اسلامی یا سیکولر پاکستان … ؟
مرتب: ابو ابراہیم
مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ،کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے09اگست 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
مملکت خداداد پاکستان کو معرض وجود میں آئے 14 اگست 2024ء کو 77 برس ہوگئے ۔ آج ہمارے بعض طبقات جو کہ اپنے اپ کو سیکولر یا لبرل کہتے ہیں یا جن کا تعلق انگلش پریس سے ہے ان کی طرف سے ہر تھوڑے عرصے کے بعد پھلجھڑیاں چھوڑی جاتی ہیں کہ ہم ترقی نہیں کر پارہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اسلام کا نام لیتے ہیں ، دنیا کے دیگر ممالک کو دیکھو ، وہ سیکولر ہیں اور کس قدر خوشحال ہیں ۔ ہمیں بھی پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہیے۔ قائداعظم بھی سیکولر تھے اور سیکولر سٹیٹ چاہتے تھے ۔ یہ مولوی خوامخواہ ایسی باتیں کرتے ہیں ، ان کی وجہ سے ترقی کا بیڑا غرق ہو گیا ہے ۔ یہ وہ چند نکتے ہیں جو ہر تھوڑے عرصے بعد پیش کیے جاتے ہیں ۔ بہت سارے حضرات نے ان کا جواب بھی دیا ہے۔ محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے بھی کئی مرتبہ اس موضوع پر تفصیلی خطاب کیے اور امت پر واضح کیا کہ پاکستان بنا بھی اسلام کے نام پر تھا اور اس کا استحکام بھی اسلام کے نفاذ پر منحصر ہے ۔ اس کی بقاء ، سلامتی اور ترقی بھی اسلام کے نفاذ پر منحصر ہے ۔ انہوں نے اپنی کتاب استحکام پاکستان میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال کا نظریہ کیا تھا ۔ اس موضوع پر اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید رہے گا ۔ اسی حوالے سے آج ہمارا موضوع ہوگا : اسلامی یا سیکولر پاکستان ؟
اس موضوع پر تحقیق کے لیے سب سے پہلے ہم انگریزی لفظ secularism کے معنی انگلش ڈکشنریوں سے ہی معلوم کریں گے ، اس کے بعد ہم انگریزی لفظ religion کی تعریف بھی انگلش زبان میں معلوم کریں گے ، پھر ہم قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں دین کوسمجھنے کی کوشش کریں گے تاکہ religion اور دین میں فرق واضح ہو جائے اور اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کو سیکولر ہوناچاہیے یہ بذات خود اللہ کے دین سے بغاوت اور اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے ۔ اس کے بعد ہم ان شاء اللہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات بھی پیش کریں گے تاکہ واضح ہو جائے کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے ۔آئیے سب پہلے ہم لفظ secularismکے معنی انگلش کی مشہور کیمرج آن لائن ڈکشنری میں دیکھتے ہیں ، جہاں لکھا ہے :
" The belief that religion should not be involved with the ordinary social and political activities of a country."
’’اس بات کا عقیدہ رکھنا کہ مذہب کوعام معاشرتی معاملات اورملک کے سیاسی امور میں دخل اندازی کی کوئی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
آکسفورڈ ایڈوانس لرنرز آن لائن ڈکشنری میں سیکولر ازم کی تعریف یہ ہے :
" The belief that religion should not be involved in the organization of society, education, etc."
’’ معاشرے کی تعمیر اور تعلیم کے نظام وغیرہ میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
اسی طرح ہم میریم ویبسٹر آن لائن ڈکشنری میں سیکولرازم کی یہ تعریف پاتےہیں :
"Indifference to or rejection or exclusion of religion and religious considerations."
مرادیہ ہے کہ تعلیم کا نظام ہو، معاشی، معاشرتی یا سیاسی معاملات ہوںان میں مذہب یا مذہبی تعلیمات کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہیے ۔
اسی طرح کولنز آن لائن ڈکشنری میں سیکولرازم کے معنی :
"Secularism is a system of social organization and education where religion is not allowed to play a part in civil affairs."
’’سیکولرازم سماجی تنظیم اور تعلیم کا ایک ایسا نظام ہے جہاں مذہب کو شہری معاملات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح چیمبرز آن لائن ڈکشنری میں دیکھئے :
" The view or belief that society's values and standards should not be influenced or controlled by religion or the Church."
’’یہ نظریہ یا عقیدہ کہ معاشرے کی اقدار اور معیارات کو مذہب یا چرچ کے زیر اثر یا کنٹرول میں نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
سیکولرازم کی ان تمام تعریفوں کا نچوڑ اگر آپ نکالیں تو وہ یہ نکلتا ہے کہ religion کا کسی معاشرے یا ملک کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی معاملات ، حتیٰ کہ تعلیمی نظام میں بھی کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے ۔ آئیے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ religion سے کیا مراد ہے ؟لہٰذا اسی ترتیب میں پہلے ہم کیمرج آن لائن ڈکشنری میں دیکھتے ہیں :
" The belief in and worship of a god or gods, or any such system of belief and worship."
’’کسی ایک خدایا بہت سارے خداؤں میں یقین رکھنا اور ان کی عبادت کرنا یا عقیدے اور عبادت کے ایسے ہی کسی نظام کو ماننا ۔‘‘
آکسفورڈ ایڈوانس لرنرز آن لائن ڈکشنری:
" The belief in the existence of a god or gods, and the activities that are connected with the worship of them, or in the teachings of a spiritual leader."
’’ ایک یا بہت سارے خداؤں کو ماننا اور ایسے اعمال کرنا جو ان کی عبادت سے منسلک ہوں یا کسی روحانی پیشواکی تعلیمات پر عمل کرنا۔‘‘
اسی طرح میریم ویبسٹر میں آپ religion کی تعریف دیکھیں:
" A personal set or institutionalized system of religious attitudes, beliefs, and practices."
’’مذہبی رویوں، عقائد، اور اعمال کا ایک ذاتی سیٹ یا ادارہ جاتی نظام۔‘‘
اسی طرح کولنزآن لائن ڈکشنری میں:
" Religion is belief in a god or gods and the activities that are connected with this belief, such as praying or worshipping in a building such as a church or temple."
’’religion ایک خدا یا بہت سارے خداؤں کو ماننے اور ایسے اعمال سرانجام دینے کا نام ہے جو اس عقیدے سے منسلک ہوں جیسے کسی بلڈنگ(چرچ یا مندر) کے اندر عبادت کرنا۔‘‘
چیمبرزآن لائن ڈکشنری میں لکھا ہے :
" 1 a belief in, or the worship of, a god or gods. 2 a particular system of belief or worship, such as Christianity or Judaism. 3 colloq anything to which one is totally devoted and which rules one's life. mountaineering is his religion. 4 the monastic way of life."
’’ (1)ایک یا بہت سارے خداؤں پر یقین رکھنا اور ان کی پرستش کرنا ۔(2)ایک خاص نظام جس میں اعتقاد اور عبادت کے تصورات موجود ہوں جیسے کہ مسیحیت اور یہودیت ۔ (3)جس چیز کی طرف انسان مکمل توجہ دینے والا ہو جائے اور جو انسان کی زندگی پر حکومت کرے یا اس پر اثرات ڈالے۔(4)خانقاہی طرز زندگی ۔ ‘‘
انگلش کی معروف ڈکشنریوں کے مطابق Religion یہ ہے کہ اپنی نجی زندگی میں کسی ایک خدا یا بہت سارے خداؤں کوماننا ، کسی عمارت کے اندر ان کی عبادت کرنا یا ان کی خوشنودی کے لیے انفرادی سطح پر کچھ اعمال کرنا وغیرہ ۔ یعنی سیکولر ازم یہ ہے کہ آپ اپنی نجی زندگی میں بے شک جس کی عبادت کریں ، انفرادی سطح پر جتنے چاہیں اعمال کریں لیکن اجتماعی سطح پر سیاست ، معاشرت اور معیشت میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چا ہیے ۔
اب آئیے اسلام کی تعریف کو ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لفظ اسلام کے عربی میں معنی سلامتی ہیں اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دین کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ سورہ آل عمران کی آیت 19میں فرمایا:
{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف} ’’یقیناً دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔‘‘
اللہ کے ہاں اسلام کے سوا کوئی اور دین قابل قبول نہیں ہے۔ آگے فرمایا:
{وَمَنْ یَّــبْـتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّــقْبَـلَ مِنْہُ ج}(آل عمران:85) ’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا تو وہ اس کی جانب سے قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص } ( البقرہ: 208 )’’اے اہل ِایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
اب پورے کے پورے اسلام میں باطن بھی آئے گا ،ظاہر بھی آئے گا، عقیدے بھی آئیں گے، انفردی زندگی بھی آئے گی اور اجتماعی زندگی کے سارے معاملات بھی آئیں گے ۔ اسلام مکمل نظام حیات ہے جو زندگی کے ہر گوشہ میں رہنمائی دیتاہے ۔ ۔ اللہ اعلان فرماتا ہے:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْـنَـکُمْ} ’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیاہے‘‘ ( المائدہ:3)
اللہ تعالیٰ نے مکمل دین عطافرمایا اور اپنے آخری پیغمبر ﷺکے مشن میں اس مکمل دین کے نفاذ کو شامل کر دیا ۔ یہ دین صرف پڑھنے پڑھانے یا کتابوں میں چھاپنے کے لیے نہیں آیا، یہ اپنا نفاذ اور غلبہ چاہتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں تین مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے مشن کو واضح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(33)}’’وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول ؐکو الہدیٰ اور دین حق دے کر تا کہ غالب کردے اسے کل کے کل دین (نظامِ زندگی) پر‘خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔‘‘ ( توبہ: 33 ، الفتح: 28 ، الصف :9)
آپ ﷺکی 23 برس کی جدوجہد اس عظیم مشن کی گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں پر اسلام کو نافذ کرکے دکھایا ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام انگریزی والا religion ہرگز نہیں ہے کہ صرف انفرادی گوشوں تک محدود رہے گا بلکہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ۔ لفظ دین کے معنی اردو میںبدلہ بھی ہیں ۔ جیسا کہ سورۃ الفاتحہ میں ہے : (مالک یوم الدین) ۔ اسی طرح دین کے معنی قانون بھی ہیں ۔ جیسا کہ سورہ یوسف میں فرمایا :
{مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ ط}( یوسف : (76’’آپؑ کے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنے بھائی کو روکتے بادشاہ کے قانون کے مطابق سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔‘‘
اسی طرح دین کا ترجمہ نظام بھی ہوتا ہے ۔
{وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج}(الانفال:39) ’’اور (اے مسلمانو!) ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (کفر) باقی نہ رہے اور نظام کل کا کل اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘
یہاں بدر کے حالات پر تبصرہ ہے اور جنگ بدر کا مقصد نہ خونریزی تھا ، نہ مال غنیمت اور نہ کشور کشائی تھا ۔ صرف ایک مقصد تھا کہ اللہ کا دین غالب ہو جائے ۔ اسی طرح دین کا لفظ اطاعت کے لیے بھی استعمال ہوتاہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط} (الزمر:3)
’’آگاہ ہو جائو کہ اطاعت ِخالص اللہ ہی کا حق ہے۔‘‘
یعنی بدلہ ،قانون ،نظام اوراطاعت ۔ خوبصورت بات یہ ہے ان مفاہیم اور معانی میں ایک ربط بھی ہے۔ بدلہ ہمیشہ قانون کے مطابق دیا جاتاہے ۔ قانون کو نافذ کرنے کے لیے نظام چاہیے اور نظام وہی ہوتا ہے جس کی اطاعت کی جائے ۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم 40 فیصد نمبر لے گا تو امتحان میں پاس ہوگا ۔ اس قانون کو نافذ کرنے کے لیے سکول کا ادارہ ہوگا اور باقاعدہ ایک نظام ہوگا اور طلبہ اس نظام کو باقاعدہ فالو کر رہے ہوں گے ۔
اہم بات یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی نظام چل سکتاہے ۔ فرعون کا بھی ایک نظام تھا ، مشرکین کا بھی نظام تھا اور ایک نظام اللہ کا ہے جس کو قائم کرنے کےلیے پیغمبر ﷺکو بھیجا گیا ۔ فرمایا :
{ اِذَا جَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ(۱)}(النصر:1) ’’جب آ جائے مدد اللہ کی اور فتح نصیب ہو۔‘‘
پہلے مشرکین کا قانون اور نظام تھا جس کو لوگ فالو کر رہے تھے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کا دین قائم کرکے دکھایا اور لوگ اس کی اطاعت کرنے لگے تاکہ آخرت میں اچھا بدلہ مل سکے ۔ لہٰذا بدلہ ، قانون ، نظام اور اطاعت باہم مربوط ہیں اور اس ربط کے لیے جامع اصطلاح نظام ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اسلام انگریزی والاreligion نہیں ہے بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے جو اپنا نفاذ چاہتا ہے
علامہ اقبال اور قائداعظم کا پاکستان
علامہ اقبال مرحوم نے جہاں مسلمانوں کے اندر جذبہ بیدار کیا، انہیں احساس زیاں دلایاوہاں مسلمانوں کو ان کے زوال کی وجہ بھی بتائی ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کراور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کراقبال نے یہ بھی بتایا کہ اصل مسئلہ کیا ہے؎
کی محمدسے وفا تونے تو ہم تیرے ہیںیہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیںہم نے قرآن کو فراموش کیا ، محمد مصطفیٰ ﷺکی سنت کو اور دیے ہوئے نظام کو فراموش کیا تو ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہوگئے ۔ پھر مسلمانوں میں احساس زیاں پیدا کرنے کےلیے فرمایا؎
چاک کردی ترک نادان نے خلافت کی قباسادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھکچھ لوگ آستین کا سانپ بنے اور انہوںنے خلافت کا نظام منہدم کرنے میں کفار کا ساتھ دیا ۔اس نظام کوازسرنو قائم کرنے کے لیے اقبال مسلمانوں کو یوں مخاطب کرتے ہیں ؎
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کاقلب وجگریہ مغرب سے درآمد شدہ نظام تو ہماری منزل نہیںہے ۔ ہمیں جو نظام قرآن نے دیا ہے اس کودوبارہ قائم کرنا ہے۔ اس حوالے سے اقبال خود یہ خوشخبری سناتے ہیں
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سےباطل قوتوں نے عیاری کے ساتھ خلافت کا نظام ختم کرکے سیکولر نظام قائم کرلیا ہے لیکن پھر ایک وقت آئے گا کہ نظام خلافت دوبارہ قائم ہوگا جہاں توحید کے تقاضوں پراجتماعی سطح پر عمل ہوگا ۔ پھر مغرب کے باطل نظام کو بے نقاب کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں ؎
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِکم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگابظاہر مغربی تہذیب اور نظام کی چمک دمک ہے لیکن حقیقت میں اس کی بنیادیں بہت ناپائیدار ہیں اور یہ اپنی خامیوں کی بدولت خود ہی زمین بوس ہو جائے گی ۔پھر علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانان ہند کے لیے شمال مغربی ہندوستان میں ایک اسلامی مملکت کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمانوں کے لیے یہ موقع ہوگا کہ اسلام پر عرب ملوکیت کےدور میں جو پردے پڑ گئے تھے ان کو ہٹا کر اسلام کی اصل تعلیمات ، قوانین اور ثقافت کو ان کی اصل روح کے ساتھ عصر حاضر سے ہم آہنگ کر سکیں ۔ یہ کسی مذہب کا نہیں بلکہ اسلام کا جامع تصور اقبال پیش کررہے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مسلم لیگ کے کچھ رہنماؤں کے غلط طرز عمل کی وجہ سے قائداعظم مایوس ہو کر برطانیہ چلے گئے تھے ۔ اقبال نے 28 مئی 1937 ء کو خط لکھ کر ان کو واپس بلایا ۔ خط کے متن کا ترجمہ پیش خدمت ہے : ’’جتنا میں نے دنیا کے مسائل پر غور کیا اسلامی شریعت کے سوا کہیں ان کا حل موجود نہیں مگر شریعت اپنا نفاذ چاہتی ہے اور اس کا نفاذ تب ہی ممکن ہوگا جب ہمارے پاس ایک علیحدہ مسلم ریاست موجود ہوگی ۔ ‘‘
یہ ہے اقبال کا نظریہ ٔپاکستان۔ وہ کہتے ہیں؎
سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزریاقبال کے نظریات سے واضح ہے کہ وہ اسلام کو مکمل نظام حیات سمجھتے تھے اور پاکستان میں اس کا عملاً نفاذ چاہتے تھے ۔ اسی بات کا حکم اللہ تعالیٰ قرآن میں تین بار دیتا ہے :
{ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِط} ’’اختیارِ مطلق تو صرف اللہ ہی کاہے۔‘‘( سورہ یوسف :40)
قائد اعظم کے صرف ظاہری حلیے پر مت جائیے ۔ 11 اگست 1947ء کی تقریر کا حلیہ بگاڑا گیا ، جسٹس منیر نے بھی بددیانتی کی اور غلط مطلب نکالنے کی کوشش کی گئی ۔ ظاہر ہے پاکستان میں ہندو بھی ہیں ، سکھ بھی ہیں ، دیگر اقلیتیں بھی ہیں ان کو اس تقریر میں ایک تسلی دی گئی تھی ۔ لیکن 11 اگست سے پہلے کی تقریریں بھی موجود ہیں اور بعد کی تقریریں بھی موجود ہیں ۔24 دسمبر 1938ۓء کو اپنے ایک خطاب میں قائداعظم نے فرمایا :’’ مجھے اسلام کا جھنڈا لہرانے پر آپ لوگوں نے بہت عزت دی ۔ یہ مسلم لیگ کا جھنڈا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ تمام مسلمان اس جھنڈے تلے جمع ہو جائیں ۔ جب مسلمان اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دےسکے گی ۔‘‘ 22 سے 24 مارچ 1940ء کے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قائداعظم نے فرمایا تھا: ’’اسلام کےخادم کی حیثیت سے آگے بڑھیے اور لوگوں کو اقتصادی وسماجی تعلیم اور سیاسی اعتبار سے منظم کیجیے، مجھے توقع ہے کہ اس طرح آپ ایک قوت بن جائیں گے جس کو پوری دنیا تسلیم کرے گی۔‘‘ اگست 1941ء میں دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: (ترجمہ) ’’اسلامی حکومت میں اطاعت صرف خدا کے لیے ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود معین کرتے ہیں۔ ‘‘ یعنی اسلام میں اطاعت صرف اللہ کے لیے ہے ، اطاعت کا واحد طریقہ قرآن کے ذریعے ہے، اسلام پارلیمنٹ یا کسی ادارے کی اطاعت کی بات نہیں کرتا ۔ اسلامی حکومت کا مطلب ہے قرآن کی حکمرانی اور تم ایک آزاد ریاست کے بغیر قرآن کی حکمرانی کیسے قائم کر سکتے ہو؟‘‘
اسی طرح 4 اپریل 1943ء کو فرمایا :’’ آپ نے مجھ سے پیغام کی درخواست کی ہے ۔ ہمارے پاس قرآن مجید کی شکل میں عظیم ترین پیغام پہلے ہی موجود ہے جو ہمارے لیے ہدایت و مشعل راہ ہے۔‘‘مارچ 1944ء میں غیرمسلم اقلیتوں کو یقین دلایا کہ اگر پاکستان قائم ہوگیا تو ان کے ساتھ رواداری ، انصاف اور فیاضی کا معاملہ ہو گا۔ اقلیتوں کو یہ حقوق قرآن مجید نے دیے ہیں ۔ 25جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ’’اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ایک مخصوص گروہ جان بوجھ کرکیوں فتنہ اندازی پھیلا رہا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر نہیں ہوگا ۔‘‘ اسی طرح 25 جنوری 1948ء کو سٹیٹ بینک پشاور برانچ کے افتتاح کے موقع پر فرمایا :’’ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ ہمارےپاس موقع ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات پر مبنی عادلہ نظام دنیا کے سامنے پیش کریں ۔‘‘ پھر اپنی وفات سے دو تین دن قبل اپنے ذاتی معالج ڈاکٹرریاض علی شاہ سے فرمایا :’’ سنو ! جب مجھے یہ احساس ہوتاہے کہ پاکستان بن گیا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتاہے ۔ یہ کام مشکل تھا اور میں اکیلا کبھی نہیں کر سکتاتھا، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خداﷺ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آگیا اب پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں ۔ ‘‘
آج جو لوگ کہتے ہیں کہ قائداعظم سیکولر تھے ، ہمیں مولویوں والا اسلام نہیں چاہیے بلکہ قائداعظم والا اسلام چاہیے تو وہ ذرا درج بالا بیانات سے خود اندازہ لگائیں کہ قائداعظم کا اسلام کیا تھا؟وہ توقرآن کے نظام کی بات کرتے تھے ، شریعت کے نفاذ کی بات کرتے تھے ۔ ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ اس کے باوجود بھی اگر سیکولر طبقات یہ کہتے ہیںکہ قائداعظم سیکولر سٹیٹ چاہتے تھے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ قائداعظم کو دھوکے باز ، جھوٹا اور بددیانت کہتے ہیں ۔ پھر یہ کہ ہمارے باپ دادا نے جو قربانیاںدی ہیں، جو لاکھوں جانیں قربان کی ہیں ، اپنے گھر بار، کاروبار چھوڑے ہیں ۔ یہ ساری قربانیاں کیوں دی گئیں؟ اگرسیکولر ملک ہی بناناتھاتو کیا انڈیا میں سیکولر ازم نہیں تھا ؟ ہمارے آباء و اجداد پر اتنا بڑا الزام لگاتے ہو؟
بھارت سیکولرازم کے نام پر بنا تھا ، آج وہاں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے ؟ امریکہ ایک سیکولر ریاست ہے لیکن وہاں فلسطینیوں کے قاتل نیتن یاہو کا کس طرح استقبال کیا گیا ؟ آج کا سیکولر برطانیہ کیوں اسلامو فوبیا کا شکار ہو چکا ہے ؟ کیا یہ حقائق ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہیں ؟ یہ تمام سیکولر سٹیٹس جمہوریت ، انسانی حقوق اور آزادی کی چیمپئن بنتی ہیں لیکن غزہ میں ہزاروں بچوں کو شہید کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ آج امریکہ ، برطانیہ ، بھارت کس طرح اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں ؟
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجاتہمارےمسائل کا حل اسلامی پاکستان میں ہے، سیکولر پاکستان میں تباہی کے سوا کچھ نہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطافرمائے ۔ آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2025