(الہدیٰ) دوہرا ایمان = دوہرا اجر - ادارہ

11 /
الہدیٰ
دوہر اایمان = دوہرا اجر
 
 
آیت 54{اُولٰٓئِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْنِ} ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دیا جائے گا دو مرتبہ‘‘
یعنی سابقہ اُمّت کے جو لوگ (یہودی یا نصرانی) اسلام قبول کریں گے وہ دوہرے اجر کے مستحق قرار پائیں گے ۔ اس سے پہلے وہ انجیل اور تورات کو مانتے تھے اور اب انہوں نے قرآن کو بھی تسلیم کر لیا۔
{بِمَا صَبَرُوْا وَیَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ(54)} ’’بسبب اس کے کہ وہ ثابت قدم رہے اور وہ بھلائی کے ذریعے سے برائی کو دفع کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘
آیت 55{وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ز} ’’اور جب انہوں نے لغو باتیں سنیںتو انہوں نے ان سے اعراض کیا اور کہا کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔‘‘
{سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ زلَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ(55)} ’’تم لوگوں پر سلام! ہم جاہلوں سے اُلجھنا نہیں چاہتے۔‘‘
یہاں اس مکالمے کی طرف اشارہ ہے جو حبشہ کے وفد کے ارکان کا مشرکینِ مکّہ کے ساتھ ہوا تھا۔ حبشہ میں جن لوگوں نے صحابہؓ کی کوششوں سے ایمان قبول کیا تھا بعد میںیہ وفد حضورﷺ سے ملاقات کے لیے مکّہ آیا تھا۔ 
مشرکین ِ مکّہ نے ان لوگوں سے بہت بے ہودہ باتیں کیں‘طعنے دیے اور ان کا خوب تمسخر اڑایا کہ تم لوگ بہت احمق ہو جو اپنی الہامی کتاب کو چھوڑ کر اس نئے دین میں شامل ہوگئے ہو۔ آیت زیر مطالعہ میں اس وفد کے لوگوں کا جواب نقل ہوا ہے جو انہوں نے مشرکینِ مکّہ کو دیا تھا کہ ہمارا آپ لوگوں سے کچھ سروکار نہیں ‘ہم اپنے اعمال کے ذِمّہ دار ہیںاور تم لوگ اپنے اعمال کے۔ ہم اللہ کے فضل سے پہلے بھی حق پر تھے اور اب ہمیں اس حق پر بھی ایمان لانے کی سعادت ملی ہے جو قرآن کی صورت میں ہمارے رب کی طرف سے آیا ہے۔
 
درس حدیث 
کون سا صدقہ ثواب میں بڑھ کر ہے؟
 
عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ قَالَ رَجُلٌ ، یَا رَسُوْلَ اللہِ ا ! أَیُّ الصَّدَقَۃِ أَعْظَمُ أَجْراً؟ قَالَ: ((أَنْ تَصَدَّقَ وَأَ:نْتَ صَحِیْحٌ شَحِیْحٌ ، تَخْشَیِ الْفَقْرَ، وَتَأْمُلُ الْغِنٰی، وَلَا تُمْھِلَ، حَتّٰی إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ)) قُلْتَ: ((لِفُلَانٍ کَذَا ، وَلِفُلَانٍ کَذَا ، وَقَدْ کَان لِفُلَانٍ)) (رواہ ابوداؤد)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دریافت کیا، اے اللہ کے رسولﷺ! کون سا صدقہ ثواب میں زیادہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست اور مال کو جمع رکھنے کا خواہش مند ہو، تجھے محتاجی سے ڈر لگتا ہو اور تو امیری کا آرزو مند ہو۔ نیز صدقہ دینے میں دیر نہ کر، یہاں تک کہ جب (روح) حلق کے قریب پہنچ جائے تب تو وصیت کرے کہ فلاں کے لیے اتنا مال ہے اور فلاں کے لیے اتنا ہے جب کہ مال فلاں کا ہوچکا ہے۔‘‘