(مطالعۂ کلام اقبال) ابلیس کی مجلس شوریٰ (4) - ڈاکٹر حافظ محمد مقصود

9 /

ابلیس کی مجلس شوریٰ

ڈاکٹر حافظ محمدمقصود

 

(گزشتہ سے پیوستہ) 
ابلیس کہتا ہے کہ میں نے فرنگی کو ملوکیت کا نظام دیا کہ اس کے ذریعے تم ڈکٹیٹر بن جاؤاور انسانوں کی گردنوں پر سوار ہو جاؤ۔
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب 
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں 
 ابلیس کہتا ہے کہ میں نے انسانوں کے ذہنوں میں یہ بات بھی بٹھا دی کہ مذہب کو اپنے گھر اورمسجد، مندر اور گرجا  تک محدود رکھو ۔ اجتماعی نظام میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے ۔ ابلیس کی اسی چال کا نتیجہ ہے کہ آج اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ بھی یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ مذہب نجی معاملہ ہے ۔ ایک یورپی ملک میں ایک جج نے اپنے آفس میں عہد نامۂ قدیم (تورات) کے 10 کمانڈمنٹس لکھ کر لگا دیے ۔ چیف جسٹس کا دورہ ہوا تو اس نے دیکھ کر کہا اس کو اپنے گھر میں لگاؤ ، عدالت میں مذہب کا کوئی کام نہیں ۔ یہ چیز ابلیس نے جدید دنیا کو پڑھائی کہ مسجد میں بیٹھ کر جتنا مرضی ہے اللہ اللہ کرو لیکن پارلیمنٹ میں اللہ کا نام لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پھر آگے کہتا ہے ؎
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا 
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں 
یعنی جو نادار اور غریب لوگ ہیں، میں نے ان کو تقدیر کا سبق سکھلایا کہ بس تم جو کچھ بھی ہو اور جو کچھ بھی تم پر بیت رہی ہے یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ یعنی انسانوں کے اندر اپنے آپ کو بدلنے کا کبھی عزم اورارادہ پیدا بھی ہوتو وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو جائیں کہ یہ ہماری تقدیر میں لکھا ہے ، ہم غلام ہیں اور ہمیں غلام ہی رہنا ہے ۔ لہٰذا کچھ بھی محنت اور حرکت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بقول شاعر؎
عمل سے فارغ ہوامسلماں بناکے تقدیر کابہانہ 
آج بھی آپ دیکھئے،  بڑے بڑے کرپٹ اور وطن فروش سیاستدانوں کو بھی جا کر لوگ ووٹ ڈالتے ہیں اور اسی وجہ سے آج قوم بھگت رہی ہے ۔ 
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں 
ایک طرف غریب کو تقدیر پر قانع کردیا اور دوسری طرف جس کے پاس تھوڑا بہت سرمایہ تھا تو اس کو مزید سرمایہ اکٹھا کرنے میں لگا دیا کہ اور دولت جمع کرو یہاں تک کہ سب لوگ تمہارے محتاج ہو جائیں۔جیسے آج ہمارے ملک کی اشرافیہ نے عوام کو نچوڑ نچوڑ کر کنگال کر دیا ہے اور پوری قوم کو محتاج بنا دیا ہے ۔ بہرحال ابلیس کہتا ہے کہ مادیت ، ملوکیت ، سرمایہ داری ، لادینیت وغیرہ یہ سب چیزیں میری پروردہ ہیں اور میں نے ان کا انتظام کر رکھا ہے ۔ 
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد 
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں 
     ابلیس کے اندر شدید انتقام کی آگ جل رہی ہے ۔ اس نے کہا تھا : 
’’اُس نے کہا (پروردگار!) تونے جو مجھے (آدم کی وجہ سے) گمراہ کیا ہے تو اَب میں لازماً ان کے لیے گھات میں بیٹھوں گا تیری سیدھی راہ پر۔پھرمیں ان پر حملہ کروں گا ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے‘ اور ان کے دائیں اور بائیں جانب سے ‘ اور تو نہیں پائے گا ان کی اکثریت کو شکر کرنے والا۔‘‘(الاعراف:16،17)
    یعنی میںاس کا پورا پورا انتظام کروں گا کہ تیرے بندے سیدھے راستے پر نہ چل سکیں ۔ انہیں گمراہ کرنے کے لیے میں نے جو مادہ پرستی ، ملوکیت ، سیکولرازم اور لبرل ازم جیسے فتنے تیار کیے ہیں ان کا کون مقابلہ کرسکتاہے ۔ بال جبریل میں ابلیس اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ایک ملاقات کا احوال ہے ۔ حضرت جبرائیلؑ ابلیس سے کہتے ہیں کہ تم جنت سے آئے ہو تو کیوں نہ تم کو واپس بلایا جائے۔ابلیس کہتاہے کہ مجھے وہاں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ جب میں ادھر آیا تو اب میں خوش ہوں۔
آہ اے جبریل! تو واقف نہیں اس راز سے 
کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو 
اب یہاں میری گزر ممکن نہیں، ممکن نہیں 
کس قدر خاموش ہے یہ عالمِ بے کاخ و کُو
  اب میں کیا کرتا ہوں؟
خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا 
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جُو بہ جُو 
یعنی بڑے بڑے پیغمبر میری وجہ سے تنگ ہیں۔ میری   فتنہ انگیزیوں نے انسانوں کا راستہ روکا ہوا ہے ۔ جہاں  دیکھو میری وجہ سے ایک فتنہ انگیزی ہے ، ایک طوفان برپا ہے ۔ میں اگر باہر نہ آتا تو یہ معرکۂ &حق و باطل کیسے جاری ہوتا۔ آگے جبرائیل علیہ السلام سے کہتاہے :
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر 
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے، میں کہ تو ؟
اے جبریلؑ! تیرا کا کام صرف تقدیس و تحمید اور طواف اور سجدے کرنا ہے ۔ تو تو ساحل پر کھڑا ہے اور میں تو حق کے ساتھ مسلسل نبرد آزما ہوں۔ مجھے بھی تھپیڑے پڑ رہے ہیں اور میںبھی اہلِ حق کے لیے کانٹا بنا ہوا ہوں ۔ 
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح 
تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو 
بہرحال آگے کہتا ہے :
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند 
کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں 
یعنی جن فتنوں کو میں نے پالا پوسا ہے اور ان کو دنیا میں پھیلا دیا ہے اب ان فتنوں کو کون جڑ سے اُکھاڑ سکتا ہے ۔
کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو
  یعنی اگر کسی شخص میں اتنی جرأت اور دلیری ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں ابلیس کے پیداکردہ فتنوں کا مقابلہ کر سکتا ہوں تو وہ سامنے آئے اور اپنے جوہر آزما کر دیکھ لے ۔ 
ابلیس نے اپنے کارندوں کوپوری دنیا میں اس مقصدکے لیے پھیلا دیا ہے کہ وہ حالات کی نبض دیکھیں اور معلوم کریں کہ ابلیس کا نظام کہاں کہاں خطرات سے دوچار ہے ۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ میں وہ ان سب کو رپورٹ دینے کے لیے بلاتا ہے اور اس کا ایک ایک مشیر آکر رپورٹ پیش کرتاہے کہ فلاں جگہ فلاں نظریہ سر اُٹھا رہا ہے جو ہمارے نظام کے لیے خطرہ بن سکتاہے ، فلاں جگہ فلاں شخص لوگوں کو جگا رہا ہے اور ہمارے نظام کے خلاف اُکسارہا ہے۔ اسی طرح تمام مشیر اپنی اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں ۔ اگلی قسط میں ان شاء اللہ ان مشیروں کی رپورٹس ملاحظہ فرمائیے گا ۔ ( جاری ہے )