(منبرو محراب) ملکی مسائل اور مقتدر طبقات کی ذمہ داریاں - ابو ابراہیم

10 /

ملکی مسائل اور مقتدر طبقات کی ذمہ داریاںاوراسماعیل ہنیہ کی شہادت

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ،لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ  کے02اگست 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

مرتب: ابو ابراہیم

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
آج کے خطاب جمعہ میں تین موضوعات پر کلام کرنا مقصود ہے ۔
1۔طلاق کی بڑھتی تعداد اور اس کا حل
گزشتہ جمعہ میں نے ایسے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں گفتگو کی تھی جن کی عمریں نکلی جارہی ہیں لیکن ان کی شادی نہیں ہورہی اور اس کا حل بھی قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا تھا کہ نکاح کو آسان بنایا جائے۔ دوسری طرف ملک میںطلاق اور خلع کی تعداد اور گھرانوں کے ٹوٹنے کا معاملہ بھی خوفناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے بھی بہت سارے عوامل ہیں اور بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ آج اس حوالے سے بھی گفتگو کرنا مقصود ہے ۔ اللہ کے نبیﷺ کے بارے میںروایت میں ذکر آتا ہے کہ :
((کان یقراء القرآن ویذکر الناس))اللہ کے رسول ﷺ جمعہ کے خطبہ میں قران پڑھتے تھے اور اس کے ذریعے نصیحت فرماتے تھے۔(سنن ابی داؤد )
یہاں بھی قرآن و سنت کی روشنی میں نصیحت اور یاددہانی مقصود ہے ۔ اس ضمن میں سب سے پہلی چیز میاں بیوی کا تعلق ہے ۔ وہ کیسا ہونا چاہیے ، یہ رشتہ کتنا مضبوط ہونا چاہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے ۔
{ہُنَّ لِبَاسٌ لَّــکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّـہُنَّ ط} (البقرہ :187) ’’وہ پوشاک ہیں تمہارے لیے اور تم پوشاک ہو اُن کے‘لیے۔‘‘
شوہر اور بیوی کے تعلق اور قرب کو بیان کرنے کے لیے اس سےبہتر کوئی مثال نہیں ہوسکتی۔ ہمارے وجود سے قریب ترین شے ہمارا لباس ہوتا ہے ۔ یہ لباس بندے کے لیے راحت کا ذریعہ بھی بنتا ہے، زینت کا اظہار بھی اس سے ہوتا ہے ، موسم کی شدت سے بھی انسان کو بچاتاہے اور کہیں زخم ہو ، داغ ہو تو اس کو بھی چھپاتا ہے ۔ بالکل اسی طرح کا تعلق اور قرب اللہ تعالیٰ کو شوہر اور بیوی میں مطلوب ہے کہ میاں بیوی کے درمیان بھی اتنا ہی قرب ہو ، وہ ایک دوسرے لیے راحت کا ذریعہ بنیں ، ایک دوسرے کے لیے دلی سکون اور اطمینان کا ذریعہ بنیں، مشکل وقت میں ایک دوسرے کا سہارا بنیں ، پھر یہ کہ ایک دوسرے کے عیوب کو چھپانے کا ذریعہ بنیں ، ایک دوسرے کو گناہوں اور بے حیائی کے کام سے بچانے کا ذریعہ بنیں ۔ لباس کے ضمن میں اسی طرح کی اوربہت سی مثالیں مفسرین نے بیان فرمائی ہیں ۔
قرآن کا پہلا اور بڑا مخاطب فرد ہے کیونکہ فرد (مرد وعورت)جتنا ہدایت یافتہ ہوگا اتنا ہی گھر مضبوط ہوگا ، مضبوط گھر مضبوط معاشرے کی بنیاد بنے گا ۔ پھر یہ کہ افراد ہدایت یافتہ ہوں گے تو ملک کی معیشت بھی اچھی چلے گی ، سیاست بھی اچھی چلے گی ، معاشرے بھی اچھے چلیں اور نظام بھی بہتر چلے گا۔ فرد کے بعد معاشرے کی بنیادی اکائی گھر ہے ۔ اس لیے فرد کے بعد سب سے زیادہ ہدایات قرآن میں گھریلو زندگی کے حوالے سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ج} ( النساء :19) ’’اور عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے پر معاشرت اختیار کرو۔‘‘
قرآن میں جو احکامات ہیں ان کی تشریح ہمیں حضور ﷺ کی سیرت اور تعلیم میں ملتی ہے ۔سورۃ النساء کا ہی ایک اور مقام مردوں کو اکثر یاد رہتا ہے :
{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ} ( النساء:34) ’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں‘‘ ۔
اللہ تعالیٰ نےاپنی توحید کی یہی دلیل بار بار بیان فرمائی ہے کہ اس پوری کائنات کانظام چلانے والا ایک ہے، اگر بالفرض محال ایک سے زائد رب ہوتے تو یہ نظام کب کا تلپٹ ہوگیا ہوتا۔ اسی طرح کسی ایک ادارے میں ٹاپ پر دو افراد کو برابر کا اختیار دے دیا جائے تو نظام نہیں چلے گا۔ ہر ادارے میں ٹاپ پر ایک اتھارٹی ہوگی ۔ حکومت میں وزراء بہت سارے ہوں گے لیکن وزیراعظم ایک ہی ہوگا ۔ سکول میں ٹیچرز بہت ہوں گے مگر پرنسپل ایک ہو گا۔ اسی طرح گھر کا ادارہ ہے جس میں اولاد بھی ہے ، بیوی بھی ہےلیکن اتھارٹی شوہر کو دی گئی ہے تاکہ وہ گھر کا نظام چلائے ، مرد کو قوام بنایا مگر ساتھ ساتھ اس کو بعض چیزوں کا پابند بھی بنایا گیا ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ اپنی عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرنا ، کل اللہ کے سامنے تم نے ان کے بارے میں جواب بھی دینا ہے ۔ یعنی اگر اللہ نے مرد کو قوام بنایا ہے تو اتنا ہی اس سے حساب بھی ہوگا ۔ حدیث میں ہے :
((كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ))”تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنے ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہے‘‘۔
باپ سربراہ ہے ، نگران ہے تو اس سے اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا ، شوہر سے بیوی کے بارے میں ، آقا سے غلام کے بارے میں ، حکمران ہے تو رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ یعنی آج اختیار ہے تو کل جوابدہی بھی ہوگی۔ اس لیے مرد کو اگر حاکم بنایا ہے تو وہ صرف حکم ہی نہ دے بلکہ وہ خدمت بھی کرے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:((سید القوم خادمھم)) ’’قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے‘‘۔حاکم نے سارا انتظام بھی کرنا ہوتاہے ۔ مرد کو اگر گھر کا قوام بنایاتو گھر کی ریاست اس نے چلانی ہے ۔ گھر کی معیشت بھی ہوگی، معاشرت بھی ہوگی،دیگر امور بھی ہوں گے ،ان تمام امور کا خیال رکھنا اور گھر والوں کی کفالت کرنا مرد کی ذمہ داری ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی سے نفرت نہ کرے ۔کوئی ایک بات اس کی اگر تمہیں پسند نہیں تو تلاش کرو، کوئی دوسری ادا پسند آ ہی جائے گی۔ بندہ غور کرے، اس اللہ کی بندی نےاپنے ماں باپ ، بہن بھائی، سارے رشتہ دار ، گھر کے ناز نخروں کو چھوڑ کر، sign (ایجاب و قبول)کرکے اپنے آپ کو تمہارے حوالے کر دیا ۔ یہ ادا ،یہ قربانی کم ہے؟ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جا بجا اس معاملے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ خطبہ نکاح کے موقع پرقرآن مجید کے تین مقامات سے الگ الگ آیات (آل عمران : 102، النساء :1 اور الاحزاب : 70اور 71)کی تلاوت فرماتے تھے ۔ ان چاروں آیات میں خاص طور پر تقویٰ کا حکم آیا ہے کہ اللہ کا خوف اپنے دل میں رکھو ۔ یہ شوہر کو بھی رکھنا ہےاور بیوی کو بھی رکھنا ہے۔بیوی کے معاملے میں شوہر کو بہت سی ہدایات قرآن و حدیث میں اس کے علاوہ بھی ہیں ۔ اسی طرح بیویوں کے لیے بھی ہدایات ہیں ۔ فرمایا :
{فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط} (ـالنساء:34)’’پس جو نیک بیویاں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں‘غیب میں حفاظت کرنے والیاں‘ اللہ کی حفاظت سے۔‘‘
یہ حفاظت کیا ہے ؟ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا شوہر جس شخص کا گھر میں آنا پسند نہ کرے اس کو عورت گھر میں نہ آنے دے ۔ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے گھر ، اس کے مال ، اس کے بستر ، اس کی اولاد ، اس کی عزت کی حفاظت کرے ۔ ایسی بیوی جو ان صفات کی حامل ہو اور اس کا شوہر اس سے راضی ہو ، اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ اسے اختیار دے گا کہ جنت کے جس دروازے سےچاہو داخل ہو جاؤ ۔ اب یہ بات تو اس وقت گھر والوں کو سمجھ میں آئے گی جب گھر میں اللہ کے دین کو ترجیح دی جائے گی ، جب گھر میں اللہ کو بڑا مانا جائے گا ۔ اللہ کو راضی کرنا شوہر کی بھی اور بیوی کی بھی ترجیح اول ہوگی۔ انہیں یہ یاد ہو کہ ہم نے آخرت میں جواب دینا ہے اور جنت ہماری اصل منزل ہے ۔ یہ سب ہوگا تو پھر گھر میں دجالی فتنوں کا مقابلہ کیا جاسکے گا ۔ لیکن جب گھر میں اللہ کا دین ترجیح میں ہی نہیں ہوگا ، جدھر زمانہ جارہا ہو ادھر ہی دوڑے چلے جارہے ہوں تو پھر آج کی جو صورتحال ہے کہ ویمن ایمپاورمنٹ کے نام پر ، عورتوں کے حقوق اور آزادی کے نام پر مادرپدر آزادی کے جو نعرے لگائے جارہے ہیں کہ عورت آزاد ہو ، خود کفیل ہو ، اس کے بعد جس عورت کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میں تو آزاد ہوں ،خود کفیل ہوں ، کما سکتی ہوں ، میرا اختیار ہے ، اس کا دماغ خراب ہے کہ وہ شوہر کا احترام اور فرمانبرداری کرے گی ؟کیا وہ مرد کی نگرانی میں جانا پسند کرے گی ؟ یہی وجہ ہے کہ آج بعض حلقوں میں نکاح کا سرے عام انکار کیا جارہا ہے ۔ آزادی کے ان دلفریب نعروں کی وجہ سے خاندانی نظام درہم برہم ہو رہا ہے ، گھر ٹوٹ رہے ہیں ، خلع اور طلاق کی شرح خوفناک حد تک بڑھ رہی ہے اورایسے حلقوں میں مغرب کی طرح بے نکاحی زندگیوں سے معاشرہ تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اس کا انجام بھی مغرب کی طرح ہی ہوگا کہ کتے بلیوں کی طرح بچے زندگیاں بسر کر رہے ہوں گے ، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا ، ان کے لیے کوئی اپنے آپ کو کھپانے والا نہیں ہوگا ۔
پھر اسی سورت میں آگے گھر کا معاملہ گھر میں ہی حل کرنے کی ترغیب دلائی گئی بلکہ تعلیم دی گئی ہے :
{وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْـنِـہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَہْلِہَاج} (النساء:35) ’’اور اگر تم کو میاں بیوی کے درمیان افتراق کا اندیشہ ہو‘تو ایک حَکَم مرد کے خاندان سے مقرر کرو اور ایک حَکَم عورت کے خاندان سے۔‘‘
اگرگھر میں کوئی ناراضگی کا معاملہ ہو جائے تو پہلے اس کو گھر میں ہی حل کرنے کی کوشش کرو۔ اس میں زبان کی حفاظت بھی ہے، درگزر کرنے کا معاملہ بھی ہے، معاف کرنے کا معاملہ بھی ہے، کوئی ایک چیز تمہیں پسند نہیں آرہی تو دوسری ادا کو تلاش کر لو۔کوشش کرو کہ گھر کا ماحول پرامن رہے ، لیکن اس کے باجود بھی اگر گھر کا معاملہ گھر میں حل نہیں ہوتا تو اس کو کسی یونین کونسل میں لے جانے،گھر کا بھانڈا بیچ چوراہےمیں پھوڑنے ، سوشل میڈیا پر تماشا لگانے یا تھانہ کچہریوں میں رُلنے کی بجائے اللہ کی کتاب کہتی ہے کہ اپنے خاندان میں سے دومعتبر افراد بٹھا کر معاملہ حل کرنے کی کوشش کرو ۔ ایک معتبر بندہ شوہر کے خاندان سے آجائے، ایک بیوی کے خاندان سے آجائے اور وہ مل بیٹھ کر ناراضگی کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔اسی آیت میں آگے فرمایا : 
{اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلاَحًا یُّـوَفِّقِ اللّٰہُ بَـیْـنَہُمَاط} ’’اگر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔‘‘
پھر ان تمام کوششوں کے باوجود بھی اگر میاں بیوی میں صلح کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی تو آخری حل کے طورپر طلاق اور خلع کی گنجائش بھی دین نے رکھی ہے ۔ وہ بھی احسن اور اچھے طریقے پر ہونی چاہیے ۔بہرحال سب سے بڑھ کر اللہ کا خوف ہوگا اور آخرت مدنظر ہوگی تو مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے اور اگر ہوں گے بھی تو گھر میں ہی حل ہو جائیں گے ۔ لیکن اگر اللہ کا دین ترجیح میں نہیں ہوگا ، اللہ کا ڈر اور خوف نہیں ہوگا تو پھر جیسے ہورہا ہے کہ پھر لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں ، قتل ہوتے ہیں ، طلاق اور خلع کے معاملات ہوتے ہیں۔ گھر برباد ہوتے ہیں ۔
خدارا دین سے جڑنا سیکھیں ۔ اللہ کے کلام اور سنت سے رہنمائی لینا سیکھیں ۔ آج کونسلنگ کے سیشنز ہوتے ہیں ، بھاری بھاری فیسیں ادا کی جاتی ہیں ،لوگوں نے پیشہ بنا لیا ۔ میرج کونسلنگ ہورہی ہے ، پری میرج کونسلنگ ہورہی ہے لیکن معاملات پھر بھی حل نہیں ہوتے، طلاق کی شرح بڑھتی جارہی ہے ، گھر برباد ہورہے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے دین کو پس پشت ڈال دیا ۔ خوف خدا کے بغیر اور آخرت کو مدنظر رکھے بغیر کوئی Motivationنہیں ہے جو پائیدار بنیادوں پر ان نازک رشتوں کو قائم رکھ سکے ۔ جو مصالحت کروانے والے ہوں وہ بھی قرآن و سنت کی رہنمائی میں معاملات حل کرنے کی کوشش کریں ۔ اللہ کے پیغمبرﷺ جا کر میاں بیوی کے درمیان موافقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اسی طرح جو اللہ کے نیک بندے ہیں وہ معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ مسائل کی کیفیت مختلف ہوگی ، نوعیت مختلف ہوگی لیکن اللہ کا خوف ،اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس ہمارے دلوں میں ہوتو ان شاء اللہ شیطان کے حملے ناکام ہوں گے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شیطان روزانہ اپنا دربار لگاتا ہے اور چیلے آ کر بتاتے ہیں کہ میں نے فلاں کو بدی پر لگایا ، فلاں کو ظلم پر اُکسایا وغیرہ وغیرہ ۔ شیطان کہتا ہے ٹھیک ہے لگے رہو ۔ ایک چیلا آکر بتاتا ہے کہ میں نے آج میاں بیوی میں جدائی ڈال دی ۔ شیطان کھڑا ہو کر اس کو گلے سے لگا کر کہتا ہےتو نے میری جانشینی کا حق ادا کیا ہے ۔ آج شیطانی تہذیب میں ترجیح اول یہ ہے کہ گھر برباد ہو جائے، گھر کا نظام ختم ہو جائے کیونکہ گھر کا نظام ختم ہوگا تو پورا معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے گا ۔ اس لیے اے مسلمانو! اگر گھر میں تھوڑی اونچ نیچ ہو جائے تو صبر کرلیا کرو اور اس بات کو ذہن میں لے آیا کرو کہ کہیں شیطان تو درمیان میں نہیں آگیا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کا خوف شیطان کے ایجنڈے کی ناکامی ہے ۔
2۔ملکی مسائل اور مقتدر طبقات کی ذمہ داری
ملکی حالات ہم سب کےسامنےہیں ۔ یقیناً لوگ پریشان ہیں۔ لوگ پہلے ہی مہنگائی کے ستائے ہوئے تھے اوپر سے بجلی اور گیس کے بلوں میں بے تحاشا اضافہ عوام کو آپے سے باہر کیے دے رہا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اشرافیہ کی عیاشیاں اور IPPsکی لوٹ مار کے قصے بھی سامنے آرہے ہیں ۔ دوسری طرف بلوچستان میںلوگ پریشان ہیں اور اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ بطور امیر تنظیم سالانہ دورہ ہوتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر اڑھائی تین سو تصویریں لگی ہوتی ہیں ۔ کسی کا بھائی اُٹھا لیا ، کسی کا بیٹا اُٹھا لیا ، کسی کا شوہر اُٹھا لیا ۔ پتا ہی نہیں کہاں گئے ۔ عوام میں ایک اضطراب ہے ۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ امریکہ کی جنگ میں ہم نے اس کا بے تحاشا اور کھلم کھلا ساتھ دے کر اپنے ہی لوگوں کو ناراض کرلیا ہے ۔ اپنے ہی لوگوں کو ہم نے مارا ہے ، اپنے ہی بچوں کو یتیم اور بے سہارا کیا ہے ۔ ان کے بھی جذبات اور احساسا ت ہیں ۔ سندھ میں چلے جائیں تو وہاں کچے کے ڈاکوؤں نے ریاست کے اندر اپنی ریاست بنائی ہوئی ہے ۔ وہاں کیوں آپریشن نہیں کیا جارہا ہے ؟ لوگوں کے ذہنوں میں سوالات ہیں ، لوگوں کے مسائل ہیں ، وہ اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔ حکمرانوں کو اور ہمارے ریاستی اداروں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ یہ سارے مسائل سیاسی انتقام ، ضد اور دوسری طرف سے کچھ لوگوں کے طاقت کے گھمنڈ اور جبر کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں۔ طاقت اور جبر سے صرف نفرتیں بڑھتی ہیں ۔ اس سے بگاڑ تو پیدا ہو سکتا ہے کوئی سدھار نہیں آسکتا ۔ 1971ء کے حالات سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ طاقت کی بجائے افہام و تفہیم سے معاملات حل ہو نے چاہئیں ۔ عوام کو ریلیف دیں ۔ عوام کہہ رہے ہیں کہ سارے ٹیکسز ہم پر لگا دیے ، صرف بجلی کے بلوں میں چودہ پندرہ قسم کے بے جا ٹیکس شامل ہیں جبکہ دوسری طرف اشرافیہ کے لیے بجلی ، گیس ، پٹرول ، گاڑیاں ، پروٹول ہر چیز مفت ہے۔ ان کی مراعات میں ، ان کی تنخواہوں میں کوئی کمی نہیں کی جارہی ، ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگائے جارہے ، اشرافیہ کی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لائی جارہی ۔ اس پر عوام سراپا احتجاج ہے ۔ اگر بات نہ سنی گئی تو لا محالہ کل یہ لاوا پھٹے گا ۔ پھر بات سنبھالی نہ جائے گی ۔ ابھی وقت ہے ۔ عوام کو ریلیف دیا جائے اور اشرافیہ کی لوٹ مار کو روک لگائی جائے ، قانون اور انصاف کاکچھ نہ کچھ بھرم ہی رکھ لیا جائے تو حالات سنور سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے یہ ملک محض مادی مسائل کے حل کے لیے نہیں لیا تھا ۔ اس کا ایک عظیم مقصد تھا کہ ہم یہاں اسلام کے نظام کو قائم کرکے دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کریں گے۔بجلی ، گیس ، مہنگائی کے مسئلے سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام لے کر ملک حاصل کیا تھا مگر ہم نے اس نام کی لاج نہیں رکھی ۔ ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ بے وفائی اور غداری کی ۔ یہ اس کے نتائج ہی ہم پر مسلط ہو رہے ہیں۔قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے:
{وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ}( الشوریٰ:30) ’’اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی(اعمال) کے سبب آتی ہے ۔‘‘
ہم مسلمان ہیں ہمیں محض مادہ پرستانہ سوچ کے تحت ہی اپنے مسائل پر غور و فکر نہیں کرنا چاہیے بلکہ وحی کی تعلیم کی روشنی میں اپنے مسائل کو دیکھنا چاہیے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر کھول دیتے آسمانوں اور زمین کی برکتیں۔لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کو پکڑ لیا ان کے کرتوتوں کی پاداش میں۔‘‘(الا عراف:96 )
مسئلہ یہ ہے کہ بقول استاد محترم ڈاکٹراسراراحمدؒ آج ہماری عظیم اکثریت کی مادہ پرستی والی یا ظاہر کی چیزوں کو دیکھنے والی آنکھ تو خوب کھلی ہوئی ہے، اس سے تو ہم دنیا کو خوب دیکھ رہے ہیں ، کائنات کو explore کر رہے ہیں، مسائل پر غور و فکر ہو رہا ہے مگر دوسری آنکھ جو وحی کی تعلیم کی روشنی میں دیکھتی ہے، وہ آنکھ ہماری بالکل بند ہے ۔ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم کو سامنے رکھ کر اپنے مسائل پر غور و فکر نہیں کرتے اور جب ہم توجہ دلاتے ہیں کہ اللہ کے بندو!اللہ کی طرف رجوع کرو اور اللہ سے جو وعدہ کرکے یہ ملک حاصل کیا تھا اس کو پورا کرو اور ملک میں اسلام کو نافذ کرکے ملک کو حسب وعدہ اسلامی فلاحی ریاست بناؤ تو ایک بڑی تعداد ہمیں کہتی ہے کہ آپ لوگوں کو تو کچھ پتا ہی نہیں ہے ۔ اگر آپ کو پتا ہے تو پھر ملک کا 77 برسوں میں یہ حال کیوں ہے ؟ آپ کے پڑوس میں افغان طالبان کی حکومت کو قائم ہوئےتین سال بھی نہیں ہوئے ، افغانستان کیوں ترقی کر رہاہے ؟ ہم بھی یہی سمجھا رہے ہیں کہ کتاب وسنت کی رہنمائی کو سامنے رکھ کر غوروفکر کریں گے اور اللہ سے جو وعدہ خلافی اور بے فائی کے مرتکب ہم ہوئے ہیں اس پر اجتماعی توبہ کریں گے تو ہمارے مسائل حل ہوں گے۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہےہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات3۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت
عہد حاضر کی شاید یہ واحد مثال ہوگی کہ ایک ہی خاندان کی تین نسلیں اللہ کی راہ میں شہادت کا رُتبہ پانے میں کامیاب ہوگئیں ۔ اسماعیل ہنیہ ، ان کے بیٹوں اور پوتوں سمیت 60 کے قریب افراد شہید ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ  ان کے درجات بلند فرمائے ۔ ان کے گھرانے کے ایمان کی کیفیت دیکھئے ، جب ان کا بیٹا شہید ہوا تو ان کی بہو کے الفاظ تھے کہ تم جنت پاگئے لیکن ہم پیچھے رہ گئے ۔ یہ ایسے عظیم لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں شہید ہونے کے لیے تیار ہیں ۔ قرآن کہتا ہےکہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیںمگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے ۔ وہاں کے مسلمانوں پرجب کوئی مصیبت آتی ہے تو ان کی زبان پر صرف ایک جملہ ہوتا ہے کہ بے شک ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں لوٹ کر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف جانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ تو زندگی کے امتحان میں کامیاب ہوکر اللہ کے ہاںاعلیٰ رُتبہ پارہے ہیں، باقی اُمت کیا کر رہی ہے ۔ کیا یہ باقی اُمت کا امتحان نہیں ہے؟دس ماہ کے قریب ہونے کو ہیں ، غزہ میں مسلمان عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور مردوں کا قتل عام جاری ہے ۔ نتین یاہو امریکہ میں کانگریس سے خطاب کرتا ہے اور وہاں اس کا والہانہ استقبال ہورہا ہے۔ اپنی تقریر میں وہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بیان کرتاہے اورانسانی حقوق کے دعوےدار ، جمہوریت کے ٹھیکیداراُٹھ اُٹھ کر تالیاں بجا رہے ہیں ۔ کیا اب بھی مسلم حکمرانوں کو ہوش نہیں آئے گا ؟ ہماری وزارت خارجہ نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر پریس ریلیز جاری کی ، خبریں یہ آرہی ہیں کہ اس میں سے اسرائیل کا نام نکالنے کا معاملہ ہوا ۔پھر یہ کہ محض مذمتی بیانات تو ہم بھی مسجد میں بیٹھ کر دس ماہ سےدے رہے ہیں ، اگر ہماری حکومتیں بھی اتنا ہی کر رہی ہیں تو ہم میں اور ان میں فرق کیا رہ گیا ۔ پھر عرب ممالک تو گویا اسرائیل کے آگے بچھے ہوئے ہیں اور گریٹر اسرائیل کا منصوبہ آگے سے آگے بڑھتا چلا جارہا ہے ۔ ایران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اس پر تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ جس ملک میں بھی حماس کے لیڈرز ہوں گے ہم وہاں جاکر اٹیک کریں گے ۔گویا وہ اس جنگ کو پھیلانا چاہتے ہیں ۔ اسرائیل اپنے عزائم پر ڈٹا ہوا ہے جبکہ امت مسلمہ خاموش بیٹھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے۔ پاکستان سے ساری اُمت کو توقع تھی کیونکہ یہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا تھا ، پھر قائداعظم کی بھی اسرائیل کو کبھی تسلیم نہ کرنے کی پالیسی بڑی واضح ہے۔ اللہ نے پاکستان کو ایٹمی قوت بھی بنایا ، بہترین میزائل ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ فوج بھی ہمارے پاس ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے آج ہمارا بھی یہ حال ہے کہ ساری طاقت اپنوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے ۔ حالانکہ قرآن نے ہمیں یہ تعلیم دی تھی :
{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ }(الفتح:29) ’’محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں‘ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں۔
وہ طاقت ، وہ غصہ اور وہ شدت جو اپنوں کے خلاف نظر آرہا ہے یہ دشمنوں کے خلاف نظر آنا چاہیے تھا ۔ اگر دشمنوںکی دشمنی ہمارے مدنظر ہوتی تو شاید ہم آج متحد ہوتے اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل بھی ہوتے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت عطافرمائے ۔ آمین !