(مطالعۂ کلام اقبال) ابلیس کی مجلس شوریٰ (3) - ڈاکٹر حافظ محمد مقصود

10 /

ابلیس کی مجلس شوریٰ(3)

ڈاکٹر حافظ محمدمقصود

(گزشتہ سے پیوستہ)
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ دنیا واقعی بے وقعت ہے ۔ کوئی پتا نہیں کس وقت ہم میں سے کوئی رخصت ہو جائے ۔ بس کہانی ختم ۔ شیخ سعدیؒ کے گھر کے پاس سے کوئی شخص گزر رہاتھا ۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ آج موقع ہے،کیوں نہ سعدی کا گھر دیکھ لیا جائے۔ اتنے بڑے آدمی ہیں ، ان کا گھر کیسا ہوگا ۔ جاکر دیکھا تو وہاں گھر ہی نہیں تھا بلکہ خاردارٹہنیوں کی ایک باڑ تھی تاکہ موذی جانور داخل نہ ہو سکیں ۔ ایک پھٹی پرانی چارپائی تھی ، ایک تختہ تھا جس پر سعدی بیٹھتے تھے ۔ کچن پر بھی کوئی چھت نہیں تھی ۔ بس ایک برتن رکھا تھا جس میں کھانا بناتے اور کھاتے تھے ۔ اس کے علاوہ کوئی سامان نہیں تھا ۔ 
خانہ سعدی بدیدم خار و خس
 سعدی کے گھر کو جب میں نے دیکھا تو میں نے اس کو خار و خس پایا کہ وہاں تو کچھ بھی نہیں۔پھر سعدی اس کا بہت شاندار جواب دیتے ہیں :
رہ گزر را ایں چنیں کافی و بس
میں دنیا کو راہ گزر سمجھتا ہوں ، اس کو منزل نہیں سمجھتا ۔ راہ گزر کے لیے جتنا سامان ضروری ہے بس اتنا ہی کافی ہے۔ اس دنیاکے ساتھ اگر آپ نے زیادہ دل لگی والا معاملہ اختیار کر لیا تو پھر یہ سمندر کی طرح آپ کو کھینچ لے گی اور رب سے دور کردے گی ۔ رومی کے الفاظ ہیں:
مرد گاں را ایں جہاں بہ نمود فر
ظاہر اشت زفت بمعنی تنگ تر
مولانا رومی کہتے ہیں کہ جن کے دل مردہ ہو چکے ہیںان کو یہ دنیا اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ ایسے لوگوں کو اپنی شان و شوکت اور ہیبت و جبروت دکھاتی ہے ۔ لالچی اور حریص لوگ اس کے شکار ہو جاتے ہیں ۔ مگر جس کے دل میں اللہ کی یاد ہو اس کو یہ دنیا شکار نہیں کر سکتی۔ یہ دنیابظاہر بہت وسیع وعریض ہے مگر حقیقت میں یہ انتہائی تنگ ہے۔ اس تنگ دنیا کی جو مثال رومی دیتے ہیں بالکل عام مشاہدے کی مثال ہے مگر ہم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔
گر نبود تنگ ایں افغاں زی چیست 
چوں…شد ہر کہ روز بیش زیست
 اگر میری بات کو آپ شک کی نگاہ سےدیکھ رہے ہیں تو ذرا اس مثال پر غور کیجئے ۔ جو شخص اوسط عمر سے آگے بڑھ جاتاہے اس کی کمر قدرے جھک جاتی ہے ۔ بعض لوگوں کی زیادہ جھک جاتی ہے ۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ جو بوڑھا شخص کمرجھکائے چلا جارہا ہے اس سے کہو کہ سر اُٹھاتے کیوں نہیں ہو ۔ پھر خود ہی وجہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ اس لیے سر نہیں اُٹھا سکتا کہ دنیا کی چھت بس اتنی ہی تھی۔ بظاہرتو دنیا  وسیع وعریض ہے مگر حقیقت میں تنگ ہے،یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے ۔ بہرحال ابلیس کی مجلس شوریٰ میں ابلیس کہتاہے ؎
یہ عناصر کا پرانا کھیل یہ دنیائے دوں
ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خون 
 جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا فیصلہ فرمایا تو فرشتوں نے کہاتھا کہ یہ زمین پر فسادپھیلائے گا لیکن اللہ نے آدم کواس دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا اور ان سب کو آدم کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا (ابلیس فرشتہ نہیں جن تھا)۔ آج ابلیس کہہ رہا ہے کہ وہی آدم آج دنیا میں کس قدر پستی میں گر چکا ہے اور ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خون ہو چکا ہے ۔ آگے کہتا ہے ؎
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز 
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں
 کاف اور نون سے مرادلفظ کُن ہے اور یہاں اللہ کی قدرت کی طرف اشارہ ہے ۔ قرآن میں ہے :{اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (82)} ’’اُس کے امر کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘(یٰسین)
یہ جہان اللہ تعالیٰ کے اسی امر سے وجود میں آیا۔ ابلیس کہتا ہے کہ آج اللہ تعالیٰ خوداس بات پر تُلے ہوئے ہیں کہ اس دنیا کی بساط لپیٹ دیں ۔
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب 
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں 
اللہ نے انسان کو خلیفہ بنایا تھااور اسی مقصد کے لیےاُسے  مسجد ، دیر اور کلیسا کی امامت سونپی گئی تھی مگر ابلیس کہتا ہے کہ میں نے اس کے مقابلے میں فرنگیوں کو ملوکیت کا ، امپیریلزم کا خواب دکھایا کہ تم پوری دنیا پر حکمرانی کرواور دنیا کے لوگوں کو اپنے غلام بناؤ ۔ اقبال اپنے فارسی کلام میں ایک جگہ کہتے ہیں ؎
آہ یورپ زیں مقام آگاہ نیست
چشم او بنظر بنور اللہ نیست
  یورپ کی آنکھ اللہ تعالیٰ کے نور سے نہیں دیکھ رہی ۔ مغرب اس بات کو نہیں جانتا کہ رزق حلال میں کتنی خیر وبرکت ہے۔ قرآن میں پیغمبروں سے خطاب کیاگیا:{یٰٓاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًاط} ’’اے رسولو! پاکیزہ اور حلال چیزوں میں سے کھائو اور نیک عمل کرو۔‘‘(المو ٔمنون:51)
 مطلب نیک عمل اصل میں رزق حلال کا نتیجہ ہے ۔ رزق حلال آپ کےاندر جائے گاتو آپ کے اندر ایک نورانیت پیدا ہوگی، دل منور ہو گااور اس کے نتیجے میں آپ سے نیک اعمال صادر ہوں گے ۔ اقبال کہتے ہیں اگر رزق حلال نہیں ہے تو پھر آپ کی آنکھوں میں وہ نور نہیں آسکتا جو چیزوں کی اصل کو پہچان سکے ۔ 
او نداند از حلال و از حرام
حکمتش خام است و کارش ناتمام
یعنی حلال اور حرام کی تمیز ختم ہے۔
امتے بر امتے دیگر چرد
دانہ این می کارد، آن حاصل برد
ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ساتھ لڑانا اور دوسرے کو  تیسرے کے ساتھ لڑانا ،محنت کوئی کرتاہے اور اس کا پھل کوئی چرا کر لے جاتاہے ، مغرب کے نظام کا یہی حاصل ہے جس کو وہ دنیا پر مسلط کر رہا ہے ۔ 
این بنوک، این فکر چالاک یہود
نور حق از سینہ آدم ربود
یہ بینکنگ کا نظام یہودیوں کے ذہن کی پیداوارہے اوراس کی وجہ سےبنی آدم کے سینے سے نور حق انہوں نے اُچک لیا ہے ۔ یعنی جب حرام کاروبار ہو رہا ہے تو اس سے پھر نیک اعمال کیسے پیدا ہوں گے۔
تا تہ و بالا نہ گردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دیں سودائےخام
جب تک اس نظام کو تم جڑ سے اکھاڑ نہ دو تب تک نماز ، روزہ اور نوافل سے آگے بڑھ کر اجتماعی سطح پر دین کو نافذ اور غالب کرنے کی تمہیں اجازت نہیں ملے گی ۔ 
ملا کو ہے جو ہند میں سجدے کی اجازت 
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
ہے مملکت ہند میں ایک طرفہ تماشہ
اسلام ہے محبوس مسلمان ہے آزاد 
اس باطل نظام میں آپ کو اپنی مسجد کے اندر دین پر عمل کرنے کی اجازت ہے جبکہ مسجد سے باہر نکل کر تمہیں ہر شعبہ زندگی میں باطل نظام کی پیروی کرنا ہوگی ۔ آپ اپنا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام اللہ کے اصولوں کے مطابق نہیں چلا سکیں گے ۔ یعنی وہ ملوکیت کا نظام جو ابلیس نے مغرب کے ذریعے دنیا پر مسلط کیا ہے وہ آپ کو اجازت نہیں دے گاکہ آپ اپنے دین پر مکمل عمل کر سکیں۔ (جاری ہے)