(اداریہ) نظریۂ پاکستان اور سیکولر عناصر - خورشید انجم

9 /
 اداریہ
خورشید انجم 
 
 نظریۂ پاکستان اور سیکولر عناصر
 
تحریک پاکستان کی سمت واضح تھی ، نظریہ واضح تھا اور قیام پاکستان کا مقصد بانیان پاکستان اور پاکستان کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے والوں کے نزدیک بالکل واضح تھا اور وہ مقصد صرف ’آزادی ‘ نہیں بلکہ ’اسلامی نظریہ‘ تھا۔ یہی نظریۂ پاکستان کے تصور اور اس کی تحریک کی بنیاد تھا لیکن سیکولر سوچ اور مغربی تہذیب کے غلبے کے خواہشمندلوگ جو مذہب اور ریاست کی علیحدگی کے اصول کے قائل ہیں ، اس بنیاد کو کمزور اور پاکستان کے حقیقی ویژن کو غبار آلود کرنے کے لیے مسلسل پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ قائد اعظم تو سیکولر تھے اور سیکولر سٹیٹ چاہتے تھے اور یہ کہ نظریۂ پاکستان کی اسلامی تعبیر محض چند انتہا پسند ملاّئوں کی اختراع ہےجو پاکستان کی ترقی وخوش حالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ چنانچہ سب سےپہلے ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ کون ہے ، اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ  نظریۂ پاکستان ، تصور پاکستان اور تحریک پاکستان کی بنیاد اسلام پر تھی یا سیکولرازم پر ۔ جہاں تک پاکستان کی ترقی کا تعلق ہے تو  77 سال سے پاکستان کے نظامِ سیاست ، نظامِ معیشت اور نظامِ معاشرت پر سیکولر اشرافیہ کا راج ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میںایک دینی طبقہ کی حکومت قائم ہوئے ابھی بمشکل تین سا ل ہوئے ہیں ، وہاں آج لوگوں کو انصاف مل رہا ہے ، وہاں لوگ بجلی ، گیس کے بلوں اور مہنگائی کے عذاب کی وجہ سے خودکشیاں نہیں کر رہے ، بھائی بھائی کا گلا نہیں کاٹ رہا ۔  حالانکہ چالیس سال سے وہ ملک حالت جنگ میں تھا ۔ اس لحاظ سے تو آج وہاں اس سے زیادہ انتشار ، افراتفری ، قتل و غارت گری ، مہنگائی کا عذاب اور طرح طرح مصائب ہونے چاہئیںتھے ، جو کہ آج پاکستان میں ہیں اور پاکستان میں جہاں 77 سال سے سیکولر اشرفیہ کا جادو ہر ادارے اور ہر شعبہ میں سر چڑھ کر بول رہا ہے، یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہونی چاہئیں تھیں ۔ لیکن وقت اور حالات بتا رہے ہیں کہ گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دین یا دینی طبقہ ترقی ، انصاف اور خوش حالی کے راستے میں رکاوٹ ہرگز نہیں ہیں اور نہ ہی سیکولرازم انسانیت کے لیے کوئی نجات دہندہ قسم کا نظام ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج غزہ میں بچوں کو ذبح نہ کیا جارہا ہوتا ، نہ امریکہ جیسی سیکولر سٹیٹ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے مرتکب اور عالمی عدالت انصاف سے اشتہاری مجرم قرار پانے والے نیتن یاہو کا والہانہ استقبال ہوتا ، نہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں اسلاموفوبیا کے مرض میں مبتلا ہوکر مذہبی تعصب میں مبتلا لوگ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہوتے ، نہ مسلم خواتین کے حجاب نوچے جارہے ہوتے ۔ معلوم ہوا کہ سیکولرازم کا پرچار کرنے والوں کے دعوے کھوکھلے ہیں ۔ 
اب آئیے اس بات کی طرف کہ پاکستان کے نظریہ ،تصور ، تحریک اور قیام کی بنیاد کیا تھی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ دو قومی نظریہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد پہلی دو دہائیوں میں ہی وجود میں آچکا تھا ، جب اردو اور ہندی تنازعہ نے زور پکڑا تو سرسید احمد خان وہ پہلے مسلم رہنما تھے جنہوں نے محسوس کیا کہ مستقبل میں ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکیں گے اور اسی وجہ سے جب کانگریس کا قیام عمل میں آیا تو سرسید احمد خان نے کانگریس کو ہندواکثریت کی نمائندہ جماعت قراردیتے ہوئے مسلمانوں کو اس میں شمولیت سے روکا تھا ۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز تک کئی اہلِ علم و اہلِ بصیرت مسلم رہنماؤں کو شدت سے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ ہندو انگریز کی پشت پناہی میں جس غاصب ہندو توا کے نظریہ کو پروان چڑھا رہے ہیں، اس کا لازمی نتیجہ اور ہدف بالآخر ایک ایسا ہندوستان ہوگا جس میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی اور نہ ہندوتوا کے نظریہ’’ اکھنڈبھارت‘‘ کے علاوہ کسی اور نظریہ کو پنپنے کی اجازت ہوگی۔ اسی خطرے کا ادراک تھا جس نے 1915ء میں ہی چودھری رحمت علی کو الگ مسلم ریاست کا تصور پیش کرنے پر مجبور کردیا تھا ۔ انہوں نے لاہور میں بزمِ شبلی کے زیر اہتمام ایک جلسہ میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :’’ شمالی ہند آبادی کے لحاظ سے مسلم ہے اور ہم اسے مسلم ہی برقرار رکھیں گے ، یہی نہیں بلکہ ہم اسے مسلم ریاست بنائیں گے لیکن ہم ایسا تبھی کر سکتے ہیں جبکہ ہم خود اور ہمارا شمالی ہند ’’ہندوستانی‘‘ نہ رہیں ۔ کیونکہ یہ پہلی شرط ہے ۔ ہم جس قدر جلد ’’ہندیت‘‘اُتار پھینکیں گے اسی قدر یہ ہمارے لیے اور اسلام کے لیے بہتر ہوگا‘‘ (تحریک پاکستان، ص: 328) جنگ عظیم اوّل کے فوراً بعد بدنام زمانہ ہندو دہشت گرد تنظیم RSS کی بنیاد رکھی گئی اور  خفیہ ٹریننگ سنٹرز میں انتہا پسند ہندوؤں کو اسلحہ کی تربیت بھی دی جانے لگی ۔RSS جیسی انتہا پسند ہندو تنظیموں کا واحد خواب اکھنڈ بھارت تھا جس میں ان کے نزدیک مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہ تھی ۔ آج وہی انتہا پسند ہندو تنظیمیں بی جے پی کے پلیٹ فارم سے بھارت پر مسلط ہیں اور مسلمانوں کو بھارت سے ختم کردینا چاہتی ہیں ۔ علامہ اقبالؒ کا   خطبہ الٰہ آباد بھی پاکستان کے اسی تصور کا عکاس ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا :یہ ہمارے پاس موقع ہوگا کہ دور ملوکیت میں اسلام پر جو پردے پڑ چکے ہیں ان کو ہٹا کر اسلام کا اصل اور روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرسکیں ۔ اقبال کی شاعری میں بھی جا بجا سیکولر ازم کی نفی ہے اور اقبال سیاست ، معیشت اور معاشرت کو دین سے جدا کرنے کے قائل نہ تھے ۔ ؂
جدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان تحریک پاکستان کے اہم ترین سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس اجلاس میں قائداعظم سمیت دوسرے مسلم قائدین کی تقاریر بھی موجود ہیں جن میں دوقومی نظریہ کا باربار ذکر ہے اور اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں کو الگ قوم قرار دے کر اس کے لیے الگ وطن کا مطالبہ بھی دہرایا گیا ۔ ایسا بھی ہرگز نہیں تھا کہ بانیان پاکستان کا موقف پہلے کچھ اور تھا اور بعد میں کچھ اور، بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی ان کا موقف وہی رہا ۔ چنانچہ 13 جنوری1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:’’اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھابلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھےجہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘
ثا بت ہوا کہ دو قومی نظریہ ، تصور پاکستان ، تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی بنیاد اسلام تھا نہ کہ سیکولرازم یا کوئی اور نظریہ ۔ یہاں اس ابہام کا بھی خاتمہ ہو جانا چاہیے کہ بانیان پاکستان کے نزدیک کس قسم کااسلام پاکستان میں مطلوب تھا ۔ سیکولر ازم کی اصطلاح کے جتنے بھی معانی اور مفاہیم بیان کیے جاتے ہیں ان سب میں مشترک ایک ہی چیز ہے کہ مذہب کا اجتماعی نظام ، یعنی نظامِ ریاست ، نظامِ سیاست ، نظامِ معیشت یا نظامِ معاشرت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے جبکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کے انفرادی اور اجتماعی تمام گوشوں کےلیے رہنمائی دیتا ہے ۔ اجتماعی زندگی میں سیاست ، معاشرت اور معیشت شامل ہیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ بانیان پاکستان کے نزدیک پاکستان میں کونسا اسلام مطلوب تھا ۔ چنانچہ 3فروری1938ءکو طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا :’’اسلام کے معنی صرف مذہب نہیں ہیں۔ اسلام کا مطلب ہے ایک ضابطہ حیات جس کا دنیا میں اور کوئی ثانی موجود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل قانونی ، عدالتی ،معاشرتی اور معاشی نظام ہے۔ اس کے اساسی اور بنیادی اصول ہیں مساوات، اخوت اور آزادی۔‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ قائد اعظم دین اسلام کو محض ایک پوجا پاٹ کا مذہب تصور نہ کرتے تھے بلکہ وہ اسے اجتماعی زندگی کا مکمل ضابطہ تصور کرتے تھے۔ اسی طرح قائد اعظم کے نزدیک اسلام محض روحانی نظریۂ نہیں بلکہ انفرادی واجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی نظام ہے۔ چنانچہ 8ستمبر 1945ء میں قائد اعظم کے ’پیغامِ عید ‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’اسلام محض روحانی عقائد اور نظریات یا رسم و رواج کی ادائیگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطۂ  حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے۔ زندگی کے ہر شعبے پر   من حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے۔‘‘قیامِ پاکستان کے بعد 11 اکتوبر1947ء کو حکومت پاکستان کے اعلیٰ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا:’’پاکستان کو معرضِ وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جو ہماری تہذیب وتمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں کو پوری طرح پنپنے کا موقع مل سکے۔‘‘اسی طرح قائد اعظم کی نظر میں مغرب کا معاشی نظام انسانیت کو خوش حال بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انہوں نے ملک کے معاشی نظام کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سٹیٹ بنک میں ایک شعبۂ تحقیق قائم کیا۔ یکم جولائی1948ء کو اس کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے اس بات سے بہت دلچسپی رہے گی کہ میں معلوم کرتا رہوں کہ یہ ریسرچ سیل بنکاری کے ایسے طریق کار کیوںکر وضع کرتا ہے جو سماجی ومعاشی زندگی کے اسلامی نظریات کے مطابق ہوں۔ مغربی معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ مغربی نظام انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں کش مکش اور چپقلش دُور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر ہم نے معیشت کا مغربی نظام اختیار کیا تو عوامی خوش حالی کی منزل ہمیں حاصل نہ ہو سکے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایسا معاشی نظام پیش کرنا ہے جو مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر قائم ہو۔ ایسا کر کے گویا ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا فرض انجام دیں گے۔‘‘  گویا قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں اسلام کی قوالی گائی ہے:اب رہی قائد اعظم کی11اگست1947ء کی تقریر ، تو اس کا صرف ایک جملہ ایسا ہے کہ جسے سیکولر ذہن رکھنے والے دانشوروں نے سیکولرزم کی بنیاد قرار دے لیا ہے‘ اور جسٹس منیر نے تو اس ایک جملے پر پوری کتاب لکھ دی ہے۔ حالانکہ اس جملے کا بھی95 فیصد حصہ اسلامی ہے‘ صرف 5 فیصد حصہ ایسا ہے جس کی مختلف تعبیرات کی گئی ہیں اور اس سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے ۔ اس خطاب میں انہوں نے کہا تھا:’’آپ آزاد ہیں‘ آپ کو اپنے معبدوں میں جانے کی اجازت ہے‘ پاکستان کی اس ریاست میں آپ کو اپنی مساجد یا کوئی بھی دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی ہے‘‘۔اوریہ بالکل صحیح ہے کہ اسلامی ریاست میں بھی مذہبی آزادی سب کو ملتی ہے۔اس تقریر میں قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’مذہب ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے‘‘اس وقت پوری دنیا کا اصول یہی ہے۔ البتہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے یہ مذہب نہیں ہے‘ بلکہ دین ہے اور پوری زندگی کا نظام دیتا ہے‘ اور یہ بات قائد اعظم بھی اپنی تقاریر میں کہہ چکے ہیں۔اگر قائد کے اس جملے کو ان کی بقیہ تقاریر کی روشنی میں سمجھا جاتا تو غلط فہمی کا امکان پیدا نہ ہوتا۔ لیکن سیکولر حلقے اس کی جو تعبیر کر رہے تھے قائد اعظم نے خود اس کی نفی کر دی تھی۔ چنانچہ اس تقریر کے 5ماہ بعد 25 جنوری1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے دوٹوک انداز میں فرمایا تھا :
’’اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ اندازی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدوّن نہیں کیا جائے گا‘‘۔  یعنی جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کے مطابق نہیں بنے گا وہ فتنہ پرور اور شرارتی ہیں اور غلط پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔  مذکورہ بالا فرموداتِ قائد اعظم سے ثابت ہوا کہ سیکولر ازم کے برعکس قائداعظم پاکستان کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام میں اسلام کا نفاذ چاہتے تھے۔ کیا ان خیالات کے حامل شخص کو کسی طرح بھی سیکولر کہا جاسکتا ہے ؟اس کے علاوہ بھی قائداعظم اور علامہ اقبال کے سینکڑوں خطبات اور بیانات آن دی ریکارڈ ہیں جو سیکولرعناصر کے دعویٰ کی نفی کرتے ہیں ۔ ہم نے یہاں بانیان پاکستان کے چند ایک اقوال اور تحریک پاکستان کا مختصر سا تعارف پیش کیا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ نظریہ ٔپاکستان اور بانیان پاکستان کے ویژن کو غبار آلود کرنے والوں کی تسلی کے لیے درج بالا دلائل کافی ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ دل ، آنکھیں اور دماغ عطا فرمائے جو سچ کو دیکھ ، سن اور پہچان سکے ۔ آمین !