیں گے۔ یعنی نصف صدی گزرچکی ہے ۔ اس دوران ہم دیکھ رہے ہیں کہ قادیانی خوب پھل پھول رہے ہیں ، ہر شعبہ میں وہ ترقی بھی کررہے ہیں اور ساتھ پروپیگنڈا بھی کر رہے ہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے ۔ آپ یہ بتائیے کہ ردِقادنیت کے لیے ہمارے علماء کرام ، دینی جماعتوں ، ہمارے وکلاء حضرات اور خصوصاً عوام الناس کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے ؟
محمد متین خالد: اس کاایک ہی حل ہےاور وہ ہے اتحاد بین المسلمین۔1953 ء میںساری جماعتیں اکٹھی ہوئیں اورسب نے معرکۃ الآرا قربانیاں پیش کیں ۔ وہاں سے رد قادیانیت کی تحریک نے زور پکڑا ۔ پھر 1974ء میں پوری اُمت اکٹھی ہوئی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قراردیا گیا ۔ 1984ء میں دوبارہ امت اکٹھی ہوئی اور 295بی اور 298سی جیسے قانون پاس ہوئے ۔ آج پھر میں درخواست کرتا ہوںکہ تنظیم اسلامی ، جماعت اسلامی ، مفتی تقی عثمانی صاحب ، مفتی منیب الرحمان صاحب اور تمام دینی جماعتیں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اکٹھی ہوں ۔ اپنے ایمان کا مسئلہ سمجھ کر ایک ایسی تحریک چلائیں کہ حکومت اور عدلیہ اس فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے مجبور ہو جائے۔ اسمبلی میں اس وقت اگر مخصوص نشستوں کے لیے جنگ لڑی جارہی ہے تو اس سے زیادہ حقدار تو عقیدہ ختم نبوت ہے ۔ اس وقت تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نبی اکرم ﷺکی عزت اور ناموس کے دفاع کے لیے کھڑے ہوجائیں ۔
سوال:یہاںاپنے دنیاوی مفادات کی خاطر تو سب لوگ بل بھی لے آتے ہیں ،دھرنے بھی دیتے ہیں، احتجاج بھی کرتے ہیں۔ ختم نبوت کے حوالے سے ہم اکٹھے کیوں نہیں ہوتے ، نفاذ اسلام کے حوالے سے ہم اکٹھے کیوں نہیں ہوتے ؟دوسرا یہ بتائیں کہ ریویوپٹیشن کے اس فیصلہ کے بعد اب آگے قانونی چارہ جوئی کیا ہو سکتی ہے ؟
رضاء الحق: تنظیم اسلامی کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ جو متفق علیہ منکرات ہیں ان کے خلاف تمام دینی طبقات متحد ہو کر ایک پُرامن منظم احتجاجی تحریک چلائیں۔ کیونکہ الیکشن کی سیاست سے موجودہ نظام چل تو سکتاہے لیکن اس فرسودہ نظام کو انتخابی سیاست سے بدلا نہیں جا سکتا۔ اس وقت جتنے بھی مسائل اور معاملات سامنے آرہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ موجودہ نظام عدل و انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ یہ نظام ظالم کے ساتھ تو کھڑا ہو سکتا ہے مگر مظلوم کے ساتھ نہیں کھڑا ہو سکتا ۔ اس کے مقابلے میں جو خلافت کا نظام ہے وہ حق پر کھڑا ہوتاہے ۔ خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں جبکہ عثمانی حکومت لڑکھڑا رہی تھی ، فرانس میں توہین رسالت پر مبنی ایک سٹیج شو منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ عثمانی خلیفہ نے وارننگ جاری کی کہ اگر ایسا ہوا تو ہم جہاد کا اعلان کر دیں گے ۔ فرانس کو وہ پروگرام کینسل کرنا پڑا ۔ کچھ عرصہ بعد انگلینڈ میں اسی طرح کا پروگرام منعقد کرنے کی کوشش کی گئی ، خلیفہ نے وارننگ دی اور انگلینڈ کو وہ روکنا پڑا ۔ اب بھی مسلمانوں کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ انگریز کے بنائے ہوئے نظام کی بجائے اپنے اصل نظام کی طرف لوٹ آئیں ۔ نظام کو صرف تحریک کے ذریعے ہی بدلا جا سکتاہے ۔ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا کہ ہم نے 1953ء  میں تحریک چلائی ، پھر 1974ء کی تحریک کامیاب ہوئی ۔ اسی طرح ہم دوبارہ کسی بڑے منکر کے خلاف متحد ہو کر تحریک چلائیں۔ تحفظ ناموس رسالت تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے اورقادنیت سب کا مسئلہ ہے ، لہٰذا سب کو متحد ہو کر ایک بھرپور تحریک چلانی چاہیے ۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے سارے معاملات حل ہو سکتے ہیں۔