پاکستان کا مستقبل (1)
ڈاکٹر اسراراحمدؒ
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹراسراراحمدؒنے28نومبر 2008ء کو جامع القرآن ‘
قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاون لاہورمیں’’ پاکستان کامستقبل کےموضوع پر
بہت ہی شاندار خطاب کیا تھا جس کو موقع اور حالات کی مناسب سے
قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے
اسلام اور مسلمانوں کا عروج و زوال
دورِ نبویؐکے بعد اگرچہ اُمت ِمسلمہ پر تو عروج و زوال کے دو دور آئے‘ لیکن اسلام مسلسل زوال سے دوچار ہوتا رہا۔ پہلا عروج عربوں کی زیر قیادت آیا‘ پھر زوال آیا اور 1258ء میں بنوعباس کے آخری خلیفہ کو تاتاریوں نے ان کے محل سے کھینچ کر نکالا‘ ایک جانور کی کھال میں لپیٹااور گھوڑوں کے سُموں سے کچل دیا۔ اس کے ساتھ ہی اُمت میں عربوں کی قیادت کا دور ختم ہو گیا ۔ اس کے بعد کچھ عرصہ انتہائی زوال کی کیفیت رہی۔پھر دوسرا عروج ترکوں کی زیر قیادت آیا۔ اب وہ خلافت ِراشدہ والی شان تو دوبارہ نہیں آئی‘ لیکن چار عظیم مملکتیں قائم ہوئیں ----- ہندوستان میں ترکانِ تیموری‘ ایران میں ترکانِ صفوی‘ مشرق وسطیٰ میں ترکانِ سلجوقی ‘ جبکہ ترکانِ عثمانی نے اتنی عظیم مملکت قائم کی جو تین براعظموںپر محیط تھی---- لیکن اسلام مسلسل زوال سے دوچار رہا۔ یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا جس کا لرزا دینے والا نقشہ ایک حدیث میں کھینچا گیا ہے۔ حضرت علی ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ((یُوْشِکُ اَنْ یَأتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ)) ’’اندیشہ ہے کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آ جائے گا‘‘((لاَ یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلاَّ اسْمُہٗ)) ’’کہ اسلام میں سے سوائے اس کے نام کے کچھ نہیں بچے گا‘‘ ((وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآنِ اِلاَّ رَسْمُہٗ)) ’’اور قرآن میں سے سوائے اس کے رسم الخط کے کچھ نہیں بچے گا‘‘۔ یعنی قرآن کی صرف تحریر بچ جائے گی‘ قرآن کا نظام دنیا میں کہیں نظر نہیں آئے گا۔((مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی))’’ان کی مسجدیں آباد تو بہت ہوں گی ‘ لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی‘‘معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ! اور چوتھی بات سخت ترین ہے : ((عُلَمَاؤُھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَاءِ)) ’’ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے کی بدترین مخلوق ہوں گے‘‘((مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ))انہی میں سے فتنے برآمد ہوں گے اور انہی میںلوٹ جائیں گے‘‘۔ یعنی فتنہ انگیزی اور فتنہ پروری کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں ہوگا۔ (یہ حدیث مشکوٰۃ المصابیح‘ کتاب العلم میں امام بیہقی ؒکی شعب الایمان کے حوالے سے نقل ہوئی ہے۔) اِس وقت یہ کیفیات لفظ بلفظ نہ سہی ‘ان کا ایک عکس تو بہرحال ہمارے ہاں موجود ہے۔
اس حوالے سے میںنے عرض کیا تھا کہ اب یہاں سے دوبارہ اسلام کا عروج ہونا ہے۔ یہ مسلمانوںکا تیسرا عروج ہو گا ‘ جبکہ اسلام کی نشا ٔۃِ ثانیہ ہو گی‘ لیکن اس میں بھی تدریج ہو گی‘ جس کا ذکر سورۃ الانشقاق کی آیات 16تا19 میں ہوا ہے۔ ان آیات کی روشنی میں عرض کیا جا چکا ہے کہ اس وقت دنیا میں اسلام بس شفق کی مانند رہ گیا ہے‘ جیسے سورج غروب ہو جائے تو افق پر ایک سرخی سی رہ جاتی ہے۔ اور نوعِ انسانی پر تین سو برس کی جو بڑی تاریک رات گزری ہے اس کی تفصیل بھی بیان کر چکا ہوں کہ اس رات نے اپنے اندر کیا کچھ سمیٹ لیا ہے۔ اس طویل رات کے دوران ایک طرف پورے عالمِ اسلام پر یورپی استعمار نے اپنے پنجے گاڑ دیے اور دوسری طرف اس رات کی سیاہی میں نوعِ انسانی پر دجالیت نے تین پردے تان دیے ---- سیاست کی سطح پر سیکولرزم‘ عوامی حاکمیت اور وطنی قومیت ‘ معاشی میدان میں سود‘ جوا اور منشیات کی تجارت‘ جبکہ سماجی سطح پر فحاشی و عریانی کا فروغ اور شرم و حیا اور عصمت و عفت کی اقدار کا خاتمہ۔ اگرچہ اس معاملے میں ابھی دجالیت کو عالمِ اسلام پر پوری طرح غلبہ حاصل نہیں ہوا‘ لیکن اس کے لیے بہت تیزی سے جدوجہدہو رہی ہے۔ لیکن یہ رات بہرحال ختم ہونی ہے۔ محمد رسول اللہﷺ کی بعثت تو خورشید کی مانند تھی‘ اب جو اسلام کا احیاء ہو گا وہ چاند کی مانند ہو گا ‘ اور یہ چاند رفتہ رفتہ پورا ہو گا۔ رسول اللہﷺ نے جو23 برس میں عظیم انقلاب برپا کر دیا تھا یہ صرف حضورﷺ کا ہی خاصّہ تھا ۔
پھر پچھلی مرتبہ میں نے واضح کیا تھا کہ اس وقت جو روئے ارضی کی سول سپریم پاور اور اس کو جو یہودی اور عیسائی صہیونی (Zionists)کنٹرول کر رہے ہیں عالمِ اسلام کے بارے میں ان کے عزائم کیا ہیں‘اور خاص طور پر افغانستان اور پاکستان کے بارے میں ان کے کیا نقشے ہیں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ یہ تو ان کے عزائم ہیں‘ بالفعل ہو گا کیا‘ یہ اللہ کے علم میں ہے۔
اسلام کی نشا ٔۃِ ثانیہ کے حوالے سے پاکستان کی خصوصی اہمیت
میراآج کا موضوع خاص طو رپر پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ہے۔ مستقبل کے بارے میں ہمارے سامنے دو چیزیں تو وہ ہیں جو بالکل یقینی ہیں۔ ایک تو قیامت یقینا ًآنی ہے‘ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ دنیا ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے‘ یہ ختم ہو گی۔ اُس روز پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر ریت بن جائیں گے اور یہ پوری زمین کوٹ کوٹ کر پھیلا دی جائے گی ۔ تمام نوعِ انسانی جو آدم سے لے کر آخری وقت تک پیدا ہوئی ہو گی‘ اسے بیک وقت زندہ کیا جائے گا۔ یہ سب کچھ تو یقیناً ہو کر رہنا ہے۔ قرآن مجید میں سب سے زیادہ جس چیز کا ذکر ہے وہ قیامت ہے۔ اس سے پہلے ایک اور یقینی بات ہے‘ جس کا ذکر احادیث میں تو صراحۃً ہے اور قرآن مجید میں بھی اشارتاً موجودہے---- اور وہ یہ کہ قیامت سے قبل پوری دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو گا۔ گویا یہ چاند چودھویں کے چاند کی مانند لازماً پورا ہو جائے گا۔ اسلام کی نشا ٔ ۃِ ثانیہ کے لیے ہونے والی تجدیدی مساعی بالآخر اس مقام تک پہنچیں گی کہ پوری دنیا میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام قائم ہو گا۔ لیکن یہ کب اور کیسے ہو گا‘ اس کے بارے میں ہم یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے‘ لیکن میرے خیال میں یہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے۔ احادیث کے اندر قربِ قیامت کی جو پیشین گوئیاں آئی ہیں اور دنیا میں آج کل یہودی اور عیسائی دانشوروں کے ہاں بھی جو Endtimesکی پیشین گوئیاں ہیں‘ ان کے اعتبار سے یہ یقین کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ اب ہم اس کرئہ ارضی پر حیاتِ انسانی کے آخری دور میں سانس لے رہے ہیں۔
جہاں تک غلبۂ اسلام اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کا تعلق ہے‘ وہ ظاہر بات ہے کہ پہلے کسی ایک ملک میں ہو گا۔ اگر یہ کام بیک وقت پوری دنیا میں ہو سکتا تو رسول اللہﷺ کے دست مبارک سے ہو جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے مطابق اسے مستقبل کے لیے اٹھا رکھا۔ یہ اُس کی پلاننگ ہے کہ یہ کام کہاں سے شروع ہو گا۔ اب یہاں سے میری گفتگو کا تعلق پاکستان سے جڑ رہا ہے۔
پاکستان کے ساتھ ہمارا ایک تعلق تو یہ ہے کہ یہ ہمارا وطن ہے‘ لہٰذا ہمیں اس سے محبت ہے۔ ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ ((حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ))
(المقاصد الحسنہ للسخاوی)’’وطن کی محبت بھی ایمان میں شامل ہے‘‘۔لیکن ہم وطن پرست نہیں ہیں ‘وطن پرستی شرک ہے : ع ’’صورت نہ پرستم من‘ بت خانہ شکستم من!‘‘یہ ملک خاص طور پر وطنی قومیت کی نفی مطلق کے اوپر قائم ہوا۔ کانگریس کا موقف یہ تھا کہ ہندوستان میں رہنے والے سب ایک قوم ہیں‘ لہٰذا ان کا ایک ملک ہونا چاہیے۔خود ہمارے مسلمانوں میں سے بڑے مؤثر طبقات تھے جو یہی رائے رکھتے تھے۔ جمعیت علمائِ ہند کا یہی موقف تھا۔ مولانا حسین احمد مدنی ؒجیسی متدین شخصیت اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسا نابغہ شخص اسی رائے کے حامل تھے۔ پنجاب میں مجلس احرار اسلام اور سرحد میں خدائی خدمت گار‘ یہ سب بڑی بڑی طاقتیں قیامِ پاکستان کے حق میں نہیں تھیں‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے یہ ملک وجود میں آیا۔ قیامِ پاکستان کے مخالف حضرات اپنی جگہ نیک نیت تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان سے انگریز کو نکالنے کے لیے ہندو مسلم اتحاد ضروری ہے۔ جبکہ قیامِ پاکستان کے حامیوں کا خیال یہ تھا کہ اگر ہندوستان ایک وحدت کی حیثیت سے آزاد ہوگیا تو یہاں مسلمانوں کا اور اسلام کا مستقبل بہت تاریک ہو گا۔ ہندو مسلمان کو ملیچھ (ناپاک) سمجھتا تھا اور بھارت ورش کی پوتر زمین کو ان سے پاک کرنے کے لیے ان کا خاتمہ کرنے پر تلا ہوا تھا۔
اسلامیانِ ہند کی اکثریت ایک الگ خطہ ٔ زمین اس لیے چاہتی تھی کہ یہاں اسلام کا نظام قائم ہو۔ ہمیں درحقیقت پاکستان سے زیادہ محبت اس اعتبار سے ہے کہ اس سرزمین سے یہ توقع وابستہ تھی کہ یہ احیائِ اسلام کا نقطہ ٔ‘ آغاز بنے گی‘ یہاں سے نظامِ خلافت کا آغاز ہو گا۔ اپنا وطن ہونے کے اعتبار سے بھی اس سے محبت ہے کہ ہمارے گھر اسی سرزمین پر ہیں اور ہماری اولاد کا مستقبل اسی سرزمین سے وابستہ ہے ‘ لیکن اصل محبت اس اعتبار سے ہے کہ ہمیں اُمید تھی کہ یہ اسلام کی نشا ٔۃِثانیہ کا نقطۂ آغاز بنے گا۔ علامہ اقبال نے1930ء میں پاکستان کے قیام کا خواب دیکھا تھا‘ اور ان کا دوسرا خواب یہ تھا کہ یہاں خلافت ِراشدہ کا ایسا نظام دوبارہ قائم ہو جائے جوپوری دنیا کے لیے ایک مینارئہ نور بن جائے۔ ان کا پہلا خواب تو 17سال کے اندر اندر1947ء میں پورا ہو گیا‘ جبکہ دوسرے خواب کی ابھی تک کوئی تعبیر نظر نہیں آ رہی‘ بلکہ مایوسی کا غلبہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم نے ہندوستان کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں جگہ جگہ تقاریر کیں کہ ہمیں پاکستان اس لیے چاہیے کہ ہم وہاں اسلام کے اصولِ حریت و اخوت و مساوات کی بنیاد پر نظام قائم کر سکیں جو پوری دنیا کے لیے نمونہ بن جائے۔
اس کے علاوہ آنحضورﷺ کی احادیث موجود ہیں جن میں اس خطۂ زمین کی طرف اشارہ نظر آتا ہے۔ احادیث کی رو سے حضرت مہدی کا ظہور عرب میں ہونا ہے اور وہ اصل میں مجدد کامل ہوں گے‘ اسلام کی جو درجہ بدرجہ تجدید ہو رہی ہے وہ ان کی ذات پر مکمل ہو گی۔ لیکن ایک حدیث میں فرمایا گیا:
((یَخْرُجُ نَاسٌ مِنَ الْمَشْرِقِ فَـیُوَطِّـئُوْنَ لِلْمَھْدِیِّ یَعْنِیْ سُلْطَانَــہٗ)) (سنن ابن ماجہ)’’مشرق سے فوجیں نکلیں گی‘ جو مہدی کی سلطنت کو جما دیں گی۔‘‘
اس حدیث سے میں یہ سمجھا ہوں کہ چونکہ دولت کی زیادتی اور عیاشیوں کی وجہ سے عرب کھوکھلے ہو چکے ہیں‘ لہٰذا اگر چہ حضرت مہدی کا ظہور توعرب میں ہو گا لیکن ان کی حکومت کو قائم کرنے کے لیے فوجیں کسی مشرقی ملک سے آئیں گی‘ اور پاکستان‘ افغانستان اور بھارت عرب کے مشرق میں واقع ہیں۔ علامہ اقبال نے جو ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ لکھا تھا‘ جو ’’بانگ ِ درا‘‘ میںشامل ہے‘ اس میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ ؎
’’ میر عربؐ ‘کو آئی ٹھنڈا ہوا جہاں سےمیرا وطن وہی ہے ‘ میرا وطن وہی ہے!‘‘یہ بات انہوں نے اس حدیث کی بنیاد پر کہی تھی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مجھے ہند کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے‘‘۔ (ہمیں ابھی تک اس حدیث کا متن اور حوالہ نہیں مل سکا۔)
پھر یہ کہ اُمت ِمسلمہ کی گزشتہ چار سو سالہ تاریخ میں برعظیم پاک و ہند کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔ مجددین کا سلسلہ ایک ہزار برس تک عالم عرب میں جاری رہا۔ اس کے بعد چار سو سال سے یہ سلسلہ ہندوستان میں جاری ہے۔ جب خلافت ِ عثمانیہ کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں‘ اُس وقت عالم اسلام میں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی‘ لیکن ہندوستان میں ’’تحریک ِخلافت‘‘ کے عنوان سے ایسی عظیم تحریک اٹھی کہ گاندھی کو اس میں شریک ہونا پڑا‘ حالانکہ گاندھی کا خلافت سے کیاسروکار تھا؟ لیکن اسے اندازہ تھا کہ مسلمانوں سے تعاون حاصل کرنے کے لیے ان کی اس تحریک میں شرکت ضروری ہے۔ پھر تمام دنیا میں آزادی کی جو تحریکیں اٹھیں وہ لوکل نیشنلزم پر مبنی تھیں۔ مصطفیٰ کمال پاشا ترک نیشنلزم کا علم بردار بن کر کھڑا ہو گیا۔ سلطنت ِعثمانیہ ختم ہو گئی‘ لیکن ترکی بہرحال بچ گیا‘ اور یورپ کے سینے پر مونگ دلنے والا شہر قسطنطنیہ اب بھی یورپ کے ساحل پر موجود ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ آخری زمانے میں جو ملاحم ہوں گے تو قسطنطنیہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ مصر کے جمال عبدالناصر نے بھی انگریز کو اٹھا کر بحیرئہ روم میں پھینکا تو عرب نیشنلزم کے نام پر‘ اسلام کے نام پر نہیں۔ عراق اور شام میں بھی عرب نیشنلزم کا نعرہ لگا اور اسی بنیاد پر بعث پارٹی کی حکومت رہی۔ انڈونیشیا اور ملائشیا میں ملائے نیشنلزم کی بنیاد پر آزادی کی تحریک چلی۔ عالم اسلام میں آزادی کی صرف ایک تحریک ’’تحریک پاکستان‘‘ اٹھی‘ جس کا نعرہ تھا : ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ!‘‘ (جاری ہے)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025