اداریہ
خورشید انجم
اسلاموفوبیا، پنجۂ یہود اور مسلمان…
جولائی کے آخری ہفتےمیں ساؤتھ پورٹ برطانیہ میں تین کم عمر بچیوں کو بے رحمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا۔ جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ حملہ آور ایک مسلمان شخص تھا جس کا نام ’علی الشکاتی‘ تھا۔ جلتی پر تیل کا کام ایک سنسنی خیز کہانی نے کیا کہ وہ 2023ء میں ایک کشتی کے ذریعے غیر قانونی طور پر برطانیہ آیا تھا۔ برطانیہ میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ویب سائٹس نے مسلمان لڑکے کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور پھر سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے ذریعے آگ پھیلا دی گئی ۔ حالیہ جنرل الیکشن میں غیر معمولی کامیابی کے نشے میں سرشار لیبر پارٹی حکومت نے قاتل کی اصل شناخت کے عمل میں تاخیر کی۔ برٹش نیشنل پارٹی، انگلش ڈیفنس لیگ، انگلینڈ فرسٹ اورنیشنل فرنٹ جیسےسفید فام نسل پرست گروہ فوری طور پر حرکت میں آ گئے اور پروپیگنڈے کو تقویت دی کہ ساؤتھ پورٹ واقعے سمیت اکثر بڑے جرائم میں مسلمان ملوث ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی املاک اور مساجد پر متعصب نسل پرستوں نے ہلہ بول دیا۔ بھارتی نژاد ہندوؤں نے بھی اس مہم میں انتہا پسند برطانویوں کا ساتھ دیا ۔ اِس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ گجرات ہو، اودے پور ہو یا ساؤتھ پورٹ، ہندؤ مسلمانوں سے اپنی دشمنی ظاہر کرنے سے ہرگز نہیں شرماتا۔
قارئین کو یہ پڑھ کر بھی ہر گز حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ گارڈین اخبار کی 2018ء کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں حالیہ بلوؤں کا مرکزی کردار ٹامی رابنسن، جو انگلش ڈیفنس لیگ کا سربراہ ہے، اس کی مالی امداد میں صہیونی ادارے ملوث ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ میں مسلم مخالف یا صحیح تر الفاظ میں اسلاموفوبیا کی بنیاد پر شروع ہونے والے ان بلوؤں نے ہر سوچنے سمجھنے والے انسان کو ایک مرتبہ پھر یہ سوال اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے کہ سیکولرازم، مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے دلفریب نعروں کو بلند کرنے اور ان کے علمبردار ہونے کے دعوے دار مغرب کا اصل چہرہ کیا اس قدر مکروہ بھی ہو سکتا ہے؟ نسلی امتیاز و تفریق کو ختم کرنے کے دعوے دار ان ممالک میں ایسے بڑے بڑے جتھے بھی پنپ رہے ہیں اور انہیں اس قدر آزادی بلکہ بعض صورتوں میں سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے کہ بے باکی سے مسلمانوں، جو کہ اقلیت میں ہیں، اُن کی مساجد اور املاک کو نشانہ بنائیں ۔پھر یہ کہ ملک کا وزیراعظم انہیں thugs یعنی بدمعاش تو قرار دے وہ بھی زبانی حد تک، مگر terrorist یعنی دہشت گرد اور Islamophobes یعنی اسلام سے دشمنی رکھنے والے کہنے سے صاف اعراض کرے۔ اندازہ کیجئے کہ اگر خدانخواستہ اس کے عُشر عَشیر بھی کوئی سانحہ فاجعہ کسی مسلمان ملک میں آباد اقلیت کے ساتھ پیش آ جاتا تو کیا آسمان نہ ٹوٹ پڑتا۔ دنیا بھر کا میڈیا چیخ چیخ کر مسلم فنڈامینٹلسٹ اور مسلم دہشت گردی کا کہرام مچا رہا ہوتا۔ مغربی ممالک کے حکمران بڑھ چڑھ کر اسلام اور مسلمانوں پر زبان کے نشتر چلا رہے ہوتے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مذمتی قرارداد منظور ہو چکی ہوتی اور شاید کسی مسلم ملک پر حملہ کرنے کے لیے اتحاد بھی قائم کر دیا جاتا۔ ہمارے نزدیک مغرب کی اس دورخی پالیسی کو ٹھیک طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھا جائے اور اس دجل پر سے ایک ایک کر کے تمام پردے اٹھائے جائیں جنہیں اُس تاریخ کی آڑ میں چُھپا دیا گیا ہے اور جسے گزشتہ تقریباً تین صدیوں سے فاتح مغربی تہذیب نے ہی لکھا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بیگانے تو دُور، اپنوں میں سے بھی اکثر اس افسانےکے اسیر ہو چکے ہیں۔
ہمارے جدید سیکولر اور لبرل دانشور کا المیہ ہے کہ وہ فاتحین کی درج کردہ تاریخ میں اُن عوامل اور اجزاء پر بھی کبھی جرح نہیں کرتا جو واضح طور پر غلط، متضاد یا نامکمل ہوتے ہیں۔ مغرب کی یونیورسٹیوں اور میڈیا پر بیان ہونے والے ہر لفظ کو حق تصور کرکے آمنّا و صدّقنا کہتا چلا جاتا ہے۔ اسلاموفوبیا کی تاریخ، یہود کی شاطرانہ چالوں، فری میسنز اور الومیناتی جیسی تناظیم کے قیام کےمقاصد، عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے پس پردہ ہاتھ اور ان سب کے مابین تعلق کا ایسےدانشور حضرات یا تو سرے سے انکار ہی کر دیتے ہیں یا ان کے قیام ووجود کے دلائل و محرکات کو روشن خیالی اور لبرل ازم قرار دیتے ہیں۔ فری میسنز کی بنیاد نائٹس ٹیمپلرسے جڑی ہوئی ہے۔ نائٹس ٹیمپلر کی کہانی 1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران شروع ہوتی ہے جب یورپ سے تعلق رکھنے والے مسیحی فرقے رومن کیتھولک کی افواج نے مسلمانوں سے یروشلم چھین لیا۔ 1118ء میں فرانسیسی کمانڈر ہیوز ڈے پیانز نے اپنے علاوہ آٹھ فوجیوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ تشکیل دیا جس کا نام پوور نائٹس آف کرائسٹ آف دی ٹیمپل آف سولومن رکھا گیا۔ یہ گروہ بعد میں نائٹس ٹیمپلر کہلایا۔نائٹس ٹیمپلر اعلیٰ سطحی کمانڈرز یا نائٹس تھے جن کا ہیڈکوارٹرز یروشلم کے مقدس ٹیمپل ماؤنٹ پر بنایا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ نائٹس ٹیمپلر درحقیقت یہودیت کے پیروکار تھے، اسی لیے اپنی کارروائیوں میں عیسائیوں کو بھی لوٹا اور ان کا قتل عام بھی کیا۔ یہ نائٹس ٹیمپلر کے ہی کچھ اراکین تھے جنھوں نے 14ویں صدی کے دوران فرانس سے بھاگ کر برطانیہ میں فری میسن نامی تنظیم شروع کی۔ فری میسنری اور الومیناتی کے پیروکاروں میں ہر دور کے اہم ترین سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، عسکری میدان کے بڑے ناموں کا موجود ہونا تو ایک ایسا سچ ہے جس کے عمومی طور پر دنیا بھر کے فلاسفہ اور محققین قائل ہیں۔ اور دنیا کی ہر بڑی یونیورسٹی میں اس پر کام ہو چکا ہے۔ روایتی تاریخ دانوں نے بھی اس حقیقت کی کبھی تردید تو نہیں کی، البتہ اس کی بازگشت سے صرفِ نظر ضرور کیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ کے ان اوراق پر جان بوجھ کر پردہ ڈال دیا تو غلط نہ ہو گا۔ بہرحال اُس دور کے صلیبیوں کو بالآخر صلاح الدین ایوبی ؒ کے ہاتھوں شکست کھا کر واپس یورپ کا رُخ کرنا پڑا۔
حقیقت یہ ہے کہ اصلاحِ تہذیب اور احیائے علوم کی تحریکیں جو کہ مغرب میںسولہویں صدی کے اوائل میں اُٹھیں بلکہ ان کا اصل آغاز تو فلورنس شہر کے میڈیچی خاندان کے ذریعے پندرہویں صدی میں ہی ہو چکا تھا، ان کا اصل ہدف یورپ میں پاپائیت کے نظام اور بادشاہت کا خاتمہ تھا۔دراصل جس وقت یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا عین اسی وقت مسلم سپین میں علم و فضل اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہود کو مسلم سپین کے دور میں وہ آزادی نصیب ہوئی جس کا وہ پہلے تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہود یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر دنیا میں مذہب کے نام پر حکومت قائم رہی تو عددی لحاظ سے وہ اس قدر اقلیت میں ہیں کہ کبھی کسی ملک کی حکومت ان کے ہاتھ میں نہیں آسکےگی۔ لہٰذا انہوں نے اپنا پہلا ہدف یورپ میں پاپائیت اور بادشاہت کے اشتراک سے قائم نظام کو گرانا بنایا۔ فلسفہ کی بحث میں الجھا کر لبرل اور سیکولر سوچ کو پروان چڑھایا۔ یہاں تک کہ ایک طرف تو انقلاب فرانس کے بعد نظامِ حکومت ووٹوں کی گنتی پر کھڑا کر دیا گیا۔ یہی وہ دور ہے جب یہودی حقیقی طور پر عالمی ڈیپ سٹیٹ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ سودی بینکاری کے نظام کو رواج دیا اور یورپ کی معیشت پر مکمل قابو پا لیا۔ اسی طرح حکومت کے زمامِ کار چلانے والوں کے ساتھ اپنے مراسم بڑھائے۔ پروٹیسٹنٹ برطانیہ کے زوال کے بعد پروٹیسٹنٹ امریکہ جو اُن کے معاونین بلکہ وفادار بن چکے تھے، اُن کو دنیا کی سپر پاور ز بنوایا۔
یہود کے منصوبہ کو آگے بڑھانے بلکہ یورپ سے نکال کر دوبارہ یروشلم داخل کرنے میں اہم ترین کردار جرمنی کے شہر فرینکفرٹ سے تعلق رکھنے والے روتھ شیلڈ خاندان نے ادا کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور کا بڑا سرمایہ دار،معیشت اور سیاست دونوں پر اثر رکھتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ اشکنازی یہودی ہونے کے ناطے روتھ شیلڈ خاندان کی مذہب (یہودیت) اور خاص طور پرارض مقدسہ یعنی فلسطین سے خاص دلچسپی رہی ہے۔ وہ اپنی دولت اور طاقت کو مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بالفور ڈیکلریشن ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں انسانی تاریخ پر خوفناک اثرات مرتب کرنے والا بالفور ڈیکلریشن، جس کے باعث مسلمان اُمت گزشتہ پچہتر سال سے آگ اور خون میں نہا رہی ہے، اُسے 2 نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے ایک خط کی صورت میں روتھ شیلڈ خاندان کے اُس وقت کےسربراہ لیونل والٹر روتھ شیلڈ کو لکھا تھا۔ اس خط میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ برطانوی حکومت اپنی تمام قوتیں اس مقصد کے حصول کے لیے لگائے گی کہ کیسے فلسطین کے علاقے میں یہودیوں کے لیے ایک وطن تخلیق کیا جائے۔ بالفورڈیکلریشن کے تحریر ہونے سے پہلے 1904ء میں دنیا بھر کے صہیونی نمائندوں نے برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا اور ساتھ ہی یروشلم کے آس پاس کے علاقوں میں جا کر آباد ہونے کی خفیہ کوششیں شروع کر دیں۔ خلافتِ عثمانیہ میں فلسطین کے علاقے میں یہودیوں پر زمین خریدنے کی پابندی تھی۔ لہٰذا خلافتِ عثمانیہ کے علاقے یروشلم سے تقریباًساٹھ کلو میٹر دُور 1909ء میں روتھ شیلڈ دنیا بھر سے ساٹھ یہودی سرمایہ داروں کو لے کر پہنچا اورتِل ابیب شہر کو بسایا جو آج ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کا دار الحکومت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آ ج بھی روتھ شیلڈ خاندان نے صہیونیت کے فروغ اور صہیونی عزائم کے راستے میں سے رکاوٹیں دور کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہوا ہے۔
انیسویں صدی کے اختتام پر یہود کی قائم کردہ ڈیپ سٹیٹ اپنا حتمی وار کرنے کے لیے تمام تیاری مکمل کر چکی تھی۔ جنگ عظیم اوّل اس لیے شروع کروائی گئی کہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا جا سکے۔ پھر جنگ عظیم دوم کے بعد پوری دنیا پر امریکی اجارہ داری اور آئی ایم ایف کے معاشی استعمار کے ذریعے قبضہ جما لیا گیا ۔ اپنے حریف سوویت یونین کو شکست سے دوچار کیا اور یوں 1990 ء میں بش سینیئر کے ذریعے نیو ورلڈ آرڈر کا نفاذ کیا جو درحقیقت جیو ورلڈ آرڈر تھا۔ لیکن یہودی جانتا ہے کہ اس کا اصل دشمن اسلام اورمسلمان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کا مسلمان کسی طور پر یہود کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن اسلام میں وہ فطری طاقت و قوت موجود ہے کہ اگر اس نظام کو اپنا کر اسے نافذ کر دیا جائے تو یہ ظلم کے نظام کو ختم کر کے عدل کے نظام کو قائم کر دے گا۔ بہرحال اب یہودی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے بنیادی مقصد یعنی گریٹر اسرائیل اور دجال کی عالمی حکومت کے قیام سے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا اب اسے جمہوریت اور سیکولرازم کے نام پر قائم حکومتوں کی ضرورت نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تقریباً دو دہائیوں کے دوران مغرب اور اس کے اتحادیوں مثلاً بھارت میں مذہبی رجحانات رکھنے والوں کو سیاسی نظام میں پذیرائی دلوائی گئی ہے۔
ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ساؤتھ پورٹ میں اسلاموفوبیا اور اُس کے نتیجہ میں مسلم دشمنی کا مظاہرہ کوئی اتفاقی یا الگ تھلگ واقعہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب اور اُس کے اتحادیوں (جیسے بھارت) میں اسلاموفوبیا نے جو قبضہ جمایا ہوا ہے اس کے محرکات اور اہداف دونوں یہود کی تاریخ اور اُن کے عزائم سے جُڑے ہوئے ہیں۔ عالمِ اسلام کاتو عالم یہ ہے کہ آج اللہ کے ساتھ کیے گئے قول و قرار اور عہد و میثاق سے انحراف کے باعث ہم پر ذلت اور مسکنت مسلط کر دی گئی ہے اور ہم اللہ کے غضب میں گھرے ہوئے ہیں۔ لیکن پانی ابھی سر سے نہیں گزرا۔ قرآن و حدیث کی نصوص سے یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ قیامت سے قبل پورے کرۂ ارض پر اللہ کے دین حق کا غلبہ اور خلافت علیٰ منہاج النبوت کا نظام قائم ہو کر رہے گا۔ آج اُمتِ مسلمہ کو فکر اس بات کی کرنی ہے کہ باطل کے خلاف جدوجہد میں ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حق و باطل کے درمیان اس کشاکش میں اُمتِ مسلمہ ٹھیک رخ کا تعین کرے اور اپنے فرض منصبی کے مطابق صحیح کردار ادا کرے۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024