(اداریہ) اسلام کا عالمی غلبہ اور پاک افغان خطہ - خورشید انجم

10 /

اداریہ
خورشید انجماسلام کا عالمی غلبہ اور پاک افغان خطہ

15 اگست 2024ء کو امارتِ اسلامیہ افغانستان کو قائم ہوئے 3 برس گزر گئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ 15 اگست 2021ء کو اکیسویں صدی کا یہ معجزہ رونما ہوا کہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور تباہ کن اسلحہ سے لیس امریکہ کی سربراہی میں نیٹو ممالک کی افواج نہتے افغان طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئیں اور افغان طالبان نے نیٹو اور اُس کے اتحادیوں کو ذلت آمیز شکست سے دو چار کر دیا۔ افغان طالبان کی 20سالہ کامیاب جدوجہد اور عسکری اور سفارتی دونوں محاذوں پر ان کی واضح جیت نے یہ ثابت کر د یاہے کہ اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے دین کو قائم اور نافذ کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے تو اللہ کی مدد یقیناًآتی ہے۔ چاہے مقابلے میں کتنی ہی بڑی طاغوتی قوت کیوں نہ ہو ،اللہ تعالیٰ اہل ِایمان کو فتح مبین سے نوازتا ہے ۔ امریکہ کا افغانستان پر حملہ11 ستمبر 2001ء کے واقعہ سے شروع ہوا جب نیویارک میں ٹوئن ٹاورز دو ہوائی جہازوں کے ٹکرانے سے منہدم ہو گئے، جس سےہزار ہا افراد جاں بحق ہو گئے۔امریکہ نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
امریکہ افغانستان سے القاعدہ کا نیٹ ورک ختم کرنے کے بہانے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ جلد ہی یہ بات بھی عیاں ہو گئی کہ نائن الیون ایک ڈراما تھا۔ ہر ذی عقل انسان اب تسلیم کرتا ہے کہ یہ Inside Job تھا اور نیوورلڈ آرڈر، جو کہ درحقیقت جیو ورلڈ آرڈر ہے ،اسے دنیا پر مسلط کرنے کے لیے یہ سارا کھیل کھیلا گیا تھا۔ پھر عالم اسلام کو تباہ و برباد کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ امریکہ نے 40 سے زائد ممالک کا اتحاد بنا کر افغانستان پر چڑھائی کردی۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان کا کمانڈو صدر پرویز مشرف امریکہ کی ایک دھمکی پر بتاشے کی طرح بیٹھ گیا اور اس طرح پاکستان نے افغانستان پر امریکہ کے اس حملے میں امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کا شرمناک کردار ادا کیا۔ عراق، لیبیا، شام میں تو صرف تباہی وبربادی پھیلائی گئی جبکہ افغانستان پر باقاعدہ قبضہ کیا گیا اور وہاں غدارانِ وطن پر مشتمل ایک کٹھ پتلی حکومت بھی قائم کر دی گئی۔ امریکہ نے اپنے افغانستان میں آنے کا مقصد جمہوریت کا قیام، نیشن بلڈنگ اور مہذب و جدید معاشرے کا قیام بتایا۔ افغان طالبان جنگی حکمت عملی کے تحت وقتی طو رپر پسپا ہوئے تھے۔ اُن کی پالیسی اِس انگریزی محاورے کی بنیاد پر تھی" we will live to fight another day "بہرحال امریکہ اور اُس کے اتحادی جس وقت دادِ عیش دے رہے تھے اور دنیا اُن کی قوت، جنگی صلاحیت اور اُن کی عظمت کے گیت گا رہی تھی اور خود امریکہ متکبرانہ بول بول رہا تھا۔ اس وقت افغان طالبان ملا عمر کی قیادت میں مجتمع ہوئے ۔اُنھوںنے گوریلا جنگ شروع کی اور جرأت و بہادری کی وہ مثالیں پیش کیں اور نیٹو فوج کو یوں ناکوں چنے چبوائے کہ جنگوں کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہو گیا۔ امریکہ خوب کرّوفر سے میدان جنگ میں اُترا تھااور بیس سال بعدذلت آمیز شکست فاش سے دوچار ہو کر افغانستان سے نکلا بلکہ صحیح تر الفاظ میں دھکے دے کر نکالا گیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان ممالک بالخصوص اور افغان طالبان کے ساتھ اچھے روابط رکھنے والے دیگر ممالک بالعموم ، امارت اسلامیہ افغانستان کو 15 اگست 2021ء کےبعد فوری طور پر تسلیم کر لیتے۔ لیکن تین برس گزر جانے کے بعد بھی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان کو با ضابطہ طور پرکسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ اگرچہ تقریباً ڈیڑھ برس قبل چین نے کابل میں اپنا ایک سفیر مقرر کر دیا تھا اور چند روز قبل افغان طالبان کی حکومت کے سفیر نے باضابطہ طور پر متحدہ عرب امارات میں اپنا منصب سنبھال لیا ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو 2021ء کے اواخر سے ہی اس کے امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ تجارتی مراسم قائم ہو چکے تھے۔ آج چین اور افغان طالبان کی حکومت کئی کثیرالجہتی منصوبوں پر اشتراک کر رہے ہیں۔سخت پابندیوں کے باوجود افغانستان کی معیشت کا مضبوط ہو جانا بھی کسی معجزہ سے کم نہیں۔
15 اگست 2021ء کو جب امارت اسلامیہ افغانستان قائم ہوئی تو دنیا بھر کے معاشی ماہرین کا کہنا تھا کہ افغانستان کی حکومت اوّل تو مغرب اور متموّل اقوام کی محتاج ہوگی وگرنہ جلد معاشی اور سیاسی سطح پر ناکام ہو جائے گی۔ پھر یہ کہ افغانستان کے 9 ارب ڈالر کے وہ مالی وسائل جو امریکہ میں موجود تھے اُنہیں منجمد کر دیا گیا۔ داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے ذریعے افغانستان میں تخریبی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کروایا گیا۔ پاکستان سے بھی تعلقات ٹی ٹی پی کے پیچیدہ مسئلہ کے باعث خراب ہوئے اور دونوں برادر ہمسایہ ممالک کے مابین سردمہری بلکہ سرد جنگ آج تک چل رہی ہے۔قصہ کوتاہ افغانستان کو ہر حربہ سے بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کے لیے مختلف اقدامات اُٹھائے گئے اور افغان حکومت کو گرانے کے لیے بھی طرح طرح کی سازشیں کی گئیں۔ لیکن انتہائی نامساعد حالات کے باوجود امارت اسلامیہ افغانستان نے اپنی طے شدہ سمت میں سفر جاری رکھا۔ آج دنیا یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ افغانستان کی معیشت کے مختلف اشاریوں میں بڑے پیمانے پر بہتری آئی ہے۔ ہر شعبۂ زندگی میں سماجی حوالے سے بھی بہتری آئی ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والا ایٹمی ملک سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ہر ہر سطح پر زبوں حالی کا شکارکیوں ہے۔ تقریباً تمام معاشی اشاریوں میں ہمارا معاملہ صرف تین برس قبل قائم ہونے والی امارت اسلامیہ افغانستان کے مقابلے میں بدتر ہو چکا ہے۔امارت اسلامیہ افغانستان کا کام ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ اُن کا امتحان جاری ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنھیں یہ حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے کہ وہ افغانستان کو مکمل طو رپر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا کر باقی عالمِ اسلام پر حجت قائم کر دیں اور ہر مرحلہ پر طاغوتی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہیں۔ آمین!جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ہم ایک عرصہ سےیہ بات دہراتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ جس نظریہ کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا، اُسےعملی تعبیر دی جائے۔ یعنی اسلام کا عادلانہ و منصفانہ نظام یہاں قائم و نافذکیا جائے۔پاکستان کے لیے جدید دور کی اسلامی فلاحی ریاست بن جانا صرف ممکن ہی نہیں بلکہ ناگزیر بھی ہے۔ چار سو سالہ علمی، فکری و تحریکی خزانہ اور وراثت کی امانت اس وقت پاکستان کے پاس ہے۔ پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے کہ ایک طرف ہندو قوم جس کے نزدیک بھارت کی تقسیم گئو ماتا کی تقسیم کے مترادف تھی جب کہ دوسری طرف انگریز کی ہمدردیاں واضح طور پر کانگریس کے ساتھ تھیں کیونکہ اس وقت برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی۔ پھر قرار داد مقاصد کی منظوری کا مطلب یہ تھا کہ گویا منتخب پارلیمنٹ نے اجتماعی سطح پر کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ پڑھ لیاہے۔اس پر مستزاد یہ کہ 31 علماء کے 22 نکات جن کے ذریعے’’کس فرقے کا اسلام‘‘ کا منہ توڑ جواب دے دیا گیا۔ علاوہ ازیں 1973ء کے آئین میں اسلامی دفعات کا شامل ہونا اور 1974ء میں پارلیمنٹ کی جانب سے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیاجانا وغیرہ۔ یہ سب اشارات ہیں کہ پاکستان ا سلام کے عالمی غلبہ کی خدائی تدبیر کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے اور اسلام کے عالمی غلبہ میں ایک اہم اور فیصلہ کن کردار پاکستان نے ادا کرنا ہے۔ مزید برآںاس عالمی غلبہ کے بارے میں احادیث کے اندرواضح اشارات موجود ہیں کہ یہ اسی خطہ ارضی یعنی پاکستان اور افغانستان کے اس حصے سے ہوگا جسے نبی اکرمﷺ کے دور مبارک میں خراسان کہا جاتا تھا۔اُس زمانے کا خراسان آج کے ایران کے صوبہ خراسان، پاکستان اور افغانستان کی پشتون بیلٹ اور اس سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے۔ احادیث کے مطابق اسی علاقہ سے سیاہ جھنڈوں پر مشتمل لشکر حضرت مہدی کی نصرت کے لیے نکلیں گے اور یہی وہ علاقہ ہے جس کے بارے میں شامی ادیب اور مورخ امیر شکیب ارسلان کا قول ہے کہ ’’ اگر ساری دنیا میں اسلام کی نبض ڈوب جائے ، کہیں بھی اس میں زندگی کے آثار اور رمق باقی نہ رہے تب بھی کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندوکش کے درمیان کے علاقے میں رہنے والوں کا اسلام زندہ رہے گا اور ان کا عزم جوان رہے گا۔‘‘ لہٰذا ہمیں چاہیےکہ ہم ان خدائی اشارات کو سمجھتے ہوئےسب مل جل کر پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں کیونکہ پاکستان نے اسلام کے اس عالمی غلبے میں ایک اہم فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے اور یہ گویا پاکستان کی تقدیر (destiny) ہے گویا بقول اقبالؔ
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سےمیرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے