(مطالعۂ کلام اقبال) ابلیس کی مجلس شوریٰ (6) - ڈاکٹر حافظ محمد مقصود

10 /

ابلیس کی مجلس شوریٰ

ڈاکٹر حافظ محمدمقصود

(گزشتہ سے پیوستہ) 
ابلیس کی مجلس شوریٰ میںابلیس کی تقریر کے بعد اس کا پہلا مشیر ابلیسی نظام کی خوب تعریفیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بڑا مستحکم نظام ہے اور ہر طبقہ کے لوگوں کو اپنے شکنجے میں بخوبی جکڑ رہا ہے ۔ اس پر ابلیس کا دوسرا مشیر اس کو یوں ٹوکتا ہے ؎
خیر ہے سلطانیٔ جمہور کا غوغا کہ شرتو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبریعنی تمہارا دعویٰ ہے کہ ابلیسی نظام بڑا مستحکم ہے اور اس کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے جبکہ جمہوریت کی شکل میں جو تازہ فتنہ سراُبھار رہا ہے اس سے تو باخبر نہیں ہے ۔ جمہوریت کا نعرہ تو یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کا حق ملے جبکہ ہمارے ابلیسی نظام کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق غصب کیے جائیں ، ظلم و استحصال کا بازار گرم ہو ، طبقاتی کشمکش ہو ، امیر امیر تر ہو تا جائے اور غریب غریب تر ہوتا چلا جائے ۔ لوگ اپنے اپنے حقوق کے لیے باہم دست و گریباں ہو جائیں ، خوب سرپٹھول ہو۔ لیکن جیسا کہ جمہوریت کا نعرہ لگایا جارہا ہے ، اگر لوگوں کو اس کے تحت حقوق ملنا شروع ہوگئے تو پھر ہمارا ابلیسی نظام کیسے مستحکم رہے گا ۔ جواب میں پہلا مشیر دوبارہ گویا ہوتا ہے ؎
ہوں! مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھےجو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطربے شک جمہوریت کا نعرہ بڑا دلفریب ہے مگر حقیقت میں یہ بھی ملکوکیت کا ہی چربہ ہے ۔ اس سے ابلیسی نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں ۔ بظاہر ہم نے اس کا نام جمہوریت رکھا مگر اپنی اصل کے لہٰذا سے یہ فرنگی ملکوکیت ، بادشاہت اور آمریت کا ہی ایک نیا روپ ہے ۔ اسی بات کو اقبال دوسری جگہ یوں بیان کرتے ہیں؎
ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظامجس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصریرومن ایمپائر کے بادشاہ قیصر کہلاتے تھے جو اپنے ظلم و جبر میں ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ جمہوریت کے پردوں میں وہی ظالمانہ بادشاہت کا نظام چھپا ہوا ہے ۔ دوسری جگہ اقبال فرماتے ہیں ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
حقیقت میں جمہوریت دیو استبداد کا وہی پرانا پنجرہ ہے جس کو لوگوں نے آشیانہ سمجھ لیا ہے ۔ لوگ اسے آزادی سمجھتے ہیں جبکہ یہ غلامی کا وہی پرانا نظام ہے ۔ ابلیس کا پہلا مشیر اپنی بات جاری رکھتا ہے ؎
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
ایک چور چوریاں کرتا تھا۔ لوگوں نے اس کو پہچان لیا تو اس نے داڑھی رکھ لی اور لوگ سمجھنے لگے کہ یہ تو بڑا نیک آدمی ہے جبکہ وہ اب نیک آدمی کے بھیس میں پہلے سے بڑھ کر چوریاں کرے گا ۔ ابلیس کا مشیر کہتاہے کہ اسی طرح جب آدم کے اندر یہ کچھ شعور پیدا ہو گیا کہ یہ بادشاہ تو ہمارا خون پی رہے ہیں ،ان کو کس نے خدائی اختیارات دے دیے کہ یہ ہم پر خدا بن کر بیٹھے ہوئے ہیں ، حالانکہ یہ ہمارے جیسے ہی انسان ہیں ۔ اس طرح جب سے ملوکیت بے نقاب ہوگئی تو ہم نے اس کو جمہوری لباس پہنا دیا ۔ حالانکہ یہ وہی ابلیسی نظام ہے ۔ چنانچہ شکوہ میں جو اقبال نے کہا؎
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کر رکھ دیے کُفّار کے لشکر کس نے
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریاؤں میں
دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلِمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
کس نے ٹھنڈا کِیا آتشکدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کِیا تذکرۂ یزداں کو؟
یعنی فرعون اور نمرود مخلوق تھے مگر انہوں نے اپنے آپ کو خدا بنا لیا تھا ۔ جب اسلام نے بندوں کو شعور دیا تو مسلمانوںنے باطل کے ان بتوں کو پا ش پاش کردیا اور بندوں کو طاغوت کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لانے کے لیے جہاد شروع کیا ۔ ابلیس کا مشیر کہتا ہے کہ یہ شعور جب انسانوں میں پیدا ہوگیا تو ہم نے اپنے ابلیسی نظام کو جمہوریت کا لبادہ پہنا دیا اور اس طرح لوگوں کو دھوکہ دیا کہ اب اس نظام کے ذریعے لوگوں کو حقوق ملیں گے ، اظہار رائے کی آزادی ہوگی وغیرہ ۔ پہلا میشر کہتا ہے ؎
کاروبار شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر
جمہوریت کے لبادے میں چھپے اس بادشاہی نظام کی حقیقت ذرا مختلف اس لحاظ سے ہے کہ اب کوئی ایک بندہ ہی فرعون اور نمرود بن کر تخت پر نہیں بیٹھ جائے گا بلکہ ایک پارلیمنٹ ہوگی جس میں دو چار سو ممبران ہوں گے اور ان میں اکثریت سرمایہ داروں کی ہوگی کیونکہ جس کے پاس زیادہ سرمایہ ہوگا وہی الیکشن لڑ سکے گا ۔ وہ الیکشن میں سرمایہ لگائے گا اور اسمبلی میں بیٹھ کر قوم کا خون نچوڑے گا ۔ یہی کام تو بادشاہ بھی کرتے تھے ۔ ہمیں تو نتیجے سے غرض ہے جو کہ ایک جیسا ہی نکل رہا ہے ۔مزید کہتا ہے ؎
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
پارلیمنٹ ہو یا بادشاہ کا دربار ہو نتیجہ ہمارے مفاد میں نکل رہا ہے تو ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ خسرو پرویز بھی تخت پر بیٹھ کر عوام کا لہو نچوڑتا تھا اور ادھر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے سرمایہ دار بھی مختلف حیلے بہانوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں ۔ ہمارے ابلیسی نظام کے نزدیک ہر وہ شخص بادشاہ ہے جو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہا ہے ۔اسمبلی ممبران اگر الیکشن میں پیسہ لگاتے ہی اس غرض سے ہیں کہ ایم پی اے، ایم این اے بن کرلوگوں کی زمینوں ، جائیدادوں  اور کاروبار پر قبضہ کریں گے تو پھر ہمارے نزدیک یہ بھی خسرو پرویز ہیں ۔ ہمیں ایسے ہی حکمران چاہئیں جو عوام کا تیل نکالیں ۔ مزید کہتا ہے ؎
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
(جاری ہے)