(دین و دانش) موسیقی :روح کی غذا یا جہنم کا ایندھن؟ - ابومحمدخزیمہ اسد

11 /

موسیقی :روح کی غذا یا جہنم کا ایندھن؟

ابو محمد خزیمہ اسد

خوف الٰہی اور حقیقت سے نا بلد و ناآشنا معاشرہ بڑی ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ ”موسیقی روح کی غذا ہے“ مگر بغور سوچا اور سمجھا جائے تو ہم اس نقطہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ کیسی غذا ہے کہ جسے نبی برحق ﷺ نے حرام قرار دیا ہے۔ جس سے شہوت غالب اور روحانیت مغلوب ہو جایا کرتی ہے۔ مزید یہ کہ ذکر الٰہی، تلاوت قرآن مجید، عبادت و اطاعت کی لذت ختم ہو جایا کرتی ہے،اذہان و قلوب میں کدورتیں،نفاق اور کساوت جیسی برایاں جنم لیتی ہیں جو انسان کو دینی اور دنیاوی ذمہ داریوں سے غافل کر دیتی ہیں۔ اولاد کو بے حیا اور بے حس بنا کر رکھ دیتی ہیں،یہ تو ایک ایسا نشہ ہے جو آج ہمیں غیر محسوس انداز سے بے حسی اور لا دینی کی جانب لے جا رہا ہے،تو ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اب بھی موسیقی کو روح کی غذا مان لیں؟ 
        موسیقی تو شیطان اور ان کے چیلے چانٹوں کی من پسند غذا ہے،یہ قیصروکسریٰ اور یہود و ہنود کی دل پسند غذا ہے جبکہ اس کے برعکس بندئہ مومن کی روح کی غذا نماز، روزہ،سمیت دیگر اراکین عبادت کی ادائیگی ہے جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے دراصل اس کی روح زنگ آلود اور حس لطیف فاسد ہو چکی ہے۔یوں معلوم ہوتاہے کہ قوم کا مزاج اور معیار دونوں بدل گئے ہیں وہ قوم جس کی ماضی میں یہ حالت تھی کہ قرآن پڑھنے اور سننے سے سکون محسوس کرتی تھی اب یہی قوم موسیقی کو راحت  افزا سمجھ بیٹھی ہے۔ کبھی اس کی روحانی غذا ذکر الٰہی تھا اب وہ ناچ گانے سے روح کو مسخ کرنے کو ترجیح دیتی نظر آ رہی ہے۔ کبھی اس قوم کی بیٹیوں اور بہنوں کی اجنبیوں کے سامنے گفتگو اور آمدورفت معاشرتی طور پر ناقابل برداشت امر تھا،اور آج قوم کی بیٹیاں اور بہنیں سرعام ننگے سروں پھرتی،گاتی اور تھرکتی ناچتی نظر آرہی ہیں اور معاشرہ اس حد تک اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے کہ اس بدعملی پر شرمندگی اور ندامت کی بجائے فخر وغرور سے اپنا سینہ چوڑا کئے پھر تا ہے حیف صد حیف۔پہلے جن کو بھانڈ اور میراثی کہہ کر پکارا جاتا تھا آج وہ آرٹسٹ، فنکار، گلوکاراور نجانے کن کن ناموں سے معروف و مشہور ہیں۔وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اسلام کا مزاج بھی بدل کر رکھ دیں لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ اسلام مکمل ضابطے کی صورت میں ہمارے لئے منتخب دستور زندگانی بنا دیا گیا ہے جس میں کسی قسم کی تخریج و تحریف اور کمی بیشی کی گنجائش قطعاًنہیں ہے۔ مذکورہ بالا سطور کے حوالے سے راقم الحروف عرض پرداز ہے کہ اسلام کو اپنے مطابق بدلنے کی بجائے ہمیں اپنے آپ کو اسلامی احکامات کے سانچے میں ڈھالنے کی حتی الوسع کوشش جاری رکھنی چاہیے اور حرام قرار دیئے گئے امور سے ہر ممکن بچاؤ کی صورت اپنانی چاہیے۔
ناچ گانے کا سب سے بڑا نقصان اللہ رب العزت اور نبی مکرم ﷺ کی ناراضی ہے اور اچھا مسلمان ہونے کے ناطے اس گناہ کبیرہ سے دوری اختیار کرنی چاہئے۔اگر ہم اپنے والدین کو ناراض نہیں کر سکتے، دوست احباب اور رشتہ داروں سے ناراضی مول نہیں لے سکتے، اپنے بیوی بچوں کی ناراضی کا بار ہمار ے نازک کندھے اٹھانے سے قاصر ہیں تو جان لینا چاہئے کہ ہم مالک ارض و سماء اور اس کے محبوب رسول ﷺ کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اپنی عاقبت کیوں کر خراب کر سکتے ہیں؟موسیقی میں انہماک کے باعث انسان مادی اور عارضی لذتوں میں اس قدر محو ہو جا تا ہے کہ اسے بسا اوقات اپنی دینی اور دنیاوی فرائض کا احساس تک نہیں رہتا اس پر ہمہ وقت موسیقی کا نشہ سوار رہتا ہے اور وہ تمام خانگی و معاشرتی معاملات سے غافل ہو جاتا ہے مشاہدے میں آیا ہے جن لوگوں میں میوزک کا نشہ سرایت کر جاتا ہے وہ شب و روز کی تمیز کئے بغیر اس کی دھن میں مگن رہتے ہیں۔
آلات موسیقی کو عربی زبان میں ’ملاہی‘ کہا جاتا ہے جس کا لفظی معنی ہے غفلت میں ڈالنے والی چیز۔تو واضح ہواکہ اس طرح کے مشاغل میں الجھ کر دینی حقوق و فرائض کی ادائیگی میں غفلت ہو جاتی ہے اور آگے چل کر یہی تساہل دنیاوی امور اور بعض اوقات سلطنتوں کی چولیں ہلا کر رکھ دیتا ہے۔اس کی واضح مثال متحدہ ہندوستان میں مغلوں کی حکومت ہے اس حکومت کا زوال اسی وقت شروع ہوا جب وہاں محمد شاہ رنگیلا جیسا رنگین مزاج اور رقص و سرود کا دلدادہ شخص بادشاہ بنا۔ جو دن رات کی تمیز کئے بغیر عیش و عشرت کی محفلوں میں مگن رہتا،اس ظالم نے تو سارے ہندوستان سے نامی گرامی بھانڈ، میراثی، اپنے درباری بنا ڈالے تھے،وہ ہر وقت ڈومنیوں اور بازاری عورتوں کے جھرمٹ میں گھرا رہتا تھا، ان حالات میں انگریزوں کو پنپنے اور اپنے قدم مضبوط کرنے کا موقع مل گیا چنانچہ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورحکومت کا زوال شروع ہو گیا۔
ناچ گانے سے دل سیاہ ہو جاتا ہے نیکی اور بدی کی تمیز اٹھ جاتی ہے،گناہوں کی جانب میلان بڑھ جاتا ہے،پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ منافقوں جیسی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ دل کی سیاہی اور زنگ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ کے ڈر سے کبھی رونا نہیں آتا اور ہدایت کی کوئی بھی بات دل پر اثر انداز نہیں ہو تی، لچر پن پر مبنی فحش اشعار اور مغربی الحاد سے متاثرہ منظر کشی کی بدولت بے غیر تی اور دیوثیت جیسی اخلاقی بیماریاں معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ہمارے ہاں کامیاب اور مقبول گانے ان بے ہودہ اشعار کو سمجھا جاتا ہے جس میں شہوانی جذبات کو بدرجہ اتم بھڑکایا گیا ہو۔محبوب کے لب و رخسار کی جی بھر کر تعریف کی گئی ہو اور عاشق و معشوق کا تذکرہ والہانہ اندازمیں کیا گیا ہو، جو شخص اس قسم کے گانے سنتا ہو اس کے ساتھ ہی ساتھ گانے والیوں کو رقص کرتا بھی دیکھتا ہو تو وہ بے حس نہیں بنے گا تو کیا بنے گا؟
رقص و سرور سے زنا کا جذبہ پیدا ہو تا ہے کیونکہ فحش گانوں کے سننے سے شہوانی جذبات بر انگیختہ ہوتے ہیں، گانے بجانے کی کثر ت کے سبب نئی نسل تباہ ہو رہی ہے وہ معصوم بچہ جس کے کانوں میں قرآن مجید کی تلاوت کی آواز پڑنی چاہیے تھی ہوش سنبھالتے ہی جب اس کو بے ہودہ گانے سننے کو ملتے ہیں اس کی اخلاقی تربیت کا کیا حال ہو گا؟ اسلام جو دین فطرت ہے اولاد کی تربیت اسلامی افکار کی روشنی میں کرنے کا حکم دیتا ہے۔اس کی اوّلین ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اولاد کی اچھی تربیت کے ذمہ دار ہیں۔لہٰذ ا اولاد کی تربیت اسلامی اقدار کے حوالے سے کرنا ناگزیر ہے۔
کا ش کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات