(امیر سے ملاقات ) امیر سے ملاقات قسط (30) - محمد رفیق چودھری

11 /

جو لوگ انڈیا سے ہجرت کرکےپاکستان آئے ان کے نزدیک صرف

یہی نصب العین تھا کہ وہ یہاں اسلام کا نظام قائم کریں،

ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بارے میں دورحاضر کے جید علمائے کرام

کی رائے ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ نے خدمت قرآن کا بہت بڑا کام لیا ،

یہ دعویٰ کرنا کہ میں موٹیویشنل سپیکر ہوں اور میںلوگوں کو بدل

سکتا ہوں ایک غلط دعویٰ اور بہت بڑا فتنہ ہے ،

اپنی استعداد کے مطابق ہر مسلمان مکلف ہے کہ وہ دین پر خود بھی

عمل کرے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے ،

ہو سکتا ہے ہماری زندگیوں میں اسلام نافذ نہ ہو لیکن اگر ہم نے

اخلاص کے ساتھ جدوجہد کی تو یہ آخرت میں نجات کا ذریعہ ہوگی ۔

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: ہمارے ہاں مغربی ایجنڈے سے متاثر کچھ لوگ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا ، یہ صرف مذہبی طبقے کی سوچ ہے، قائداعظم سیکولر تھے اور سیکولر سٹیٹ چاہتے تھے ۔ آپ کے نزدیک اصل حقیقت کیا ہے اور یہ کیسے لوگ ہیں جو نظریۂ پاکستان سے انحراف کررہے ہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی: سیکولر ازم کے تحت جو لوگ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ریاست کا کوئی religion نہیں ہوتا، religion تو لوگوں کاprivate affair ہوتا ہے وغیرہ تو اس حوالے سے ہم یہ عرض کرتے ہیں لفظ religion دنیا کےدیگر مذاہب کے لیے تو ٹھیک ہو سکتا ہے ، چاہے وہ یہودیت ہو ، مسیحیت ہو وغیرہ وغیرہ لیکن اسلام انگریزی والا religion نہیں ہے بلکہ اسلام دین ہے۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا:
{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف} ( آیت: 19) ’’یقیناً دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔‘‘
قرآن کریم اسلام کے لیے بار بار لفظ دین استعمال کرتا ہے اور دین کے مفاہیم میں بدلہ بھی ہے، قانون بھی ہے، اطاعت بھی ہے اور اگر ہم بہتر ترجمہ اردو میں کریں تو وہ ’نظام‘ ہے ،انگریزی میں کریں تو وہ ’system ‘اور complete code of lifeہے ۔یعنی دین اسلام ایک نظام کا نام ہے۔ علامہ اقبال نے قائداعظم کو خط لکھ کر جب لندن سے واپس بلایا تھا تو اس خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ جہاں تک میں نے دنیا کے مسائل پر غور و فکر کیا ہے تو ان کا حل اسلامی شریعت کے سوا کہیں نہیں۔ ہم کیسے اسلامی شریعت کو نافذ کر سکتے ہیں جب تک کہ ہمارے پاس اپنا ایک آزاد خطہ زمین نہ ہو۔ اقبال کسی مدرسےسے پڑھے ہوئے نہیں تھےبلکہ انہوں نے جرمنی سے فلاسفی میں پی ایچ ڈی کی تھی ۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ دین اپنا نفاذ چاہتا ہے ۔ اس لیے انہوں نے قائداعظم کو خط لکھ کر بلایا کہ آپ آکر مسلمانوں کی قیادت کیجئے اور ان کے لیے ایک ایسی ریاست قائم کیجئے جہاں دین کا نفاذ ہو سکے ۔ اس کے علاوہ علامہ کی شاعری بھی اسی تصور سے بھری ہوئی ہے ۔ سیکولر عناصر قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے دو تین جملے اپنے بیانیہ کے لیے پیش کرتے ہیں حالانکہ 11اگست سے پہلے اور بعدکی قائداعظم کی100 سے زائد تقاریر ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں کبھی وہ کہتے ہیں کہ ہمارا دستور قرآن ہوگا ، کبھی کہتے ہیں کہ اسلام نظام حیات ہے۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نےانسانیت کو لاینحل مسائل سے دوچار کردیا ہے ۔ ہمیں اللہ نے موقع دیا تو اسلام کی عادلانہ تعلیمات پر مبنی ایک معاشی نظام دنیا کےسامنے پیش کریں گے۔ ان کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ تھے ۔ ان سے قائداعظم نے فرمایا تھا کہ میرا یہ ایمان ہے کہ یہ پاکستان رسول اللہ ﷺ کا روحانی فیضان ہے اور اب ہمارا فرض ہے کہ ہم خلافت راشدہ کی روشنی میں یہاں اسلام کا نظام قائم کرکے دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کریں تاکہ اللہ اپنا وعدہ پورا کرے اور دنیا کی بادشاہت مسلمانوں کو حاصل ہو۔ پھر یہ کہ جو لوگ بھی انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ان کے نزدیک صرف ایک ہی نصب العین تھا کہ وہ یہاں اسلام کا نظام قائم کریں ورنہ نماز، روزہ ، زکوٰۃ کی اجازت تو انڈیا میں بھی تھی اور حج کے لیے جانے کی بھی کوئی ممانعت نہیں تھی۔ جس نعرے نے تحریک پاکستان میں جان ڈالی تھی وہ یہی تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا : لا الٰہ الا اللہ ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کلمہ کی بنیاد پر لوگوں کومتحرک کرکے خطہ زمین حاصل کیا گیا، یعنی لوگوں کو دھوکہ دیا گیا ، معاذ اللہ ۔ ایسا کہنا علامہ اقبال اور قائداعظم کی توہین ہے۔ ان کے نظریات کی توہین ہے اور ہمارے آبائو اجداد جو اپنے گھر بار چھوڑ کرآئے یہ ان کی توہین ہے۔کچھ لوگ 11 اگست کی تقریر کے چند جملوں کو بنیاد بنا کر یہ کہتے ہیں کہ قائداعظم سیکولر تھے اور سیکولر سٹیٹ چاہتے تھے ۔ حالانکہ خود قائداعظم اکیڈمی نے چار جلدوں پر مشتمل قائداعظم کے فرامین شائع کیے ہیں، اس دور کے اخبارات کے تراشے موجود ہیں جو اس بات کے گواہ ہیں کہ قائداعظم پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے ۔ بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے بعض خطبات اور کتابچے اس حوالے سے بہت قیمتی ہیں۔ مثلاً ’’قائداعظم، علامہ اقبال اور نظریۂ پاکستان‘‘ کے موضوع پران کا خطاب بھی موجود ہے اور کتابچہ کی شکل میں شائع بھی ہوتا ہے ۔ اسی طرح ’’اسلام اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے بھی کتابچہ موجود ہے ۔ اسی موضوع پر ’’استحکام پاکستان‘‘ کے عنوان سے بھی ایک کتاب موجود ہے اوریہ سارا موادتنظیم کی ویب سائٹ www.tanzeem.comپر بھی موجود ہے ۔ ہم نے تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے اس طرح کے لٹریچر کو بھی عام کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ سوشل میڈیا پربھی اس حوالے سے مختلف مواقع پر مہمات چلائی جائیں ۔ پھر ہم نے پاکستان کے سیاستدانوں ، بڑے صحافیوں ، علماء اور اہل علم تک بھی اس لٹریچر کو پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔
سوال: آج کل کی نوجوان نسل کو، علماء سے بغض پیدا کرنے والےاور دین کو اپنے نظریہ کے مطابق پیش کرنے والے گمراہ موٹیویشنل سپیکرز سے کیسے بچایا جا سکتا ہے اور دین کے حقیقی تصور اور تقاضوں کو کیسے روشناس کرایا جاسکتاہے ؟ ( نجی اللہ صاحب)
امیر تنظیم اسلامی:لفظ موٹیویشن کا ترجمہ کریں تو وہ ترغیب و تشویق ہے ۔ ہمارے اسلاف نے احادیث کی تالیف سے جو کتب تحریر فرمائیں ان کے’’ الترغیب و ترہیب‘‘ جیسے نام رکھے ۔ ترغیب یہ ہے کہ نیک اعمال کرو گے تو جنت ملے گی ، ترھیب یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو ۔ بشارت اور انذار قرآن کی اصطلاحات ہیں، ترغیب اور ترہیب ہمارے اسلاف کی اصطلاحات ہیں۔ کیا قرآن سے بڑھ کر موٹیویشن کہیں سے مل سکتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی خطابت کرنے والا ہو سکتا ہے ؟جو لوگ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر ﷺ کی تعلیم کو بنیاد بنا کر عوام کی اصلاح کی کوششیں کرتے ہوں ان سے بڑھ کر موٹیویشنل سپیکر موجودہ زمانے میں کون ہو سکتا ہے ؟ ڈاکٹر اسراراحمد ؒ کی دعوت اور بیان سے کئی لوگوں کی زندگی بدل گئی ۔ ان کو موٹیویشنل سپیکر کیوں نہیں کہا جاتا؟ اس کا مطلب ہے کہ موٹیویشنل سپیکر کی اصطلاح پر بھی سوالیہ نشان ہے ۔ جہاں تک سوال کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا 1985ء کا ایک خطاب موجود ہے جس میں آپ نے امت میں اُٹھنے والے فتنوں کے حوالے سے کلام کیا ہے ۔ ان میں سے ایک بڑا فتنہ انہوں نے یہ بیان کیا کہ اسلاف کی وہ سنہری زنجیر جس کے ذریعے اسلام ہم تک پہنچا اس کے حوالے سے بداعتمادی پیدا کی جاتی ہے ، ان کے خلاف نفرت اُبھاری جاتی ہے اور پھر امت کا تعلق اس زنجیر سے کاٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں امت ایک بے لنگر جہاز کی مانند ہوگی اور موٹیویشنل سپیکرز جدھر چاہیں اس کا رُخ موڑ دیں۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ جب عقائد اور اعمال کا معاملہ ہو تو ہمیں رہنمائی حضور ﷺکی سنت سے ملےگی۔حدیث مبارکہ ہے کہ ’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں ، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں۔‘‘یہ امت کا گولڈن پیریڈ تھا۔ اصل دین وہاں سےملے گا ۔ اس اعتبار سے آج ہم تک جو دین پہنچا وہ امت کے سلسلۃ الذہب یعنی سنہری زنجیر سے پہنچا ہے۔ ان میں علمائے کرام بھی ہیں ، مفسرین بھی ہیں ، محدثین بھی ہیں اور فقہاء بھی ہیں ۔ اگر اس زنجیر پر سے اعتماد ختم کر دیا گیا تو پھر سارا معاملہ ہی ختم ہو جائے گا ۔ اسی تعلق سے یہ کہا جاتا ہے کہ ذوالقرنین بادشاہ کا معاملہ کسی کو سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ تو قصہ ہی زمان و مکان کا تھا ۔ یہی سب سے بڑا فتنہ ہے ۔ دین محمدمصطفیٰﷺ پر مکمل ہوا۔ تعبیر اورتشریح آپﷺ عطا کر کے گئے۔ نئے مسائل کے لیے اجتہادی بصیرت رکھنے والے علماء مسائل کے جوابات ہمارے سامنے رکھیں گے۔ مگر آج ہم کھڑے ہو کر یہ کہیں کہ کسی کو سمجھ نہیں آیا تو یہ سوالیہ نشان ہے ۔ یہ نکتہ بھی سامنے رہے کہ علماء بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک علماءسو اور دوسر ے علماء حق۔ اگر ہم علمائے حق سے اپنے آپ کو دور کرلیں گے تو یہی راستہ ہمیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے اور پھر آزاد خیالی کے ساتھ جو چاہے گا تشریح کرے گا ۔ اس اعتبار سے ہمیں امت کے اسلاف سے جڑے رہنے کی ضرورت ہے ۔
سوال: اچھے موٹیویشنل سپیکر کی کیا کیاعلامات ہیں؟
امیر تنظیم اسلامی:ہم سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے محتاج ہیں ۔ یہ دعویٰ کرنا کہ میں موٹیویشنل سپیکر ہوں ، میں لوگوں کو بدل سکتا ہوں ۔ جو یہ دعویٰ کرتا ہے وہ غلطی پر ہے ۔ ہدایت دینا ، لوگوں کو بدلنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ۔ دوسری بات ڈاکٹراسراراحمدؒ یہ فرماتے تھے کہ جس کے پاس بیٹھ کر ،جس کو دیکھ کر تمہارےاندر آخرت کی فکر پیدا ہو اور تمہارا دل کرے کہ تم اللہ کو راضی کرنے میں اور آخرت کی فکر کرنے میں آگے بڑھو، ان شاءاللہ وہ خیر والا بندہ ہوگا۔ یہ موٹیویشنل سپیکر دینی مشاہیر میں سے کسی کا نام لینے سے کیوں کتراتے ہیں؟یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ یہ دراصل مغرب سے مرعوبیت کا نتیجہ ہے ۔ اگر کوئی داڑھی والا یا ٹوپی والا شخص کسی کالج یا یونیورسٹی میں تقریر شروع کرتے ہوئے انگریزی کے چند الفاظ بول دے تو لوگ اس کی بات کو قبول کرلیتے ہیں ۔ حالانکہ اگر معیار صرف انگریزی زبان ہے تو نیویارک اور لندن میں جھاڑو دینے والے کی انگلش ہمارے ان لوگوں سےزیادہ بہتر ہوگی۔ بجائے اس کے ہمارے موٹیویشنل سپیکر اگر بتائیں کہ یہ اللہ کی آیات ہیں ، اللہ کے رسول ﷺ کا یہ پیغام ہے اور ہمارے اسلاف نے اس طرح سمجھا ہے ، آج دنیا بھی غوروفکر کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچ رہی ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ یعنی کتاب و سنت اصل ہدایت ہے۔ اس کی روشنی میں بیان کریں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ قول و فعل میں تضاد نہ ہو ۔ بعض لوگوں کی بات بڑی سادہ ہوتی ہے مگر دل پر اثر کرتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے ان کا عمل بول رہا ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی مثال لے لیجئے ۔ بعض اوقات غیرت دینی کی وجہ سے ان کے بیان میں غصے کا اظہار بھی ہوتا تھا مگر لوگ یہ کہتے تھے کہ ان کا اندر بول رہا ہے ۔ وہ جو بات کر رہے ہیں ، اس مشن کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو کھپایا بھی ہے ۔ چنانچہ انسان کا عمل بولتاہے تو لوگوں میں تاثیر پیدا کرتا ہے۔ ورنہ بڑے سے بڑا موٹیویشنل سپیکر ہو مگر اسے دیکھ کر آخرت کی فکر پیدا نہ ہو ، عمل کا جذبہ پیدا نہ ہو بلکہ دنیوی لالچ اور حرص میں ہی اضافہ ہو تو میرے خیال میں وہ فتنہ ہے ۔ چوتھی بات یہ ہے کہ نرم لہجہ اور خیرخواہی کا جذبہ بھی بہت اہم کردار ادا کرتاہے ۔ اگر شروع ہو جائیں کہ فلاں بھی غلط ، فلاں بھی کافر ہے تو بات کا اثر نہیں ہوگا ۔ موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر کس میں غیرتِ دینی ہوگی اور فرعون سے بڑھ کر کون ظالم اور جابر ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تاکید کی کہ :
{فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی(44)} (طٰہٰ)’’تو(دیکھو!) اس کے ساتھ نرم (انداز میں) بات کرنا‘شاید کہ اس طرح وہ سوچے یا ڈرے۔‘‘
جب ضرورت پیش آئی تو موسیٰ علیہ السلام نے ترکی بہ ترکی جواب بھی دیا لیکن جب دعوت دینے جارہے ہیں تو اللہ نے حکم دیا کہ نرمی سے بات کرنا ۔ اللہ تعالیٰ تو یہاں تک بھی قرآن میں حکم دیتا ہے :
{وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍ ط} ( الانعام : 108) ’’ اور مت گالیاں دو ( یا مت برا بھلا کہو) ان کو جنہیں یہ پکارتے ہیں اللہ کے سوا ‘ تو وہ اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے زیادتی کرتے ہوئے بغیر سوچے سمجھے۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ بدترین آدمی وہ ہے جو اپنے والدین کو گالی دیتا ہے ۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ! اپنے ماں باپ کو گالی کون دے گا ؟ فرمایا : جو کسی کے ماں باپ کو گالی دیتاہے اور جواب میں اس کے ماں باپ کو گالی دی جاتی ہے تو قصوروار وہ خود ہے ۔ آج اگرکوئی نام نہاد موٹیویشنل سپیکر کسی کی کردار کشی پر اُتر آئے تو جواب میں اس کی بھی کردار کشی ضرور کی جائے گی اور یہ نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔ زبان درازی تو ویسے بھی جہنم میں لے جانے والی چیز ہے۔ آخری بات یہ کہ :(الدین النصیحہ) دین نصیحت اور خیر خواہی کا نام ہے ۔ آپ جس کو دعوت دے رہے ہیں اس کے حوالے سے آپ کے دل میں خیر خواہی کا جذبہ ہوناچاہیے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’آپؐ دعوت دیجیے اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ‘اور ان سے بحث کیجیے بہت اچھے طریقے سے ۔یقیناًآپؐ کا رب خوب واقف ہے اُن سے جو اُس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں اور وہ خوب جانتا ہے اُن کو بھی جو راہِ ہدایت پر ہیں۔‘‘ (النحل :125)
ہدایت دینا اللہ کا کام ہے ۔ آپ کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ آپ لوگوں کو خیر اور بھلائی کی طرف بلائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ آپ اچھے انداز سے اور خیر خواہی کے جذبے سے بات کریں ۔
سوال: یہاں انڈیا میں جب بھی میں اپنے آس پاس کے لوگوں کو دعوت دیتے ہوئے ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا حوالہ دیتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ وہ عالم نہیں تھے۔ اس بات پر میرا خون کھول اُٹھتا ہے کہ ایک شخص نے اپنا پروفیشن ترک کر کے اللہ کے دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور لوگ اس کی بات سننے کو اس لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ عالم نہیں تھا ۔ کیا دعوت دینا صرف علماء کا کام ہے ؟ دوسری بات یہ ہے کہ جب میں قرآن کے ذریعے لوگوں کو دعوت دیتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ تم قرآن کو نہیں سمجھ سکتے ،اگر تم قرآن کو خود سمجھنے کی کوشش کرو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔کیا قرآن کو صرف علماء ہی سمجھ سکتے ہیں ؟ ایسی صورتحال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟( محمد طائف،یوپی علی گڑھ انڈیا)
امیر تنظیم اسلامی:ہمارے ہاں عام طور پر عالم دین اسے کہا جاتاہے جس نے باقاعدہ طور پر درس نظامی کا کورس کیا ہو ۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر اسراراحمد ؒ خود بھی اپنے آپ کو عالم نہیں کہتے تھے ۔ جہاں تک دعوت دین کی بات ہے ، غلبہ دین کی جدوجہد میں حصہ لینے کی بات ہے تو یہ ہر مسلمان پر لازم ہے اور اپنی استعداد کے مطابق ہرمسلمان اس کا مکلف بھی ہے کہ وہ دین پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے ۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بارے میںاس دور کے جید علمائے کرام کی رائے ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ نے خدمت قرآنی کا بہت بڑا کام لیا ۔ موجودہ دور کے حالات اور مستقبل کے منظر نامے کا تجزیہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جس طرح ڈاکٹر صاحبؒ نے کیا ہے یہ بھی بہت بڑا کام ہے ۔ پھر یہ کہ نظام خلافت کے حوالے سے امت کو بیدار کرنا اور اس کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کرنا بھی ایک عظیم کام ہے جو ڈاکٹر صاحب ؒسے اللہ تعالیٰ نے لیا ہے ۔ اس لحاظ سے کئی بڑے بڑے علماء نہ صرف ڈاکٹر صاحب ؒ کے کام کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان سے استفادہ بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو ترغیب بھی دلاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحبؒ کے مشن کو سمجھو اور اس میں حصہ لو ۔ دہلی کے ایک بہت بڑے عالم مولانا اخلاق حسین قاسمی صاحبؒ نے ڈاکٹر صاحب ؒ کی دستار بندی بھی کی تھی ۔ مدارس کی اصطلاح میں دستار بندی اعزازی پی ایچ ڈی کے برابر ہوتی ہے ۔ اس بات کا ذکر ضمناً آگیا ورنہ ڈاکٹر صاحبؒ اس کا ذکر نہیں کرتے تھے اور نہ ہم کرتے ہیں ۔ پھر یہ کہ ایک مرتبہ جیو پر ڈاکٹر صاحبؒ کا انٹرویو افتخاراحمد نے کیا اور پو چھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحبؒ کو سنتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے ۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے کہا بالکل کرنی چاہیے کیونکہ یہ دین کا معاملہ ہے ۔آپ مجھے بھی سنیں اور دیگر مفسرین کو بھی سنیں ۔ جہاں تک اس منطق کا تعلق ہے کہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے تو پھر جن لوگوں کو عربی آتی ہے ان پر بھی پابندی لگنی چاہیے کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ وہ گمراہ ہو جائیں گے ۔ یہ ایک بے تکی بات ہے ۔ ہمارے جن بزرگوں نے قرآن پاک کے اُردو میں ترجمے کیے ہیں ، تفاسیر لکھی ہیں کیا انہوں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ سارا کام کیا ہے؟ تیسری بات یہ ہے کہ قرآن حکیم کے مطالعہ کے دو پہلو ہیں ۔ ایک تذکر کا پہلو ہے جس میں عام آدمی بھی نصیحت حاصل کر سکتا ہے اور احکام پر عمل کر سکتا ہے جیسے نماز روزہ کا بیان ہے، یہ عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔ جبکہ ایک تدبر کا پہلو ہے کہ گہرائی میں جاکر علم و حکمت کے موتی نکالے جائیں تو یہ کام علماء کا ہے اور قیامت آجائے گی لیکن قرآن کے علم و حکمت کے موتی ختم نہ ہوں گے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا ایک کتابچہ’’ مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس میں فہم قرآن کے ان دونوں پہلوؤں پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ۔ ہم لوگوں کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ آپ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا بیان سنیے اور جتنا سمجھ میں آتا ہے اس پر عمل کیجئے اور اگر آپ نے علم و حکمت کے موتی تلاش کرنے ہیں تو پھر عربی سیکھئے اور باقاعدہ علم حاصل کیجئے ۔
سوال:خطبہ حجۃ الوداع میں حضورﷺنے فرمایا:((بلغوا عنی ولوآیۃ))’’میرا پیغام لوگوں تک پہنچاؤ چاہے ایک ہی آیت ہو ‘‘اس کا ہم کیامفہوم لیں گے؟
امیر تنظیم اسلامی:پہلی بات یہ کہ امتی وہی شخص کہلائے گا جو امتی والا کام کرے گا ۔ امام قرطبی ؒنے یہ بات لکھی ہے کہ جو شخص امتی والا کام نہیں کر رہا وہ امتی کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ امتی والا کام کیا ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘تم حکم کرتے ہو نیکی کا‘اور تم روکتے ہو بدی سے۔‘‘ (آل عمران:110)
ہر مسلمان اپنی استعداد کے مطابق مکلف ہے کہ اللہ نے جن کاموں کو کرنے کا حکم دیا ہے وہ خود بھی کرے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے اور جن سے روکا ہے ان سے خود بھی رک جائے اور دوسروں کو بھی روکنے کی کوشش کرے ۔ چنانچہ جو تذکر کا پہلو ہے اس کے لیے زیادہ علوم کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھےکہ ہمیں قرآن کو ایسے پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے جیسے ایک بدو کے سامنے قرآن تھا ،بدو کو عربی آتی تھی لہٰذا قرآن کے تذکر کے پہلو کو وہ بھی سمجھ سکتا تھا ۔جس کو عربی نہیں آتی تو وہ ترجمہ کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرے ۔ علماء نے ترجمہ عوام کے لیے ہی کیا ہے ۔ لیکن اگر آپ عربی سیکھ لیں تو یہ اور بھی بہتر ہوگا ۔
سوال: یہ اعتراضات جن کا ذکر ہمارے بھائی نے کیا ہے ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں اور ایک بہت بڑی تحریک میں اس پر زیادہ تکرار ہوتی ہے ۔ کیوں ؟
امیر تنظیم اسلامی:ڈاکٹراسراراحمدؒ کی ایک تحریر ہے جس سے وہ خود بھی بہت محبت کرتے تھے ، وہ قرآن اور جہاد ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب قرآن نازل ہورہا تھا تو اس کے نتیجے میں ایک تحریک برپا ہوئی ، اسی قرآن کے ذریعے اللہ کے رسولﷺ نے لوگوں کی تربیت کی ، اسی قرآن کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں ایمان کی طاقت پیدا ہوئی اور اس کی بنیاد پر پھر جہاد کا آغاز ہوا اور بالآخر ایک ایسا انقلاب آیا جس نے باطل نظام کو خاک میں ملا دیا ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کے متعلق فرماتا ہے :
{اِنَّــآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃِ الْقَدْرِ(1)} (القدر)’’یقیناً ہم نے اتارا ہے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں۔‘‘
تقدیروں کو بدل دینے والی رات میں تقدیروں کو بدل دینے والا کلام نازل ہوا ۔مشرکین کو معلوم تھا کہ یہ کلام باطل نظام کی بنیادوں کو ہلا دینے والا ہے ۔ لہٰذا اسی لیے انہوں نے کہا تھا :
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ}(فصلت :26)’’اور کافروں نے کہا: اس قرآن کو نہ سنو اور اس میں فضول شوروغل مچاؤ تا کہ تم غالب آجاؤ۔‘‘
مغربی تہذیب کے علمبرداروں اور ان کے غلاموں کو بھی پتا ہے کہ اگر مسلمان قرآن کے اصل پیغام کو سمجھنے لگ گئے تو باطل استعماری نظام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوںگے کیونکہ قرآن اپنا نفاذ چاہتا ہے ۔ اس لیے یہ صدیوں کی داستان ہے کہ بیرونی دشمن بھی اور اندرونی میر جعفر اور میرصادق بھی ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ لوگوں کو فہم قرآن سے دور رکھا جائے ۔ آج ہمارا سیکولر طبقہ کہتا ہے کہ پاکستان کو سیکولر سٹیٹ ہونا چاہیے ۔ سیکولر ازم کی تعریف یہ ہے کہ religion انفرادی معاملہ ہے ، اپنے گھر میں، اپنے معبد میں جس کی چاہے کوئی عبادت کرے لیکن اجتماعی سطح پر religion کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے ۔ جبکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ انفرادی سطح پر اسلام کو قبول کرنے کے معاملے میں کسی پر کوئی جبر نہیں :
{ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف} (البقرہ:256) ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘
ہر امتی مکلف ہے کہ دین پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں کو بھی خیرخواہی کے جذبے کے تحت دعوت دے مگر کسی کو گن پوائنٹ پر اسلام قبول نہیں کروایا جائے گا ۔ فرمایا:
{اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا(o)}(الدھر:3)’’اب چاہے تو وہ شکر گزار بن کر رہے ‘چاہے ناشکرا ہوکر۔‘‘
آپ کا کام ہے دعوت دینا ۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی کفر اور ناشکری کا راستہ اختیار کرتاہے تو وہ خوداللہ تعالیٰ کو جواب دے گا ۔ لیکن یہی قرآن اجتماعی سطح پر یہ حکم دیتا ہے کہ :
{اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ط}’’ حکم تو صرف اللہ کا ہے۔‘‘
اجتماعی سطح پر ، معاشرے میں ، عدالت میں ، حکومت اور اداروں میں اللہ کا حکم نافذ ہونا چاہیے ۔ یعنی قرآن باطل نظام کو زمین بوس کرکے اللہ کے نظام کو قائم کرنے کی بات کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب اور اس کے پروردہ لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ لوگ قرآن کو کیوں سمجھ رہے ہیں۔
سوال: میں تنظیم اسلامی کا رفیق ہوں اور الحمداللہ تنظیم میں صرف اللہ کے نظام کےنفاذ کےلیے شامل ہوا ہوں،اس کے علاوہ کوئی ذاتی خواہش نہیں رکھتا۔ ایک چیز جس پر میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ تنظیم کاپلان پُرامن دھرنا ہے ، ہو سکتا ہے کئی ماہ کا طویل دھرنا ہو ، حکومت کی طرف سے شدید ردعمل بھی آسکتا ہے، شہادتیں بھی ہو سکتی ہیں ۔ تنظیم ہماری روح کی تربیت تو اچھی کر رہی ہے لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ رفقاء کی ظاہری جسمانی تربیت بھی ہونی چاہیے تاکہ ان میں برداشت کا مادہ پیدا کیا جائے کیونکہ یہ چیز بھی ہمیں سیرت سے ملتی ہے؟(فرحان فدا، کراچی)
امیر تنظیم اسلامی: پہلی بات تویہ ہے کہ دین پر عمل کرنا، دین کی دعوت دینا، دین کے قیام کی جدوجہد کرنامیرے دینی فرائض میں شامل ہے جو میں اکیلے نہیں کر سکتا۔اس کے لیے کسی دینی اجتماعیت میں شامل ہونا ضروری ہے ۔ اس لیے میں تنظیم میں شامل ہوا اور تنظیم اسلامی کا ہدف اسلامی نظام کا قیام ہے ۔ مگر یہ کام ہم نے اس لیے کرنا ہے تاکہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے اور آخرت میں نجات مل جائے۔ یہ اصولی سبق ہمیں بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے بھی دیا ہے اور ان کے بعد سابق امیر حافظ عاکف سعید صاحب نے بھی دیا ہے۔ ہو سکتا ہے ہماری زندگیوں میں اسلام نافذ نہ ہو لیکن اگر ہم نے اخلاص کے ساتھ جدوجہد کی ہوگی تو آخرت میں ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔ دوسری بات سوال میں یہ آئی کہ جسمانی تربیت بھی ہونی چاہیے ۔ اگر ہم رسول اللہ ﷺکی تعلیمات سے رہنمائی لیں تو ہماری روحانی تربیت بھی ہوگی ، جسمانی تربیت بھی ہوگی ۔ لیکن آج ہمارا لائف سٹائل ایسا بن چکا ہے کہ طرح طرح کی بیماریوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ عشاء کی نماز کے فوراً بعد سو جایا کرتے تھے ۔ آج ہم ساری رات جاگتے ہیں (الا ماشاء اللہ )۔ لہٰذا نیند میں جو فوائد اللہ نے رکھے ہیں وہ ہمیں حاصل نہیں ہو رہے۔ رسول اللہﷺ تہجد کے وقت بیدار ہوتے تھے اور تہجد پڑھتے تھے ، اللہ سے مدد اور نصرت کے طلب گار ہوتے تھے ۔ آج ہم اس سنت سے بھی محروم ہیں (الا ماشاء اللہ)۔ رسول اللہﷺ نفلی روزوں کا بھی اہتمام کرتے تھے ۔ اگر ہم بھی اس سنت پر عمل کریں تو ہماری جسمانی اور روحانی تربیت کے لحاظ سے یہ بہت مفید عمل ہوگا ۔ ہم کہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد منہج انقلاب نبویﷺ کے مطابق ہونی چاہیے تو منہج انقلاب نبویﷺ میں یہ ساری چیزیں  شامل ہیں ۔ اگرچہ ہمارےمنہج میں عسکری تربیت شامل نہیں ہے ، اس کی جگہ ہم نے صبرو استقامت کے مراحل سے گزرنا ہے ۔ اس کے لیے بھی ہماری مشق ہونی چاہیے ۔ اس مشق کے لیے ضروری ہے کہ ہم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی اپنے گھر سے شروع کریں اور پھر اپنے دوست احباب اور محلے تک اس دائرہ کو پھیلاتے جائیں تو صبر و استقامت کے لحاظ سے ہماری تربیت ہو تی جائے گی۔کیونکہ اس کے نتیجہ میں آپ کو مخالفتوں ، مشکلات اور مصائب کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتاہے ۔ان سب مراحل سے ہم گزریں گے تو ہماری روحانی تربیت بھی ہوگی اور جسمانی تربیت بھی ہوگی ۔ ان شاء اللہ