… ایک اور انقلاب
عامرہ احسان
[email protected]
انسانی سطح پر جو قتل و غارت گری کا بازار دنیا میں گرم ہے’ مہذب‘ نام نہاد ترقی یافتہ ترین روشن خیالی کے قمقموں سے جگ مگ کرتا گلوب کتنے سکون سے لاشوں کے ڈھیرغزہ میں لگتے دیکھ رہا ہے۔ وہ اسکول جو کل تک فلسطینی بچوں کے چہچہوں سے بارونق تھے اب وہ دربدر رُلتے مہاجر خاندانوں کی آماجگاہ بن گئے۔ اس پر بھی قرار نہیں۔ لمحے بھر میں امریکی بموں سے 100 مظلوم فجر کی نماز میں جلتے جسموں کے ساتھ ادھیڑ کر رکھ دیے گئے۔ مجبوراً امریکا کو مگرمچھ کے چند آنسو اور منافقانہ بیان گھڑنے پڑے۔ ساتھ ہی اسرائیل کومزید3.4 ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کردیا۔ قرآن کے شہید اوراق، شہدا کے خون سے مزین، اُمت کے خلاف خوفناک گواہی تیار ہے۔ اپنے اپنے دامن سے یہ دھبے دھونے کی فکر لازم ہے۔ یہاں جنگی جرائم کا ایک نیا ریکارڈ بنا ہے۔ 100 شہادتوں میں اجساد کی پہچان کیوں کر ہو، سو سفاک بے رحم دنیا بے حس مردہ اُمت توجہ سے دیکھ سُن سکے یہ فارمولا … اجساد کو وزن کرکے ایک فرد قرار دیا جارہا ہے۔ اندازاً 70 کلوگرام لوتھڑے ایک کفن میں اکٹھے کر دو۔ مہذب عالی شان مغرب، جس کی اعلیٰ تعلیم، دیانت و امانت، صفائی ستھرائی کے قصیدے ہم سے مولویوں کو طعنے دے دے کر سنائے جاتے رہے۔ آج سارے نقاب اُتر گئے۔ دجالی، ڈریکولا، ویمپائر، چنگیز، ہلاکو سبھی القاب تھوڑے پڑ گئے۔غزہ میں شہادتوں کی کل تعداد غلط بتائی جا رہی ہے۔ Lancet برطانوی میڈیکل جریدے کے مطابق یہ 1 لاکھ 86 ہزار سے زائد ہیں۔ (تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہے!)
ایک نو عمر آنسوئوں سے تر بتر بچی پوچھتی ہے: ’’اے دنیا ہم تھک ہار گئے۔ بہت ہوچکا۔ اے عربو! اے مسلمانو! اے دنیا! تم کس مٹی سے بنے ہو؟ تمہاری رگوں میں کون سا خون دوڑتا ہے؟ (چرندوں، درندوں کا!) کیا ہماری تکالیف تمہیں سکھی کرتی ہیں؟ بچے ملبے تلے دبے ہیں۔ ان کے ہاتھ ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ سر کچلے گئے ہیں!‘‘ فوراً ہی اسرائیل خان یونس خالی کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا گھائو تھا۔ اگرچہ باذن اللہ یحییٰ سنوار کی آمد فوری یہ جگہ پورے دبدبے اور ولولے سے پُر کردیتی ہے۔ حماس کا پیغام مضبوط تھا: ’’اسماعیل‘‘ چلا گیا ’’یحییٰ‘‘ آگیا۔ ہم تمہارا پیچھا اپنے انبیاء کے ناموں اور استعارات سے کرتے ہے۔ یحییٰ ؑکا سر تم نے کاٹا تھا۔ اب یحییٰ تمہارے سر کاٹے گا۔( یحییٰ سنوار جیب سے پستول نکالتا دکھایا ہے! ) اِن شاء اللہ! باذن اللہ!
یہ راتیں بے قرار تھیں۔ تڑپ کر اللہ سے مانگا۔ اللہ کوئی خوشی کی خبر سنا دے۔ قبولیت کا لمحہ تھا۔ اگلی صبح بنگلادیش کی نجات کادن تھا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں مجیب الرحمن (اور حسینہ واجد) کی عوامی لیگ اور بھارت کا گھنائونا کردار ہمارے ہاں تاریخ میں لپیٹ دیا گیا۔ (پردہ نشینوں کے ناموں کے خوف سے) خون کی ندیاں جو بہیں، قطب الدین عزیز کی کتاب ’’خون اور آنسوؤں کا دریا‘‘ (مترجم سلیم منصور خالد:1974ء) عوامی لیگ کی خون آشامی پر گواہ ہے۔ بھارت جو پاکستان بننے پر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا تھا، 47ء کا بدلہ اس نے 1971ء میں بنگلادیش میں چکایا۔ عوامی لیگ سیکولر، قوم پرست، اسلام بیزا رجماعت تھی۔ پاکستان سے محبت کی بھرپور سزا بالخصوص جماعت اسلامی بنگلادیش نے آخر دم تک بھگتی۔ حسینہ واجد کے دور میں جماعت اسلامی کے اہم ترین لیڈروں کو 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں پے در پے پھانسی کی سزائیں دی۔ عدلیہ نے (مصر میں اخوان کی طرح) اسلامی بینک کے ڈائریکٹر اور کامیاب تاجر میر قاسم علی مرکزی رہنما کو پھانسی کی سزا دی۔ مطیع الرحمن نظامی کی سزا پر ترکی نے احتجاجاً اپنا سفیر واپس بلا لیا مگر پروفیسر غلام اعظم (جیل میں انتقال) تک چھ رہنماؤں کو حسینہ قتل کر کے رہی اور پھر حسینہ واجد کی دراز رسی یوں اچانک کھینچ دی رب تعالیٰ نے۔ اسے 45 منٹ کے نوٹس پر فوری ملک سے نکل بھاگناپڑا۔ یکم جولائی کو طلبہ کی طرف سے شروع ہونے والی کوٹہ تحریک نے پانچ اگست کو حسینہ واجد کو استعفے پر مجبور کردیا۔ ملک بھر میں مظاہروں پر فوج کو استعفا تھما کر اپنے میکے بذریعہ ہیلی کاپٹر بھارت سرحد پار کرکے اگر تلہ لوٹا دی گئی،جہاں سے دہلی پہنچائی گئی۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔
شیخ مجیب الرحمن کا اقتدار مکتی باہنی کی خون آشامی اور مکمل آمریت کے ساتھ فطری انجام کو 5 اگست کی بغاوت میں یوں پہنچا کہ بابائے بنگلادیش کو فوجی افسروں نے گھر پر حملہ کرکے سبھی کو قتل کردیا۔ حسینہ واجد باہر تھی سو بچ رہی۔ تاہم دسمبر 2008ء سے عوامی لیگ فوج کے زیر سایہ حسینہ واجد کی سربراہی میں مکمل بھارتی آشیرباد اور پاکستان کے خلاف نفرت لیے الیکشن جیت گئی۔ آنے والا دور جمہوریت کے نام پر بدترین فاشزم لے کر آیا۔ عوامی لیگ کا طلبہ ونگ تعلیمی اداروں میں سرکاری سیاسی غنڈہ فورس تھی، جس کے سوا کوئی دوسری تنظیم پنپ نہ سکتی تھی۔ حسینہ واجد نے بھارت سے پانی کا معاہدہ کیا، ایک طالب علم نے اس پر تنقیدی نوٹ سوشل میڈیا پر لکھ دیا، لیگی طلبہ نے اُسے مار ڈالا۔ جبری گمشدگی ،اغواکاری (جسے امریکا نے مسلم ممالک میں رائج کیا) اور سیاسی قیدیوں سے جیلیں بھر دیں۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیاں دیں۔ بھارتی مداخلت کے دروازے کھولے۔ 2009ء میں بنگلادیش رائفلز کے جوانوں کی بغاوت پر براہ راست بھارتی کمانڈوز نے حسینہ کی درخواست پر آکر ناراض بنگالی فوجی بھون ڈالے۔
سو پاکستان توڑنے کی جو کہانی بھارت سے شروع ہوئی وہ ہمراہ چلی۔ (مری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی۔) عوام بھارت سے متنفر ہیں۔ اس سے نسبت رکھنے والوں کو گوارا نہیں کرتے۔ اگرچہ اب کوٹہ تحریک کی کامیابی پر بھارت کو شدید تکلیف لاحق ہے، اس کے مفادات دائو پر لگ گئے ہیں، سو وہ منفی پراپیگنڈے اور ہندوئوں سے بدسلوکی کی جھوٹی کہانیاں پھیلا رہا ہے، لیکن طلبہ تحریک نے جہاں ہر سطح پر مدبرانہ منصفانہ اور منظم طریقے سے حالات کو سنبھالا ہے، وہاں اقلیتوں کے تحفظ، اُن کی عبادت گاہوں پر بھی خود پہرا دیا ہے۔ اپنی نوعیت میں یکتا انقلاب جس میں 15 سالہ بدعنوانی، لاقانونیت، فسطائیت، آمریت بدنظمی کے گھنے جنگلوں کا برق رفتار مظاہروں اور بر محل مطالبات میں استقامت نے صفایا کر دیا۔ ایک دہشت و وحشت کی مرقع جمہوریت کو جس طرح طلبہ تحریک نے اکھاڑ پھینکا، وہ تیسری دنیا کے حکمرانوں پر لرزہ طاری کرنے کو کافی ہے۔حسینہ واجد کی جگہ فوری طور پر نسبتاً سبھی کے لیے قابلِ قبول نامور معیشت دان 84 سالہ پروفیسر محمدیونس کو دعوت دے کر عبوری حکومت کا سربراہ بنالیا گیا۔ تمام شعبہ جات حکمرانی بشمول عدلیہ کی تیزی سے صورت گری کرتے ہوئے، حالات کو فوری مضبوط ہاتھ سے نوجوانوں نے سنبھالا دیا۔ طلبہ قیادت جو کئی ہفتوں پر محیط تحریک میں ملک کا پورا منظر نامہ بدلنے میں کامیاب ہوئی، اس کے دو افراد بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر یونس طلبہ تحریک کے ساتھ مل کر بنگلادیش کی نشاۃ ثانیہ میں باہمی قومی اتحاد و اتفاق اور شفافیت سے نظام کی مکمل درستگی کے لیے پر عزم ہیں۔
طلبہ کی بے پناہ جانی قربانیاں خراج تحسین وصول کررہی ہیں۔یہ انقلاب جس طرح عوامی لیگ کے (اسرائیل کی مانند) آئرن ڈوم سے ٹکرایا ہے، حسینہ ڈکٹیٹر شپ کو طوفان البنگلہ نے پاش پاش کیا ہے، وہ تفصیل طلب ہے۔ پولیس نے طلبہ پر اندھادھند گولیاں برسائیں مگر بالآخر حسینہ حکومت اس طوفان کے آگے ٹھہر نہ سکی۔ طلبہ نے جس طرح فوری ہر سطح پر ذمہ داریاں سنبھالیں، ٹریفک کنٹرول سے لے کر شہروں کی صفائی تک، اہم مناصب (عدلیہ، داخلہ، خارجہ) پر بہتر افراد کی تعیناتی، وہ ان کی صلاحیت، فہم و فراست، انتظامی اُمور میں مہارت کی دلیل ہے۔ حسینہ کے جانے پر پٹاخے بجانے، ڈھول پیٹنے کے مناظر نہ تھے، ہلڑبازی جیسے واقعات کو سخت ہاتھ سے روکا گیا۔ مقصدیت، سنجیدگی، دُوراندیشی حکمت و دانائی سے اپنے پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دیا۔ عصبیت کا گزر نہیں۔ ابھی تو سالہا سال کی پچھلی لوٹ مار کرپشن کھلے گی۔ اللہ تعالیٰ درست رہنمائی فرمائے۔ اُخوت کا حق ادا کرتے غزہ مظالم پر بھی حکومت نے فوری بیان جاری کیا‘ اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے۔ استعماری طاقتوں نے بالخصوص مسلم دنیا کو حسینہ واجد جیسی حکومتوں کے ہاتھوں خوار و زار کیا۔ لیبیا، تیونس، یمن، مصر سے عرب بہار انقلاب میں ہر آمر، عوام کے (فی کس) 80 تا 60 ارب ڈالر لوٹ کر فرار ہوا یا مارا گیا۔ اشرف غنی ڈالروں سے بھرا ہیلی کاپٹر لے اُڑا۔ طلبہ تحریک نے نئے انقلاب کی طرح ڈالی ہے، جو کسی بیرونی سازش، آقائوں کی مرہون منت نہیں۔ اللہ اسے کامیاب و کامران کرے اور مسلم تشخص بھی بحال کرے جو عدل و انصاف ،امن و سلامتی کی ضمانت ہے۔