ابلیس کی مجلس شوریٰ
ڈاکٹر حافظ محمدمقصود
(گزشتہ سے پیوستہ)
ابلیس کی مجلس شوریٰ میں ابلیس کی تقریر کے بعد اُس کے مختلف مشیر اپنا اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔
پہلا مشیر
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
حسب رواج ابلیس کی خوشامد سے بات کا آغاز کرتے ہوئے اس کا مشیر کہتا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا نظام بہت مستحکم ہے اور اس نظام کی بدولت عوام میں خوئے غلامی پیدا ہوچکی ہے ۔ یعنی عوام نے ذہنی اور نفسیاتی طور پر ہمارے نظام کی غلامی کو قبول کرلیا ہے ، اب وہ اسی میں خوش ہیں ۔آگے کہتا ہے ؎
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام
ابلیس کے قائم کیے ہوئے نظام کے تحت شروع دن سے لوگ بادشاہوں کو سجدہ کرتے آئے ہیں ۔ باطل نظام کے سامنے جھکنا ان کی فطرت میں شامل ہو چکا ہے ۔ یہ ایسی نماز کے عادی ہو چکے ہیں جس میں قیام نہیں ہے یعنی حق کے لیے کھڑا ہونا ان کی فطرت میں شامل ہی نہیں رہا ۔ مزید کہتا ہے ؎
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
باطل نظام کی غلامی سے نکلنے کی آرزو اول تو ان میں پیدا ہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ نفسیاتی طور پر ہمارے غلام بن چکے ہیں ۔ باطل کی غلامی ان کا عقیدہ بن چکی ہے اور ان کی سوچ اور فکر کا حصہ بن چکی ہے ۔ ہزاروں میں سے کسی ایک کے دل میں اگر انقلابی سوچ پیدا بھی ہوجائے تو وہ باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار نہیں کر پاتی کیونکہ ایک تو لوگ باطل نظام سے نکلنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں ، ان کے اس باطل ابلیسی نظام کے ساتھ مفادات وابستہ ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا انقلابی سوچ اگر کہیں پیدا ہوبھی جائے تو اول تو وہ مرجاتی ہے یا پھر خام ہی رہتی ہے ۔ یعنی عمل میں نہیں ڈھل پاتی ۔جیسے ہم کہتے ہیں کہ انقلاب لانا ہے تو پہلے اپنے پانچ چھ فٹ کے جسم پر اسلام نافذ کرو ۔ پھر گھر والوں کو دعوت دو ، ان کو بدلنے کی کوشش کرو ،پھر معاشرے کی سطح پر یہ تحریک شروع ہوگی اور آخر میں ریاست کی سطح پر انقلابی تحریک چلے گی تاکہ باطل نظام کے استحصالی ہتھکنڈوں سے عوام کو بچایا جا سکے ۔ مگر وہاں باطل نظام کے کسٹوڈین اور ابلیس کے کارندے اور مہرے آڑے آجاتے ہیں ۔ یہ ایک مکمل جدوجہد ہے جو ہر کوئی نہیں کر پاتا ۔ پھر یہ کہ سیکولرازم کے نام پر ابلیسی نظام نے لوگوں کو تعلیم یہ دی ہے کہ مذہب تمہارا انفرادی معاملہ ہے ، اجتماعی نظام میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے ۔ لہٰذا اب ایک شخص ایمان بھی رکھتا ہے ، نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج سمیت انفرادی سطح پر تمام دینی تقاضے پورے کر رہا ہے اور سمجھ رہا ہے کہ بس یہی دین ہے ، وہ نظام کو بدلنے کی سوچ ہی نہیں رکھتا اور دین کو سیاست سے الگ سمجھتا ہے ۔ لہٰذا ان وجوہات کی بناء پر ابلیسی نظام مستحکم انداز میں چل رہا ہے اور عوام اس کی غلامی میں لگے ہوئے ہیں ۔ آگے کہتا ہے ؎
یہ ہماری سعئ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
مشیر کہتاہے کہ ہم نے صدیوں کی محنت سے لوگوں کو جو فلسفہ پڑھا دیا ہے اور جو جو جال ہم نے پھیلا دیے ہیں، ان کی بدولت اب عام آدمی تو عام آدمی، ملا اور صوفی بھی ہمارے ابلیسی نظام کے شکنجے میں ذہنی طور پر جکڑے جا چکے ہیں ۔ فارسی میں ایک جگہ اقبال کہتے ہیں:
شیخِ او لُردِ فرنگی را مرید
گرچہ گوید از مقامِ بایزید
یہ شیخ بھی فرنگی لاٹ کا مرید بن چکا ہے ۔ بظاہر شیخ بڑے زہد و تقویٰ کا مظاہرہ کر رہا ہے مگر اندر سے وہ بھی فرنگی فکر میں غرق ہے ۔ یعنی کالا انگریز ہے ۔ آگے کہتےہیں ؎
گفت دیں را رونق از محکومی است
زندگانے از خودی محرومی است
یعنی ملوکیت کے خلاف ، باطل نظام کے خلاف بات کرنا گناہ سمجھ لیا جائے ، امن کے نام پر غلامی کی زندگی جینا دین سمجھ لیا جائے ۔ دلوں سے خودداری نکل جائے تاکہ غلط نظام کے بارے میں کوئی سوال سرے سے پیدا ہی نہ ہو ۔
طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم کلام
اصول دین کو عقلی اور منطقی دلائل سے ثابت کرنے کا علم ، علم الکلام کہلاتا ہے ۔ مثال کے طور پر سورۃ النور کے پانچویں رکوع میں ایمان کے اجزائے ترکیبی کا ذکر ہے کہ دو چیزیں مل کر ایمان وجود میں آتاہے ۔ ایک یہ کہ انسان کے اندر ایک صحیح اور سالم فطرت موجود ہو، صاف دل موجود ہو۔ دوسرایہ کہ اوپر سے وحی کی تعلیم اثر انداز ہو جائے تو ایمان وجود میں آجاتا ہے ۔ زمین کی مثال آپ لے لیں۔ بارش یکساں طور پر ہر جگہ ہوتی ہے مگر کہیں سبزہ اور ہریالی نکل آتی ہے اور کہیں بارش کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ وہ زمین بنجر یا سیم زدہ ہوتی ہے ۔ گویا زمین کے اندر جہاں سبزہ و ہریالی کے بیج موجود ہوں گے وہاں بارش بھی اثر کرے گی۔ اسی طرح جس انسان کی فطرت سلیم ہوگی تو اس پر وحی کی تعلیم بھی اثر کرے گی اور وحی کے نور سے نورایمان پیدا ہوگا۔ اسی طرح عقائد کو دلائل سے سمجھانے کے علم کو علم الکلام کہاجاتاہے۔ علم الکلام میں بھی ضرورت سے زیادہ دلچسپی اور لوگوں کا اس میں انہماک ان کو عمل سے فارغ کر دیتا ہے وہ اسی بحث و مباحثہ میں لگے رہتے ہیں ۔ ابلیس کا مشیر یہ کہتا ہے کہ ہم نے جو فلسفہ اور فکر اقوام مشرق کو پڑھا دیا ہے وہ علم الکلام کے نام پر اسی کی قوالی گارہے ہیں اور عمل کی طرف ان کی توجہ جاہی نہیں رہی ۔ آگے کہتا ہے ؎
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
علم الکلام کی طرف زیادہ توجہ کی وجہ سے ان کے اعمال اپنی اصل روح سے خالی ہیں ۔ دین کا جو حقیقی اور جامع تصور تھا کہ اس کو بطور نظام قائم کیا جائے اور اس کے لیے جہاد کیا جائے وہ انہوں نے فراموش کر دیا اور چھوٹے چھوٹے علمی اور فقہی مسائل میں اُلجھ کر رہ گئے ۔
رگوں میں وہ لہُو باقی نہیں ہے
وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تُو باقی نہیں ہے
نمازیں بھی پڑھی جا رہی ہیں، روزے بھی رکھے جا رہے ہیں ، حج بھی ہو رہے ہیں اور عمرے بھی ہو رہے ہیں مگر جو اصل مقصد تھا کہ اللہ کی بڑائی کو قائم کیا جائے ، اللہ کے دین کو قائم کیا جائے وہ بھول چکے ہیں ۔
زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں
اقبال کہتے ہیں کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں حاجی صاحبان سے پوچھوں کہ آپ حج سے واپسی پر حاصل کے طور پر کیا لائے ہیں ۔ کیا آپ کے نزدیک صرف مدینہ کی کھجوریں اور آب زم زم ہی اصل تحفہ ہے یا کوئی ایسا جذبہ صادقہ یا عزم بھی لے کر آئے ہیں کہ جس سے زندگیاں تبدیل ہو جائیں ، معاشروں میں انقلاب آجائے ۔ یعنی مدینہ کی سرزمین سے جو عظیم انقلاب برپا ہوا تھا اس کے کچھ اثرات بھی لے کر آئے ہیں یا نہیں ؟ اگر اس عظیم انقلاب نبوی ﷺسے کوئی چنگاری آپ لے کر نہیں آئے کہ جس سے زندگی تبدیل ہو یا معاشرے پر کوئی مثبت اثرات مرتب ہوں اور آپ حج کرنے کے بعد بھی اسی ڈگر پر چلتے رہیں جس طرح پہلے باطل نظام کے سائے میںآپ معمولات ِ زندگی میں لگے ہوئے تھے تو پھر اس حج و عمرہ و طواف کی روح آپ کو حاصل نہیں ہوئی ۔ اسی بات کا ذکر ابلیس کی مجلس میں اس کا مشیر بھی کر رہا ہے ؎
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
یعنی حج کے اجتماع میں اگر امت کے مسائل زیر غور نہیں آئے کہ کس طرح باطل نظام کے شکنجے سے امت کو نکالا جائے تو پھر حج و عمرہ محض رسوم سے زیادہ کچھ نہیں رہی ۔
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر
جو میں سر بسجدہ ہُوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنَم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز می
بظاہر نمازیں ، حج ، روزے ، سب کچھ ہورہا ہے لیکن باطن میں ان کے اثرات مرتب نہیں ہورہے ۔ اپنے اندر کا محاسبہ نہیں ہورہا ہے ۔ آخر میں ابلیس کا مشیر کہتا ہے ؎
کس کی نو میدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید
ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام
غلام احمد قادیانی نے بھی فتویٰ دیا تھا کہ انگریز کے خلاف جہاد کرنا یافرنگی ملوکیت (باطل نظام ) کے خلاف بغاوت کرنا ، اس کے خلاف کھڑے ہونا جائز نہیں ۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ میں پہلا مشیر اسی بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہ مسلمان ہمارے (ابلیسی ) نظام کے خلاف کیا کھڑے ہوں گے اور کیا یہ قرآن کا نظام قائم کریں گے ؟ ان کا حال تو یہ ہے کہ یہ اب ہمارے نظام کے خلاف کھڑے ہونا بھی گناہ سمجھ رہے ہیں ۔ (جاری ہے)