الہدیٰ
نزول ہدایت کا تسلسل اور اہل ِ کتاب میں سے بعض کا قبول حق
آیت 51{وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَہُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ(51)} ’’اور ہم نے لگاتار بھیجا اُن کے لیے اپنا کلام تا کہ یہ نصیحت اخذ کریں۔‘‘
لوگوں کو راہِ راست دکھانے کے لیے ہم مسلسل ہدایت بھیجتے رہے ہیں۔ چنانچہ تورات ‘زبور ‘انجیل اور قرآن اسی ’’سلسلۃ الذھب‘‘ (سنہری زنجیر)کی کڑیاں ہیں۔یہاں پر وَصَّلْنَا کا اشارہ اہل مکّہ کے ’’سِحْرٰنِ تَظَاہَرَا ‘‘کے الزام کی طرف بھی ہو سکتا ہے کہ جن کتابوں کو یہ لوگ جادو قرار دے کر ان میں باہمی گٹھ جوڑ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے اندر واقعی وصل ہے‘اس لیے کہ وہ ایک ہی سلسلۂ ہدایت کی کڑیاں ہیں۔
آیت 52{اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ہُمْ بِہٖ یُؤْمِنُوْنَ(52)} ’’جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس (قرآن) پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دل سے مانتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔
آیت ۵۳{وَاِذَا یُتْلٰی عَلَیْہِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ } ’’اور جب یہ (قرآن) انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے ‘‘
{اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ (53)} ’’یقیناً یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہے‘ ہم تو اس سے پہلے ہی مسلم تھے۔‘‘
یعنی اس سے پہلے بھی ہم انبیاء و رسل ؑ اور آسمانی کتب کے ماننے والے تھے اور اب محمد رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کتاب لے کر آئے ہیں تو اس کو بھی ہم نے مان لیا ہے۔ لہٰذا ہمارے دین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ہم پہلے بھی مسلمان تھے اور اب بھی مسلمان ہیں۔ تورات اور انجیل کی پیشین گوئیوں کی بنا پر ہم پہلے ہی تسلیم کر چکے تھے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور یہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔
درس حدیث
ذکر کی اہمیت اور فضیلت
عَنْ مُعَاذٍ ؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ اَخَذَ بِیَدِہٖ، وَقَالَ: :((یَامُعَاذُ، وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَاُحِبُّکَ فَقَالَ: اُوْصِیْکَ یَامُعَاذُ لَا تَدَعَنَّ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلٰوۃٍ تَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ، وَشُکْرِکَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ))(رواہ ابودائود)
حضرت معاذ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن میرا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر فرمایا: ’’اللہ کی قسم! اے معاذ مجھے تجھ سے محبت ہے! اور تم کو اسی جذبہ کے ساتھ ہدایت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنی ترک نہ کرنا۔ اللھم اعنی علی ذکرک و شکرک و حسن عبادتک، (اے اللہ تو اپنے ذکر، اپنے شکر، اور حسن و خوبی کے ساتھ اپنی عبادت ادا کرنے میں میری مدد فرما) ‘‘۔
تشریح: اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ قرآن مجید میں ہے، اللہ کا بہت ذکر کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ذکر کی ایک صورت دعا ہے، جو عبادت کا مغز بلکہ سراسر عبادت ہے۔ فرض نماز کے بعد دعا کو شرف قبولیت حاصل ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو دعا کے یہ الفاظ سکھائے جن میں اللہ تعالیٰ سے ذکر شکر اور حسن عبادت کی توفیق مانگی گئی ہے۔ اللہ کی توفیق کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔