عوامی تائید و مقبولیت کا رازایوب بیگ مرزا
راقم نے گزشتہ ماہ اپنی ایک تحریر میں زرداری، شریف دونوں خاندانوں کا بجلی کے بل بڑھنے پر اظہار تشویش کا ذکر اِس تمثیل کے ساتھ کیا تھا جیسے قاتل مقتول کے جنازے پر دھاڑیں مار کر رو رہا ہو اور اپنا سینہ پیٹ رہا ہو۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے قاتل نے ایک ماہرانہ چال چلنے کا فیصلہ کیا ہے وہ یہ کہ مقتول کے کپڑے بھی اتار لو اور اُن ہی کپڑوں سے کفن بنا کر ملک بھر میں خوب ڈھنڈورا پیٹو کہ ہم نے بے چارے مقتول کو کفن پہنایا ہے۔ اور اپنے سہولت کاروں کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ ہماری رحم دلی اور جان سوزی کا خوب چرچا کرو۔ لیکن عوام کے تیور بتا رہے ہیں کہ نتیجہ صفر نہیں منفی میں جاتا نظر آتا ہے۔ ایک محاورہ ہے جسے اردو میں بولا جائے تو یوں ہے کہ ’’ہماری جوتیاں ہمارا سر‘‘ لیکن چونکہ بنیادی طور پر یہ محاورہ پنجابی میں ہے ’’ساڈیاں جُتیاں ساڈے سِر‘‘ لہٰذا پنجابی میں لطف دو چند ہو جائے گا۔
قارئین اصل بات سمجھ گئے ہوں گے، ہم ذکر کر رہے ہیں پنجاب حکومت کا اگست، ستمبر میں بجلی کے بلوں میں 500 یونٹ تک استعمال کرنے والوں کے لیے سبسڈی دینے کا جو پنجاب کے ترقیاتی فنڈز سے 45 ارب روپے نکال کر واپڈا کے خزانے میں جائیں گے۔ ان 45 ارب روپے میں مزید اضافہ کر لیجیے اُن کروڑوں روپوں کا جو میڈیا کی محبت میں اخبارات کے نصف صفحہ اول پر سرکاری اشتہارات کے لیے دیئے جا رہے ہیں۔ یہ رقم واپس حاصل کرنے کے لیے عوام کا کہاں کہاں سے اور کیسے خون نچوڑا جائے گا اس پر کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جب سے فارم 47 کی حکومت آئی ہے ان پانچ ماہ میں تمام سرکاری اخباری اشتہار کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر اپنی تصویر کے ساتھ شائع کروائے گئے۔ ذاتی تشہیر کا یہ شوق پورا نہ کیا جاتا تو ترقیاتی فنڈز سے رقم نکالے بغیر بھی کام چل جانا تھا۔ لیکن جب حصولِ دولت اور شہرت ہی اقتدار کا اصل مقصد ٹھہرے تو یہ سب کچھ کیا جاتا ہے۔ شریف فیملی کو کون سمجھائے کہ یہ پرانے حربے ہیں جو اب Counter productive ثابت ہو رہے ہیں۔ عوام اب ان شعبدہ بازیوں سے Irritate ہوتے ہیں ان شعبدہ بازیوں کا جواب عوام نے اگرچہ 8فروری کو بھرپور طریقہ سے دیا تھا لیکن اگر تازہ ترین صورتِ حال کا جائزہ لینا ہے تو مری میں جہاں شاہی خاندان مقیم تھا وہاں لگے ہوئے ایک فلیکس سے عوام نے جو سلوک کیا تو اصل صورت سامنے آجائے گی۔ اگرچہ ہم ایسی جوتا بازی کے سخت مخالف ہیں لیکن جب ان دو خاندانوں نے اظہار رائے پر سخت ترین پہرے لگا دیئے ہیں تو عوام اپنی بھڑاس کیسے نکالے۔ بہرحال عوامی سطح پر یہ ایک بداخلاقی کا مظاہرہ ہے جس کی کسی صورت تحسین نہیں کی جا سکتی، البتہ شاہی خاندان کو بھی چاہیے کہ کم از کم ایک مرتبہ آئین پاکستان کا مطالعہ کر ہی لے جو باشندگانِ پاکستان کو اجتماعات منعقد کرنے اور اپنی رائے کا اظہار کا حق دیتا ہے۔ یہ ناروا پابندیوں کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ آئین پر بھی دو سال سے قاتلانہ حملے ہو رہے ہیں اور وہ شدید مجروح ہو چکا ہے۔
تعجب اور افسوس کا مقام ہے جو 1973ء کے آئین کا خالق تھا، اُس کا نواسہ بھی اُس حکومت کا کلیدی حصہ دار تھا، جس نے آئین پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ یہ سب کچھ جملہ معترضہ کے طور پر آگیا ہے۔ بات ہو رہی تھی بجلی کے بلوں میں اضافہ کی، حیرت کی بات ہے 2 سال پہلے یعنی اپریل 2022ء میں بجلی کا ریٹ 16 روپے فی یونٹ تھا آج اُس کا ریٹ .... کیا ہے؟ ہم نے وہ جگہ خالی چھوڑ دی ہے۔ قارئین وہ جگہ خود پُر کر لیں کیونکہ نشانے پر وہ ہیں لہٰذا ہم سے بہتر جانتے ہیں۔
ایک اور ماہرانہ کارروائی پر غور فرمائیں کہ سبسڈی دیتے ہوئے اسلام آباد کو پنجاب کا حصہ تصور کر لیا گیا ہے یعنی اسلام آباد کے شہری بھی مستفید ہوں گے۔ حالانکہ اسلام آباد ہر ہر اعتبار سے الگ ہے۔ وہ وفاق کا حصہ ہے، لیکن شعبدہ باز بھی بڑے ذہین اور فہیم ہیں۔ اُنہیں معلوم ہے کہ اسلام آباد میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا الیکشن کمیشن اعلان کر چکا ہے۔ لیجئے آج راقم بھی ایک دعویٰ جھاڑ دیتا ہے (اللہ بڑا بول بولنے سے بچائے) اِس وقت کی جو صورتِ حال ہے اگر یہ شاہی خاندان یہ اعلان کر دے کہ اسلام آباد کو تاقیامت فری بجلی دی جائے گی کسی چھوٹے بڑے کو بجلی کا بل نہیں آئے گا تب بھی جب تک 8 فروری والا جھرلو نہیں پھرے گا یہ شاہی خاندان بُری طرح ہارے گا۔ بدقسمتی سے یہ دونوں خاندان انتخابات میں بُری طرح ہارنے اور عوام کی شدید نفرت کی صحیح وجہ ہی نہیں سمجھ سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی ہار میں مہنگائی اور گرانی کا بھی دخل تھا لیکن اُس کا کلیدی رول ہرگز نہیں تھا۔ اور 8 فروری کے بعد یہ دونوں خاندان جس قسم کی حرکات کا ارتکاب کر رہے ہیں عوام کی اِن سے نفرت انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔ مثلاً تمام ذرائع ابلاغ پر جابرانہ اور ظالمانہ قبضہ کر کے حکومت مخالف عناصر کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے ۔ اپنے سیاسی مخالفین کو جلسہ کرنے یا ریلی نکالنے کی اجازت دینا تو دور کی بات ہے، اُن کے پرائیوٹ جگہوں پر اور گھروں میں اجتماعات ہوں تو بھی ورکرز کو اٹھا لیا جاتا ہے ۔ ایک جماعت سے ہونے والے ظلم کی داستان ہم پہلے بھی سنا چکے ہیں، اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستانیوں کے ضمیر میں آپ DNA میں کہہ سکتے ہیں، یہ بات ہے کہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں ہو جاتے ہیں ۔ پھر یہ کہ عوام جانتے ہیں کہ ایک خاندان کا سر براہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا کہہ کر راتوں رات فرار ہو جاتا ہے تو دوسرا خاندان تو اب پاکستان آتا ہی تب ہے جب حالات موافق ہوں وگرنہ مہا کرپشن سے بنائی ہوئی بیرون ملک جائیدادیں اور بنک بیلنس سے وہ یورپ میں آرام دہ زندگی گزارتے رہتے ہیں ۔ یہ کرپشن کا الزام راقم نہیں لگا رہا حقیقت یہ ہے کہ پانامہ لیکس ہوں یا دبئی میں پُر اسرار جائیدادوں کی بات شریف خاندان لازماً اس کا حصہ ہوگا۔ B.B.C اِن غیر قانونی جائیدادوں پر ایک ڈاکومنٹری بنا چکا ہے۔ بار بار کہا گیا کہ وہ B.B.C کے خلاف عدالت میں جائیں گے لیکن نہیں گئے کیونکہ جانتے ہیں کہ اُس نے حقیقت بیان کی ہے۔ کینیڈا کی سر فہرست یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے جو پاکستانی نہیں ہے "Nawaz Sharif a symbol of Corruption" پر تھیسس لکھا ہے۔ جب پانامہ لیکس میں بات بڑھی تو 2017ء میں پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کہتے ہیں یہ ہیں میرے بیرونی اثاثہ جات کے ثبوت لیکن جب عدالت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وزیراعظم نے ذمہ داری سے کہا تھا کہ یہ ہیں میرے اثاثہ جات کے ثبوت تو وہ ثبوت ہمیں بھی دکھائیں تو یقین کریں وگرنہ عدالتی ریکارڈ نکلوا کر دیکھ لیں کہ محترم وزیراعظم کے وکیل کہتے ہیں ’’وہ تو ایک سیاسی بیان تھا۔‘‘ تو حضرت عوام کی نفرت کی اصل وجہ یہ ہے کہ 1985ء سے لے کر 2024ء تک عوام تو فاقوں پر اتر آئی اور یہ خاندان کُل پاکستان سے زیادہ دولت کے مالک بن گئے۔ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ کئی خاندان غربت سے نکل کر امیرخاندانوں میں شامل ہوگئے ہیں لیکن کیا وہ خاندان 30 سال حکمران رہے، کیا اُنہیں حکومتی پروجیکٹ جن کی طویل فہرست ہے، اُنہیں عام آدمی کی حیثیت سے ملے تھے۔ اصل جرم ہوتا ہے کسی حکمران کا یوں مالیاتی ترقی کرنا جس کی وہ قانونی وجوہات پیش نہ کر سکے لہٰذا عوام کی نفرت کی اصل وجہ یہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر عمران خان سمیت کوئی بھی سیاست دان وزیر اعظم نہ بن سکا اور یہ بھی درست ہے کہ نواز شریف ہو یا عمران خان اسٹیبلشمنٹ ہی وزارت عظمیٰ سے فارغ کرتی ہے لیکن فرق یہ ہے اور یہ بہت بڑا فرق ہے کہ نوازشریف کو جب اسٹیبلشمنٹ نکالتی ہے تو وہ کبھی مشرف سے NRO کر کے جدہ چلے جاتے ہیں اور کبھی بیماری کا جھوٹا عذر تراش کر کے اسٹیبلشمنٹ ہی کی مدد سے لندن فرار ہو جاتے ہیں اور وہاں پہنچ کر فوج کو بُرا بھلا کہتے ہیں ۔ جبکہ عمر ان کو جب نکالا جاتا ہے تو وہ ہرقسم کی طاقت کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے اُس کے ہر دوست اور تعلق والے کو اُس کے پاس یہ کہہ کر بھیجا جاتا ہے کہ وہ باہر چلا جائے وگر نہ اُس کا حشر بھی بھٹو جیسا ہوگا۔ تواُس کا ایک ہی جواب ہوتا ہے موت تو ایک دن آنی ہے اس سے فرار کیسا۔ اُسے ڈیل کا کہا جائے تو وہ صاف انکار کر دیتا ہے اور پاکستانی قوم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ لیڈر کی بہادری پر نچھاور ہو جاتی ہے۔ اِن دو خاندانوں کوحالات سمجھنا چاہیے سب انسان ڈر جانے والے اور بِک جانے والے نہیں ہوتے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جس کا سرمایہ جہاں ہو وہیں اُس کا دل ہو تا ہے، یہ دو خاندان کبھی یورپ اور امریکہ کو ناراض نہیں کر سکتے کہ ان کی بے شمار دولت وہاں ہے جس کے ضبط ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے اور اُن کا سیاسی حریف ڈٹا ہوا اِس لیے ہے کہ بیرونِ ملک اس کا کچھ نہیں ہے۔ آخری بات یہ کہ اگر اس سیاسی حریف کے خلاف کوئی ڈھنگ کا کیس اندرون ملک بن سکتا ہوتا تو عِدت والا کیس جس نے اندرون اور بیرون ملک ہمارے حکمرانوں کو بڑی بدنامی دی ہے وہ تو دائر نہ کرنا پڑتا لے دے کر القادر ٹرسٹ کا کیس ہے جس کے بارے میں سب تسلیم کرتے ہیں کہ رقم سپریم کورٹ اور پھر سٹیٹ بنک میں جمع ہو چکی ہے تو پھر کرپشن کیسی، تب سرکھجاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس کے بدلے رسوائے زمانہ شخص کو فائدہ پہنچایا گیا وہ کیا فائدہ تھا سامنے لایا جائے وگرنہ محض ڈینگیں مارنے سے عدالت کیا عام آدمی بھی نہیں مانے گا۔ آخری اور حتمی بات یہ ہے کہ بجلی کا ریلیف عارضی دیں یا مستقل عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہوگی اُس کے لئے ہمت حوصلے اور صبر سے جبر کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے عمران خان بھی آج بیرون ملک فرار ہو جائے یا ایسی ڈیل قبول کرلے جو ڈر اور خوف کی بنیاد پر ہو تو وہ بھی صفر بلکہ مائنس ہوجائے گا۔ زمانہ کسی کا نہیں ہوتا جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ ہم نے آپ کو عوامی مقبولیت کا نسخہ بنا دیا ہے باقی آپ جانیں اور عوام جانیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024