(اداریہ) عزمِ استحکام پاکستان …… - خورشید انجم

10 /

اداریہ
خورشید انجم
عزمِ استحکام پاکستان ……

’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق 77 سال کے بعد مملکت خداداد پاکستان کے عدم استحکام کا اعتراف کر کے اس کے استحکام کے لیے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ جیسے ہی یہ خبر سامنے آئی توملک کے طول وعرض سے اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ حیرت ہوئی کہ اس مبارک عزم کی تائید کی بجائے اس پر تنقید اور اس کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟ معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ’’آپریشن‘‘ کا لفظ جڑا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے استحکام کے راستے میں کچھ رکاوٹیں یعنی بیماریاں ہیں جن کا علاج آپریشن کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ چونکہ اس سے قبل کچھ خرابیوں کو دور کرنے کے لیے جو تدابیر اختیار کی گئیں ان کو بھی آپریشن کا نام دیا گیاتھا جیسے’’آپریشن رد الفساد‘‘وغیرہ۔ اس لیے عزم استحکام کے لیے جب آپریشن کی اصطلاح استعمال کی گئی تو مخالفت کی وجہ سمجھ آئی کہ ہر معاملے میں آپریشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کو ہر بیماری سے نجات اور جسم و جان کی صحت یابی کے لیے آپریشن کروانا لازم نہیں ہوتا۔ بلکہ طب کی دنیا میں کسی بیماری کے علاج کے لیے آپریشن آخری حربہ (Last resort) ہوتا ہے۔ اس وقت عزم استحکام پاکستان کی مخالفت صرف آپریشن کی وجہ سے کی جارہی ہے، اس لیے اس اختلاف کی گنجائش ہے۔ البتہ اس کی مخالفت کرنے والوں کی طرف سے ابھی تک استحکام پاکستان کے لیے کوئی ٹھوس، دیرپا اور مستقل متبادل تدبیر کی تجویز نہیں پیش کی گئی۔ اگر مخالفین اس حقیقت سے ہی انکار کرتے ہیں کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے تواس مخالفت کا جواز ہے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو جیسا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے توپھر مخالفت کی بجائے سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے اور عزم بالجزم کے ساتھ فوری طورپراس طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ہمارے خیال میں پاکستان کا عدم استحکام محض وہم نہیں ہے، یہ ایک حقیقت ہے اور اس کے تدارک کی سنجیدگی سے کوشش کرنی چاہیے۔
14 اگست 2024ء کو پاکستان کا 77واں یومِ آزادی منایا جائے گا۔پون صدی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد ملک و ملت کی خیرخواہی کا یہ تقاضا ہے کہ پہلے ہم یہ اعتراف کریں کہ پاکستان واقعی عدم استحکام کا شکار ہے۔ یہ دراصل مرض کی تشخیص ہے اور دوسرے مرحلے پر اس کے صحیح حل یعنی درست علاج کی تجویز پیش کی جائے۔ یا دش بخیر ! یہ 1980ء کی دہائی تھی جب پاکستان بالخصوص صوبہ سندھ میں بہت افراتفری تھی ۔ اندرون سندھ علیحدگی پسند تحریک کی سرپرستی جی ایم سید صاحب فرما رہے تھے اور کراچی حیدرآباد میں مہاجر قومی موومنٹ کا سلسلہ شروع ہو گیاتھا۔ اس وقت ایک مرد درویش، دور اندیش ودور بین نےحالات کی خطرناکی (Gravity of the situation)کو محسوس کیا اور میدان عمل میں آئے اور انہوں نے ’’استحکام پاکستان‘‘، ’’استحکام پاکستان اور مسئلہ سندھ‘‘ دوعلیحدہ علیحدہ کتب لکھ کر ملت کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ یہ مرد خود آگاہ وخدامست ڈاکٹراسرار احمد رحمہ اللہ تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کی عمر کے چالیس سالوں کا تذکرہ کیا اور قرآن سے استدلال کرتےہوئے چالیس سال کی عمر کی دینی و تاریخی اہمیت کو واضح کیا۔ اس وقت پاکستان اپنی عمرکے چالیسویں برس میں تھا۔ اب 77 سال کا ہوگیا ہے مگرعدم استحکام ابھی تک برقرار ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور وفکر کرکے درست سمت کا تعین کرکے عملی پیش رفت کا جامع منصوبہ ترتیب دیا جائے۔
سب سے پہلے ہمیں ماننا پڑے گا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام ہی اس کے وجود کا واحد جواز ہے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے ملی و دینی وحدت کی بجائے انتشار واختلاف پیدا ہوا اور ایک حصہ جو آبادی کے اعتبار سے بڑاتھا، کٹ کر ایسے علیحدہ ہوا کہ اس نے اپنا نام تک بدل دیا۔
مشرقی پاکستان کی بجائے وہ بنگلہ دیش بن گیا اور اپنے تشخص سے ہی دستبردار ہو گیا۔ باقی بچنے والے حصے مغربی پاکستان میں اسلام کے ساتھ سوتیلا سلوک جاری رہا جس کے نتیجے میں ملکی وملی تشخص کے مقابلے میں سندھی، بلوچی، پختون، پنجابی اور سرائیکی شناختوں نے سر اٹھائے اور بچا کھچا ملک انتشار وافتراق کے باعث مزید عدم استحکام کا شکار ہوا۔ افغانستان کی پہلی طالبان حکومت کوگرانے میں جب ہم نے اپنا کندھا پیش کیا تو ملک کے اندر ایک اوربحران نے ٹی ٹی پی کی صورت میں جنم لیا۔ ٹی ٹی پی عنصر کو بڑی آسانی سے شکست دی جا سکتی تھی اگر حکومت پاکستان اور بالخصوص اس کے مقتدرطبقات اسلامی نظام کو اختیار کرنے کی طرف پیش قدمی کرتے۔ مثبت اقدام کی بجائے ہم نے طاقت کے زورپر مسائل کوحل کرنے کی ٹھان لی نتیجہ زیادہ خطرناک نکلا۔ موجودہ صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے پاکستان کے استحکام کی واحد اساس یعنی اسلام کی طرف فوری رجوع کیا جائے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کے علاوہ ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ نہ تاریخ ہماری پشت پر ہے اور نہ ہی جغرافیہ۔ اسی طرح نسلی ، لسانی اور قومی تشخص نام کی کوئی چیز بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ پاکستان کے استحکام کا کل دارومدار ایک ہی چیزپرہے اور وہ وہی ہے جس نے اسے جنم دیا تھا یعنی پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ۔ یہ بات ہر اُس شخص کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے جو کسی بھی وجہ سے پاکستان کی بقاء و استحکام کا طالب اور خواہش مند ہو۔
ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود، انتظامی مشینری کی اصلاح و تطہیر اور مختلف علاقوں کے رہنے والوں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں کا اعتماد و اطمینان بھی نہایت اہم اُمور ہیں اور اُن کے بغیر بھی یقیناً پاکستان مستحکم نہیں ہو سکتا۔ اور خاص طور پر موجودہ حالات میں معاشی بد حالی، سماجی انتشار اور سیاسی ابتری کے باعث تو اِن کی اہمیت بہت ہی زیادہ بڑھ گئی ہے، اوراس حوالے سے بھی شدید کوتاہی مسلسل ہو رہی ہے اگر جلد از جلد اُس کی تلافی کی صورت پیدا نہ ہوئی تو شدید اندیشہ ہے کہ یہ بچا کھچا پاکستان بھی خدانخواستہ’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘ کا مصداق نہ بن جائے۔
تاہم پاکستان کے دوام و استحکام کی اصل اساس یہ چیزیں نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلامی نظام کا نفاذ ہے ۔اسلامی نظام کے نفاذ کے بغیر پاکستان کسی نہ کسی بڑی طاقت کا دم چھلا بن کر ہی رہے گاجیسا کہ اس وقت وہ امریکی دباؤ کے تحت ہے۔ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان نام کی وجہ سے پاکستان ہرگز مستحکم نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے فوری طور پر درج ذیل امور کا اہتمام کر لیاجائے تو پاکستان کے استحکام کا رخ معین ہو جائے گا اور جیسے جیسے ہم دین کے نفاذ کی تکمیل کی طرف بڑھیں گے ان شاء اللہ استحکام بھی آتا جائے گا اور مذہب کی آڑ میں دہشت گردی کرنے والوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی:
1۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اورشروع میں ہی اس کی اسلامی شناخت کو قرارداد مقاصدپاس کر کے نمایاں کیا گیا۔ مختلف مکاتب فکر کے 31علماء نے 22 متفقہ دستوری نکات پیش کرکے پاکستان کے جواز کو مزید مستحکم کیا۔ 1973ء میں ایک دستور بنا کر اعلان کیا گیا کہ ریاست پاکستان میں اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف اللہ جل جلالہ ہے، قرآن و سنت اس کے دستور کے لیے بنیادیں ہیں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف ہو ا،سے فوری کالعدم قرار دیا جائے۔ جیسے سودی معیشت کو برقرار رکھنے والی دستوری شقات ، ٹرانس جینڈر ایکٹ وغیرہ۔
2۔ معاشی استحکام کے لیے سب سے پہلے معیشت سے سود کے خاتمے کا اعلان کر کے اللہ جل جلالہ ورسولﷺ کے خلاف برپا جنگ کو ختم کیا جائے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ہماری معیشت کو درست فرمائے گا۔ گویا معاشی عدم استحکام کا علاج بھی رجوع الی اللہ ہے۔
3۔ ختم نبوت کا مسئلہ قرآن وسنت کے عین مطابق دستوری طور پر طے کردیا گیا ہے۔ کسی ادارے کو اس حوالے سے شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ رسولﷺ سے وفاداری ہمیں ایک امت واحدہ بنانے کا ذریعہ بنے گی۔
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
4۔ معاشرتی سطح پر بے حیائی کے کلچر کو لگام دی جائے۔ تمام ذرائع ابلاغ کواسلامی اخلاق و اقدار کا پابند بنایا جائے۔ غیر مخلوط ماحول پیدا کیا جائے اور تعلیمی اداروں میں مرد و زن کے اختلاط (Coeducation) کو فوری روکا جائے تاکہ نوجوان بچوں اور بچیوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے ۔ورنہ معاشرہ سماجی انارکی اور جنسی آوارگی میں مبتلا ہو کر ختم ہو جائے گا۔
5۔ اسلام کے قوانین قصاص، حدود وتعزیرات کو فی الفور نافذ کیا جائے تاکہ لاقانونیت کا خاتمہ ہو سکے اوراس سے جرائم پیشہ افراد پر رعب و خوف طاری ہوگا ۔ قتل و غارت گری جسے آج کل دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے ،اس سے بھی چھٹکارا ملے گا۔
آخر میں ہم اپنے ملک کے تمام طبقات پرواضح کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام اپنی اصل کے اعتبار سے صرف ’’مذہب‘‘ نہیں کامل ’’دین‘‘ ہے، جو صرف عقائد و عبادات اور چند معاشرتی و سماجی رسومات سے عبارت نہیں ہے، بلکہ ان سب پر مستزاد ایک کامل و اکمل، متوازن و معتدل اور عادلانہ ومنصفانہ معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام پر مشتمل ہے۔ لہٰذا پورے نظامِ زندگی پر اللہ کے عطا کردہ کامل سماجی و معاشی و سیاسی نظام (Socio-Politico-Economic System) کا غلبہ ہر بندۂ مومن کی زندگی کا اصل مقصد اور اُس ’’جہادِ زندگانی‘‘ کا اصل ہدف ہے جس کے لوازم و شرائط اور اوزار و ہتھیار ہیں: ایمان و یقین کی دولت، پیہم سعی و جہد کا مادہ اور محبت اور اخوت کی قوتِ تسخیر، بقول علامہ اقبال مرحوم:
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں!
ہم ارباب حل وعقد کو یقین دلاتے ہیں کہ ریاست پاکستان کی اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی سے ان تمام عناصر کی بیخ کنی ہو سکے گی ،جو اسلام کا نام لےکر اس کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اسلامی نظام کے نفاذ سے ایسے عناصر اپنی اخلاقی ساکھ کھو بیٹھیں گے۔ اس معاشرے میں انہیں پناہ نہیں مل سکے گی۔ اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو گی جس سے افراد معاشرہ میں اتحاد ویکجہتی، اخوت وبھائی چارے کی فضا قائم ہوگی۔ اللہ کی رحمت سے معاشرت کے استحکام سے معیشت بھی سنبھلنا شروع ہوگی۔ اسلام کو موقع دیجیے اور پھر دیکھیے کہ پاکستان کیسے مستحکم و مضبوط ہوتا ہے اور پورے عالم کے لیے عملی نمونہ بھی بنے گا جیسے کبھی مدینہ منورہ سلطنت روما اور فارس کے لیے قابل تقلید نمونہ بنا تھا۔