اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایرانی حکومت، پاسداران انقلاب اور دیگر
ایرانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے : رضاء الحق
حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار کو امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد
اور اسرائیل طوفان الاقصیٰ کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتا ہےکیونکہ یحییٰ سنوار
نے اسرائیل کی دُم پر پاؤں رکھا ہوا ہے : عبدالرحمان السدیس
جنگ پھیلی تو بھارت اسرائیل کا اور پاکستان ایران کا ساتھ دے گا
اور یہ خطہ میدانِ جنگ بن جائے گا : پروفیسر یوسف عرفان
اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور مستقبل کا منظر نامہ کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:31 جولائی 2024ء کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کےلیے تہران میں موجود تھے ۔اس سانحہ کی کیا تفصیلات ہیں؟
پرفیسر یوسف عرفان: یہ سانحہ اتنا بڑا ہے کہ نہ صرف خلیجی ممالک بلکہ پوری دنیا کے لیے بڑے گہرے اثرات کا حامل ہے۔ اسماعیل ہنیہ حماس کے وہ ترجمان تھے جو سب کو لے کر چلتے تھے۔ ان کی سیاسی بصیرت کہیے کہ وہ ایران کے نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شامل ہونے کے لیے بنفس نفیس خود گئے۔سابق صدر کےسانحہ کی تعزیت کی مگر اس سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ وہ خود وہاں شہید کر دیے گئے۔ یہ ایک بہت بڑی شہادت ہے اور اس کے اثرات سب سےزیادہ خود اسرائیل پر پڑیں گے۔ کیونکہ القسام مجاہدین کا وہ گروپ ہے جو تنگ آمدبجنگ آمد پر آمادہ رہتا ہے ۔ اسرائیلی اب تک القسام کے کسی جنگجو کو نہ تو شہید کر سکے ہیں، نہ ہی گرفتار کر سکے ہیں اور ہی ان سے رابطہ کر سکے ہیں ۔ حتیٰ کہ جب اسرائیلی فوجی قبضہ کرنےغزہ جاتے ہیں تو وہ یا تو مر جاتے ہیں یا پھر واپس بھاگ جاتےہیں اور دوبارہ فوجی خدمات کے قابل نہیں رہتے ۔ اگر اسرائیل نے القسام کا ایک بھی آدمی پکڑا ہوتا تو وہ شور مچا مچا کر دنیا کو دکھاتا ۔اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری مذاکرات کے لیےرابطہ کا ذریعہ اسماعیل ہنیہ تھے ۔ ان کی شہادت سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے ۔ اب یہ کہ ان کی شہادت کیسے ہوئی ؟ اس حوالے سے مختلف خبریں ہیں ۔ عالمی تحقیقی ذرائع کا کہنا ہے کہ دوماہ قبل ہی بارود نصب کیا گیا تھا ۔ اگر یہ درست ہے تو پھر ایرانی پاسداران انقلاب پر سوال اُٹھتا ہےاور یہ فساد بڑھنے کی علامت ہے ۔ مگر یہ رپورٹ بھی ان لوگوں کی ہے جو اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ دوسری خبر یہ ہے کہ شارٹ رینج میزائل داغا گیا ۔ پھر بھی سوال اُٹھتا ہے کہ شارٹ رینج میزائل تل ابیب سے تو نہیں آسکتا ۔ ایک چیز ضرور ہے کہ جب مہمان کو بلایا جاتاہے تو پہلے گھر کی صفائی کی جاتی ہے۔سکیورٹی کی ذمہ داری ایرانی انتظامیہ پر تھی ۔ اب ایران کی طرف سے فیصلہ آیا کہ ہم اس کا انتقام لیں گے ۔ مجرم جو کوئی بھی ہے ایران کے اندر موجود ہے۔ ریاستی انتظامیہ کم از کم ان کوتو سزا دے سکتی ہے۔ بہرحال یہ سانحہ جنگ کو عالمی سطح پر پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اسماعیل ہنیہ پر اس قدر دباؤ ڈالا گیا کہ تقریباً ان کا پورا خاندان شہید کر دیا گیا لیکن انہوں نے کبھی نہیں کہا میرا بیٹا شہید ہوگیا ، پوتا شہید ہوگیا یا بہو شہید ہوگئی ۔ آخر کار خود بھی شہید کر دیے گئے مگر انہوں نے اللہ اور رسول ﷺ کی راہ نہیں چھوڑی ۔ سیاسی دور اندیشی کا یہ عالم تھا وہ سب کو ساتھ لےکر چلنا چاہ رہے تھے۔ اسرائیل سمجھ رہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے اُس کو فائدہ ہوگا حالانکہ خود اسرائیل کے لیے بھی مشکلات بڑھ جائیں گی ۔ حماس نے تو اسماعیل ہنیہ کے بعد اپنا نمائندہ چن لیا ہے اور وہ جہاد جاری رکھیں گے ۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد تہران اور قطر میں ان کی نماز جنازہ میں مسلمانوں کے جذبات دیکھنے والے تھےاور ان کی شہادت نے عالم اسلام کو نیاجذبہ دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی عوام کے پریشر کی وجہ سے امارات سے اسرائیلی سفارتکاروں کو نکال دیا گیا تھا۔ عوام میں اسرائیل کے خلاف نفرت تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد اب حالات کنٹرول میں نہیں رہیں گے اور بات دو بدو جنگ کی طرف جائے گی۔
سوال: یہ جنگ پہلے ہی لبنان تک پھیل چکی ہے ، اب ایرانیوں نے بھی سرخ جھنڈے لہرا دیے ہیں اور ایرانی حکومت نے بھی بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے ۔ یعنی اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد جنگ مزید پھیلنے کا خدشہ ہے ۔ یہ بتائیے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایرانی حکومت اور سکیورٹی اداروں کی ناکامی نہیں ہے کیونکہ وہ ایران کے سرکاری مہمان تھے؟
رضاء الحق: جب کسی ملک میں سرکاری مہمان آتا ہے تو اس کو وی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے اور سرکاری مہمان کے لیے سخت سکیورٹی بھی اس ملک کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ خاص طور پر حماس کے سربراہ کو تو خصوصی سکیورٹی کی ضرورت تھی کیونکہ اسرائیلی وزیر اعظم کئی مرتبہ کہہ چکا تھا کہ حماس کی قیادت جس ملک میں بھی ہوگی وہاں اس کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ ان حالات میں پاسداران انقلاب ، ایرانی پولیس اور انٹیلی جنس سمیت تمام ایرانی اداروں کو سکیورٹی کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے تھا ۔ یقینی طور پر یہ ایرانی حکومت، پاسداران انقلاب اور دیگر ایرانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اب پاسداران انقلاب کے سربراہ نے بیان دیا ہے کہ ہم موقع کی مناسبت سے وقت اور جگہ کا تعین کرکے بدلہ لیں گے ۔ اگر ہم اسرائیل کی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس نے پہلے بھی کئی لوگوں کو ٹارگٹ کرکے شہید کیا ہے ۔ 1972ء میں اس نے غسان قنافی کو لبنان میں شہید کیا ، اسی سال عبدالوحید زویتر ان کو شہید کیا ۔ 1979ء میں علی حسن سلام کو بیروت میں شہید کیا گیا ۔ 1986ء میں خالد نزال کو یونان میں شہید کیا ۔پھر شیخ احمد یاسین جو کہ حماس کے بانیوں میں سے ہیں اُن کو اور عبدالعزیزالرنتیسی کو غزہ میں شہید کیا گیا ۔ جنوری 2024ء میں شیخ صالح اروری کو شہید کیا ۔ عالمی رپورٹس کے مطابق ابھی تک اسرائیل نے ساڑھے 17ہزار مسلم رہنماؤں کو ٹارگٹ کرکے شہید کیا ہے ۔ اس کے لیے کہیں بارود کا استعمال کیا گیا ، کہیں سنائپر ، کہیں میزائل اور کہیں ڈرونز کا استعمال کیا گیا ۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے اگرچہ نیتن یاہو کو تو فائدہ ہوگا کیونکہ جو مسلمانوں کو شہید کرتا ہے وہ اسرائیلیوں میں مقبول ہو جاتا ہے ۔ امریکی کانگریس میں بھی نیتن یاہو کا والہانہ استقبال کیا گیا ۔ اپنی تقریر کے دوران اس نے بار بار کہا کہ میں غزہ کے مسلمانوں کو ختم کردوں گا اور اس پر کانگریس کے ارکان، جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپئین بار بار کھڑے ہوکر تالیاں بجا رہے تھے ۔ بہرحال جس طرح غزہ کے چالیس ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوکر اللہ کے ہاں رُتبہ پا چکے ہیں ، اسی طرح اسماعیل ہنیہ بھی اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے امتحان میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ اب باقی امت مسلمہ کو دیکھنا ہےکہ وہ اس امتحان میں کہاں کھڑی ہے ۔ ایرانی انتظامیہ کی سکیورٹی کے معاملے میں ناکامی اپنی جگہ ایک ایشو ہے ۔
سوال: اسماعیل ہنیہ کی شہادت یقیناً پوری امت مسلمہ کے لیے ایک بہت بڑا نقصان اور صدمہ ہے۔آپ اسماعیل ہنیہ کی زندگی اورصہیونیوں کے خلاف ان کی جدوجہد کا خلاصہ ہمارےساتھ شیئر کیجیے؟
عبدالرحمان السدیس:یہ ہماری سوچ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں اگر ہم شہید ہو جائیں یا مرجائیں تو یہ ہمارا اختتام یا نقصان ہے جبکہ فلسطینی ایسا ہرگز نہیں سوچتے ۔ ان کے قائدین کے لیے بھی اور کارکنان کے لیے بھی یہ شہادت بالکل ایسی ہی ہے جیسے باقی 39650 لوگ شہید ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ شہادت اس کاز کے لیے ہے جس کے لیے فلسطینی 7 اکتوبر سے نہیں بلکہ 1948 سے قربانیاں دے رہے ہیں ۔ اسماعیل ہنیہ نے اپنی پوری زندگی اس کاز کے لیے وقف کی۔ اسماعیل ہنیہ وہ شخص تھے جو شیخ احمد یاسین کی وہیل چیئر پکڑ کر انہیں پروگرامز اور دیگر جگہوں پر لایا کرتے تھے ۔ شیخ احمدیاسین کے موقف کو بالکل واضح انداز سے جس انسان نے آگےپہنچایا اس کو ہم لوگ اسماعیل ہنیہ کے نام سے جانتے ہیں۔ حماس نے سیاست اور جہاد دونوں چیزوں کو بیلنس اپروچ کے مطابق چلایا ہوا ہے اور اس بیلنس اپروچ کے لیے آپ کے پاس تجربہ بھی ہونا چاہیے ،دانشمندی بھی ہونی چاہیے، علم بھی ہونا چاہیے اور باقی بہت ساری صلاحیتیں ہونی چاہئیں ۔ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے ملٹری ونگ علیحدہ ہے بلکہ وہ بھی انہی کے تحت کام کررہے تھے اور اسماعیل ہنیہ نے متعدد مواقع پر مذاکرات اور اس طرح کے دوسرے معاملات کی قیادت کی ہے اور اس کے لیے وہ باقی قائدین سے باقاعدہ مشاورت کرتے تھے۔ گویا اسرائیل نے حماس کے رہنما کو نہیں مارا بلکہ سابق وزیر اعظم فلسطین کو قتل کیا ہے۔ وہ مذاکرات میں بھی اپنا کردار ادا کرتے تھے ۔ لہٰذا اسماعیل ہنیہ کو راستے سے ہٹانے کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل جنگ کو ختم نہیں کرنا چاہتا ۔ نتن یاہو نے کانگریس میں اپنی تقریر کے دوران واضح کہا ہے کہ وہ حماس سے اپنے قیدیوں کو واپس لیں گے اور اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اب یہ جنگ غزہ سے مسلمانوں کی ساری آبادی کو ختم کرنے کے بعد بند ہوگی ۔ اسرائیل شروع سے ہی جنگ چاہتا تھا تاکہ فلسطین سے مسلمانوں کو ختم کرکے اور باقی عربوں کو بھی شکست دے کر گریٹراسرائیل کے منصوبہ پر عمل درآمد کر سکے۔ فلسطینی مسلمانوں کو یہ معلوم ہے اسی لیے وہ شہادت کو نقصان نہیں سمجھتے ۔
سوال:گزشتہ دس ماہ سے جاری اسرائیلی مظالم کی وجہ سے تقریباً 40 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اپنے قائدین خاص طور پر اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد فلسطینی مجاہدین کا جذبہ جہاد کتنا بلند ہے؟
عبدالرحمان السدیس:اللہ کے رسول ﷺ کی وفات کےبعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کہا تھاکہ تم میں سے جو شخص محمدﷺکی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمدﷺ کا وصال ہو گیا ہے اورتم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تووہ جان لے اللہ تعالیٰ زندہ ہے ۔ بالکل اس طرح فلسطینی مجاہدین سمجھتے ہیں کہ جہاد جاری رہے گا اور فلسطینی کاز زندہ رہے گا۔ خود اسماعیلی ہنیہ نے شہادت سے چند روز قبل یہ کہا تھا کہ اگر میں شہید ہوگیاتو تحریک پھر بھی جاری رہے گی ۔ انہوں نے اپنے بیٹوں اور پوتے پوتیوں کی شہادت پر بھی یہی کہا تھا کہ یہ بھی اسی طرح کے شہید ہیں جیسے باقی شہید ہیں ۔ فلسطینی مجاہدین کے نزدیک مقصد سب سے اہم ہے ۔ اگر ان کے حوصلے پست ہوتے تو وہ یحییٰ سنوار کی جگہ کسی ایسے رہنما کو اپنا قائد مقرر کرتے جس کے بارے میں وہ سوچتے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے کوئی حل نکال دے گا ۔ لیکن ان کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل کو شدت کے ساتھ جواب دینا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ اسرائیل کسی صورت جنگ سے باز نہیں آئے گا ۔ چنانچہ فلسطینی مجاہدین کا فیصلہ بتاتا ہے کہ ان کا مورال اور عزم بہت بلند ہے ۔
سوال:یحییٰ سنوار کو حماس کا نیا سربراہ منتخب کیا گیا ۔آپ کے خیال میں ان کی ترجیحات کیا ہوں گی آنے والے دنوں میں؟
عبدالرحمان السدیس:پہلی بات تو یہ ہے کہ ترجیحات وہی ہوں گی جو اسماعیل ہنیہ کی تھیں اور چیزیں اسی طرح ہی واضح طور پر چلتی رہیں گی۔ دونوں ہی بالکل عام فلسطینیوں کی طرح پناہ گزین کیمپوں میں پیدا ہوئے کیونکہ صہیونیوں نے 1882ء سےہی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالنا شروع کردیا تھا۔پھر یہ کہ دونوں نے طالب علمی کے دور سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور پھر ان کی جدوجہد کا سفر طویل ہوتا گیا ۔ یحییٰ سنوار پہلی دفعہ جب جیل گئے تو ان کی عمر بیس سال تھی۔ اس وقت وہ غزہ اسلامی یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر تھے ۔ اس وقت سے لے کر 1988ء تک ان کو چار بار عمرقید کی سزا سنائی گئی جس کا کل دورانیہ چار سو چھبیس سال بنتا ہے۔اسی قید کے دوران ان کو ایک دفعہ ایسا ٹارچر کیا گیا کہ ان کے دماغ میں خون جم گیا تھا اور ڈاکٹرز کو سات گھنٹے کا طویل آپریشن کرنا پڑا ۔ پھر اسماعیل ہنیہ کی حکمت عملی اور مذاکرات کے نتیجے میں وہ رہاہوئے ۔ انہوں نے اس طرح کا ملٹری انٹیلی جنس سسٹم بنایا تھا کہ جنتے جاسوس تھے ان کو تنظیم سے باہر نکالا جا سکا اور کئی مسائل حل ہوئے ۔ 2017ء میں غزہ سے جانے کے بعد اسماعیل ہنیہ سیاسی بیورو کے سربراہ بنے ۔ ان کی کارکردگی کے باعث 2021ء میں انہیں دوبارہ منتخب کیا گیا ۔ ایسا نہیں ہے کہ یحییٰ سنوار جنگی مزاج کے آدمی ہیں بلکہ وہ تخلیقی ذہن بھی رکھتے ہیں ۔
حکمت عملی بنانے میں بھی ماہر ہیں ، زیادہ سوچتے ہیں اور بہت کم بولتے ہیں ۔ یعنی عمل پر یقین رکھتے ہیں ۔ اسرائیل بڑے واضح انداز میں انہیں آپریشن طوفان الاقصیٰ کا سب سے بڑا قصور وار کہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یحییٰ سنوار نے اسرائیل کی دکھتی رگ پر پاؤں رکھ دیا ہے ۔ اسی طرح امریکہ بھی انہیں سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیتا ہے حالانکہ وہ فلسطین کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور فلسطینی عوام انہیں اپنا ہیرو مانتے ہیں ۔ فلسطینی مسلمانوں کی تمام تنظیمیں اور گروہ ان پر اعتماد کرتے ہیں ۔
سوال:ایران نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل سے بدلہ لے گا ۔ اگر ایران اسرائیل پر حملہ کرتا ہے تو کیا یہ جنگ مشرق وسطیٰ میں پھیل نہیں جائے گی ؟جبکہ اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے۔ کیا ہم اسرائیل کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس نہیں جائیں گے؟
پرفیسر یوسف عرفان:آپ کی بات بالکل بجا ہے مگر یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ جنگ پھیل کر رہے گی ۔ ایران کے اعلان کے بعد امریکہ نے بے تحاشہ اسلحہ اور پیسہ اسرائیل پہنچانا شروع کردیا ہے ۔ دوسری طرف روس ایران میں اپنا اسلحہ اور پیسہ بھیج رہا ہے ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ عالمی طاقتیں ایران کو روکنے کے لیے بھی سرگرم ہو چکی ہیں تاکہ جنگ نہ پھیلے ۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ ایران کا جواب التواء کا شکار ہو گا اور موقع دیکھ کر انتقام لیا جائے گا ۔ ایران کے لیے یہ بہت بڑا امتحان ہے ۔اگر وہ جواب نہیں دیتا تواس کی وقعت اور عزت میں کمی واقع ہو گی اور اندرونی طور پر بھی پریشر بڑھے گا اور اگر جواب دیتاہے تو خطے میں بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے ۔ اب یہ ایران کی دوراندیشی کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس صورتحال سے نکلتا ہے ۔ ایران اگر انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنا بھی چاہے گا تو حالات اب ٹھنڈے نہیں ہوں گے۔ عوام بے قابو ہوں گے ، جنگ پھیلے گی اور پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آئے گا کیونکہ پاکستان ایران کا ساتھ دے گا اور بھارت پاکستان کے خلاف اقدام کرے گا ۔ صرف RSSکے پاس ایک کروڑ سے زائد دہشت گرد ہیں اور اس کا جو سوشل ونگ ہے جسے سنگھ پریوارکہا جاتاہے اس میں سے بھی بہت بڑی تعداد میں عورتیں شامل ہیں ۔ وہ پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ پاکستان کے لیے دونوں طرف سے خطرات ہیں۔ لہٰذا ہمارے حکمرانوں کوایسی حکمت عملی اپنانی چاہیے کہ جنگ میں نقصان کم سے کم ہو ۔
سوال: اسماعیل ہنیہ اپنی شہادت سے پہلے قطر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات کی سربراہی کر رہے تھے ۔ حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنواربہرحال اتنےمعتدل مزاج نہیں ہیں ، کیا اب مذاکراتی عمل کو بریک نہیں لگ جائے گی ؟
رضاء الحق:جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے دومعاملات قابل غور ہیں ۔ ایک یہ کہ اسرائیل کے بنیادی اہداف کیا ہیں۔ اسرائیلی منصوبے کا آغاز وہاں سے ہوا تھا جب یہودیوں کو لا کر ارضِ فلسطین بسایا گیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک وہ مسلسل امن کے دشمن بن کر اپنے عزائم کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کا اصل ہدف گریٹر اسرائیل ہے ، جیسا کہ ان کی سیاسی اور ملٹری قیادت کے بیانات سے بھی عیاں ہے ۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ ایک بڑی جنگ ہو تاکہ وہ اپنے عزائم کی تکمیل کر سکیں ۔احادیث میں بھی ایک بڑی جنگ کی خبریں موجود ہیں جسے الملحمۃ الکبریٰ یا الملحمۃالعظمی کہا گیا ہے ۔ صہیونیوں کی ایک مذہبی پروفیسی بھی ہے اور اس کے مطابق وہ اپنے مسایاح کا انتظار کر رہے ہیں جس کو احادیث میں دجال کہا گیا ہے ۔ اس کے لیے وہ تھرڈ ٹمپل کی تعمیر چاہتے ہیں ۔ لہٰذا اپنے ان عزائم کی وجہ سے اسرائیل مذاکرات کا قائل نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ اکثر دو ریاستی حل کا نعرہ لگایا جاتا ہے جبکہ اسرائیل تو اپنے علاوہ کسی دوسری ریاست کے وجود کا قائل ہی نہیں ہے۔ چین نے فلسطین کے 14 گروپس کو مذاکرات کی ٹیبل پر بٹھایا اور مستقبل کے لیے ایک لائحہ عمل پر اتفاق ہوا لیکن اس کے فوراً بعد اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا واقعہ پیش آگیا ۔ جہاںتک مسلم حکمرانوں کا تعلق ہے تو واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ وہ وہن کی بیماری کا شکار ہیں جس کا احادیث میں ذکر ہے۔ پاکستان نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے حوالے سے پریس ریلیز جاری کی اور اس میں سے اسرائیل کا نام نکال دیا۔ بہرحال یہ سارے حالات اس بات کے غماز ہیں کہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے اور بات جنگ کی طرف ہی جائے گی۔ افغان طالبان کا معاملہ مختلف اس لیے تھا کہ انہو ں نے امریکہ کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کر دیا تھا اس لیے ان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوگئے تھے ۔ امریکہ کی رگِ جاں بھی پنجہ یہود میں ہے ۔ دور فتن کے حوالے سے موجود احادیث سے یہی پتا چلتا ہے کہ ایک بڑی جنگ ہوگی اور اس کے بعد ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوگا ۔ ان شاء اللہ!
سوال: غزہ میں تقریبا ًچالیس ہزار شہادتیں ہو چکی ہیں اورایک لاکھ سےزائد لوگ زخمی ہیں۔ بیس لاکھ لوگ بے گھر ہو چکےہیں۔ عملی طور پر غزہ ایک کھنڈر کی صورت بن چکا ہے ۔ ان حالات میں پوری دنیا کے مسلمانوں کا خون جوش مارتا ہے اور جہاد کا جذبہ بیدار ہورہا ہے ۔ ان حالات میں آپ مسلمانوں کو کیا رہنمائی دیں گے کہ وہ علماء ، فقہا یا حکومت کی طرف سے جہاد کے اعلان کا انتظار کریں یا کوئی اور حل ہے ؟
پرفیسر یوسف عرفان:جنگ اور جہاد مشک کی طرح ہیں ، جتنا آپ مشک کو ہتھیلی پر رگڑیں گے اتنا ہی معطر ہوتا چلا جائے گا ۔ کمانڈر ابوعبیدہ کا نام سنتے ہی اسرائیلی فوجی اتناخوف کھاتے ہیں کہ علاقے خالی کر دیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ سامنے ہوتا ہے مگر ہمیں نظر نہیں آتا۔ یہ تائیدالٰہی ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی حکمت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر جنگ بڑھتی ہے تو جہاد یوں کے لیے میدان کھل جائے گا اور عرب عوام کو سنبھالنا بھی حکمرانوں کے لیے مشکل ہو جائے گا ۔ نیتن یاہو عارضی کامیابی کے لیے اسرائیل کے بڑے نقصان کا سبب بنا ہے۔ اسرائیلی عوام نیتن یاہو کے خلاف ہیں کیونکہ جنگ سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہورہے جو وہ چاہتا تھا ۔ لبنان کے عوام نے بھی اسرائیل کی پیش قدمی روک رکھی ہے۔ اس سے پہلے بھی جب اسرائیل نے لبنان میں پیش قدمی کی کوشش کی تھی تو لبنانی عوام نے ایک انچ آگے نہیں بڑھنے دیا۔ حماس کے حملے بھی بڑھ رہے ہیں ۔ اوپر سے اسرائیل اور امریکہ میں الیکشنز قریب ہیں۔ اسرائیلیوں کو خوش کرنے کےلیے نیتن یاہو کی کوشش تھی کہ حماس مذاکرات کی ٹیبل پر ہار مان لے ، جب حماس نے ہار نہیں مانی تو نیتن یاہو نے الیکشن میں کامیابی کے لیے جلد بازی میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کر دیا ۔ حالانکہ نیتن یاہو کا یہی قدم اسرائیل کے لیے تباہی کا باعث بن جائے گا ۔اگر وہ الیکشن میں جیت بھی گیا اور اس کے بعد بھی مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھا تو اس سے اسرائیل کے خلاف نفرت اور غصہ دنیا بھر میں بڑھتا ہی چلا جائے گا ۔ اسرائیل اور اس کے حمایتی مسلم حکمران مشکل میں پھنستے چلے جائیں گے ۔ حماس کا مورال بھی بلند ہے ، اسرائیل ان کی سرنگیں تلاش نہیں کر سکا ۔ کمانڈر ابو عبیدہ دھڑلے سے آتے ہیں پریس کانفرنس کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ اسرائیل ان کو گرفتار کر سکااور نہ کسی مجاہد کو شہید کر سکا ۔ نیتن یاہو کب تک اسرائیل کی اس بے بسی کو چھپائے گا ۔ کتنوں کو شہید کرے ، جتنے لوگ شہید ہوں گے اتنا ہی عالم اسلام میں جذبہ بڑھے گا ۔ آپ دیکھ لیں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد پورے عالم اسلام میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی ۔ یہ جذبات ہیں اور اگر جنگ جاری رہی تو عالم اسلام میں جانثاری کی مثالیں بڑھیں گی۔ ان شاءاللہ!
سوال: اسرائیل کی درندگی پچھلے دس ماہ سے جاری ہے ،وہ لبنان کے ساتھ بھی جنگ چھیڑ چکا ہے ، ایران کو بھی جنگ میں گھسیٹ رہا ہے ۔ بظاہر نظر یہی آرہا ہے کہ وہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کے لیے پورے عالم عرب کو جنگ میں جھونک دینا چاہتاہے ۔ ان حالات میں مسجد اقصیٰ کی حفاظت ، فلسطین کی آزادی اور اسرائیلی مظالم سے نجات کے لیے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟بالخصوص پاکستانی حکومت کے لیے آپ کیا رہنمائی دیں گے ؟
رضاء الحق:پہلی بات تو یہ ہے کہ امت مسلمہ ایک مشترکہ لائحہ عمل بنائے۔خلافت کے خاتمے کو سو سال گزر چکے ہیں اس کے بعد سے اب تک پوری دنیا میں مسلمان مار کھارہے ہیں ۔پوری دنیا میں مسلمان سیاسی ، معاشی اور معاشرتی سطح پر مغلوب ہو چکے ہیں ۔ یہاں تک کہ 57مسلم ممالک کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں جا سکیں ۔ وہاں بھی کیس جنوبی افریقہ نے جاکر لڑا ہے ۔ احتجاج کرنا اور مذمتی بیانات دینا عوام کا کام ہے جبکہ حکومتوں کو اس سے آگے بڑھ کر اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ ان کے پاس طاقت ہے ، اختیار ہے ۔اب ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس کیس میں جنوبی افریقہ کا مالی طور پر پارٹنر بنے گا ۔ پاکستان کیوں اس کیس میں حصہ نہیں لے سکتا ۔ اس لیے کہ پاکستان معاشی غلام بن چکا ہے ۔ اسی طرح اگر تمام مسلم ممالک اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور تجارتی معاہدات ختم کردیں تو اسرائیل گھٹنے ٹیک دے گا لیکن مسلم حکمرانوں کو اس کی بھی جرات نہیں ہورہی ۔ اس کے بعد جتنا بھی اسلحہ بارود اسرائیل کو جارہا ہے وہ مسلم ممالک سے گزر کر ہی جارہا ہے ۔ وہ اس کو روک سکتے ہیں مگر روک نہیں رہے ہیں۔ پھر یہ کہ OIC کے چارٹر میں لکھا ہوا ہے کہ فلسطینیوں کی اخلاقی ، مالی اور عسکری مدد کرنا ہر مسلم ملک پر لازم ہے ۔ لہٰذا سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک اپنے آپ کو سیاسی ، معاشی اور معاشرتی طور غیروں سے آزاد کریں اور آپس میں اتحاد کریں۔ علاقائی ، لسانی اور نسلی بنیادوں پر نہ تو امت متحد ہو سکتی ہے اور نہ ہی پاکستانی قوم۔ صرف ایک چیز ہے جو ہمیں متحد کر سکتی ہے اور وہ ہے اسلام ۔ اسلام کو ہر ملک اپنے ہاں زندہ کرے اور اس کو ترجیح اول بنائے تو عالمِ اسلام میں اتحاد و یکجہتی خود بخود پیدا ہوجائے گا ۔ اس اتحاد و یکجہتی سے عالم کفر کی ہوا خود بخود اُکھڑ جائے گی ۔ ان شاء اللہ!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025