(منبرو محراب) موت ، صلوٰۃ ، مسئلہ فلسطین اور مبارک ثانی کیس - ابو ابراہیم

10 /

موت ، صلوٰۃ ، مسئلہ فلسطین اور مبارک ثانی کیس

 

مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی ڈیفنس ،کراچی  میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے16اگست 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

مرتب: ابو ابراہیم

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
آج کے خطاب جمعہ میں چار موضوعات پر گفتگو کرنی ہے:
1۔ موت کی یاددہانی
اس زمین پر ایسے لوگ تو موجود ہیں جو خالق کائنات کے منکر ہیں مگر موت کا انکار وہ بھی نہیں کر سکتے ۔ یہ  ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے ہر ایک کو گزرنا پڑتا ہے ۔ تقویٰ کی معراج پر انبیاء علیہم السلام ہیںمگر وہ بھی دنیا سے چلے گئے ۔ جن کے پاس مال و دولت کے ڈھیر تھے ، جن کے پا س بڑی بڑی سلطنتیں اور بادشاہتیں تھیں وہ بھی چلے گئے ۔ سب نے جانا ہے مگر جانے کے بعد اپنے اعمال کا حساب کتاب بھی دینا ہے ۔ قبر میں بھی سوالات ہیں ، میدان حشر میں بھی سوالا ت ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس جوابدہی کے لیے تیار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : 
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج}(الحشر : 18) ’’اے اہل ِایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اُس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے!‘‘
آج ہمارے بچے کیمبرج یا میٹرک سسٹم میں مارکس لے کر آتے ہیں،گریڈ اےپلس لے کر آتے ہیںتوہم خوش بھی ہوتے ہیں اورجشن بھی مناتے ہیں۔ کل روز محشر ہمارا سارا اعمال نامہ اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے رکھ دے گا کہ ہم نے اس دنیا میں کیا کیا اور انہی اعمال کی بنیاد پر ہمیشہ کی زندگی کا فیصلہ ہو گا۔ ہم سوچیں کہ کیا آج ہم مرنے کےلیے تیار ہیں۔ کیاہمارے معاملات اللہ تعالیٰ  کے ساتھ ، اللہ کی مخلوق کے ساتھ ، اللہ کے بندوں کے ساتھ درست ہیں ؟ ہم اللہ کے بندے ہیں تو کیا بندگی کا حق ادا کر رہے ہیں ، ہم اللہ کے رسول ﷺ کے اُمتی ہیں تو کیا اُمتی ہونے کا حق ادا کررہے ہیں ؟ کیا ہمارے لین دین ، قرض ، وراثت کی تقسیم کے معاملات ٹھیک ہیں ۔ ہماری معیشت میں حرام تو شامل نہیں ہے ؟ ہماری معاشرت میں بے پردگی اور بے حیائی تو شامل نہیں ہے ۔ اس دنیا میں اللہ نے ہمیں بھیجا ہے اس لیے کہ : { اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}  (الملک:2) ’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘
موت کسی وقت بھی آسکتی ہے ۔ کئی لوگ نماز میں ہوتے ہیں ، خیر کے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں تو موت آجاتی ہے اور کئی لوگ گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں کہ موت آجاتی ہے ۔ روزمرہ ہم دیکھ بھی رہے ہیں ۔ ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ اسے ہر وقت یہ فکر مندی رہے کہ ابھی مجھے موت آگئی تو میں اللہ کے سامنے کیا منہ لے کر جاؤں  گا۔ دوسری طرف شیطان ہےجس نے ہمیں انجامِ بد سے دوچار کرنے کی قسم اُٹھا رکھی ہے ۔ اللہ نے ہمیں اس حوالے سے خبردار بھی کردیا ہے :
’’یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے‘ چنانچہ تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو!یہ تو بلاتا ہے اپنے ہی گروہ کے لوگوں کو تا کہ وہ جہنم والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘( فاطر:6)
شیطان کو پتا ہے کہ اگر بندہ ایمان پر دنیا سے چلا گیا تو وہ بندہ کامیاب ہو جائے گا ۔ اس لیے وہ اپنا پورازور لگاتا ہے کہ بندے کا خاتمہ ایمان پر نہ ہو ۔ کیا مجھے اور آپ کو کوئی فکر مندی ہے کہ شیطان واقعی ہمارا دشمن ہے ؟ اگر ہم روز مرہ زندگی میں شیطان کے شر سے بچنے کی کوشش نہیں کر رہے ، اس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی کوشش نہیں کررہے تو آخری وقت میں کیسے اس کے شر کا مقابلہ کرسکیں گے ؟یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ؟ ہم جنازے میں جو دعا مانگتے ہیں اس کو ملاحظہ فرمائیں :
((اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَـیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِ یْمَانِ ))’’اے اللہ! جس کسی کو تو ہم میں سے زندہ رکھ اسلام پر زندہ رکھیواور جس کو ہم میںسے وفات دے ایمان پر دیجیو ‘‘۔ 
بندہ ہر لمحہ اس بات کو ذہن میں رکھے کہ میرے جانے کا وقت کسی وقت بھی آسکتا ہے اور آئے گا۔انسان کو روزانہ سوتے وقت ، نماز کے بعدیا رات کے کسی پہر بیٹھ کرتھوڑا سا مراقبہ کرنا چاہیے کہ میں جس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا کیا وہ میں پورا کر رہا ہوں ؟ میں اللہ کو راضی کررہا ہوں یا ناراض کر رہاہوں ۔ آج میں جنت کے قریب ہوا یا جہنم کے قریب  ہوا ۔ دن میں کئی کئی گھنٹے سکرین پر گزر جاتے ہیں تو دو منٹ بندہ اپنے لیے بھی نکال لے اور اپنا بھی محاسبہ کرلے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ! 
2۔ نماز قائم کرو
دن میں پانچ وقت ہمیں بلایا جاتاہے، حی علی الصلوٰۃ کی پکار لگتی ہے ۔ یہ کوئی اخبار کا اشتہار یا شادی کا دعوت نامہ تو ہے نہیں کہ دل کیا تو چلے گئے ، دل نہ کیا تو نہ گئے ۔ نماز کے معاملے میں ایسی کوئی چھوٹ نہیں ہےکیونکہ یہ پکار اللہ کی طرف سے ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(2) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ}(البقرہ:2،3)’’ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے پرہیزگار لوگوں کے لیے۔ جو ایمان رکھتے ہیں غیب پر‘اور نماز قائم کرتے ہیں۔‘‘
دل میں اگرایمان ہو تو اس کا اظہار عمل سے ہوتا ہے اور عمل میں اولین مطالبہ نماز کا ہے ۔ ہر چند گھنٹوں بعد میرا اور آپ کا امتحان ہورہا ہے ۔ جس طرح کافر اور مسلمان برابر نہیں ہوسکتے، حلال کمانے والا اور حرام کمانے والا برابر نہیں ہوسکتے، اسی طرح نمازی اور بے نمازی برابر نہیں ہوسکتے ۔ چار دوست کسی دنیوی مشغلہ میں مصروف ہیں ،اذان کی اواز آگئی ، ایک اُٹھ کر نماز کے لیے چلا گیا ، تین بیٹھے ہوئے ہیں ۔ کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن چاروں نے اپنے عمل سے دعوت پیش کردی ۔ نمازی اپنے عمل سے دعوت پیش کرگیا کہ جو ہم کررہے ہیں یہ اہم نہیں ہے بلکہ نماز اہم ہے ۔ جبکہ باقی تین نے اپنے عمل سے دعوت پیش کردی کہ نماز اہم نہیں ہے بلکہ جس دنیوی مشغلہ میں ہم مصروف ہیں وہ اہم ہے ۔ اس لحاظ سے ہر آدمی اپنے عمل سے دعوت پیش کررہا ہے ۔ سوچئے ! ہر چند گھنٹوں بعد میرا اور آپ کا امتحان ہے یا نہیں ہے کہ دعویٰ ایمان کا ہے تو ثبوت پیش کرو ۔ ہر بالغ مرد کے لیے تو نماز باجماعت کا تقاضا ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ اللہ کے ساتھ ہمارا ذاتی معاملہ ہے ۔ حالانکہ یہ ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ اللہ اجتماعی سطح پر بھی نماز کا قیام چاہتا ہے۔بہت سی باتیں ہمیں بھول جاتی ہیں ، غفلت طاری ہو جاتی ہے ۔ یاددہانی سے فائدہ ہو جاتا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:
(( الصلٰوۃ عماد الدین)) ’’نماز دین کا ستون ہے۔‘‘
 جس نے نماز کو قائم کیا، اس نے دین کی عمارت کو قائم رکھا جس نے نماز کو ترک کیا گویا اس نے دین کی عمارت کو منہدم کر دیا ۔ ہمارے دین میں نماز کی اتنی زیادہ اہمیت ہے ۔اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا: 
((من ترک الصلاۃ متعمدا فقد کفر))(جامع ترمذی) ’’جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کر دی وہ کفر کر چکا۔‘‘ کوئی نماز کا انکار کر دے تو اسلام سے نکل جائے گا، کافر ہو جائے گا لیکن نماز ادا نہیں کر رہا تو وہ عملاً کفر کی روش پر ہے ۔ صحابہ کرام ؇کے ہاں تو طے تھا کہ بے نمازی کافر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن ابی جیسا منافقین کا سرداربھی جمعہ کی نماز میں پہلی صف میں بیٹھ جایا کرتا تھا  اور منافقین فجراور عشاء کی نماز میں بھی آتے تھے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اگر ہم فجر اور عشاء میں نہیں آئے تو ہمیں مسلمان نہیں مانا جائے گا۔ آج مسلمانوں کی عظیم اکثریت پانچوں نمازوں میں غائب ہے اور کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ حالانکہ اس زمانے میں منافقین کو بھی پریشانی تھی۔ وہ منافقین جن کے بارے میں اللہ نے واضح کردیا :
{اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِج وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا(145)}(النساء ) ’’ یقیناً منافقین آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے ‘اور تم نہ پائو گے ان کے لیے کوئی مدد گار۔‘‘
 ان کا حال یہ تھا کہ اپنے اسلام کے جھوٹے دعوے کے اظہار کے لیے فجراور عشاء میں بھی آتے تھے ۔ آج ہم مسلمانوں کا معاشرہ دیکھ رہے ہیں کہ پانچوں نمازوں میں غائب ہیں لیکن پھر بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: بندے کے اسلام اور کفر کے درمیان فصل نماز ہے۔روز محشر پہلا سوال ہی نماز کے بارے میں ہوگا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ اپنا حق معاف کردے گا ۔ حالانکہ طبرانی کی حدیث ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا :پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا،اگر نماز درست ہوئی تو باقی معاملات بھی درست ہوں گے اور اگر نماز میں گڑبڑ ہے تو باقی معاملات میں بھی گڑبڑ آجائے گی ۔  حقوق العباد بجا ہیںمگر حقوق اللہ بھی اہم ہیں۔ سورہ المدثر میں اللہ تعالیٰ نے جہنم والوں اور جنت والوں کے درمیان مکالمہ نقل فرمایا ہے ۔ جنت والے جہنم والوں سے پوچھیں گے :
{مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ(42)}’’ تم لوگوں کو کس چیز نے جہنم میں ڈالا؟‘‘
 جہنم والے جواب دیں گے :{قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ(43)وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ(44)} ’’وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیںتھے۔اور نہ ہم مسکین کو کھانا کھلاتے تھے۔‘‘
یعنی جہنم میں جانے کی پہلی وجہ نماز ہوگی ۔ حقوق العباد کا ذکر بعد میں ہے، حقوق اللہ کا ذکر پہلےہے ۔ لہٰذاصرف ہیومن رائٹس کی باتیں کرکے حقوق اللہ کی اہمیت کو کم کرنا بھی فتنہ ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حقوق العباد کو ادا کرنے کا حکم بھی اللہ نے دیا ہے چاہے وہ ماں باپ کے حقوق ہوں ، اولاد ، اقرباء، پڑوس ، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے حقوق ہوں ۔ اس لحاظ سے حقوق العباد بھی حقوق اللہ بن جاتے ہیں۔ اگر بندوں کے حقوق پامال ہوں گے تو اس کا جواب بھی ہم نے اللہ کو ہی دینا ہے ۔ 
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بڑے اگر نماز کے لیے مساجد میں آرہے ہیں تو بچے (جو بنیادی پاکی ناپاکی کی بات کو سمجھتے ہیں) کیوں نظر نہیں آتے ۔ طیب اردگان نے ترکی کی مساجد میں بچوں کے لیے باقاعدہ پلے گراؤنڈ بنوائے تاکہ بچے رغبت کے ساتھ مساجد میں آئیں ۔ کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تو طیب اردگان نے کہا کہ اگر آج بچے مساجد میں نہیں آئیں گے تو کل یہ اسلام کی طرف بھی نہیں آئیں گے ۔ سیکولرز، لبرلز اور دین بے زار لوگ یہ فتنہ بھی پھیلا رہے ہیں کہ دینی احکام پر عمل کرنے میں کوئی جبر نہیں ہے اور اس کے لیے وہ قرآن مجید کی ایک آیت کو غلط طور پر Quoteکرتے ہیں کہ :  { لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف}(البقرہ:256) ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘ 
ایک بڑی سیاسی جماعت نے کراچی شہر میں بینرز لگا دیے اور اس آیت کا انگریزی میں یہ ترجمہ بھی ان پر لکھ دیا :
" There is no compulsion in religion"
 باقاعدہ حوالہ بھی بینرز پر لکھ دیا ۔ ہر تیسرا سیکولر ، لبرل اور دین بےزار اس آیت کو اپنے غلط نظریات کے لیے استعمال کر رہا ہے ۔ حالانکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ دین کو قبول کروانے میں کوئی جبر نہیں ہے ۔ گن پوائنٹ پر کسی سے دین قبول نہیں کروایا جائے گا لیکن جو قبول کر لے گاتو اس کے بعد اس سے دین کے احکام پر عمل کروایا جائے گا۔ بچہ جب تک سکول نہیں جاتا ، اس پر کوئی جبر نہیں ہے دس بجے اُٹھ کر ناشتہ کرے ، گیارہ بجے اُٹھے ۔ لیکن جب ایک بار سکول میں داخلہ ہوگیا تو اب سات بجے سکول پہنچنا ہوگا ، سکول لیٹ جائے گا تو جرمانہ بھی ہوگا ، سزا بھی مل سکتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے : بچہ سات سال کا ہو جائے تو نماز کی تلقین کرو اور 10 سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر سختی کرو ۔ آج ہم صبح چھ بجےاڑھائی سال کے بچے کو زبردستی اُٹھا کر ہم مونٹیسری بھیجتے ہیں،وہ سکول بھی جائے گا، ٹیوشن بھی پڑھے گا، یہ بھی کرے گا ، وہ بھی کرے گا تو کیا یہ جبر نہیں ہے ؟ سارا جبر دین میں ہی کیوں نظر آگیا۔ سیدنا علی؄ کا قول ہے کہ سات سال تک بچوں کو کھیلنے کودنے کا وقت دو ، ان کے ساتھ کھیلو ۔ آج دو اڑھائی سال کے بچے کو اُٹھاکر زبردستی سکول بھیج دیا جاتاہےتو یہ جبر نہیں ہے ؟ کہیں گے جی بچے کی فاؤنڈیشن اچھی ہو جائے گی ،Base بن جائے گی وغیرہ تو کیا بچے کا عقیدہ اچھا نہیں ہونا چاہیے ؟بچے کا اللہ کے ساتھ تعلق اچھا نہیں ہونا چاہیے؟بچے کو محمد مصطفیٰ ﷺکا امتی نہیں بننا چاہیے ؟ بچے کو ماں باپ کے لیے صدقہ جاریہ نہیں بننا چاہیے ؟
دوست کو ایئر پورٹ چھوڑنا ہو تو رات کے تین بجے ہم پہنچ جائیں گے ، صبح فلائیٹ ہے تو تین گھنٹے پہلے ہم بیدار ہو جاتے ہیں کہ فلائیٹ مس نہ ہوجائے ۔لیکن فجر کی نماز میں مسجد جانے کے لیے ہم تیار نہیں ہو سکتے ۔ دوست اہم ہے ، فلائیٹ اہم ہے تو کیا اللہ اہم نہیں ہے ؟احادیث میں ہے کہ جو پنج وقتہ نماز کو ادا کرے وہ اللہ کے ذمہ میں   آجاتا ہے ،اللہ اس کو معاف فرمائے گا اور جو نماز کا اہتمام نہیں کر رہا وہ فرعون، ہامان، قارون اور ابوجہل جیسے لوگوں کے ساتھ ہوگا اور اللہ کا کوئی ذمہ اس کے لیے نہیں ۔ اللہ کے پیغمبرﷺ فرماتے ہیں کہ کسی کے گھر کے باہر نہر ہو اور وہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر میل بچے گا ۔ اسی طرح جو پنج وقتہ نماز کا اہتمام کرے اللہ گناہوں کی میل سے اس کو پاک کر دے گا۔پھر یہ کہ نماز کے بڑے فوائد بھی ہیں ۔  قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط}(البقرہ: 153) ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو۔‘‘ 
آج انفرادی سطح پر بھی اور اُمت کی سطح پر بھی مسلمان مصائب کا شکار ہیں ۔ ان حالات میں صبر اور صلوٰۃ کے ذریعے اللہ سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں تو یقیناً اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا ۔  فرمایا :{اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(153)}(البقرہ)’’ جان لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ 
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اپنی آخرت کی فکر کریں ، اپنے بچوں کی آخرت کی بھی فکر کریں ۔ اصل بات یہ ہےکہ اگر نماز ترجیح میں ہے تو اس کا مطلب ہے اللہ ہماری ترجیح میں ہے اور اگر نماز ادا نہیں ہورہی تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ ہماری ترجیح میں نہیں ہے اور اللہ اگر ترجیح میں نہیںہے تو پھر ہماری آخرت شدید خطرے میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں غوروفکر کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ 
3۔ مسئلہ فلسطین
10 ماہ ہو چکے ہیں اہل غزہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے حوالے سے پوری امت مسلمہ کی طرف سے فرض کفایہ  ادا کررہے ہیں ۔ مسجد اقصیٰ ہمارا تیسر احرم ہے ۔ اس کی حفاظت پوری امت مسلمہ کا فرض ہے ۔ہم عوام تو مظاہرے کر سکتے ہیں ، مذمت کر سکتے ہیں مگر حکمرانوں کے پاس اختیار ہے ، طاقت ہے ، وہ اسرائیل کو روک سکتے ہیں ۔  مگر ہمارے حکمرانون کی بےحسی کا یہ عالم ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر پریس ریلیز جاری کی گئی اور اس میں سے اسرائیل کا نام کاٹ دیا گیا ۔ اہل غزہ امتحان میں ہیں لیکن یہ ہمارا بھی امتحان ہے ۔ ہم اپنے دائرے میں رہ کر فلسطینیوں کی مدد کر سکتے ہیں ۔ان کے لیے آواز اُٹھا سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر جو ہم ان کے لیے کر سکتے ہیں وہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے ۔  اب تک جو بائیکاٹ ہوا ہے اس کا بھی اسرائیلی معیشت پر بہت اثر پڑا ہے  مگر اس مہم کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ فلسطین   کے نمائندے کہہ رہے کہ اگر مسلمان صرف اسرائیلی مصنوعات کا ہی مکمل بائیکاٹ کر دیں تو اسرائیل جلد    گھٹنے ٹیک دے گا ۔ ان شاء اللہ  
4۔ مبارک ثانی کیس کا دوسرا فیصلہ
مبارک ثانی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے تیسرے ریویو کا فیصلہ امت مسلمہ کے حق میں آیا ہے ۔ اس پر ہم چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ گزشتہ دو فیصلے (6 فروری اور 24 جولائی 2024ء ) جو آئے تھے ان پر علمائے کرام ، معزز وکلاء اور دینی جماعتوں نے چیف جسٹس کو توجہ دلائی تھی۔ بعض  ممبران اسمبلی کی جانب سے بھی توجہ دلائی گئی ۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے علماء کا مؤقف بھی سنا اورفیصلے میں جو متنازعہ حصے تھے ان کو حذف کر دیا ۔فیصلہ میں ایک بار پھر یہ واضح کردیاگیا کہ قادیانی اسلامی شعائر کا استعمال نہیں کر سکتے ، اپنی عبادت گاہ کو مسجد ، اپنی کتاب کو قرآن یا تفسیرِ قرآن نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی قرآن یا تفسیر قرآن کے نام سے اپنا لٹریچر شائع یا تقسیم کر سکتے ہیں ۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ قانونی جرم ہوگا ۔ ہمیں امید ہے کہ جو تفصیلی فیصلہ آئے گا اس میں بھی کوئی ابہام اور سقم موجود نہیں ہوگا ۔ اچھی بات یہ ہے کہ قرآن اکیڈمی لاہور سمیت دینی اداروں اور علماء کی جن آراء کو انہوں نے پہلے نہیں دیکھا تھا اب ان کی طرف انہوں نے رجوع کرلیا ہے ۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ عقیدہ ختم نبوت پر پوری قوم ایک پیج پر ہے ۔ پارلیمنٹ ہو ،  اپوزیشن ہو ، حکومت ہو ختم نبوت پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مذہبی اور دینی جماعتوں نے بھی اپنے سارے اختلافات بھلا کر اس معاملے پر یکجہتی کا مظاہرہ پیش کیا ۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی نے بھی اپنا رول ادا کیا ، بارکونسلز نے بھی کوشش کی ۔ عوام نے بھی مہم میں حصہ لیا ۔ گویا امت کو جوڑنے والی شخصیت اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ ہم نے عقیدہ ختم نبوت کا دفاع تو کیا مگر اس کا     عملی اظہار تب ہوگا جب ہم ختم نبوت کے بعد بحیثیت امتی اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی اور اس کو ادا کرنے کی کوشش کریں  گے ۔آج قوم منتشر ہے ، مضطرب ہے اور ایک لاوا پک رہا ہے تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہو جائیں ۔ ساری دنیاکے مسلمان رسول اللہﷺ کی سنت پر جمع ہوسکتے ہیں ۔ آپ ﷺ  کی سب سے بڑی سنت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے 23 برس تک اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد کی ۔ اسی مقصد کے لیے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا ۔ ہم نے حضور ﷺ کے مشن کو چھوڑا تو ہم انتشار اور مسائل کا شکار ہوگئے ۔اگر ہم اللہ کے رسول ﷺکے مشن کو تھام لیں گے توہم متحد اور منظم بھی ہوجائیں گے اور اللہ کی رحمت بھی ہمارے شامل حال ہو گی ۔اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے مشن کو تھامنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !