(دعوت و تحریک) پاکستان کا مستقبل (3) - ڈاکٹر اسرار احمد

10 /

پاکستان کا مستقبل (3)

ڈاکٹر اسراراحمدؒ 

(گزشتہ سے پیوستہ)
وطن عزیز پر عذابِ الٰہی کے سائے
اِس وقت جو صورت حال ہے‘ اگر زمینی حقائق کو دیکھیں تو انتہائی مایوسی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ‘ جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے‘ ہم پر اللہ کا ایک عذاب منافقت کی صورت میں مسلط ہے۔ سورۃ التوبۃ کی آیات 
75تا77 میں منافقین مدینہ میں سے ایک خاص قسم کے لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ ان کو اپنے فضل سے مال و دولت عطا فرما دے تو وہ خوب صدقہ و خیرات کریں گے اور نیک ہو جائیں گے۔ لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا تواب انہوں نے بخل سے کام لیا‘ تجوریوں کو تالے لگائے اور پیٹھ موڑ لی اور بھول گئے کہ ہم نے کیا وعدہ کیا تھا۔ تو اس وعدہ خلافی کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں نفاق کا روگ پیدا کر دیا۔ یہی سزا مسلمانانِ پاکستان کو ملی ہے اور آج یہ دنیا کی منافق ترین قوم ہے۔ افراد کی حد تک اس قوم میں نیک اور صالح لوگ موجود ہیں‘ جیسے علامہ اقبال کے بقول ابلیس نے کہا تھا :   ؎
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو!
لیکن مجموعی طو رپر بحیثیت قوم ہم منافقت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کا ایک مظہر نفاقِ باہمی ہے کہ ہم ایک قوم نہیں رہے‘ قومیتوں میں منقسم ہیں۔ ہمارے ہاں پختون نیشنلزم‘ بلوچ نیشنلزم‘ سندھی نیشنلزم ‘ سرائیکی نیشنلزم اور اردو نیشنلزم کے نعرے لگتے ہیں۔ ہم ایک قوم ہوتے تو کبھی کا کالا باغ ڈیم بن چکا ہوتا۔ دوسرے یہ کہ ہم نفاقِ عملی کا شکار ہو چکے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی حدیث ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے‘ اور اگر اسے امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ یہ تینوں چیزیں ہمارے ہاں رواج پا چکی ہیں۔ آج ہمارے ہاں جو جتنا بلند مرتبت ہے وہ اتنا ہی بڑا جھوٹا ‘وعدہ خلاف اور خائن ہے۔ اب تو اربوں کے غبن ہوتے ہیں۔ اس ملک کو لوٹ لیا گیا ہے اور اس کا خون چوس چوس کر مغربی دنیا کے بینکوں میں جمع کرا دیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی ہمارے اخلاق کا دیوالہ نکل چکا ہے اور اِس وقت اس کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ وعدے کوئی قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے! ظاہر ہے یہ صرف ایک فرد کا معاملہ نہیں‘ بلکہ یہ ہماری قوم کا مرض ہے‘ جس کا ظہور ((اَعْمَالُـکُمْ عُمَّالُـکُمْ)) کی صورت میں ہو رہا ہے۔ یعنی ’’تمہارے اپنے عمل ہی تم پر حاکم ہو جاتے ہیں‘‘۔ حدیث نبویؐ ہے:
((کَمَا تَـکُوْنُوْنَ کَذٰلِکَ یُــؤَمَّرُ عَلَـیْکُمْ)) ’’جیسے تم خود ہو گے ویسے ہی تم پر امراء مقرر ہوں گے۔‘‘
چنانچہ یہ تو قوم کی اخلاقی حالت کا ایک انعکاس (reflection)ہے۔ 
پھر مالی اعتبار سے بھی ہمارا تقریباًدیوالہ نکل چکا ہے۔ ملکی معیشت کو آئی ایم ایف سے لے کر آکسیجن کی جونلکی لگائی گئی ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اور وہ آپ سے کیا ڈیمانڈ کریں گے‘ یہ سوچنے کی بات ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آئی ایم ایف کے شکنجے میں جو ملک بھی آیا اس کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ۔ جو کچھ انڈونیشیا کے ساتھ ہوا تھا وہ کون نہیں جانتا؟ ملائشیا پھر بھی کچھ بچ گیا تھا ‘لیکن یہ جو ایشیائی ٹائیگر زتھے یہ آئی ایم ایف کی وجہ سے ہی ختم ہوئے تھے۔ ہم پر ایک وقت آیا تھا کہ ہم نے بڑی خوشی کے ساتھ کہا تھا کہ ہم نے کشکول توڑ دیا ہے ‘ہم نے آئی ایم ایف سے آزادی حاصل کر لی ہے‘ لیکن ہم اب دوبارہ وہاں بھیک مانگنے کے لیے پہنچ گئے ہیں۔ ’’فرینڈز آف پاکستان‘‘ تو ہمیں ایک پیسہ بھی دینے کو تیار نہیں‘سب نے ہمیں آئی ایم ایف کی طرف ہانک دیا! بہرحال زمینی حقائق کی روشنی میں صورت حال بہت ہی مخدوش ہے۔
آیاتِ قرآنی میں پاکستان کی منظر کشی
میں نے آغازِ خطاب میں سورۃ الانفال اور   سورۃ النحل کی آیات تلاوت کی تھیں۔ پاکستان کا وجود میں آنا (genesis)سورۃ الانفال کی آیت26 کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ ہندوستان میں ہم اقلیت میں تھے اور ڈررہے تھے۔ اُس وقت بھی ہندو نے ہمیں معاشی اعتبار سے دبایا ہوا تھا‘اور خطرہ یہ تھا کہ اگر ہندوستان ایک ملک کی حیثیت سے آزاد ہو گیا تب تو یہ ہمیں ختم ہی کر دیں گے۔ اس آیت میں ہمیں یہی نقشہ نظر آتا ہے: {وَاذْکُرُوْآ اِذْ اَنْـتُمْ قَـلِیْلٌ}’’یاد کرو جب تم اقلیت میں تھے‘‘ {مُّسْتَضْعَـفُوْنَ فِی الْاَرْضِ}’’زمین میں تمہیں دبا لیا گیا تھا‘‘۔ تمہارے دشمنوں نے تمہیں دبایا ہوا تھا۔ {تَخَافُوْنَ اَنْ یَّـتَخَطَّـفَـکُمُ النَّاسُ}’’تمہیں اندیشہ تھا کہ لوگ تمہیں اچک کر لے جائیں گے‘‘۔  یہ پورا تحریک پاکستان کا پس منظر ہے۔{فَاٰوٰٹکُمْ} ’’پس اللہ نے تمہیں پناہ دی‘‘{وَاَیَّــدَکُمْ بِنَصْرِہٖ}’’اور تمہاری مدد کی اپنی نصرت سے‘‘ ۔معجزے کے طور پر پاکستان عطا کیا۔ اور میں نے اپنی کتاب ’’استحکامِ پاکستان‘‘ میں یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ تھا‘ یہ کسی طور بھی کسی حساب کتاب میں آنے والی بات نہیں تھی۔ {وَرَزَقَــکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَـعَـلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ(26)} ’’اور ہم نے پاکیزہ چیزوں سے تمہیں روزی عطا کی تاکہ تم شکر کرو‘‘۔ یہ تو ہے پاکستان کا آغاز! اور اب اس کی جو حالت ہے اس کا نقشہ بھی قرآن مجید میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں: ((فِیْہٖ خَبَرُ مَا قَـبْـلَـکُمْ وَنَـبَـاُ مَا بَعْدَکُمْ)) ’’اس قرآن میں تم سے پہلے لوگوں کی خبریں بھی ہیں اور تمہارے بعد آنے والوںکے حالات بھی ہیں‘‘۔
آج کی حالت کا نقشہ سورۃ النحل کی آیت 112 کی روشنی میں دیکھئے:{وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً} ’’اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کی مثال بیان کی ہے‘‘ {کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً}’’وہ امن میں بھی تھی‘ مطمئن بھی تھی‘‘ {یَّـاْتِیْہَا رِزْقُـہَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ}’’اس کا رزق بھی اسے ہر طرف سے پہنچ رہا تھا‘‘{فَـکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ} ’’لیکن اس بستی نے اللہ کی نعمتوں کا کفران کیا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ آزادی اور اس کی نعمتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس کا شکر ادا کرتے اور یہاں پر اللہ کا دین قائم کرتے‘ لیکن ان لوگوں نے کفرانِ نعمت کی روش اختیار کی اور اُس کے دین سے غداری کی۔ {فَاَذَاقَـہَا اللّٰہُ لِـبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(112)} ’’تو اللہ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا‘ بسبب ان کے کرتوتوں کے‘‘۔
اس آیت کی روشنی میں آج پاکستان کی حالت دیکھ لیجیے۔ ایک طرف غذائی اجناس کی قلت اور گرانی کا یہ عالم ہے کہ کبھی ہم نے ایسا سوچا بھی نہ تھا۔ دوسری طرف خوف کی یہ کیفیت ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو محفوظ و مأمون نہیں سمجھتا‘ کسی کا مال و جان محفوظ نہیں ہے۔ اخبارات میں روزانہ کالم شائع ہو رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل بہت مخدوش ہے۔ پوری دنیا میں اس کے بقا و استحکام کے خلاف منصوبے بن رہے ہیں۔ وہ تو کہتے ہیں کہ2020ء تک پاکستان کے نام سے کوئی ملک دنیا میں موجود نہیں ہوگا۔ اس کے حصے بخرے کرنے کے نقشے بن چکے ہیں۔2006ء میں یہ نقشہ بن چکا تھا کہ پاکستان کے ٹکڑے کر دیے جائیں گے۔اس مخدوش صورتحال کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ سے وعدہ خلافی کی۔ اور اس میں اگر تبدیلی کا کوئی امکان ہے تو اس کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنی روش تبدیل کریں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔ اس پر ان شاء اللہ العزیز آئندہ نشست میں گفتگو ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے‘ اور ہم میں سے ہر شخص کو یہ توفیق دے کہ ہم کمر کس لیں اور طے کر لیں کہ{اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} ’’یقیناً میری نماز‘ میری قربانی ‘میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے‘‘۔ آمین!