الہدیٰ
دعوت دینا آپ کا کام، ہدایت دینا اللہ کا کام
آیت 56{اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ج } ’’(اے نبیﷺ!) آپؐ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو آپؐ چاہیں‘بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے‘‘
{وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ(56)} ’’اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔‘‘
یہ آیت خاص طور پر حضوراکرمﷺ کے چچا ابو طالب کے بارے میں ہے۔ حضورﷺ کی شدید خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئیں۔ ان کا انتقال10 نبوی میںہوا تھا۔ ان کے آخری وقت بھی حضورﷺ نے ان سے بہت اصرار کیا کہ چچا جان!آپ اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ کے کلمات میرے کان میں کہہ دیں تا کہ مَیں اللہ کے ہاں آپ کے ایمان کی گواہی دے سکوں‘لیکن وہ اس سے محروم رہے۔ بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضورﷺ پر ان کے بہت احسانات ہیں اور ان کے وہ احسانات حضورﷺ کی نسبت سے ہم سب پر بھی ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان کانام ادب سے لیں اور ان کا ذکر احترام سے کریں۔
آیت 57{وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَاط} ’’اور وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم آپؐ کے ساتھ اِس ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنی زمین سے اُچک لیے جائیں گے۔‘‘
عام طور پر کسی معاشرے میں حق کو قبول کرنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو حق کو پہچانتے ہی فوراً قبول کرلیتے ہیں۔ ان کے برعکس کچھ لوگ حق کو پہچان لینے کے باوجود منتظر رہتے ہیں کہ کچھ اور لوگ بھی آجائیں ‘جب کچھ لوگ اس نظریے کو قبول کر کے اس نئے راستے پر چلیں گے اور ان کے چلنے سے اس راستے کے نشانات واضح ہو کر ایک پگڈنڈی بن جائے گی تو ہم بھی شامل ہو جائیں گے۔ ان دو اقسام کے علاوہ ہر معاشرے میں ایک گروہ ایسے کم ہمت لوگوں پر بھی مشتمل ہوتا ہے جو کسی نظریے کی خاطر کسی قسم کی آزمائش جھیلنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ وہ حق کو پہچان تو لیتے ہیں مگر اسے بڑھ کر قبول کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ آیت زیر مطالعہ میں ایسے کم ہمت لوگوں کا قول نقل ہوا ہے کہ اے محمد (ﷺ) آپ کی باتیں تو درست ہیں‘ آپ کی دعوت دل کو بھی لگتی ہے‘ لیکن ہم پورے عرب کے ساتھ دشمنی مول نہیں لے سکتے۔
{اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّہُمْ حَرَمًا اٰمِنًا} ’’کیا ہم نے انہیں امن والے حرم میں متمکن نہیں کیا؟‘‘
ان کے اس بہانے کا یہاں یہ جواب دیا گیا ہے کہ جس حرم کی حدود میں وہ سکون اور چین کی زندگی بسر کررہے ہیں ‘اسے امن کی جگہ کس نے بنایا ہے؟ تو جس اللہ نے حرم کو امن والی جگہ بنایا ہے ‘کیا اب وہ اپنے نام لیوائوں کی مدد نہیں کرے گا اور کیا وہ ان کو ان کے دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا؟
{یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْ ئٍ}’’کھنچے چلے آتے ہیں اس (حرم) کی طرف ہر قسم کے پھل‘‘
اس گھر کو امن والی جگہ بھی اللہ ہی نے بنایا ہے اور اُسی نے اس کو پھلوں اور رزق کی فراوانی سے نوازا ہے۔
{رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا} ’’یہ خاص رزق ہے ہماری طرف سے‘‘
اس لیے کہ ہمارے محبوب بندے حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد کو مکہ آباد کر کے دعا کی تھی۔ اور یہ اسی دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر طرح کا رزق وافر مقدار میں وہاں بسنے والے لوگوں تک مسلسل پہنچا رہے ہیں۔
{وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(57)} ’’لیکن ان کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔‘‘