(الہدیٰ) مشرکین ہدایت سے خالی، خواہشات کے بندے - ادارہ

10 /
الہدیٰ
 
مشرکین ہدایت سے خالی، خواہشات کے بندے 
 
 
آیت 49{قُلْ فَاْتُوْا بِکِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللہِ ہُوَ اَہْدٰی مِنْہُمَآ اَتَّبِعْہُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(49)} ’’آپؐ کہیے کہ پھر لائو کوئی ایسی کتاب اللہ کے پاس سے جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو‘مَیں اس کی پیروی کروں گا ‘اگر تم سچے ہو!‘‘
اس جملے سے بات گویا واضح ہو گئی کہ پچھلی آیت میں اہل ِمکّہ ہی کا قول نقل ہوا ہے جس میں انہوں نے قرآن اور تورات کو  ’’سِحْرٰنِ تَظَاہَرَا‘‘ قرار دیاتھا۔ تو اے نبیﷺ! آپ ان سے کہیے کہ اگر قرآن اور تورات دونوں ہی آپ لوگوں کے لیے    قابلِ قبول نہیں تو پھر اللہ کی نازل کردہ کوئی ایسی کتاب پیش کرو جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو۔
آیت 50{فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ} ’’پھر اگر یہ لوگ آپؐ کی بات کو قبول نہ کریں‘‘
آپ ؐکی اس دلیل کو بھی اگر یہ لوگ تسلیم نہ کریں:
{فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَہْوَآئَہُمْ ط} ’’تو جان لیں کہ یہ لوگ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں۔‘‘
{وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِّنَ اللہِ ط} ’’اور اُس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا جواپنی خواہشات کی پیروی کر رہا ہو‘اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر!‘‘
{اِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(50)} ’’یقیناً اللہ ایسی ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
 
درس حدیث
دنیا میں گناہوں کی سزا
 
 
عَنْ اَنَسٍ ؓ  قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : ((اِذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدِہِ الْخَیْرَ عَجَّلَ لَہُ الْعُقُوْبَۃَ فِی الدُّنْیَا‘ وَاِذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدِہِ الشَرَّ اَمْسَکَ عَنْہُ بِذَنْبِہٖ حَتّٰی یُوَافِیَ بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) (رواہ الترمذی)
حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لیے بھلائی کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو دنیا میں اُسے (اس کے گناہوں کی) سزا دے دیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کسی شخص کے لیے برائی کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو اس کے گناہوں کی سزا کو قیامت تک کے لیے روک لیتے ہیں، یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دیں گے۔‘‘
تشریح: بندئہ مومن کو جب ایمان کی لذت نصیب ہو جاتی ہے تو وہ اس زندگی کی تمام آفات و آزمائشوں کو بڑی پامردی سے جھیلتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ جب آزمائشیں میرے مالک کے اذن ہی سے وارد ہوتی ہیں اور اس میں میری بھلائی ہے تو مجھے ان کو مالک کی رضا سمجھ کر برداشت کرنا چاہیے۔