(ختم نبوت) عقیدہ ختم نبوت ،آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کا قادیانی مبارک ثانی نظر ثانی کیس کا فیصلہ - نعیم اختر عدنان
11 /
عقیدہ ختم نبوت ،آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کا قادیانی مبارک ثانی نظر ثانی کیس کا فیصلہ
نعیم اختر عدنان
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے قادیانی مبارک ثانی ضمانت کیس کا فیصلہ 26فروری 2024 کو جاری کیا ،جس میں مبارک ثانی کی ضمانت کے لیے درخواست پر اُس کے خلاف کیس ہی خارج کر دیا گیا اور اُس کی ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم نا مہ جاری کیا ،جس کے خلاف علمائے کرام اور دینی جماعتوں اور مذہبی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اس فیصلے کی مذمت اور مخالفت سامنے آ نے لگی ،جس کے جواب میں سپریم کورٹ کے ترجمان نے وضاحتی بیان جاری کیا کہ اس فیصلے میں اگر کچھ غلط ہوا ہے تو دینی ادارے اور علماء عدالت میں نظر ثانی کی اپیل دائر کریں اور اپنے دلائل تحریری صورت میں اور سماعت کے دوران بھی مذکورہ عدالت کے سامنے رکھیں تاکہ فیصلہ میں اگر غلطی ہے تو اس کا ازالہ ہوسکے۔ بہرحال مبارک ثانی نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی ،نظرثانی درخواست میں دلائل پیش کئے گئے اور دینی اداروں ، اسلامی نظریاتی کونسل کی آ را کی سماعت ہوئی اور متذکرہ بینچ نے 24 جولائی کو فیصلہ سنایا ،جس میں اپنے سابقہ فیصلے ہی کو برقرار رکھا اور علماء اور دینی جماعتوں اور اداروں کے موقف کو تسلیم نہ کرتے ہوئے نظر ثانی کی اپیل کو مسترد کردیا ، نظر ثانی کیس کے فیصلے کے خلاف احتجاج علماء اور دینی اداروں کی جانب سے سامنے آیا۔ اس فیصلے کے خلاف پورے ملک میں احتجاج اور مذمت کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔اس مرتبہ احتجاج اور مخالفت و مذمت کی صدائیں قومی اسمبلی سے بھی بلند ہوئیں ۔ مختلف جماعتوں سے وابستہ اراکین اسمبلی اور ایوان کے سپیکر نے بھی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ! تاہم پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جناب عبد القادر پٹیل نے جس دبنگ انداز سے مدلل انداز میں اظہار خیال بلکہ خطاب کیا، وہ اس لائق ہے کہ اسے من وعن ہر خواص وعام تک پہنچنا چاہیے ۔چنانچہ اسی نیت اور ارادے کے ساتھ موصوف کا خطاب ان کے شکریہ کے ساتھ نذر قارئین کیا جارہاہے تاکہ حق بحق دار رسید کا تقاضا پورا ہوسکے۔
’’جناب سپیکر!سپریم کورٹ کے قادیانیوں سے متعلق حالیہ فیصلہ پر ہمیں بھی اتنا ہی جوش ، اتنا ہی غم اور اتنا ہی غصہ ہےجس قدر اس فیصلے کے خلاف کسی عالم دین ،کسی نمازی پرہیز گار مسلمان کو آ یا ہے۔ جناب سپیکر! پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو انفرادی طور پر یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کوسزا دینے کا اعلان کرے یا کسی کے قتل کا فتویٰ دے ، یہ رویہ درست نہیں تو جناب کسی ادارے کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ماورائے آئین ایسے غلط اور متنازع فیصلے صادر کرے کہ لوگ پھر فتوے دینے لگیں ۔جناب سپیکر یہ آپ بھی جانتے ہیں ،میں بھی جانتا ہوں یہ ایوان بھی جانتا ہے کہ کچھ ایسی باتیں اور معاملات ہوتے ہیں جن پر ہم اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ انہی معاملات میں سے زیر بحث معاملہ کا بھی تعلق ہے بلکہ یہ معاملہ ان تمام معاملات میں سر فہرست آ تا ہے۔ اس وقت جو فیصلہ زیربحث ہے اگر اس کے تناظر میں دیکھیں اور اس پر گفتگو کریں تو جس طرح مجھ سے قبل ایک فاضل رکن نے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ، دیگر ممبران کے بھی یہی احساسات و جذبات ہوںگے اور ہیں۔جناب سپیکر! میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ درحقیقت یہ فتنہ، وہ بھی انسانی حقوق کے نام پر مغربی ممالک کی جانب سے پھیلایا جارہا ہے۔ یہ مرتد لوگ (مراد قادیانی اور احمدی جماعت کے لوگ ) باہر کے ملکوں میں جاکر یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ان پر پاکستان میں مذہب کے حوالے سے بہت ظلم اور ناانصافی ہورہی ہے۔ اس جھوٹے اور من گھڑت پراپیگنڈے پر مبنی سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں ویڈیوز موجود ہیں جو کہ ہم سب کے علم میں ہیں ۔جناب سپیکر! چونکہ مغربی دنیا دین اسلام سے لاعلم ہے ،بے خبر ہے تو وہ اپنی لاعلمی اور بے خبری و جہالت کی وجہ سے ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم قادیانیوں اور احمدیوں کو کیوں مسلمان تسلیم نہیں کرتے۔اس معزز ایوان میں میں نے ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے حوالے سے توجہ دلائی تھی ،کہ جس میں قادیانیوں کو بھی مسلمانوں کا ایک فرقہ قرار دیا گیا تھا ،جو کہ ایک غلط بات ہے۔ جناب سپیکر! اب میں آ تا ہوں اصل زیر بحث معاملہ کی جانب ۔بات یہ ہے کہ ہم اس ہاؤس کےذریعے مغربی دنیا اور اس کے کارندوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو یہ بتانا چاہتے ہیں۔ ان کے جھوٹے قصیدہ خوانوں کو ،انسانیت کے جھوٹے نعرے بلند کرنے والے افراد اور اداروں کو۔ لاؤڈ اینڈ کلیئر الفاظ میں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جرم کا ارتکاب ہم مسلمان نہیں کررہے بلکہ حملہ تو ہم مسلمانوں پر ہورہا ہے ۔ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ قادیانیوں ،احمدیوں کو مسلمان کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ تو ہمارا موقف بڑا واضح ہے وہ یہ کہ یہودی حضرت موسیٰ ؑ کو اپنا نبی مانتے ہیں اور تورات کو آسمانی کتاب مانتے ہیں۔ اس لیے وہ یہودی کہلاتے ہیں اور ٹھیک ہی کہلاتے ہیں۔ لیکن اگر یہودی موسیٰ ؑ کے بعد آنے والے کسی نبی کو مان لیں اور ان پر ایمان لے آئیں تو کیا اب بھی وہ یہودی ہی رہیں گے۔ اس کا جواب نفی میںہے( Answer is no ) ۔ اسی طرح اگر عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کو اپنا پیغمبر مانتے ہیں اور انجیل کو مقدس آ سمانی کتاب تسلیم کرتے ہیں تو اس پر مجھ سمیت کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر وہ عیسیٰ ؑ کے ساتھ محمدﷺ کو بھی نبی مان لیں ،ان پر ایمان لے آئیں تو کیا اب وہ عیسائی ہی رہیں گے۔ تو جواب ہوگا نہیں۔ اب وہ عیسائی نہیں رہے( Answer is no )۔ تومیرے بھائیو بالکل اسی طرح یہ قادیانی، یہ احمدی نبی اکرمﷺ کے ساتھ ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کوبھی نبی، رسول کی حیثیت سے مانتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں تو یہ وجہ ہے کہ یہ ختم نبوت کے عقیدہ کے منکر ہیں۔ لہٰذا یہ خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتے اور نہ ہی یہ مسلمان ہیں۔ آئین پاکستان میں یہ چیز وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ جناب سپیکر! یہ قادیانی لوگ تو مسلمانوں پر حملہ آور ہیں۔ یہ اسلام کا ٹائٹل استعمال کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا تشخص اختیار کرتے ہیں اور دھوکہ بازی کرتے ہیں۔ ہم مغربی ممالک سے کہنا چاہتے ہیں کہ تم ان کومذہبی بنیادوں پر سیاسی پناہ دو۔نام نہاد مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کا پرچم بلند کرو مگر ہم انہیں مسلمان تسلیم نہیں کریں گے ۔ایک سوال ہے کہ مغرب میں بننے والی کسی فلم کا چربہ بنا لیا جائے ۔ Piracy کا ارتکاب ہو تو کاپی رائٹ ایکٹ متحرک ہوجاتا ہے۔ چنانچہ آج عالمی سطح پر جعل سازی کی روک تھام کے لیےقانون بن گیا یعنی کاپی رائٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کو بہت سنگین جرم قرار دیا گیا۔جناب سپیکر! آج یہ کافر خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ اپنی خودساختہ تحریف ، تفسیر اور تشریح کو قرآنی تفسیر کا نام دیتے ہیں۔ تو جناب سپیکر اس حوالے سے ختم نبوت پر ڈاکہ مارنے والوں پر اور اسلام کے نام پر جعل سازی کرنے والوں پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔پوری دنیا اس حوالے سے اندھی بہری بنی ہوئی ہے۔ اس جعل سازی پر انہیں اسلام کے کاپی رائٹ کا حق نظر نہیں آتا۔ ہمارے اس معزز اور مؤقر ایوان سے ساری دنیا کے سامنے ہمارا یہ موقف جانا چاہیے ۔ جناب سپیکر! ان دنوں عدلیہ کی جانب سے جو ’’عظیم ‘‘ فیصلے دئیے جارہے ہیں۔ ان عظیم فیصلوں میں قادیانی مبارک ثانی کیس کا نظر ثانی فیصلہ بھی شامل ہے۔ حالانکہ ختم نبوت کا عقیدہ اور آ ئین و قانون میں درج تفصیل بڑی واضح ہے۔ ختم نبوت کے مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے طے کردیا گیا ، ایک مہر ثبت کردی گئی ہے۔ میں جب تک ایک بھی مسلمان موجود ہے ،ایک بھی کلمہ گو زندہ ہے، اس وقت تک ایسے غلط فیصلوں کے ذریعےکچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ کیا مقصدحاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ایسے غلط فیصلوں پر عمل ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی ہو سکتا ہے۔ختم نبوت کے عقیدہ سے متعلق معاملات کو ازسر نو زیر بحث نہ لایا جائے۔ یہ معاملہ حل ہوچکا ۔ یہ طے شدہ بات ہے۔ یہ کلوزڈ چیپٹر ہے۔ اس پر مہر لگ چکی ہے ۔ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ یہ مرتد لوگ اور ان کا خود ساختہ اور جھوٹا نبی (مرزا غلام احمد قادیانی) اپنی کتابوں میں کیا کچھ نہیں کہتا۔ یہ مرتد گروہ اپنی کتابوں کی ان متنازع عبارات کا انگریزی زبان میں ترجمہ نہیں کراتا، وہ اس لیے کہ مرتد غلام احمد قادیانی نے اپنی کتابوں میں حضرت عیسیٰ ؑ، حضرت مریم سلام اللہ علیہا اور دیگر محترم شخصیات کے خلاف انتہائی گستاخانہ ،غلیظ اور گھٹیا الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ایسے ہی شہدائے کربلا کے لیے بھی ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جنہیں کوئی مسلمان دہرانا تو دور کی بات ہے سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ جناب سپیکر ! میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لوگوں کے قتل کے فتوے نہیں دیئے جانے چاہئیں مگر میں یہ بھی کہوں گا کہ غلط اور غیر آ ئینی و غیر قانونی فیصلوں کے ذریعے ایسا ماحول بھی پیدا نہ کیا جائے کہ کسی کو قتل کا فتویٰ دینا پڑے ۔ مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ اہم اورلازوال دولت نبی کریمﷺ کی ذات ہے۔ ختمی مرتبت حضورﷺ کی ذات ہی ہمارا سب کچھ ہے ۔ختم نبوت کے طے شدہ مسئلہ کو کسی بھی سطح پر نہ چھیڑا جائے ۔ آپﷺ آ خری نبی تھے ،آپ ﷺ آ خری نبی ہیں اور آخری نبی رہیں گے۔جب تک مسلمان زندہ ہیں اور ان کی سانسیں چل رہی ہیں وہ اس مسئلہ پر کوئی آ نچ نہیں آ نے دیں گے ۔ جناب سپیکر! سپریم کورٹ کے ان ججوں کو بھی بتائیں جنہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کے اس فیصلہ کے نتیجے میں جو فتنہ و فساد کا ماحول بن رہا ہے یہ ماحول ججز حضرات خود پیدا کررہے ہیں ۔ آ نے والے حالات کے ذمہ دار یہ فیصلہ صادر کرنے والے ججز ہوں گے نہ کہ ہم اور عوام۔ یہ فتنے نہیں ہونے چاہیں۔ جناب سپیکر! یہاں تک تو میں آپ کے ساتھ ہوں، لیکن فتنہ پیدا کرنے والوں کو بھی بتا دیا جائے کہ 25 کروڑ آ بادی کے غالب مسلم اکثریتی ملک میں اپنے متنازعہ ،غلط اور غیر آ ئینی و خلاف قانون فیصلوں سے یہ لوگ فتنہ کا ماحول پیدا کررہے ہیں ۔ یہ لوگ لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور دیگر مرعات وصول کرتے ہیں۔ یہ عوام ہی کے ٹیکس کا پیسہ ہے۔ مگر یہ لوگ ملک اور قوم کو اپنے غلط فیصلے کے ذریعے آگ و خون میں دھکیلنااور جھونکنا چاہتے ہیں، یہ لوگ ہمارے دینی اور مذہبی جذبات سے کھیلنا چاہتے ہیں، ہم ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے۔ جناب سپیکر! ان لوگوں کو یہ بھی بتا دیا جائے، میں آپ کے ذریعے عرض کروں گا ، ادب سے کہوں گا ،ہاتھ جوڑ کر کہوں گا کہ اس نازک اور حساس ترین معاملے پر کوئی نئی کمیٹی بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔کسی نوعیت کی کمیٹی اس حوالے سے مت بناو۔سب کچھ آئین و قوانین میں طے کردیا گیا ہے۔ اب نئے سرے سے کسی مباحثے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس طے شدہ ، پیچیدہ اور حساس معاملہ پر ہر گز کسی فورم پر ازسر نو غور کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر کمیٹی بنانا ضروری ہو تو کمیٹی اس بات کو دیکھے کہ طے شدہ حساس ترین دینی اور آ ئینی معاملات پر جو ججز اس طرح کے غلط فیصلے دیتے ہیں جن سے عوام میں بے چینی، انتشار اور فساد پھیلتا اور فتنہ جنم لیتا ہے، ایسے فیصلہ سازوں کی کیا سزا ہونے چاہیے۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کے حوالے سے جو آئین Rewrite کیا ہے، ایسا فیصلہ صادر کرنا آ ئین سے غداری کے زمرے میں آ تا ہے۔ ان فیصلہ سازوں پر آئین کے آرٹیکل 6 کا اطلاق ہونا چاہیے۔ لوگوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ مبارک ثانی کیس کے فیصلے کے ذریعے آ ئین میں تحریف کی گئی ہے۔ یہ تو آئین کی پامالی ہے۔ جس پر آئین کا آرٹیکل 6 لگتا ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے آ ئین سے غداری کی گئی ہے اور اس جرم کی سزا آ ئین میں سزائے موت ہے۔ جناب سپیکر! میں اس ایوان کے ذریعے، آ پ کے توسط سے اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے اور پارلیمان میں موجود دیگر جماعتوں کے نمائندوں کے ذریعے انہیں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ لمبا کالا کوٹ پہن کر کتنے ہی بے گناہ لوگوں کو انہوں نے پھانسی پر چڑھایا ہے، مگر خبردار ہمارے اسلام پر ہمارے عقیدہ ختم نبوت پر مبنی ایمان پر حملہ نہ کرو۔ خدا کے واسطے، ایسا نہ کرو۔ تمہارے ایسے متنازعہ فیصلوں سے محمدﷺ کی شان ختم نبوت میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔