پاکستان کا مستقبل (2)
ڈاکٹر اسراراحمدؒ
(گزشتہ سے پیوستہ)
اُمید و یاس کے مختلف ادوار
قیامِ پاکستان کے بعد1949ء سے لے کر 1957ء تک تقریباً یقین کی کیفیت تھی کہ یہاں اسلام بس آیا ہی چاہتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری اللہ کی حاکمیت کا اعلان اور انسانی حاکمیت کی نفی مطلق تھی۔ یہ گویا ریاستی سطح پر سیکولرزم کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا۔ پھر جب یہ کہا گیا کہ کس کا اسلام نافذ ہو گا‘ شیعہ کا یا سنی کا؟ تو تمام مکاتب فکر اور دینی جماعتوں کی چوٹی کی قیادت نے مل بیٹھ کر متفقہ طور پر22 نکات منظور کیے کہ ان کی راہنمائی میں اسلامی دستور بنایا جائے۔ یہ بہت اچھا اور امید افزا آغاز تھا۔ اُس وقت میں بھی جماعت اسلامی کا ایک ادنیٰ کارکن تھا اور خاص طور پر اپنے جماعتی ماحول میں تو ہمیں یوں محسوس ہوتا کہ بس اسلامی انقلاب آیا کہ آیا! نعیم صدیقی مرحوم جو پنجاب میں مولانا مودودی مرحوم کے اوّلین ساتھی تھے‘ انہوں نے اس دَور میں بڑی ولولہ انگیز اور جذباتی نظمیں کہیں۔ ان کا یہ شعر ہم اکثر پڑھا کرتے تھے ؎
بول شہر نظامِ اسلامی! کیا ترے سقف و بام کہتے ہیں؟
تیرے در پر کھڑے ترے والی آج تجھ کو سلام کہتے ہیں!
گویا ہم نظامِ اسلامی کے دروازے پر کھڑے دستک دے رہے تھے اور دروازہ کھلنے کے منتظر تھے۔
1956ء میں پاکستان کا اسلامی دستور بن چکا تھا اور اب انتخابات ہونے والے تھے‘ لیکن1958ء میں اس گاڑی کو پٹڑی سے اتار دیا گیا۔ یاد رہے کہ دنیا میں ابلیس لعین کے سب سے بڑے ایجنٹ یہودی ہیں اور ان کا سب سے بڑ ا آلۂ کار امریکہ ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو اپنے ہاں بلا کر اس کی پیٹھ تھپکی‘ اور اس نے واپس آ کر دستوریہ کو بھی لپیٹ دیا‘ دستور بھی ختم کر دیا اور مارشل لاء نافذ کر دیا۔
اس کے بعدپاکستان میں جو تاریک رات آئی اُس میں مایوسیاں پروان چڑھتی گئیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ سارے خواب پریشان ہو رہے ہیں۔ ایوب خان کے دور میں ’’عائلی قوانین‘‘ کا نفاذ کیا گیا تو تمام مکاتب ِ فکر کے علماء نے کہا کہ یہ غیر اسلامی ہیں‘ مگر وہ غیر اسلامی قوانین ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں نافذ ہو گئے۔ مسلمانوں کے عائلی قوانین کو انگریز نے بھی نہیں چھیڑا تھا‘ اور بھارت کے مسلمانوں نے اب تک اپنے عائلی قوانین میں کسی مداخلت کی اجازت نہیں دی‘ (بانیٔ محترم کے 2008ء کے اس خطاب کے وقت ابھی صورتحال یہی تھی کہ بھارت کے مسلمانوں کے عائلی قوانین کو چھیڑا نہیں گیا تھا۔ البتہ 2014ء میں مودی کی بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی اور آج 2024ء میں بھارت مسلمانوں کے عائلی قوانین پر بھی انتہا پسند ہندوئوں کی شیطانی نظریں جمی ہوئی ہیں) لیکن یہاں ایک فوجی آمر نے غیراسلامی عائلی قوانین نافذ کیے جو اَب تک نافذ ہیں۔ اس دور میں نعیم صدیقی صاحب نے یہ شعر کہا تھا؎
اے آندھیو سنبھل کے چلو اِس دیار میں
اُمید کے چراغ جلائے ہوئے ہیں ہم!
اُس دور میں مولانا کوثر نیازی بھی جماعت اسلامی کے سرگرم کارکن تھے۔ بعد میں ان کاجو بھی معاملہ رہا میں اس کو زیر بحث نہیں لانا چاہتا۔ اُس وقت انہوں نے بڑا تلخ شعرکہا تھا کہ :
اسلام کو گر تیری فضا راس نہ آئے
اے میرے وطن تجھ کو کوئی آگ لگائے!
یعنی ہماری نگاہ میں پاکستان کی اصل قدر و قیمت اس اعتبار سے ہے کہ یہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا گہوارہ بنے۔1958ء سے لے کر1985ء تک معاملات ایسے رہے کہ وہ مایوسی بڑھتی ہی چلی گئی اور یہاں اسلامی نظام کے قیام کی جو اُمید تھی وہ تقریباً دم توڑ گئی‘اگرچہ اُس وقت تک پاکستان کے وجود کے بارے میں کوئی مایوسی نہیں ہوئی تھی کہ یہ ملک رہے گا یا نہیں!
1985ء میں مجھے تاریخ بنی اسرائیل کے حوالے سے ایک اُمید پیدا ہوئی اور میں نے اس کا برملا اظہار کیا۔ بنی اسرائیل جب آلِ فرعون کی غلامی سے آزاد ہوئے اور مصر سے نکلے تو انہیں جنگ کا حکم ہوا‘ جیسے رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامj نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو اب قتال کا دور شروع ہوا۔ بنی اسرائیل کو جب جنگ کا حکم دیا گیاتو پوری قوم نے کورا جواب دے دیا۔ چھ لاکھ میں سے صرف دو آدمیوں نے حضرت موسٰیd کی دعوتِ قتال پر لبیک کہا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بزدلی اور کم ہمتی کی یہ سزادی کہ ارضِ مقدس ان پر چالیس برس تک حرام کر دی ۔ چنانچہ وہ چالیس برس تک صحرائے سینا میں بھٹکتے پھرتے رہے۔ اس دوران وہ پوری نسل جو مصر کی غلامی کا داغ اٹھائے ہوئے تھی‘ ختم ہو گئی۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونeکا بھی انتقال ہو گیا۔ اب ایک نئی نسل جوان ہو چکی تھی جو صحرا ہی میں پیدا ہوئی اور صحرا میں پروان چڑھی۔ اس نے صحرا کی سختیاں جھیلی تھیں‘ اور اقبال کہتا ہے ؎
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندئہ صحرائی یا مردِ کہستانی!
آج بھی سوات سے نفاذِ شریعت کی تحریک چلانے والے مردانِ کہستانی ہی ہیں نا! خود اسلام کا آغاز بھی عرب کے صحرا ہی سے ہوا تھا۔ بنی اسرائیل کی جو نئی نسل صحرا میں پیدا ہوئی اُس نے حضرت موسیٰd کے خلیفہ یوشع بن نونؑ‘ جو نبی تھے‘ کی قیادت میں جنگ کی‘ جس کے نتیجے میں فلسطین میں ان کی حکومت قائم ہوگئی۔ چنانچہ اس حوالے سے مجھے خیال ہوا کہ ہمیں بھی آزاد ہوئے چالیس برس ہونے کو ہیں اور ہم ابھی تک صحرائے تیہہ میں بھٹک رہے ہیں‘ اسلام کی طرف ہماری کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی بلکہ مایوسی ہو رہی ہے‘ لیکن کیا عجب کہ اب نئی نسل اُبھر کر آ گئی ہے تو شاید حالات ہمارے بھی بدل جائیں جیسے کہ بنی اسرائیل کے بدل گئے تھے۔ لہٰذا اُس زمانے میں میں نے ’’استحکامِ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی‘ جس میں یہ اُمید کی جھلک دکھائی تھی ۔جو حضرات بھی اس سے دلچسپی رکھتے ہوں کہ پاکستان کا صغریٰ کبریٰ کیا تھا‘ پاکستان کیسے بنا اور اس کے استحکام کے لیے سوائے اسلام کے اور کوئی بنیاد نہیں‘ وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ بہرحال اس کے بعد معلوم ہوا کہ اس نئی نسل سے بھی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی‘ اس نئی نسل نے بھی مغرب کو اپنا قبلہ بنا رکھا ہے۔ اگرچہ اس نئی نسل میں ایک بڑی تعداد مذہبی رجحان رکھنے والوں کی بھی ہے‘ لیکن ان کا تصور بھی مذہب کا ہے‘ دین کا انقلابی تصور موجود نہیں‘ دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کا کوئی جذبہ نہیں۔ چنانچہ اس دوران یاس و اُمید کی کیفیت مسلسل چلتی رہی‘ جس میں مایوسی غالب رہی۔
میری مایوسی کی یہ کیفیت آج سے ساڑھے چار سال پہلے اس انتہا کو پہنچ گئی کہ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اب پاکستان کا خاتمہ ہونے والا ہے ۔ چنانچہ29 فروری2004ء کو میں نے قرآن آڈیٹوریم میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں جو خطاب کیا تھا اس کے اخباری اشتہار کا عنوان یہ دیا تھا : ’’کیا پاکستان کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے؟‘‘۔ یہ خطاب اب ’’پاکستان کے مستقبل کو لاحق خطرات و خدشات‘‘ کے عنوان سے کتابچے کی صورت میں شائع ہوتا ہے۔ اُس وقت واقعتا میری کیفیت شکیل بدایونی کے اس مصرعے کا مصداق تھی کہ ع ’’اُڑتے اُڑتے دُور اُفق پر آس کے پنچھی ڈوب گئے!‘‘ اس انتہائی مایوسی کی بنیاد یہ تھی کہ پاکستان اپنے وجود کی نفی کر چکا ہے‘ یہ جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا اس مقصد کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔ یہ ایک نظریاتی ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا تھا‘ یہ کوئی نسلی‘ لسانی یا وطنی ریاست نہیں تھی۔ وطنیت کی تو نفی کر کے ہم نے یہ ملک بنایا تھا ‘ لیکن اس ملک میں نظریۂ پاکستان یعنی دین اسلام کہیں نہیں۔ اسلام ہے تو مذہب کی صورت میں ہے‘ لیکن مذہب اسلام تو ہندوستان میں بھی ہے۔ پھر کاہے کو لاکھوں جانیں دے کر یہ تقسیم کروائی گئی؟ مسجدیں تو وہاں بھی ہیں۔ مسجدیں تو امریکہ میں بھی ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن وہ اسلام کا نظامِ عدل اجتماعی اور اس کے اصولِ حریت و اخوت و مساوات کہاں ہیں؟
اس مایوسی میں9 مارچ2007ء کے بعد کے حالات و واقعات سے کچھ تھوڑی سی کمی آئی جب جسٹس افتخار محمد چودھری نے آمریت کے خلاف ایسی ہمت دکھائی کہ ہماری پوری عدلیہ کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پھر اس کے بعد جو وکلاء کی تحریک چلی‘ اس کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے‘ کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ پھر یہ پڑھے لکھے سنجیدہ لوگ ہیں جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ جس طرح ڈٹے ہوئے ہیں اور جتنی سختیاں انہوںنے جھیلی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک جاندار تحریک ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید ہم سے کوتاہی ہوئی ہے کہ ہم نے ملک کے اس پڑھے لکھے طبقے تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا حق ادا نہیں کیا۔
اس کے بعد جب فروری2008ء میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوا تو بڑا شدید خطرہ تھا کہ ان میں د ھاندلی ہو گی اور تحریک چلے گی‘ جیسے 1977ء میں بھٹو کے خلاف تحریک چلی تھی ۔ اس کے بعد شدید اندیشہ تھا کہ اگر یہاں بدامنی پیدا ہو گئی تو ایک طرف سے نیٹو فورسز اور دوسری طرف سے بھارتی افواج پاکستان میں داخل ہوجائیں گی۔ اخبارات میں اطلاع آئی تھی کہ بھارتی افواج کو الرٹ کر دیا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے انہیں کسی پڑوسی ملک میں امن کے قیام کے لیے داخل ہونا پڑے۔ لیکن پاکستان میں انتخابات کے پرامن انعقاد سے یہ خطرہ ٹل گیا۔ ان دو باتوں سے کچھ امید بندھی ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ ہمیں مزید مہلت دے دے اور اس کے ذریعے سے یہاں پر خیر کی طرف کوئی پیش قدمی ہو جائے اور ہمیں اپنا بھولا ہوا سبق یاد آ جائے کہ ع ’’کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو!‘‘ (جاری ہے)