(سیمینار) ’’اسرائیلی عزائم، استحکامِ پاکستان اور عالمِ اسلام کا مستقبل‘‘ - محمد رفیق چودھری

11 /

پاکستان کا قیام بھی اسلام کی بنیاد پر ہوا تھا اور اس کا استحکام

بھی اسلام کی بنیاد پر ہی ممکن ہے: شجاع الدین شیخ

فلسطینیوں سے محبت اہلِ پاکستان کے ڈی این اے میں

شامل ہے: سینیٹر مشاہد حسین سید

اگر آپ اہل غزہ کی کچھ اور مدد نہیں کر سکتے تو کم ازکم

ان کے لیے آواز اُٹھائیں : بلال الاسطل

اہل غزہ کے عزم اور استقامت نے گریٹر اسرائیل کے مکروہ

منصوبہ پر پانی پھیر دیا ہے: امیر العظیم

یہود صرف مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے

دشمن ہیں: علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر

اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی نفرت ہی

اس کے انجام کا باعث بنے گی : خورشید انجم

قرآن آڈیٹوریم لاہور میں ’’اسرائیلی عزائم، استحکامِ پاکستان اور عالمِ اسلام کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار کی رپورٹ

مرتب : رفیق چوہدری

تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام 6اگست 2024ء  کوقرآن آڈیٹوریم نیو گارڈن ٹاؤن لاہور میں ’’اسرائیلی عزائم، استحکامِ پاکستان اور عالمِ اسلام کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد ہواجس کی صدارت امیرتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ نے کی جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ڈاکٹر ضمیر اختر خان نے ادا کیے۔ تقریب کا آغاز ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے دیرینہ ساتھی محترم حافظ محمد رفیق کی تلاوت قرآن پاک و ترجمہ سے ہوا ۔ بعدازاں تنظیم اسلامی کے حلقہ لاہور شرقی کی مقامی تنظیم فیروزپور روڈ کے رفیق طیب رسول نے نظم ’’میں فلسطین ہوںـــ‘‘ کے اشعار پڑھے۔اس کے بعد سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
شجاع الدین شیخ (امیر تنظیم اسلامی): بنی اسرائیل کی تاریخ سے ثابت ہے کہ اُنہوں نے انبیاء کرام سے دشمنی کو اپنا شیوہ بنایا اور آخری نبی و رسول حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے بعد سے لے کر آج تک یہود کا اصل ہدف مسلمان ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے اسرائیل نے جس سطح پر مسلسل درندگی کا کُھلم کُھلا مظاہرہ کیا ہے، اُس نے مغرب کے عوام میں بھی صہیونیوں کے خلاف نفرت بھر دی ہے۔ مغرب کی یونیورسٹیوں اور سڑکوں پر بھی اسرائیلی درندگی کے خلاف اور مظلوم و مجبور فلسطینیوں کے حق میں بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ آج امتحان اگر حماس کے مجاہدین اور غزہ کے عوام کا ہے تو امتحان باقی امتِ مسلمہ کا بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی مسلمان تو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس امتحان میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ لیکن ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ اس امتحان میں ناکامی کی صورت میں ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے۔ جب ایک فلسطینی بچہ شہید ہوتے وقت یہ کہتا ہے کہ میں اللہ کے ہاں جا کر شکایت کروں گا کہ کسی مسلمان ملک نے میری مدد نہیں کی تو کیا ان ممالک کے حکمران اللہ کے ہاں مجرم شمار نہیں ہوں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ حرم مکی اور حرم مدنی کی طرح مسجد اقصیٰ بھی مسلمانوں کا حرم ہے۔ اس کا دفاع امتِ مسلمہ پر فرض ہے۔ حرمِ اقصیٰ کی حفاظت اُس صورت میں ممکن ہو سکے گی جب امت ِ مسلمہ متحد ہوگی۔ احادیث مبارکہ میں واضح خبریں موجود ہیں کہ حق و باطل کے آخری معرکہ میں خراسان کے علاقہ کا اہم کردار ہوگا جس میں پاکستان کا ایک حصہ بھی شامل ہے۔ لہٰذا ہمیں پاکستان کو مستحکم کرنا ہوگا۔ اپنے نظریہ کی طرف لوٹنا ہوگا۔ پاکستان کا قیام بھی اسلام کی بنیاد پر ہوا تھا اور اس کا استحکام بھی اسلام کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ یہی تنظیم اسلامی کی دعوت ہے۔ استحکامِ پاکستان کا واحد ذریعہ ملک میں اسلام کا نفاذ ہے اور ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان ہی اسرائیل کا اصل توڑ ہے۔
خورشید انجم(مرکزی ناظم نشرواشاعت و تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی پاکستان): گزشتہ ساڑھے دس ماہ کے دوران جس طرح اسرائیل نے غزہ پر مسلسل وحشیانہ بمباری کی ہے اُس نے دنیا بھر میں صہیونیوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا دی ہے اور اسی نفرت کے باعث عنقریب اسرائیل اپنے انجام کو پہنچے گا۔ یہود کو دنیا بھر سے لا کر گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے آباد کیا جا رہا ہے لیکن یہی گریٹر اسرائیل یہود کا قبرستان بنے گا۔ صہیونیوں کے مذموم عزائم میں شامل ہے کہ ایک بڑی جنگ کا آغاز کیا جائے، گریٹر اسرائیل کو قائم کیا جائے اور مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے اُس کی جگہ تھرڈ ٹیمپل بنایا جائے۔ یہود کا منصوبہ اپنی جگہ لیکن ایک منصوبہ اللہ کا بھی ہے اور وہی پایۂ تکمیل کو پہنچ کر رہے گا۔ خراسان سے لشکر روانہ ہوں گے جو حضرت مہدی کی بھی نصرت کریں گے اور ایلیا (یروشلم) کو یہود سے پاک کریں گے۔ قیامت سے قبل نظامِ خلافت کل رو ئے ارضی پر قائم اور نافذ ہو کر رہے گا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور اس کام میں ہم کیا حصہ ڈال رہے ہیں۔
سینیٹر مشاہد حسین سید: فلسطینیوں سے محبت اہلِ پاکستان کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ 1940ء میں جب قرار دادِ لاہور منظور کی گئی تھی تو اُسی اجلاس کے دوران فلسطینیوں کے حق میں بھی ایک قرار داد منظور کی گئی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل جو پہلا خط لکھا تھا وہ امریکی صدر ٹرومین کے نام تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کو قائم نہ کیا جائے۔ پاکستان وہ واحد غیر عرب ملک تھا جس نے 1967ء اور 1973ء میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لیے اپنے پائلٹ بھیجے۔ پھر یہ کہ دسمبر 2023ء میں حماس کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی کو پاکستان کی سینیٹ میں باقاعدہ مدعو کیا گیا اور اُن کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اس وقت دنیا بھر کے اہلِ علم و دانش اسرائیل کے خلاف رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔ گیلپ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق دو تہائی پاکستانی اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں شاہ فیصل شہید نے اس خواہش کا برملا اظہار کیا تھا کہ وہ صہیونیوں سے آزاد مسجدِ اقصیٰ میں نماز ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح آج مسلمان ممالک کو جرأت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے حماس کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکہ اور مغربی یورپ تیزی سے زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں اور مستقبل میں طاقت کا محور و مرکز مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسرائیل، امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ سے جو منصوبے بنائے جا رہے تھے اُنہیں حماس کے 7اکتوبر 2023ء کے اقدام نے خاک میں ملا دیا۔ لہٰذا مسلمان ممالک کو بھی اب متحد ہو کر بدلتی ہوئی دنیا میں اپنا مقام بنانا ہوگا۔
بلال الاسطل (معروف فلسطینی صحافی اور دانشور): میرے اپنے خاندان کے 350 افراد شہید کر دیے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے مسلمان مسجدِ اقصیٰ اور بیت المقدس کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے ساڑھے دس ماہ کے دوران40ہزار سے زائد مرد، عورت، بچے اور بوڑھے شہید ہو چکے ہیں۔ ایک لاکھ کے قریب شدید زخمی ہیں اور پورے غزہ میں کوئی ہسپتال علاج کی ناگزیر سہولتیں فراہم کرنے کے قابل نہیں چھوڑا گیا۔ اسرائیلی بمباری سے 75 فیصد غزہ تباہ ہو چکا ہے۔ خوراک، پانی اور جان بچانے والی ادویات کی شدید قلت ہے۔ 10 ماہ سے بجلی کی فراہمی معطل ہے۔ مساجد، پناہ گزین کیمپوں اور سکولوں کو مسلسل بمباری کر کے تباہ کیا جا رہا ہے۔ ہم اس سوال سے اکتا گئے ہیں کہ7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کیوں کیا گیا۔ اسرائیل پون صدی سے ہم پر مسلسل ظلم و جبر کر رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے جاری حق و باطل کے اس معرکہ میں حماس کی بھرپور مدد کی جائے۔ اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ ہمارے لیے دعاؤں کا اہتمام کریں۔ غزہ کے مسلمانوں کو مالی امداد پہنچائی جائے۔اہل غزہ کی کچھ اور مدد نہیں کرسکتے تو کم ازکم ان کے لیے آواز اُٹھائیں ۔ قضیۂ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہی نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے۔
امیر العظیم (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان): اس وقت اہلِ غزہ سخت آزمائش میں ہیں لیکن اُن کے عزم اور استقامت نے گریٹر اسرائیل کے مکروہ منصوبہ پر پانی پھیر دیا ہے۔ اہلِ غزہ کی قربانیوں سے انسانیت کا ضمیر جاگ اُٹھا ہے۔ مغربی ممالک میں تو بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں لیکن افسوس کہ اسلام آباد میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہروں یا سیمینارز کے انعقاد پر پابندی ہے۔ دفتر خارجہ کا یہ حال ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر تعزیتی پیغام بھی جاری نہ کیا اور جو پریس ریلیز دی اُس میں سے بھی بعد ازاں اسرائیل کا نام نکال دیا گیا کہ کہیں آقا ناراض نہ ہو جائیں۔ وہ وقت دور نہیں جب سقوطِ امریکہ اور سقوطِ اسرائیل ہوگا۔ان شاء اللہ !
حافظ ابتسام الٰہی ظہیر (چیئرمین قرآن و سنت موومنٹ پاکستان):یہود صرف مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کے پاسپورٹ پر درج ہے کہ اس کے حامل پاکستانی شہری کو اسرائیل جانے کی اجازت نہیں۔ اسرائیل کے مکروہ چہرہ کو بے نقاب کرنے اور متواتر حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کہ اسرائیل کو کسی صورت میں تسلیم نہ کیا جائے اس میں علماء کرام اور دینی جماعتوں کا اہم اور قابل قدر کردار ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمان ممالک اپنے اپنے مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں اور امتِ مسلمہ قرآن کے پیغام کو چھوڑ بیٹھی ہے۔ مسلمان ممالک کی حکومتیں اور افواج متحد ہو کر فلسطینی مسلمانوں کی عملی مدد کریں۔
پروگرام کے اختتام پر امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ  نے دعا کروائی ۔